پیچ در پیچ سلسلے دل کے
قارئین کرام ! میں پچھلے 18 روز سے عمرے کے مبارک سفر پر تھا لہٰذا آپ سے مخاطب نہ ہو سکا
قارئین کرام ! میں پچھلے 18 روز سے عمرے کے مبارک سفر پر تھا لہٰذا آپ سے مخاطب نہ ہو سکا۔ اولین فرصت ملتے ہی حاضر خدمت ہوں۔ یقین کیجیے خانہ کعبہ و مسجد نبوی میں روضہ رسولؐ پر اور تمام مقدس مساجد و مقامات پر آپ سب کے لیے دعاگو رہا۔ اپنے ملک کے لیے مذاہب عالم میں عالم اسلام کے لیے کلمہ توحید کی سربلندی کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا کی۔ آپ سے وعدہ رہا کہ ایک مضمون ''سفر لبیک'' کے عنوان سے تحریر کروں گا لیکن سردست ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شورش سیاست، بدعنوانی کے کھلتے ہوئے نت نئے باب، معصوم اپوزیشن اور اس کے گلے شکوے اس پر حکومت کی بوکھلاہٹ سمیت کچھ موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ پانامہ لیکس کی نئی و پرانی Reports کو موضوع گفتگو بنایا جائے۔
اگرچہ حاصل کچھ نہ ہو گا۔ طے شدہ معاملات نہیں بدلیں گے لیکن بے بسی کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ تحریر کو آنسو بنا کر پی لیا جائے کیونکہ ہم اس دیش کے واسی ہیں جس دیش میں منفاقت کو سیاست، جھوٹ کو سچ اور چوری کو تجارت کا لبادہ بڑے سلیقے سے پہنایا جاتا ہے۔ جہاں ہر دور میں خفیہ ہاتھ مضبوط اور کارگر رہتے ہیں۔ مقتول ہے، قاتل ...ہے، عدالت ہے، بس نتیجہ ندارد۔ انصاف زیرو، الیکشن ہوتے ہیں میدان سجتا ہے، باقاعدہ جلسے، جلوس، ریلیاں منعقد۔ جماعتیں منشور پیش کرتی ہیں۔ الیکشن کے دن قطاریں لگتی ہیں۔ صرف حکومت پہلے سے تشکیل پا جاتی ہے حالانکہ ہم ایٹمی طاقت ہیں پھر بھی اپنی ٹانگوں پر کھڑے نہیں رہ پاتے۔ ہمیشہ کسی سہارے کی ضرورت درپیش ۔ گویا مجموعہ تضاد ہیں۔ اب یہ پانامہ والے پیچھے پڑگئے۔
انھوں نے بتایا کہ آپ کے موجودہ و سابقہ وزرائے اعظم بیرون ملک ایسی آن دی ریکارڈ کمپنیز کے مالک ہیں جنھیں ''آف شور'' کہا جاتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ ملک میں طوفان آ گیا۔ میڈیا جو اب ایک بڑی انڈسٹری ہے ''اسے بھی پیٹ پوجا کے لیے ایندھن چاہیے۔''اس نے ایسے ایسے سیاستدانوں و تجزیہ نگاروں کو چینلز پر پیش کر ڈالا جن کی سیاسی و تجزیاتی موت ہوئے مدت گزری۔ ساری اپوزیشن ایک طرف۔ حکومت و مولانا ف دوسری طرف۔ استعفیٰ دو، ورنہ ہمیں بھی ''آف شور'' کمپنیز بنانے کا طریقہ بتاؤ۔
جسے حکومت کی جانب سے مان کر محترم حسین نواز نے تفصیل سے بتا دیا۔دوسرا مطالبہ ۔ یہ پیسہ آیا کہاں سے؟ کسی نے کچھ کہا، کسی نے کچھ۔ محترم جاوید چوہدری صاحب نے اپنے ایک آرٹیکل میں آف شور کمپنیز کا مکمل Bio Data فراہم کر دیا۔ تسلی پھر بھی نہ ہوئی۔ خود میاں صاحب نے قوم سے ایک تاریخ ساز خطاب میں اپنے بے قصور ہونے کا یقین دلایا لیکن ہنگامہ ہنوز جاری ہے جس کی وجوہات دیگر بھی ہو سکتی ہیں لیکن ایک بڑی وجہ ہر جماعت کے کسی نہ کسی رہنما پر NAB، FIA کا وہ ایکشن ہے جو ان کی کرپشن کے خلاف لیا گیا مثلاً ڈاکٹر عاصم اس کی ایک مثال ہیں جن کی گرفتاری پر پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلے واویلا کیا پھر حکومت سے درخواست لیکن گرفتاری حکومت کی جانب سے نہیں تھی لہٰذا رہائی بھی ممکن نہ ہو سکی۔ میرا خیال ہے کہ اب جملہ اپوزیشن کو ایک جواز مل گیا۔ مطلب گھنٹی مل گئی۔ ادھر بلی بھی توانا نہیں۔ گھبرا رہی ہے۔
نہ جانے کیوں؟ جب کہ پاکستان میں ہوتے ہوئے گھبرانا کیسا؟ ادھر تو سب چلتا ہے۔ یا چلتا کر دیا جاتا ہے۔ آپ صرف ایک کام نہ کریں۔ سزا سے محفوظ رہیں گے۔ وہ ایک کام ہے ''ان سے نہ لڑیں''۔''انھیں نہ چھیڑیں'' ورنہ بھینس کا چھیڑا کھانا پڑ جائے گا۔ ویسے تو میاں صاحب بھی داؤ پیچ سے واقف ہیں۔ کچھ نہ کچھ کر کے یہ مدت تو نکال ہی لیں گے البتہ 2018ء مختلف ہو گا۔ مجھے آنیوالے دنوں کے جنگل میں جگنو ٹمٹماتے دکھائی دے رہے ہیں، جیسے کچھ امیدیں روشن ہوتی ہوں، ہر پل اندھیرا اجالا، تبدیلی، تو بری بھی اچھی مانی جاتی ہے اگر چیزیں یکسانیت کا شکار ہو جائیں ۔
میاں صاحبان کے 35 سالہ دور اقتدار نے بھی حالات کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کے بعد وہی ہوتا ہے جو لیبیا، عراق، مصر میں ہوا یا کبھی ایران میں میری ذاتی رائے اس معاملے میں دوسروں سے مختلف نہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں 16 کروڑ لوگ ٹھیک سے جی بھی نہ پا رہے ہوں۔ ان پر غربت عذاب کی طرح مسلط ہو۔ وہ بنیادی ضرورتوں سے بھی یکسر محروم ہوں حتیٰ کہ جہاں کی آب وہوا میں پرندے پیاس سے دم توڑ رہے ہوں وہاں اربوں ڈالر، کھربوں ڈالر، فلاں محل، فلاں قلعہ، آف شور کمپنیز، آن شور کمپنیز، یہ کیا ہے بھائی؟ آپ عوام کے خادم ہیں آپ عوامی نمایندے ہیں اللہ کے بندے یہ دعویٰ کرتے ہوئے بھی آپ کو ہزاروں بار سوچنا چاہیے۔
میں نہیں سمجھتا کہ ملک میں اب تک کوئی بھی حکومت جمہوری تھی اور کیوں ہوتی؟ جب اسے اقتدار میں لانیوالے ہاتھ عیاں نہ ہوں بلکہ خفیہ ہوں الیکشن سڑک پر، میدان میں، حکومت کہیں اور بنائی جائے۔ جمہوریت کو کبھی جمہوری راستے سے آنے ہی نہیں دیا گیا۔ نتیجہ کیا نکلنا تھا وہی جو نکلا۔ جسے دیکھو، جسے آزماؤ، سیاست ہو، کھلاڑی ہو، مسیحا ہو یا فلاں والے، Result Same یعنی موجودہ دور جس میں پاک فوج آپریشن ضرب عضب جیسا آپریشن کر رہی ہے۔ ملک کی فلاح و بہبود کے بہت سے منصوبوں میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ عوام کے ذہنوں سے یہ تاثر نہیں جاتا کہ آخر میں مارشل لا لگا دیا جائے گا۔ فوج اقتدار سنبھال لے گی۔ وجہ کیا ہے ماضی۔ ایک بدترین ماضی جو کسی آسیب سے کم نہیں۔ملک کی صورتحال اس قدر گمبھیر ہے کہ موجودہ حکومت کا احتساب محض اس بنیاد پر کیا جا رہا ہے کہ آپ نے ہمیں کرپشن نہیں کرنے دی یا ہمارے لوگوں کو تنگ کیا۔
یا ایک صاحب کا مطالبہ ہے آسمان گرے کہ زمین شق ہو۔ انھیں وزیراعظم بنانا ہو گا کیونکہ وہ قوم کو ہزارویں مرتبہ ایک نئے پاکستان کا تحفہ عنایت فرمائینگے، بہرحال نتیجہ کچھ بھی برآمد ہو۔ Practice غلط ہے۔ Movement چلانیوالے ہاتھ کرپشن کی غلاظت سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ ہم اہل پاکستان مطالبہ کرتے ہیں ''جمہوریت کو Derail نہ کیا جائے۔'' ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سسٹم مضبوط ہوا تو شاید کبھی ہمارا وزیراعظم کوئی کھرب پتی نہ ہو بلکہ ہماری صفوں میں سے ہی متوسط طبقے کا شخص ہو۔
اگرچہ حاصل کچھ نہ ہو گا۔ طے شدہ معاملات نہیں بدلیں گے لیکن بے بسی کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ تحریر کو آنسو بنا کر پی لیا جائے کیونکہ ہم اس دیش کے واسی ہیں جس دیش میں منفاقت کو سیاست، جھوٹ کو سچ اور چوری کو تجارت کا لبادہ بڑے سلیقے سے پہنایا جاتا ہے۔ جہاں ہر دور میں خفیہ ہاتھ مضبوط اور کارگر رہتے ہیں۔ مقتول ہے، قاتل ...ہے، عدالت ہے، بس نتیجہ ندارد۔ انصاف زیرو، الیکشن ہوتے ہیں میدان سجتا ہے، باقاعدہ جلسے، جلوس، ریلیاں منعقد۔ جماعتیں منشور پیش کرتی ہیں۔ الیکشن کے دن قطاریں لگتی ہیں۔ صرف حکومت پہلے سے تشکیل پا جاتی ہے حالانکہ ہم ایٹمی طاقت ہیں پھر بھی اپنی ٹانگوں پر کھڑے نہیں رہ پاتے۔ ہمیشہ کسی سہارے کی ضرورت درپیش ۔ گویا مجموعہ تضاد ہیں۔ اب یہ پانامہ والے پیچھے پڑگئے۔
انھوں نے بتایا کہ آپ کے موجودہ و سابقہ وزرائے اعظم بیرون ملک ایسی آن دی ریکارڈ کمپنیز کے مالک ہیں جنھیں ''آف شور'' کہا جاتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ ملک میں طوفان آ گیا۔ میڈیا جو اب ایک بڑی انڈسٹری ہے ''اسے بھی پیٹ پوجا کے لیے ایندھن چاہیے۔''اس نے ایسے ایسے سیاستدانوں و تجزیہ نگاروں کو چینلز پر پیش کر ڈالا جن کی سیاسی و تجزیاتی موت ہوئے مدت گزری۔ ساری اپوزیشن ایک طرف۔ حکومت و مولانا ف دوسری طرف۔ استعفیٰ دو، ورنہ ہمیں بھی ''آف شور'' کمپنیز بنانے کا طریقہ بتاؤ۔
جسے حکومت کی جانب سے مان کر محترم حسین نواز نے تفصیل سے بتا دیا۔دوسرا مطالبہ ۔ یہ پیسہ آیا کہاں سے؟ کسی نے کچھ کہا، کسی نے کچھ۔ محترم جاوید چوہدری صاحب نے اپنے ایک آرٹیکل میں آف شور کمپنیز کا مکمل Bio Data فراہم کر دیا۔ تسلی پھر بھی نہ ہوئی۔ خود میاں صاحب نے قوم سے ایک تاریخ ساز خطاب میں اپنے بے قصور ہونے کا یقین دلایا لیکن ہنگامہ ہنوز جاری ہے جس کی وجوہات دیگر بھی ہو سکتی ہیں لیکن ایک بڑی وجہ ہر جماعت کے کسی نہ کسی رہنما پر NAB، FIA کا وہ ایکشن ہے جو ان کی کرپشن کے خلاف لیا گیا مثلاً ڈاکٹر عاصم اس کی ایک مثال ہیں جن کی گرفتاری پر پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلے واویلا کیا پھر حکومت سے درخواست لیکن گرفتاری حکومت کی جانب سے نہیں تھی لہٰذا رہائی بھی ممکن نہ ہو سکی۔ میرا خیال ہے کہ اب جملہ اپوزیشن کو ایک جواز مل گیا۔ مطلب گھنٹی مل گئی۔ ادھر بلی بھی توانا نہیں۔ گھبرا رہی ہے۔
نہ جانے کیوں؟ جب کہ پاکستان میں ہوتے ہوئے گھبرانا کیسا؟ ادھر تو سب چلتا ہے۔ یا چلتا کر دیا جاتا ہے۔ آپ صرف ایک کام نہ کریں۔ سزا سے محفوظ رہیں گے۔ وہ ایک کام ہے ''ان سے نہ لڑیں''۔''انھیں نہ چھیڑیں'' ورنہ بھینس کا چھیڑا کھانا پڑ جائے گا۔ ویسے تو میاں صاحب بھی داؤ پیچ سے واقف ہیں۔ کچھ نہ کچھ کر کے یہ مدت تو نکال ہی لیں گے البتہ 2018ء مختلف ہو گا۔ مجھے آنیوالے دنوں کے جنگل میں جگنو ٹمٹماتے دکھائی دے رہے ہیں، جیسے کچھ امیدیں روشن ہوتی ہوں، ہر پل اندھیرا اجالا، تبدیلی، تو بری بھی اچھی مانی جاتی ہے اگر چیزیں یکسانیت کا شکار ہو جائیں ۔
میاں صاحبان کے 35 سالہ دور اقتدار نے بھی حالات کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کے بعد وہی ہوتا ہے جو لیبیا، عراق، مصر میں ہوا یا کبھی ایران میں میری ذاتی رائے اس معاملے میں دوسروں سے مختلف نہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں 16 کروڑ لوگ ٹھیک سے جی بھی نہ پا رہے ہوں۔ ان پر غربت عذاب کی طرح مسلط ہو۔ وہ بنیادی ضرورتوں سے بھی یکسر محروم ہوں حتیٰ کہ جہاں کی آب وہوا میں پرندے پیاس سے دم توڑ رہے ہوں وہاں اربوں ڈالر، کھربوں ڈالر، فلاں محل، فلاں قلعہ، آف شور کمپنیز، آن شور کمپنیز، یہ کیا ہے بھائی؟ آپ عوام کے خادم ہیں آپ عوامی نمایندے ہیں اللہ کے بندے یہ دعویٰ کرتے ہوئے بھی آپ کو ہزاروں بار سوچنا چاہیے۔
میں نہیں سمجھتا کہ ملک میں اب تک کوئی بھی حکومت جمہوری تھی اور کیوں ہوتی؟ جب اسے اقتدار میں لانیوالے ہاتھ عیاں نہ ہوں بلکہ خفیہ ہوں الیکشن سڑک پر، میدان میں، حکومت کہیں اور بنائی جائے۔ جمہوریت کو کبھی جمہوری راستے سے آنے ہی نہیں دیا گیا۔ نتیجہ کیا نکلنا تھا وہی جو نکلا۔ جسے دیکھو، جسے آزماؤ، سیاست ہو، کھلاڑی ہو، مسیحا ہو یا فلاں والے، Result Same یعنی موجودہ دور جس میں پاک فوج آپریشن ضرب عضب جیسا آپریشن کر رہی ہے۔ ملک کی فلاح و بہبود کے بہت سے منصوبوں میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ عوام کے ذہنوں سے یہ تاثر نہیں جاتا کہ آخر میں مارشل لا لگا دیا جائے گا۔ فوج اقتدار سنبھال لے گی۔ وجہ کیا ہے ماضی۔ ایک بدترین ماضی جو کسی آسیب سے کم نہیں۔ملک کی صورتحال اس قدر گمبھیر ہے کہ موجودہ حکومت کا احتساب محض اس بنیاد پر کیا جا رہا ہے کہ آپ نے ہمیں کرپشن نہیں کرنے دی یا ہمارے لوگوں کو تنگ کیا۔
یا ایک صاحب کا مطالبہ ہے آسمان گرے کہ زمین شق ہو۔ انھیں وزیراعظم بنانا ہو گا کیونکہ وہ قوم کو ہزارویں مرتبہ ایک نئے پاکستان کا تحفہ عنایت فرمائینگے، بہرحال نتیجہ کچھ بھی برآمد ہو۔ Practice غلط ہے۔ Movement چلانیوالے ہاتھ کرپشن کی غلاظت سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ ہم اہل پاکستان مطالبہ کرتے ہیں ''جمہوریت کو Derail نہ کیا جائے۔'' ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سسٹم مضبوط ہوا تو شاید کبھی ہمارا وزیراعظم کوئی کھرب پتی نہ ہو بلکہ ہماری صفوں میں سے ہی متوسط طبقے کا شخص ہو۔