بادشاہ رعایا اور وزیر اعظم کا خطاب
اعمال گھر گھر کی تلاشی لیتے۔ جس گھر میں تھوڑا سا بھی فالتو اناج نظر آتا
پرانے وقتوں کی بات ہے ، ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا جو نہایت ظالم تھا۔ رعایا کسان پیشہ تھی۔کھیتی باڑی اور مویشی پال کر گزارہ کرتی تھی۔ بادشاہ نے رعایا پہ بے حد لگان اور محصولات لگا رکھے تھے۔ جنھیں وصول کرنے کے لیے ظالم اور سفاک اعمال مقرر تھے۔
اعمال گھر گھر کی تلاشی لیتے۔ جس گھر میں تھوڑا سا بھی فالتو اناج نظر آتا، اسے بحق سرکارضبط کر لیتے۔کبھی کبھار تو اگلی فصل آنے تک گذر اوقات کے لیے جوغلہ کسان ذخیرہ کر لیتے، اعمال وہ بھی اٹھا لے جاتے ۔ نوبت یہاں تک آجاتی کہ لوگ بھوکوں مرنے لگتے یا مانگ تانگ کر گزارہ کرنے پہ مجبور ہوجاتے۔ اس کے علاوہ کسانوں کے تندرست اور قیمتی جانور جو کسانوں نے اس اُمید سے پالے پوسے ہوتے کہ بیچ کر اپنا مشکل وقت کاٹ لیں گے۔ بادشاہ کے اعمال ان قیمتی جانوروں پہ بھی قبضہ جمالیتے۔ بس چلتا تو کسانوں کی جوان بہو بیٹیوں کو بھی اٹھا لے جاتے۔
کسان خوف سے اپنی جوان بہو بیٹیوں کو بادشاہ کے بدقماش اعمال سے چھپا کر رکھتے۔ الغرض اس بادشاہ کے دور میں کوئی ایسا ظلم نہیں تھا جو رعایا پہ نہ ڈھایا جاتا رہا ہو۔ زندہ تو زندہ بادشاہ تو اپنی رعایا کے مُردوں کو بھی معاف کرنے کو تیار نہیں تھا۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ اس کی ریاست میں رعایا میں سے جو کوئی بھی مرے اسے دفنانے سے سے پہلے مُردے کو بادشاہ کے محلوں کے ارد گرد متواتر رات دن گھما کر دفن کیا جائے۔
ایسا کرنے کو مُردہ خراب کرنا کہا جاتا تھا۔ لواحقین سارا دن اور ساری رات میت کو سر پہ اٹھائے بادشاہ کے محلوں کے گرد خوار ہوتے اور تب کہیں جا کر میت دفنانے کی اجازت ملتی۔مخلوق خدا اس بادشاہ سے بہت تنگ تھی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ بادشاہ بیمار ہوا اور مرگ الموت نے اسے آن گھیرا۔ اِسے یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اُس نے ساری عمر کوئی ایسا کام نہیں کیاکہ مرنے کے بعد اس کی رعایا ا سے اچھے لفظوں میں یاد کرے گی۔ اسی فکر میں پریشاں ہو کر بادشاہ نے اپنے ولی عہد شہزادے کو طلب کیا۔اور اسے اپنا مدعا بیان کیا۔ ''دیکھو میں نے اس بادشاہت کی حفاظت کے لیے۔ جو اب تمہیں ملے گی۔ بہت سے ایسے اقدام کیے ہیں جن پہ رعایا مجھ سے ناخوش ہے اور اب میرا مرنے کا وقت قریب آگیا ہے۔ اس لیے تم پہ لازم ہے کہ میرے مرنے کے بعد کچھ ایسے اقدامات اُٹھانا کہ رعایا مجھے اچھے لفظوں میں یاد کرے۔''
شہزادے نے جواب دیا ''بادشاہ سلامت ہماری جاں بھی آپ پہ قرباں۔ اللہ آپ کا اقبال سلامت رکھے اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پہ ہمیشہ کے لیے سلامت رکھے۔ ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ضرور ایسے قدامات کریں گے جس سے رعایا آپ کو اچھے لفظوں میں یاد کرے''
اُسی رات بادشاہ مر گیا۔ ولی عہد نے بادشاہ بنتے ہی فرمان جاری کیاکہ ''آج سے ہماری ریاست کی عملداری میں جو بھی فرد مرے۔ اس کی میت کو ننگا کرکے۔ ایک لٹھ کے ساتھ الٹا لٹکا کر متواتر تین دن تک میرے محلات کے گرد گھُما نے کے بعد دفنایا جائے''۔ رعایا بے اختیار چیخ اُٹھی '' اس خبیث سے تو اس کا باپ ہی اچھا تھا۔ ''۔
ظلم کی انتہا کو روا رکھنے میں بادشاہ کے بیٹے کا قصور نہیں تھا بلکہ اُس کی تربیت ہی ایسے ماحول میں ہوئی تھی جس میں رعایا کو جوتی کی نوک پر رکھا جاتا تھا۔ یہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں 1993 میں جب ن لیگ کی حکومت ختم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو لوگ ن لیگ کو یاد کرتے رہے، پی پی پی کی حکومت کے بعد دوبارہ 1996 میں ن لیگ کی حکومت آئی تو لوگ گزشتہ حکومت کو یاد کرتے رہے، پھر عوام کی طرف سے کہا گیا کہ زرداری سے مشرف ہی بہتر تھا۔ یہی سلسلہ چلتے چلتے راجہ رینٹل تک آگیا اور لوگ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ان سے تو شاہ گیلانی ہی اچھے تھے حالانکہ شاہ گیلانی کا دور بھی سب کو یاد ہے۔
اور اب نواز شریف کی حکومت کو تین سال گزر گئے ہیں، عوام کے حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوچکے ہیں، قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ جب کہ حکمران اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا نظام ہی اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ وزیر اعظم کو ہی یوں لگتا ہے کہ اگر انھوں نے استعفیٰ دے دیا تو وہ انھیں مقدمات میں الجھا دیا جائے گا حالانکہ مغرب میں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن سسٹم کو کوئی فرق نہیں پڑتا... ایماندار حکمران فوراََ استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی کیا دن تھا، غضب کا دن تھا۔ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آئے اور ٹی وی اسکرین پر چھائے ہوئے تھے۔ عوام سوچ رہے تھے:
ہر شے قریب آ کے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاج شوق گریزاں نہ کر سکے
وزیر اعظم کے خطاب کے حوالے سے یاران سرپل تادم تحریر متفرق اورمتضاد آراء و افکار کا اظہار کر رہے ہیں۔کچھ کاکہنا ہے کہ ان کی تقریر ایک ''معجون مرکب'' تھی۔کہنا وہ کچھ اور چاہتے تھے اور کہہ کچھ اور گئے:
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
البتہ آف شور کمپنیوں اور اپنے سیاسی حریفوں کے حوالے سے انھوں نے جن افکار و نظریات کا اظہار کیا، انھیں سنتے ہوئے جانے کیوں غالب یاد آتا ہے:
دیکھنا تقریر کی لذت جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
پارلیمنٹ میں خطاب کا مشورہ انھیں خداجانے کس سقراط نے دیا ہے۔ سیدھی سی بات وہی ہے کہ وہ 2 سال کے لیے مزید برسراقتدار رہنا چاہتے ہیں۔ رہیں، کون انھیں روک اور ٹوک سکتا ہے؟ کون حکومت سے پوچھ سکتا ہے کہ مخالفین کا نام پانامہ لیکس میں کیسے آیا کیوں کہ مونس الٰہی کا نام پانامہ لیکس کی ویب سائٹ پر تو نہیں مگر ان کا نام کیوں پھیلایا جا رہا ہے؟ مخالفین کے ساتھ اس طرح کی حکمت عملی تو ڈکٹیٹر شپ کے دور میں بھی نہیں تھی۔ یہ وہ گیمز ہیں جو ہر ہارتا ہوا کھلاڑی کھیلا کرتا ہے۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف 3ماہ بعد قومی اسمبلی میں آئے اور چند لکھی ہوئی سطریں پڑھ کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی والا جملہ دہرا کر چلتے بنے۔ وزیر اعظم کے خطاب کے بعد قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ ہمارے سات انتہائی سیدھے سادے اور معصوم سوال تھے۔ وزیر اعظم نے ان کا جواب دینے کے بجائے انھیں اور بڑھا تے ہوئے سات سے ستر بنا دیا ہے، پہلے تو صرف لندن کی بات تھی اب متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے سوالات بھی آگئے ہیں۔
بادشاہ کے ولی عہد کی طرح اب آنے والے حکمران کیا نظر عنایت عطا کریں گے یہ تو ابھی ابتداء ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا... پتا نہیں اور اس ملک میں کتنی کرپشن ہونی ہے، یہاں ایک مربوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے (جس کا ذکر میں نے گزشتہ کالم میں کیا تھا)نہ جانے کتنے مزید کرپشن کے اسکینڈلز سامنے آئیں گے ۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ حکومت کے 5سال پورے ہونے کے بعد قوم زرداری و گیلانی و راجہ صاحب کو اچھے لفظوں میں یاد کرے گی۔