کاغذی ڈالر کا شکنجہ اور قیدی ممالکساتواں حصہ

اقوام متحدہ نے 22 اکتوبر 1973 کو جنگ بندی کرادی تھی۔

k_goraya@yahoo.com

امریکا کے لیے کاغذی ڈالروں کی نکاسی کرنا ضروری تھا۔ اندرون خانہ امریکا عربوں کو استعمال کرنے کے پلان پر عمل کر رہا تھا اگست 1967 کو خرطوم میں عرب ملکوں کی کانفرنس کے موقع پر عربوں کی خاص تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

11-9 ستمبر 1968 کو کویت میں عربوں کی میٹنگ ہوئی، جون 1971 کو باقاعدہ سعودی عرب کے آئل منسٹر شیخ احمد ذکی یمنی نے Orgnaization of Arab Petroleum Exporting Countries بنوانے میں اہم کردار ادا کیا، 16 اکتوبر 1973 کو مصر اور شام نے مل کر اسرائیل پر حملہ کردیا۔ یہ جواز بتایا کہ جون 1967 کو اسرائیل نے جو عرب علاقے ہتھیا لیے تھے وہ خالی کر دے، یہ جنگ 6 روز تک رہی تھی۔

اقوام متحدہ نے 22 اکتوبر 1973 کو جنگ بندی کرادی تھی۔ یاد رہے کہ اس جنگ سے قبل اپریل 1973 کو سعودی عرب کے بادشاہ فیصل نے ایک وفد واشنگٹن بھیجا تھا جس کی قیادت آئل منسٹر شیخ ذکی یمنی کر رہا تھا، اس وفد میں ڈپٹی آئل منسٹر شہزادہ سعود الفیصل بھی تھا، وفد نے امریکا سے کہا کہ امریکا، اسرائیل کی حمایت سے باز آجائے ورنہ عرب ممالک پیٹرو ڈالر Petro Dollar کی سپلائی پر غور کرینگے۔

11 جولائی 1973 کو کرنل قذافی نے تمام غیر ملکی تیل کمپنیوں کے 100فیصد حصے حکومتی تحویل میں لے لیے،اگست 1973 کو سعودی عرب کے حکومتی اہلکاروں نے یورپی ملکوں کو خبردار کیا کہ امریکا اور یورپ اسرائیل کی مدد سے باز نہ آئے تو عربوں کا Petro Dollar کا سرمایہ عرب اسرائیل جنگ میں استعمال کیا جائے گا۔ سعودی عرب کا یورپی ملکوں اور امریکا کو وارننگ دینا اور پھر شام اور مصر کا چھ اکتوبر 1973 کو اسرائیل پر حملہ کرنا اور اقوام متحدہ کا چھ روز میں جنگ بندی کرا دینا اور پھر یورپی ملکوں سمیت امریکا کو تیل سپلائی میں بتدریج کمی کرنا یہ سب سوچی سمجھی پلاننگ تھی۔ یاد رہے کہ امریکا میں 1963 سے 1970 تک تیل کی پیداوار تمام عرب ملکوں سے زیادہ تھی۔امریکا عرب ملکوں کو یورپی ملکوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا۔ 1972 کو تیل کی قیمت 2.54 ڈالر فی بیرل تھی۔ 1974 کو تیل کی قیمت 11.651 ڈالر فی بیرل تھی۔

تیل کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ کتاب The Arab Oil Question by Marwan Is Kandar 1973۔ (2)۔ Arab Petro Politics 1984 by Abdul Aziz Al-Sowayegh کے صفحہ 47 اور دیگر کتابوں کے مطابق عرب ممالک کی تیل کی آمدنی 1967 سے 1976 کتنے فیصد ملین ڈالر اضافہ ہوتا گیا؟ ایران کی تیل کی آمدنی میں 2427 فیصد اضافہ ہوگیا۔ عراق کی آمدنی 2259 فیصد، کویت کی آمدنی میں 9251 فیصد، سعودی عرب کی آمدنی میں 3585 فیصد، قطر کی آمدنی 1880 فیصد، انڈونیشیا کی آمدنی میں 2332 فیصد، لیبیا کی آمدنی میں 1100 فیصد، ابوظہبی کی آمدنی میں 4320 فیصد، الجیریا کی آمدنی میں 1759 فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔


13 اوپیک ممالک کی آمدنی 1967 میں 5157.8 ملین ڈالر تھی اور 1976 میں 107884.8 ملین ڈالر تھی اور 1980 میں ان ہی ممالک کی آمدنی 264025.1 ملین ڈالر ہوچکی تھی۔ اس طرح امریکا نے ''مالیاتی نوسربازی'' کرکے یورپی ملکوں کو مجبور کردیا کہ وہ کاغذی ڈالر ہی استعمال کریں کیونکہ عربوں کا زیادہ تیل یورپی ملکوں کی ضرورت تھی یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ ''سرمائے کا کوئی دین مذہب نہیں ہوتا ہے۔ عرب ممالک کو آپ نے دیکھا کہ کس طرح امریکا نے انھیں استعمال کیا۔ سرمایہ صرف اور صرف سرمائے پر نفع حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جو شے سرمائے میں ذاتی ملکیت ہوتی ہے اس سرمائے کا تعلق عوام کی خوشحالی نہیں ہوتی بلکہ عوام کی بدحالی میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔

فلسطین کے لیے خودمختاری کے لیے ہر مسلمان اس کی آزادی 1947 سے قبل والی مانگتا ہے لیکن عربوں نے جنگ کے دوران اسی ایشو پر تیل کی قیمتیں بڑھائیں لیکن جب ان کے پاس ڈالروں کے انبار لگے تو سب عرب ممالک اسرائیل اور اس کے زیر قبضہ مسلم علاقوں کو بھول گئے۔ سب ڈالر سمیٹنے میں لگے رہے اور پھر عربوں کی اکثریت نے کسی بھی ملک نے کشمیری عوام کے حق کے لیے کبھی مظاہرہ کیا؟ ہمارے لیے مکہ، مدینہ مقدس ترین جگہ ہیں کبھی ان کے حاکموں نے کشمیر کے حل کے لیے تیل کی سپلائی یورپی ملکوں کو بند کی ہے؟ امریکا عرب ملکوں کو استعمال کرکے ''مالیاتی نوسربازی'' جیت گیا۔

کتاب IFS 1980 جسے IMF نے شایع کیا، کے صفحہ 38-39 پر فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر 1969 میں 33021.0 ملین، 1974 میں 126458.0 ملین ہوچکے تھے یعنی ہر سال ان میں اضافہ ہوتا گیا۔ کتاب IFS 1999 جسے IMF نے شایع کیا اس کے صفحہ 924-25 پر امریکی اعداد و شمار کے مطابق 1969 میں امریکا کے پاس گولڈ ریزرو 338.83 ملین اونس سونا تھا۔ اور گولڈ ریزرو ڈالر 11860.0 ملین ڈالر تھے (35 ڈالر فی اونس سونے کے حساب سے) اور 1974 میں گولڈ ریزرو 275.97 ملین اونس سونا تھا اور ڈالر ریزرو 11650.0 ملین ڈالر تھے۔ 1974 میں سونے کی قیمت 42.215 ڈالر فی اونس سونا ہوچکی تھی۔ 1969 میں امریکا کے گولڈ ڈالر ریزرو 11860.0 ملین ڈالر تھا۔ دوسرے ملکوں کے پاس 33021.0 ملین ڈالر تھے۔ امریکا 21161.0 ملین ڈالر سے ڈیفالٹر تھا اور 1974 میں 114808.0 ملین ڈالر سے ڈیفالٹ ہوچکا تھا۔

یورپی ملکوں نے دیکھا عرب اسرائیل وار کو امریکا نے کس طرح استعمال کرکے تیل مہنگا کروا کر کاغذی ڈالروں کی نکاسی کا بندوبست کرلیا تھا۔ اگر یورپی ممالک کاغذی ڈالروں کو جلا دیتے یا معیشت سے نکال دیتے تو نقصان یورپی ملکوں کو ہوتا کیونکہ انھوں نے ڈالر خریدے تھے۔ امریکا کی کوشش تھی کہ ڈالروں کے مقابلے میں جتنا سونا فی اونس مہنگا ہوگا اتنا ہی امریکا کو کاغذی ڈالروں کے بدلے کم سونا دے کر جان چھڑانی آسان ہوگی۔

کتاب IFS 1981 کے صفحہ 10-11 پر دیے گئے کرنسیوں کے ریٹ کے مطابق امریکا نے 1970 سے 1975 ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں زیادہ کردیں کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان، نیوزی لینڈ، آسٹریا،، ڈنمارک، فن لینڈ، جرمنی، لکسمبرگ، نیدرلینڈ، ناروے، اسپین، سوئیڈن، سوئٹزرلینڈ، ایران، عراق، کویت، لیبیا، نائیجیریا اومان، قطر، سعودی عرب، یو اے ای امارات، چین، دوسری طرف امریکا نے افریقی ممالک، ایشیائی ممالک کی کرنسیوں کی قیمتیں آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے کم کرنا شروع کردیں جیسے پاکستانی روپے کی قیمت مئی 1972 میں 4.762 روپے سے 11.031 روپے کا ڈالر کردیا۔ اس 132 فیصد کمی کا یہ نتیجہ نکلا کہ پاکستان میں لاگتیں بڑھنے سے صنعتی کلچر کا خاتمہ ہوتا گیا۔ (جاری ہے)
Load Next Story