لی کو آن کا سنگاپور

مُلک پَیسوں سے نہیں بنتے قوموں کی تشکیل اور ملکوں کی تعمیر تیل اور سونے سے نہیں ہوتی


[email protected]

ISLAMABAD: مُلک پَیسوں سے نہیں بنتے قوموں کی تشکیل اور ملکوں کی تعمیر تیل اور سونے سے نہیں ہوتی اس کے لیے اعلیٰ پائے کا لیڈر درکار ہوتا ہے ۔ بے داغ کردار کا مالک۔ مالی اور اخلاقی برائیوں سے پاک، جرأتمند فیصلے کرنے کی صلاحیّت رکھنے والا، مضبوط ارادے کا مالک اور قربانی دینے کے لیے ہردم تیار۔ وہ نہیں جو حرص و ہوس میں گرفتار ہو۔ وہ نہیں جو صرف ذاتی مفاد کا غلام ہو۔

اس پورے برّاعظم جس میں ہم رہتے ہیں۔ ایشیا اور ایشیا پیسیفک کے خطّے میں کئی Success Storiesہیں مگر سب سے حیرت انگیز Storyسنگاپور کی ہے ۔ یہ سوچ کر اور یہ دیکھ کرکہ کس طرح ایک چھوٹا سا جزیرہ ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سے بستی صرف دو دہائیوں میں ایک جدید ترین ترقی یافتہ ملک میں تبدیل ہوگئی، انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

آج خوشحال نظر آنے والے بہت سے ملکوں کو تیل اور سونے کے خزانے میسّرتھے، چین کے پاس افرادی قوّت کا بہت بڑا سرمایہ تھا۔ مگر سنگاپور کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹر Tanنے اپنے لیکچر میں درست کہا کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا سوائے ہوا ، سمندر کے پانی اور سورج کی روشنی کے۔ دوسری جنگِ عظیم میں ہم پر جاپان نے قبضہ کرلیا۔ 1945میں جنگ کے خاتمے پر ہم برٹش کالونی بن گئے۔ پھر 1958میں ہم ملائیشیا کا حصہ بنے اور 1965 میں ہمیں علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا گیا۔

1965 ۔ جب پاکستان کی سرپٹ دوڑتی معیشت کوریا کے لیے رول ماڈل اور جاپان کے لیے قابلِ رشک تھی، اس سال آزاد ہونے والے سنگاپور کے پاس ہوا پانی اور دھوپ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ ان کے پاس ایک ہی سرمایہ تھا اور وہ تھا اُن کا قائد۔اس کا وژن ، اس کا عزمِ صمیم، اس کا بے داغ کردار، اس کا خلوص اور اپنے سنگاپور کے لیے اس کا عشق۔ اور اسی سرمائے کے بل پر وہ میدان میں اترا اور دو دہائیوں میں دنیا کو ایک معجزہ دکھادیا، اس نے پچیس سالوں میں جنگل اور دلدل کو ایک جدید ترین ملک میں بدل دیا۔

1990 میں بہت سے دوستوں کو یہ کہتے سنا کہ' دنیا میں اگر کوئی جنّت نظیر خطہ ہے تو وہ سنگاپور ہے'۔ پھر اس کی صفائی اور ڈسپلن کی حیران کن داستانیں سنیں، وہاں قانون کی حکمرانی کے واقعات سنے تواپنے قرونِ اولیٰ کی تاریخ یاد آنے لگی۔ 1999 میں راقم کو پہلی بار پی آئی اے کی سیکیورٹی ڈویژن کے سربراہ کی حیثیّت سے ایک کانفرنس میں سنگاپور جانے کا موقع ملاتو جیسے سنا تھا ویسے ہی پایا۔ بہت سے مقامی باشندوں سے ان کی تیزرفتار ترقّی کا راز پوچھا۔کئی لوگوں سے پوچھا کہ' آپ نے قانون کی حکمرانی کا اتنا اعلیٰ معیارکیسے قائم کرلیا؟'۔کئی دانشوروں سے مالی ڈسپلن اور سرکاری شعبوں میں دیانتداری کی اعلیٰ سطح کی وجہ پوچھتا رہا۔ سوال مختلف تھے مگر سب کی طرف سے جواب ایک ہی ملا۔لی کوآن ژیو۔ جدید سنگاپور کا بانی اور معماراوراس کا وژن اور عزم صِمیم۔

لی کوآن ژیو کے کردار اور معیار نے ہمیشہ بہت Inspireکیا ہے اور اسکاسنگاپور دیکھنا ایک پر مسّرت تجربہ ہے۔ سولہ ملکوں پر مشتمل قائم ادارے کولمبو پلان اسٹاف کالج (CPSC)کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹرجی کلنتھیول کی طرف سے سنگاپور میں ہونے والی TVET Confrenceمیں شمولیت کا دعوت نامہ موصول ہوا تو میں نے فوراً ہاں کردی، سولہ ممالک کے نمائیندوں نے فنّی ہنرمندی میں سنگاپور ماڈل کا مطالعہ کرنے کے لیے اس پروگرام میں شامل ہونا تھا۔ پاکستان کی نمائیندگی کے لیے میرے ساتھ زبیر ہاشمی (جو پولیس کے ایک نیک نام ڈی آئی جی ہیں اور اب ڈیپوٹیشن پر نیوٹیک میں ڈی جی ایڈمن اور فنانس کے طور پر تعینات ہیں) بھی تھے۔

ہمیں علی الصبح تین بجے کی پرواز سے دبئی پہنچنا تھا اور وہاں سے ایک دوسری پرواز کے ذریعے سنگاپور کی جانب روانہ ہونا تھا۔۔ 1999 میں جب میں پہلی بار سنگاپورگیا تو وہاں پی آئی اے کی پرواز جاتی تھی مگر اب قومی ایئر لائن کی پروازیں سکڑ کر رہ گئی ہیں اور بدیسی ایئر لائنز کے ذریعے سفرکرنا پڑتا ہے جس سے دکھ اور کرب بڑھ جاتا ہے ۔ جہاز میں ہمارے ساتھ برابر کی سیٹ پر فیصل آباد کے ایک شیخ صاحب بیٹھے تھے جو کاروبار کے سلسلے میں پہلی بار دبئی جارہے تھے، ہم نے وقت گزاری کے لیے ان سے گپ شپ شروع کی مگر وہ ہماری جانب صرف اُسی وقت متوجہ ہوتے جب ایمریٹس ائرلائنز کی نوجوان اور خوش شکل ائرہوسٹسیں ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتیں۔

ایک بار ان کا روئے مبارک ہماری جانب ہوا مگر پھر ایک خوبرو ہوسٹس ان کی نظروں کی رینج میں آگئی۔ بس پھر کیا تھا انھوں نے اس پر ایسے نظریں گاڑیں جیسے ٹینٹ کے کِلیّ گاڑے جاتے ہیں۔ زبیر نے انھیں اچھی طرح ہلاکر متوجہ کیا اور کہا" شیخ صاحب آپ کے نظروں کے تیر اس بیچاری کو تو گھائل کر چکے ہیں، اب چند منٹ ہمیں بھی عنایت کریں"۔ جھینپ کر کہنے لگے میں تو اِسکی پینٹ کاکپڑادیکھ رہا تھا۔

میں نے کہا آدھے گھنٹے سے دیکھ رہے ہیں یقیناً دھاگہ فیصل آباد کا ہی نکلا ہوگا۔کہنے لگے واقعی بڑے کمال کا دھاگہ ہے کبھی ٹوٹتا ہی نہیں۔ زبیر نے کہا "جس طرح آپ ایکسرے کررہے تھے دھاگوں کا بچنا مشکل تھا" شیخ صاحب ہنسنے لگے۔ ہم نے پوچھا پانامہ لیکس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہنے لگے"پچھلی بارشوں کی وجہ سے فیکٹری کی چھت دو جگہ سے لیک کرہی ہے اسی کی مرمت میں ہی لگے ہوئے ہیں"۔ شیخ جی کی باتیں سنتے پتہ ہی نہ چلا اور دبئی آگیا۔ لاؤنج میں چند گھنٹے انتظار کے بعد ہم سنگاپور روانہ ہوگئے۔

یہ کانفرس CPSC اور سنگاپور کی وزارتِ خارجہ کے اشتراک سے منعقد ہورہی تھی، اس لیے سنگاپور ائیرپورٹ پرہمیں ریسیو کرنے کے لیے انتہائی ہنس مکھ مسٹر مہندر سنگھ موجود تھے جو سنگاپور کی وزارتِ خارجہ سے ریٹائر ہوکر وہیں ایڈوائزر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ انھوں نے ہمیں ٹیکسی میں بٹھایا اور ایک اور رفیقِ کار کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ہمیں ہوٹل پہنچا دے اور ساتھ ہی صبح کا پروگرام بھی بتادیا کہ ہوٹل کی لابی میں صبح ساڑھے آٹھ بجے جمع ہونا ہے تمام شرکاء کوایک ہی بس میں لے جایا جائیگا۔

تحریری پروگرام کے ذریعے معلوم ہوگیا تھا کہ کانفرنس Institute of Technical Education (ITE) کی اکیڈیمی میں ہوگی۔ ہم چند مہینوں میںپاکستان میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے بیسیوں انسٹیٹیوٹ دیکھ چکے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ اسی نوعیت کا یا اس سے ذرا بہتر کالج لیول کا کوئی ادارہ ہوگا۔ افتتاحی تقریب کے بعد ایک دو ابتدائی لیکچر ز ہوئے اور اس کے بعد ITEکا راؤنڈ لگوایاگیا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ادارے کا انفرااسٹرکچر، کلاس رومز ، لیبز، ورکشاپس اور دیگر تربیّتی سہولیات دیکھیں تو ہم بے اختیار پکار اٹھے کہ ہم پاکستان میں جسطرح کے Center of Excellenceکا خواب دیکھ رہے ہیں وہ ITEہی کی طرز کا ادارہ ہونا چاہیے۔ (باقی آئیندہ)

نوٹ:پاکستان سے محبت اور ریاست کے باغیوں کے خلاف پاکستانی فورسز کی مدد کی پاداش میں مطیع الرحمان نظامی جیسے پاکیزہ کردار بزرگ کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ ڈاکوؤں اور قاتلوں کو پھانسی دینے کے مخالف یورپی ممالک بنگلہ دیش کی خونخوار قاتل حسینہ کو کیوں نہ روک سکے؟ امریکا اور انسانی حقوق کا نام بیچنے والے ادارے شیخ مجیب کی خونخوار بیٹی اور اس کے سرپرست مودی کو اس ظلم سے کیوں بازنہ رکھ سکے؟۔ کہاں ہیں دنیا بھر کی NGOs۔ اقوامِ متحدّہ کیوں خاموش ہے؟۔ 1970میں مطیع الرحمان نظامی شہید نے وہی کیا جو کسی بھی ملک کے ذمّے دار شہری کو کرنا چاہیے تھا۔

جس پاکستان کی خاطر اُس دوریش صفت انسان نے موت قبول کرلی اس پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کیوں خاموش ہے؟ کیا مسلم لیگ ، جماعتِ اسلامی اور پاکستان کی دوسری سیاسی پارٹیوںکی کوئی ذمّے داری نہیں ہے ؟۔ کسی کی آواز سنائی نہیںدی، مگر وہ تواپنے اپنے سیاسی مفاد کے کھیل میں مصروف ہیں۔

ہاں، دنیا بھر میںایک ہی آواز کی گونج سنائی دی ہے اور وہ عالمِ اسلام کے سب سے قد آور اور جرأتمند لیڈر طیب اردوان کی گرج۔ جنہوں نے ایک طرف یورپ کو اس کی منافقت اور دہرے معیار پر لتاڑاہے کہ دنیا بھر میں پھانسیوں کی مخالفت کرنے والو! بنگلہ دیش میں ایک سیاسی لیڈر کی پھانسی پر کیوںخاموش ہو؟ اور دوسری طرف انھوں نے مسلم دنیا کی کمزور لیڈر شپ کی مذمّت کرتے ہوئے کہا ہے کہ "آج بنگلہ دیش میں حضرت محمدﷺ کے ایک غلام کو شہید کردیا گیا ہے مگر اس مردِ درویش کی شہادت پر مسلم دنیا کے لیڈروں کی خاموشی قابلِ مذمّت ہے۔ ہم نے بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ ہم سے جو بن پڑا وہ کیا ہے"۔ پاکستان کا سفیر اگر پاکستان سے محبت کرنے والے کو پھانسی سے نہیںبچا سکتا تو وہاں کس لیے بیٹھا ہے اسے بھی واپس بلا لینا چاہیے ۔

شہیدِ پاکستان مطیع الرحمن نظامی کا کہنا تھا کہ "میرا جرم یہ ہے کہ میں نے حملہ آور بھارتی افواج اور باغی مکتی باہنی کے مقابلے میں اﷲ اور محمدﷺ کے نام پر قائم ہونے والے اپنے پیارے پاکستان کا ساتھ دیا"۔ مطیع الر حمن شہید نے محمد مصطفیٰ ؐ کی غلامی میں موت قبول کی ہے یقیناً خالقِ کائنات کی کروڑوں رحمتیں شہید کی پاکیزہ روح پر نازل ہوںگی، اﷲ اور رسولؐ کے راستے پر ثابت قدم رہنے والے مطیع الرحمن شہید کا استقبال جنّت الفردوس میں خودرسول ِ کریم ﷺ کریں گے اور اپنی محبت اور اطاعت کا حق ادا کردینے والے اپنے غلام کو گلے لگالیں گے۔

پس ِتحریر: بہاول نگرکا سابق ڈی پی او شارق کمال ایک شریف اور کسی سے زیادتی نہ کرنے والا پولیس افسر ہے وہاں ممنوعہ مشروب کے عادی ایک ایم این اے (جو کئی بار حکومت کی بدنامی کا باعث بن چکا ہے ) کے کہنے پر اس کا تبادلہ نامناسب اور بلا جواز ہے، ایم این اے کا موقف غلط تھا اسی لیے وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے اس کا مطالبہ نہ مانا۔ وزیرِ اعظم صاحب سے گزارش ہے کہ انھیں اپنا وزن ایک ایم این اے کے بجائے قانون کی حکمرانی کے پلڑے میں ڈالنا چاہیے۔ شارق کو وہاں نہ سہی کسی اور ضلعے میں ڈی پی او لگادیا جائے۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے قانون کی حکمرانی شرطِ اوّل ہے اور قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ باکرداراور باضمیر افسروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں