نواز شریف کے خطاب نے معاملات کو مزید الجھا دیا
وزیر اعظم کی تقریر اور اپوزیشن کے بائیکاٹ سے معاملات بند گلی کی جانب دھکیلے گئے
لاہور:
وزیر اعظم نواز شریف کے قومی اسمبلی میں''تاریخی '' خطاب نے معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیا ہے، اپنے 35 منٹ کے طویل خطاب میں انھوںنے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے اس دہکتے الاؤکو ٹھنڈ ا کیاجاسکتا جو حکومت کے نادان دوستوں، جی حضوریوں ، وزرائے بے تدبیر اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے بقراطوں کے درمیان غیر سنجیدہ رویوں اور بودے بیانات کی وجہ سے ان دنوں پیدا ہوچکاہے۔
وزیر اعظم کی بدن بولی (باڈی لینگویج) اس حقیقت کی چغلی کھارہی تھی کہ وہ ذہنی طورپر شدید دباؤکا شکار ہیں ، ان کے الفاظ ان کی جسمانی کیفیت کا ساتھ نہیں دے رہے تھے حتیٰ کہ زبان بھی دل کی ترجمانی کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی تھی، وہ متعدد مرتبہ اپنی لکھی ( یا لکھوائی ) ہوئی تقریر کے بعض جملوں کو غیرضروری طورپر دہراتے رہے ۔
انھوں نے اپنی تقریر میں اپوزیشن کے کسی الزام کا جواب نہیں دیا بلکہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ان جائیدادوں اور نیک کمائی کا ذکرکرتے رہے جوان کے والد محترم نے اپنی محنت شاقہ کے نتیجے میں حاصل کی تھی اور جس کی وجہ سے ان کا خاندان اس دور میں اربوں روپے مالیت کی جائیدادوں کا مالک ہوگیا تھا جب ڈالر 5 روپے کاہوا کرتا تھا، وزیر اعظم کی تقریرکے جواب میں اپوزیشن نے قبل ازیں اپنے اجلاس میں جومشترکہ حکمت عملی تیار کی تھی اس کے عین مطابق رویہ اختیار کیا، بظاہر یہ طے کرلیاگیاتھا کہ اگر وزیر اعظم نے اپوزیشن کے 7 سوالوں کے جوابات نہ دیے ( اور یہ گمان غالب تھا کہ نہیں دے سکیں گے ) تو وہ احتجاجاً ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کردیں گے اور ایسا ہی ہوا یعنی اپوزیشن نے بھی اپنے تیار کردہ ''اسکرپٹ ''کے مطابق ہی عمل کیا، وزیر اعظم کی تقریر اور اپوزیشن کے بائیکاٹ سے پیدا ہونے والی نئی صورت حال نے معاملات کو بند گلی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت ، اس کے وزراء اور مشیران خاص نے طے کرلیا ہے کہ وہ ملکی معاملات میں کوئی کمزوری یا لچک دکھانے کے بجائے ''حالات'' کا ''مردانہ وار '' مقابلہ کریں گے ۔
وزیر اعظم نواز شریف کے قومی اسمبلی میں''تاریخی '' خطاب نے معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیا ہے، اپنے 35 منٹ کے طویل خطاب میں انھوںنے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے اس دہکتے الاؤکو ٹھنڈ ا کیاجاسکتا جو حکومت کے نادان دوستوں، جی حضوریوں ، وزرائے بے تدبیر اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے بقراطوں کے درمیان غیر سنجیدہ رویوں اور بودے بیانات کی وجہ سے ان دنوں پیدا ہوچکاہے۔
وزیر اعظم کی بدن بولی (باڈی لینگویج) اس حقیقت کی چغلی کھارہی تھی کہ وہ ذہنی طورپر شدید دباؤکا شکار ہیں ، ان کے الفاظ ان کی جسمانی کیفیت کا ساتھ نہیں دے رہے تھے حتیٰ کہ زبان بھی دل کی ترجمانی کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی تھی، وہ متعدد مرتبہ اپنی لکھی ( یا لکھوائی ) ہوئی تقریر کے بعض جملوں کو غیرضروری طورپر دہراتے رہے ۔
انھوں نے اپنی تقریر میں اپوزیشن کے کسی الزام کا جواب نہیں دیا بلکہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ان جائیدادوں اور نیک کمائی کا ذکرکرتے رہے جوان کے والد محترم نے اپنی محنت شاقہ کے نتیجے میں حاصل کی تھی اور جس کی وجہ سے ان کا خاندان اس دور میں اربوں روپے مالیت کی جائیدادوں کا مالک ہوگیا تھا جب ڈالر 5 روپے کاہوا کرتا تھا، وزیر اعظم کی تقریرکے جواب میں اپوزیشن نے قبل ازیں اپنے اجلاس میں جومشترکہ حکمت عملی تیار کی تھی اس کے عین مطابق رویہ اختیار کیا، بظاہر یہ طے کرلیاگیاتھا کہ اگر وزیر اعظم نے اپوزیشن کے 7 سوالوں کے جوابات نہ دیے ( اور یہ گمان غالب تھا کہ نہیں دے سکیں گے ) تو وہ احتجاجاً ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کردیں گے اور ایسا ہی ہوا یعنی اپوزیشن نے بھی اپنے تیار کردہ ''اسکرپٹ ''کے مطابق ہی عمل کیا، وزیر اعظم کی تقریر اور اپوزیشن کے بائیکاٹ سے پیدا ہونے والی نئی صورت حال نے معاملات کو بند گلی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت ، اس کے وزراء اور مشیران خاص نے طے کرلیا ہے کہ وہ ملکی معاملات میں کوئی کمزوری یا لچک دکھانے کے بجائے ''حالات'' کا ''مردانہ وار '' مقابلہ کریں گے ۔