یہ سوال و جواب کیا کہنے

بے رحم تاریخ ہما شما کو تو معاف کر سکتی ہے مگر حکمرانوں کو ہر گز معاف نہیں کرتی انھیں خود بھی یاد کرتی ہے


Abdul Qadir Hassan May 18, 2016
[email protected]

لاہور: بے رحم تاریخ ہما شما کو تو معاف کر سکتی ہے مگر حکمرانوں کو ہر گز معاف نہیں کرتی انھیں خود بھی یاد کرتی ہے اور عام لوگوں کو بھی یاد دلاتی ہے کہ اپنے حکمرانوں کی حماقتوں کو مت بھولیں۔ جب سے خبر ملی ہے کہ محترم وزیراعظم میاں نواز شریف اپوزیشن کے سات سوالوں کے جواب دیں گے اور ان سوالوں کا جواب تیار کرنے کے لیے حکومت نے کئی اہم اجلاس کیے اور اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے کافی دیر تک صلاح و مشورہ کیا تا کہ اپوزیشن کو منہ توڑ جواب دیا جائے اور قومی اسمبلی میں ہونے والی اس کارروائی کو عوام قبول کر لیں بلکہ اس حد تک اس کارروائی کو قبول کر لیں کہ آنے والے الیکشن تک یاد رکھیں جو ممکن نہیں۔ رات گئی بات گئی والا پرانا معاملہ ہے بہر کیف ان سوال و جواب سے ایک ایسا ہی تاریخی واقعہ یاد آ گیا جو پاکستان کے پہلے پر رونق بادشاہ جنرل ایوب خان کے حوالے سے یاد ہے۔

ایوب خان جو فوج کے فیلڈ مارشل تھے اپنے بعض قریبی دانشوروں کے لیے بادشاہ تھے۔ ایوب خان کے حلقہ بگوش لوگوں میں اپنے وقت کے چند مشہور دانش ور بھی تھے جیسے اشفاق احمد صاحب قدرت اللہ شہاب صاحب الطاف گوہر صاحب اور کئی دوسرے۔ ان میں کچھ لوگ ایوب خان کو صدر نہیں بادشاہ کہا کرتے تھے۔ میں ان دنوں ایوب خان کے مقبوضہ نیشنل پریس ٹرسٹ کے مشہور ہفت روزہ لیل و نہار میں کام کرتا تھا جس کے بانی ایڈیٹر فیض صاحب تھے جو بعد میں ظاہر ہے کہ مستعفی ہو گئے۔

ان کی جگہ مرحوم اشفاق صاحب کو لیل و نہار کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ میری ان سے پرانی نیاز مندی تھی انھوں نے ایڈیٹری کا چارج سنبھالتے ہی مجھ سے کہا کہ اگر تم نے استعفی دیا تو میں تمہیں جوتوں سے ماروں گا۔ انھی دنوں کا ایک مشہور واقعہ یاد آ رہا ہے۔ صدر ایوب خان نے جناب میاں نواز شریف کی طرح سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا اس انوکھے سلسلے پر ایک شاعر نے کہا کہ

صدر عالی جناب کیا کہنے
یہ سوال و جواب کیا کہنے
کیا سکھایا ہے کیا پڑھایا ہے
قدرت اللہ شہاب کیا کہنے

شہاب صاحب ایوب خان کے قریبی دانشوروں میں شامل تھے۔ اگر کسی شاعر نے یہ قطعہ کہہ کر سوال و جواب کے اس واقعے کو زندہ جاوید نہ کر دیا ہوتا تو مجھے آج یہ یاد بھی نہ آتا۔ یہ شاعر غالباً جالب تھا جس نے ایک تاریخی شاعری کر دی اور ہمارے جیسے لوگوں کے لیے ایک موضوع زندہ کر دیا جس پر ہم آج برسوں بعد بھی لکھ کر دہاڑی لگا رہے ہیں۔ زمانہ بہت بدل گیا ہے اور شاعر بھی وقت کے آلام کے شکار ہو گئے ہیں۔

مجھے شبہ تھا کہ میاں صاحب کے ان سوال و جواب پر کوئی شاعر طبع آزمائی نہیں کرے گا اس لیے میں نے نہ صرف ایک پرانی رباعی نقل کر دی بلکہ شاعروں کو ایک موضوع بھی یاد دلا دیا۔ ممکن ہے کوئی آبلہ پا پھر اس راہ سے گزر کر کسی صاحب منصب کو یاد کر سکے اپنے شاعرانہ انداز میں اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھ رہا ہوں جس میں میاں صاحب تشریف لا چکے ہیں اور اپوزیشن بھی کمربستہ موجود ہے اور کچھ موجود ہونے والی ہے۔ قومی اسمبلی پوری قوم کے منتخب نمایندوں کی بیٹھک ہے اس ڈیرے کو مسلسل آباد رہنا چاہیے اگر یہ آباد نہیں ہے تو گویا ملک بھی آباد نہیں ہے۔

وزیراعظم نے پوچھے گئے سوالات کے جواب دیے اور بتایا کہ ان کے بیٹے تو مدت سے ملک سے باہر ہیں۔ جناب وزیراعظم کے ورثاء میں ایک ہم اعوانوں کی بہو بھی ہے اس لیے میاں صاحب کی اپوزیشن کو شائستگی کے ساتھ گفتگو کرنی ہو گی۔ ہم فقیر اور درویش صفت لوگ میاں صاحب کی اربوں کی دولت کے طلب گار ہر گز نہیں ہیں اللہ تعالیٰ سب کچھ انھیں نصیب کرے۔ ہم میاں صاحب کا احترام کرتے ہیں اور ان کا احترام ہمارا فرض ہے۔ رشتے آسمانوں میں بنتے ہیں کسی کا ان پر اختیار نہیں لیکن ان رشتوں کو نبھانا ہماری ذمے داری ہے۔

بات ایوب خان کے حلقہ بگوش دانشوروں سے شروع ہوئی تھی جو نئے رشتوں کی طرف نکل گئی اور اب سب اس مال دولت کا موضوع ہے جس نے ملک بھر کو ایک مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ خوشحالی اور دولت مندی کے فرق پر میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں ہمارے ہاں کسی کی خوشحالی کو بھی پسند نہیں کیا جاتا اور جو کوئی دو وقت کی باعزت روٹی کھا رہا ہے اسے ہم شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں کیونکہ اسے دولت مند سمجھا جاتا ہے اور دولت مندی آج کے پاکستان میں ایک الزام بن گئی ہے۔ جائز طریقے سے حاصل کی گئی خوشحالی اسلام کا ایک پسندیدہ عمل ہے کیونکہ مشہور حدیث ہے کہ غربت انسان کو کفر کے قریب لے جاتی ہے۔ اللہ ہم پاکستانیوں کی سوچ میں توازن پیدا کرے اور ہم کفر سے دور رہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں