لیاری سے لیاقت آباد تک
علاج تو دور کی بات وہ ایسی بیماری کو کسی خاص نام سے تلاش کرنے یا اسے مخصوص نام دینے سے بھی معذور نظر آتے ہیں
آپ کی نظروں سے ایسی خبریں کبھی نہ کبھی ضرور گزرتی ہونگی جس میں کوئی خاندان یا خاندان کے بیشتر افراد کسی منفرد یعنی ناقابل علاج پراسرار بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ پراسرار بیماری نہ صرف سننے میں بلکہ دیکھنے میں بھی عجیب ہوتی ہے ۔یہاں تک آج کی جدید میڈیکل سائنس یا کم از کم پاکستانی طبی ماہرین اپنی تمام تر تعلیم، مہارت اور مشینوں کے باوجود بیماری کی تشخیص کرنے اور اس کے علاج میں ناکام رہتے ہیں۔
علاج تو دور کی بات وہ ایسی بیماری کو کسی خاص نام سے تلاش کرنے یا اسے مخصوص نام دینے سے بھی معذور نظر آتے ہیں۔جہاں تک بلدیاتی اداروں اور ان کے تحت چلنے والے ذیلی اداروں کی ذمے داریوں کی بات ہے تو اس پر بات کرنا اور نہ کرنا برابر ہے۔ کراچی کے وہ علاقے جہاں اب تک اس طرح کی خبریں آچکی ہیں جہاں پورے کا پورا خاندان یا ایک خاندان کے زیادہ سے زیادہ افرادکسی مہلک ،گمنام اور پراسرار بیماری میں مبتلا ہیں، ان میں ابراہیم حیدری، لیاری، لیاقت آباد سرفہرست ہیں تاہم ایسی پراسرار بیماریاں مذکورہ علاقوں تک مخصوص نہیں ہیں بلکہ گاہے بگاہے پورے ملک کے ایسے پسماندہ خستہ حال گاں یا شہرسامنے آچکے ہیں جہاں بچے اور خاندان بھر کے افراد اپنی منفرد بیماریوں کے ہاتھوں سسکنے پر مجبور ہیں۔
یہ بیماریاں کیسے پیدا ہوتی ہیں؟ ہوسکتا ہے یہ سوال پڑھنے والوں کے ذہن میں اٹھتا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ دراصل گندگی میں سانس لینا، کھانا پینا اور حفظان صحت کے غیر مطابق طرز زندگی ایسی پراسرار جلدی اور اندرون جسم بیماریوں کا ذریعہ بنتے ہیں۔ویسے تو پراسرار بیماریوں کے حوالے سے کراچی کے چند علاقے قابل ذکر ہیں مگر حقیت یہ ہے کہ وہ دن دور نہیں ہیں جب کبھی نہ سنائی دینے والی جلدی اور جسمانی بیماریاں پورے شہر قائد کو اپنا مسکن بنالیں گی کیونکہ پورا شہر ہی گندگی، بدترین ٹریفک کے مسائل، عوام کی بے حسی اور غلط طرز زندگی پر ماتم کناں ہے۔
کراچی میں ضلع وسطی کے علاقے نیو کراچی ، صبا سینما چورنگی، صنعتی ایریا،گودھرا کالونی، نارتھ کراچی پاور ہاوس چورنگی، ڈسکو موڑ، خواجہ اجمیر نگری ، انڈہ موڑ، ناگن چورنگی، فورکے چورنگی، بابا موڑ، دومنٹ چورنگی،کریلا اسٹاپ ، نارتھ ناظم آباد شپ اونرکالج ، شارع نورجہاں ، نصرت بھٹو کالونی، عبداللہ کالج ،لنڈی کوتل چورنگی، ضیا الدین چورنگی ، موسیٰ کالونی، کریم آباد ، لیاقت آباد سندھی ہوٹل اوردونمبر طالب کالونی ، سپر مارکیٹ ، چونا ڈپو ، ناظم آباد ، رضویہ سوسائٹی ، گلبہار،گلبرگ فیڈرل بی ایریا ، ضلع جنوبی کے علاقے خصوصا اولڈ سٹی ایریاز جس میں گارڈن، کھارادر، رامسوامی ، رنچھوڑ لائن ، چونا بھٹی ، لائٹ ہاوس ، ڈینسو ہال، جوبلی ، مارواڑی لائن لیاری ، لیمارکیٹ ، جونا مارکیٹ ، برنس روڈ ، پاکستان چوک ،
ضلعی شرقی کے علاقے گلشن اقبال ڈسکو بیکری ، عزیز بھٹی ، ڈالمیا ، پی آئی بی کالونی ، پرانی سبزی منڈی ، ڈرگ روڈ مبینہ ٹاون اسکاوٹ کالونی ، گلزار ہجری ، ضلع غربی کے علاقے اورنگی ٹاون ، مومن آباد ، فقیر کالونی ، پیر آباد ، پاک کالونی ، سعید آباد ، گلشن غازی ، بلدیہ ٹاون ، مواچھ گوٹھ ، جنگل اسکول ، مشرف کالونی ، قائم خانی کالونی ، رانگڑ محلہ ، عابد آباد ، ڈسٹرکٹ کورنگی کے علاقے زمان ٹاون ، کورنگی کراسنگ ، لانڈھی ، شرافی گوٹھ ، چکرا گوٹھ ، عوامی کالونی ، لانڈھی خرم آباد ، زمان آباد جب کہ ڈسٹرکٹ ملیر کے علاقے میمن گوٹھ ، بن قاسم ٹاون ، شاہ لطیف ٹاون ، ملیر سٹی بکرا پیڑی ، سہراب گوٹھ نئی سبزی منڈی ، صفورا گوٹھ ، موسمیات چوک اوکھائی میمن اور ایئرپورٹ بھٹائی آباد سمیت دیگر علاقوں کی سڑکیں،گلیاں اور محلے نہ صرف صفائی سے محروم ہیں بلکہ جگہ جگہ کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر سے علاقہ مکینوں کو شدید تعفن میں اپنی زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کراچی کے اولڈ سٹی ایریا ز پر ایک طائرانہ اور غائرانہ نظر ڈال کر اس کی وجہ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
قابل ذکر اولڈسٹی ایریاز میں یہاں دو ناموں کی مثال دینا چاہونگاجہاں گندگی اپنے عروج پر موجود رہتی ہے ۔ان میں سب سے پہلے ہے لیاری ،جہاں کی گلی محلوں میں گھوم پھر کر اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے اوراس کے بعد لیاقت آباد جیسے علاقے میں چلت پھرت کریں بالخصوص لیاقت آباد دو نمبر،جھنڈا چوک سے لے کر طالب کالونی تک جہاں کی حالت زار کسی جنگ کے بعد کے منظرکی عکاسی کرتی ہے۔ لیاری اور لیاقت آباد دو علاقے جو اولڈ سٹی ایریازمیں سرفہرست ہیں اس کے باوجود دونوں ہی شہری انتظامیہ کی زبردست عدم توجہ کا شکار ہیں۔
پسماندگی کا شکار بنگالی کمیونٹی کے بارے میں سنتے آئے تھے کہ بنگالی پاڑے کے ایک ایک گھر سے درجنوں بچے یا افراد ملتے ہیں مگر اب یہ تاثر لیاقت آباد پر بھی صادق آتا ہے۔آبادی ہو کہ جیسے ابل رہی ہو۔یہی وجہ ہے کہ جتنی زیادہ آبادی ہوتی ہے اتنا ہی کچرا اور گند پیدا ہوتا ہے۔ لیاقت آباد میں گھروں سے نکلنے والے کچرے کے ڈھیر سے کچرا کنڈی نہ صرف بھری نظر آتی ہے بلکہ یومیہ بنیادوں پر اسے تلف نہ کرنے کے انتظامات نہ ہونے کے باعث یہ کچرا ملحقہ گھروں اور دکانوں تک جاپہنچا ہے۔
قریب کی دکانیں روز کھلتی ہیں اور یہاں کے بے حس دکاندار کھانے پینے کی اشیا سرعام بغیر کسی صفائی ستھرائی کے عوام کو فروخت کرتے نظر آتے ہیں خاص طور پر گوشت کی دکانیں جہاں صبح سویرے ذبح ہونیوالے جانوروں کے جسموں پر قریب کی گندگی سے آنیوالی کروڑوں مکھیاں چمٹی ہوتی ہیں اور بعد میں پورے دن کے دوران یہی گوشت لوگوں کو فروخت کیا جا رہا ہوتا ہے۔لیاقت آباد کی قدیم ترین گروسری ،سبزی و پھل گلی سے گزریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ کس بے حسی کے ساتھ کھانے پینے کی اشیا کے ذریعے عوام کو بدترین اور غلیظ ترین اشیا فروخت کی جارہی ہیں۔ساتھ ہی سپر مارکیٹ میں گوشت کی دکانیں ہیں جن سے نکلنے والا تعفن دماغ کو گلانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔یہاں رہنے والے گھروں کے مکین بتاتے ہیں کہ انھیں اڑنے والے ایسے کیڑوں کا سامنا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔کہنے والے اسے رج کا نام دیتے ہیں تاہم اس کے باوجود وہ اس کی نوعیت کے معاملے پر غیریقینی کا شکار ہیں۔ یہ کیڑا دیکھنے میں انتہائی باریک ذرے کی مانند ہوتا ہے تاہم پوری طاقت کے ساتھ رگڑنے کے باوجود یہ زندہ رہتا ہے۔
ان کیڑوں کاجھنڈ انسانی پیروں کو زیادہ نشانہ بناتا ہے۔ جہاں کاٹتے ہیں وہاں بے تحاشا خارش شروع ہوجاتی ہے جو ہفتوں تک فرد کو اذیت میں مبتلا رکھتی ہے۔اکثر افراد مسلسل اس خارش کا شکار رہنے کے بعد مہلک جلدی مرض میں مبتلا ہیں۔ دراصل یہی وجہ ہے کہ پسماندہ اور گندگی اور کچرے سے اٹی بستیوں اور علاقوں میں عجیب و غریب پراسرار بیماریاں جنم لیتی ہیںجس طرح اس غلیظ ترین گندگی سے عجیب و غریب حشرات دیکھنے میں آتے ہیں بالکل اسی طرح ان سے ایسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جن کی طب میں کوئی تشریح موجود نہیں ہوتی۔
کل تک یہ بیماریاں اور امراض دیہاتوں تک محدود تھے لیکن اب اس کا نشانہ شہر بن چکے ہیںاور اس کے ذمے دار ہم خود ہیں جو اپنے گھروں کا کچرا گلی محلوں میں لاپروائی سے پھینکتے ہیں۔ابلتے گٹروں اورکچرا کنڈی کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے اپنی آواز بلند نہیں کرتے بلکہ اندھے، بہرے اور گونگے بن کر آزمائے ہوں کو آزمانے کی قسم کھاتے رہتے ہیں۔ ہم بہ حیثیت ایک شہری اور سیاسی شعور کے معاملے میں انتہائی گندے اور غلیظ ہوچکے ہیں۔اتنے گندے کے ہماری حسیات باہرکی گندگی کا احساس کرنے سے قاصر ہے۔ ہم ہر بار عوامی نمایندگی کے لیے ان لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں جنھیں شہری نظامت سے نہ تو کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی انھیں صفائی ستھرائی کا احساس۔انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گندگی کے معاملے میں لیاری لیاقت آباد بنتا ہے یا لیاقت آباد لیاری۔
علاج تو دور کی بات وہ ایسی بیماری کو کسی خاص نام سے تلاش کرنے یا اسے مخصوص نام دینے سے بھی معذور نظر آتے ہیں۔جہاں تک بلدیاتی اداروں اور ان کے تحت چلنے والے ذیلی اداروں کی ذمے داریوں کی بات ہے تو اس پر بات کرنا اور نہ کرنا برابر ہے۔ کراچی کے وہ علاقے جہاں اب تک اس طرح کی خبریں آچکی ہیں جہاں پورے کا پورا خاندان یا ایک خاندان کے زیادہ سے زیادہ افرادکسی مہلک ،گمنام اور پراسرار بیماری میں مبتلا ہیں، ان میں ابراہیم حیدری، لیاری، لیاقت آباد سرفہرست ہیں تاہم ایسی پراسرار بیماریاں مذکورہ علاقوں تک مخصوص نہیں ہیں بلکہ گاہے بگاہے پورے ملک کے ایسے پسماندہ خستہ حال گاں یا شہرسامنے آچکے ہیں جہاں بچے اور خاندان بھر کے افراد اپنی منفرد بیماریوں کے ہاتھوں سسکنے پر مجبور ہیں۔
یہ بیماریاں کیسے پیدا ہوتی ہیں؟ ہوسکتا ہے یہ سوال پڑھنے والوں کے ذہن میں اٹھتا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ دراصل گندگی میں سانس لینا، کھانا پینا اور حفظان صحت کے غیر مطابق طرز زندگی ایسی پراسرار جلدی اور اندرون جسم بیماریوں کا ذریعہ بنتے ہیں۔ویسے تو پراسرار بیماریوں کے حوالے سے کراچی کے چند علاقے قابل ذکر ہیں مگر حقیت یہ ہے کہ وہ دن دور نہیں ہیں جب کبھی نہ سنائی دینے والی جلدی اور جسمانی بیماریاں پورے شہر قائد کو اپنا مسکن بنالیں گی کیونکہ پورا شہر ہی گندگی، بدترین ٹریفک کے مسائل، عوام کی بے حسی اور غلط طرز زندگی پر ماتم کناں ہے۔
کراچی میں ضلع وسطی کے علاقے نیو کراچی ، صبا سینما چورنگی، صنعتی ایریا،گودھرا کالونی، نارتھ کراچی پاور ہاوس چورنگی، ڈسکو موڑ، خواجہ اجمیر نگری ، انڈہ موڑ، ناگن چورنگی، فورکے چورنگی، بابا موڑ، دومنٹ چورنگی،کریلا اسٹاپ ، نارتھ ناظم آباد شپ اونرکالج ، شارع نورجہاں ، نصرت بھٹو کالونی، عبداللہ کالج ،لنڈی کوتل چورنگی، ضیا الدین چورنگی ، موسیٰ کالونی، کریم آباد ، لیاقت آباد سندھی ہوٹل اوردونمبر طالب کالونی ، سپر مارکیٹ ، چونا ڈپو ، ناظم آباد ، رضویہ سوسائٹی ، گلبہار،گلبرگ فیڈرل بی ایریا ، ضلع جنوبی کے علاقے خصوصا اولڈ سٹی ایریاز جس میں گارڈن، کھارادر، رامسوامی ، رنچھوڑ لائن ، چونا بھٹی ، لائٹ ہاوس ، ڈینسو ہال، جوبلی ، مارواڑی لائن لیاری ، لیمارکیٹ ، جونا مارکیٹ ، برنس روڈ ، پاکستان چوک ،
ضلعی شرقی کے علاقے گلشن اقبال ڈسکو بیکری ، عزیز بھٹی ، ڈالمیا ، پی آئی بی کالونی ، پرانی سبزی منڈی ، ڈرگ روڈ مبینہ ٹاون اسکاوٹ کالونی ، گلزار ہجری ، ضلع غربی کے علاقے اورنگی ٹاون ، مومن آباد ، فقیر کالونی ، پیر آباد ، پاک کالونی ، سعید آباد ، گلشن غازی ، بلدیہ ٹاون ، مواچھ گوٹھ ، جنگل اسکول ، مشرف کالونی ، قائم خانی کالونی ، رانگڑ محلہ ، عابد آباد ، ڈسٹرکٹ کورنگی کے علاقے زمان ٹاون ، کورنگی کراسنگ ، لانڈھی ، شرافی گوٹھ ، چکرا گوٹھ ، عوامی کالونی ، لانڈھی خرم آباد ، زمان آباد جب کہ ڈسٹرکٹ ملیر کے علاقے میمن گوٹھ ، بن قاسم ٹاون ، شاہ لطیف ٹاون ، ملیر سٹی بکرا پیڑی ، سہراب گوٹھ نئی سبزی منڈی ، صفورا گوٹھ ، موسمیات چوک اوکھائی میمن اور ایئرپورٹ بھٹائی آباد سمیت دیگر علاقوں کی سڑکیں،گلیاں اور محلے نہ صرف صفائی سے محروم ہیں بلکہ جگہ جگہ کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر سے علاقہ مکینوں کو شدید تعفن میں اپنی زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کراچی کے اولڈ سٹی ایریا ز پر ایک طائرانہ اور غائرانہ نظر ڈال کر اس کی وجہ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
قابل ذکر اولڈسٹی ایریاز میں یہاں دو ناموں کی مثال دینا چاہونگاجہاں گندگی اپنے عروج پر موجود رہتی ہے ۔ان میں سب سے پہلے ہے لیاری ،جہاں کی گلی محلوں میں گھوم پھر کر اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے اوراس کے بعد لیاقت آباد جیسے علاقے میں چلت پھرت کریں بالخصوص لیاقت آباد دو نمبر،جھنڈا چوک سے لے کر طالب کالونی تک جہاں کی حالت زار کسی جنگ کے بعد کے منظرکی عکاسی کرتی ہے۔ لیاری اور لیاقت آباد دو علاقے جو اولڈ سٹی ایریازمیں سرفہرست ہیں اس کے باوجود دونوں ہی شہری انتظامیہ کی زبردست عدم توجہ کا شکار ہیں۔
پسماندگی کا شکار بنگالی کمیونٹی کے بارے میں سنتے آئے تھے کہ بنگالی پاڑے کے ایک ایک گھر سے درجنوں بچے یا افراد ملتے ہیں مگر اب یہ تاثر لیاقت آباد پر بھی صادق آتا ہے۔آبادی ہو کہ جیسے ابل رہی ہو۔یہی وجہ ہے کہ جتنی زیادہ آبادی ہوتی ہے اتنا ہی کچرا اور گند پیدا ہوتا ہے۔ لیاقت آباد میں گھروں سے نکلنے والے کچرے کے ڈھیر سے کچرا کنڈی نہ صرف بھری نظر آتی ہے بلکہ یومیہ بنیادوں پر اسے تلف نہ کرنے کے انتظامات نہ ہونے کے باعث یہ کچرا ملحقہ گھروں اور دکانوں تک جاپہنچا ہے۔
قریب کی دکانیں روز کھلتی ہیں اور یہاں کے بے حس دکاندار کھانے پینے کی اشیا سرعام بغیر کسی صفائی ستھرائی کے عوام کو فروخت کرتے نظر آتے ہیں خاص طور پر گوشت کی دکانیں جہاں صبح سویرے ذبح ہونیوالے جانوروں کے جسموں پر قریب کی گندگی سے آنیوالی کروڑوں مکھیاں چمٹی ہوتی ہیں اور بعد میں پورے دن کے دوران یہی گوشت لوگوں کو فروخت کیا جا رہا ہوتا ہے۔لیاقت آباد کی قدیم ترین گروسری ،سبزی و پھل گلی سے گزریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ کس بے حسی کے ساتھ کھانے پینے کی اشیا کے ذریعے عوام کو بدترین اور غلیظ ترین اشیا فروخت کی جارہی ہیں۔ساتھ ہی سپر مارکیٹ میں گوشت کی دکانیں ہیں جن سے نکلنے والا تعفن دماغ کو گلانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔یہاں رہنے والے گھروں کے مکین بتاتے ہیں کہ انھیں اڑنے والے ایسے کیڑوں کا سامنا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔کہنے والے اسے رج کا نام دیتے ہیں تاہم اس کے باوجود وہ اس کی نوعیت کے معاملے پر غیریقینی کا شکار ہیں۔ یہ کیڑا دیکھنے میں انتہائی باریک ذرے کی مانند ہوتا ہے تاہم پوری طاقت کے ساتھ رگڑنے کے باوجود یہ زندہ رہتا ہے۔
ان کیڑوں کاجھنڈ انسانی پیروں کو زیادہ نشانہ بناتا ہے۔ جہاں کاٹتے ہیں وہاں بے تحاشا خارش شروع ہوجاتی ہے جو ہفتوں تک فرد کو اذیت میں مبتلا رکھتی ہے۔اکثر افراد مسلسل اس خارش کا شکار رہنے کے بعد مہلک جلدی مرض میں مبتلا ہیں۔ دراصل یہی وجہ ہے کہ پسماندہ اور گندگی اور کچرے سے اٹی بستیوں اور علاقوں میں عجیب و غریب پراسرار بیماریاں جنم لیتی ہیںجس طرح اس غلیظ ترین گندگی سے عجیب و غریب حشرات دیکھنے میں آتے ہیں بالکل اسی طرح ان سے ایسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جن کی طب میں کوئی تشریح موجود نہیں ہوتی۔
کل تک یہ بیماریاں اور امراض دیہاتوں تک محدود تھے لیکن اب اس کا نشانہ شہر بن چکے ہیںاور اس کے ذمے دار ہم خود ہیں جو اپنے گھروں کا کچرا گلی محلوں میں لاپروائی سے پھینکتے ہیں۔ابلتے گٹروں اورکچرا کنڈی کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے اپنی آواز بلند نہیں کرتے بلکہ اندھے، بہرے اور گونگے بن کر آزمائے ہوں کو آزمانے کی قسم کھاتے رہتے ہیں۔ ہم بہ حیثیت ایک شہری اور سیاسی شعور کے معاملے میں انتہائی گندے اور غلیظ ہوچکے ہیں۔اتنے گندے کے ہماری حسیات باہرکی گندگی کا احساس کرنے سے قاصر ہے۔ ہم ہر بار عوامی نمایندگی کے لیے ان لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں جنھیں شہری نظامت سے نہ تو کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی انھیں صفائی ستھرائی کا احساس۔انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گندگی کے معاملے میں لیاری لیاقت آباد بنتا ہے یا لیاقت آباد لیاری۔