سیاستدان خاموش ہیں کہ کہیں اگلی حکومت میں اسرائیل ان کی مخالفت نہ کردے الطاف حسین

حکومت وقت اسرائیلی جارحیت کیخلاف بھرپوراحتجاج کرے ورنہ اقوام متحدہ کوکہہ دے کہ وہ اپنی رکنیت اپنے پاس رکھے،قائدمتحدہ

حکومت وقت اسرائیلی جارحیت کیخلاف بھرپوراحتجاج کرے ورنہ اقوام متحدہ کوکہہ دے کہ وہ اپنی رکنیت اپنے پاس رکھے،قائدمتحدہ۔ فوٹو: فائل

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہاہے کہ غزہ اوردیگرفلسطینی شہروں پراسرائیل کی جانب سے بمباری ہورہی ہے جن میں معصوم فلسطینی بچے، عورتیں، نوجوان اور بوڑھے شہیدہورہے ہیں۔

آخراقوام متحدہ کہاں ہے؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کہاں ہے؟فلسطینیوںکے قتل عام پراو آئی سی کا کرداربھی نہایت شرمناک اورافسوسناک ہے جوفلسطینیوںکاقتل عام بندکرانے کیلئے محض نمائشی اجلاس کر رہی ہے،حکومت وقت کافرض ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف بھرپورطریقے سے احتجاج کرے اوراقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے ڈٹ کرکہے کہ وہ فلسطینی عوام پر برسوں سے ہونے والے ظلم کو بندکرائیں ورنہ اقوام متحدہ کی رکنیت اپنے پاس رکھے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون، امریکی صدربارک اوباما،برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، نیٹو ممالک اورویٹو پاوررکھنے والے ممالک انسانیت کے ناطے فلسطینی عوام پراسرائیلی مظالم فوری بند کرائیں،فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت پرسیاسی ومذہبی جماعتوں کی خاموشی افسوسناک ہے، میرے سامنے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم ہورہاہے تومیں یہ دیکھ کراس لیے خاموش نہیںرہ سکتاکہ اسرائیل بہت طاقتورہے اوروہ مجھ تک پہنچ جائے گا، میں صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتاہوں،میںظلم کوظلم کہتارہوں گا، جلد ہی تمام مکاتب فکرکے عوام ملکراسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک پرامن احتجاجی جلوس نکالیں گے۔

غزہ اوردیگرفلسطینی شہروں پراسرائیلی بمباری کیخلاف اسلام آبادمیں''فلسطین پراسرائیلی جارحیت اقوام عالم کی ذمے داری''کے عنوان سے ایم کیوایم کے تحت منعقدہ کانفرنس سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ میں نے اپنی 35 سالہ جدوجہد میں کسی بھی مذہب،مسلک یا عقیدے سے تعلق رکھنے والے فردکوپہلے انسان اور اللہ کی مخلوق سمجھا ہے اورکسی سے بھی نفرت نہیںکی،مجھ پر فتوے لگائے گئے لیکن میں باز نہیں آیا،کوئی مجھے ضدی کہے لیکن میں اپنی نظرمیں اللہ کی ذات پریقین کامل رکھنے والا مستقل مزاج بندہ ہوں،غیرمسلم، اللہ، قرآن مجید اور نبی کریم ؐ کو نہیں مانتے اسکے باوجود میں اللہ کی مخلوق کی حیثیت سے ان سے نفرت نہیں کرتابلکہ ان سے بھی اسی طرح پیارکرتاہوں جس طرح اپنے کلمہ گو مسلمان بھائیوں سے کرتاہوں،ہمارے ذہنوں میں قادیانیوں کیلیے نفرت بٹھائی گئی ہے۔


لیکن میں کسی بھی قادیانی سے اسکے عقیدے یا مذہب کی بنیادپرنفرت نہیں کرتااورانہیں بھی اللہ کی مخلوق سمجھ کرپیارکرتاہوں لیکن جب بات یہ ہو کہ کوئی یہودیت کالبادہ اوڑھ کرصیہونیت کاراستہ اختیار کرے اورنہتے مسلمانوں پر ظلم وستم کواپنی عبادت کاجزو بنالے تو بحیثیت مسلمان میں انہیں ظالم قراردیتا ہوں،جب غزہ اور فلسطین کے دیگرشہروں پراسرائیلی طیاروں نے بمباری کرکے بچوں،خواتین ، بوڑھوں اور جوانوں کو شہید کردیااورمیری آنکھوں نے اسپتالوں میں خون سے لت پت زخمیوں کے دردناک مناظردیکھے تو مجھ سے رہانہیں گیااورمیںنے ظلم کو ظلم کہنے میں کوئی تاخیر نہیںکی،معصوم فلسطینی بچوں کی سربریدہ لاشوں کودیکھ کر مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔

اگرجان جاتی ہے تو جائے مگر دنیا یہ نہ کہے کہ الطاف حسین برطانیہ جاکرموت کے خوف کا شکار ہوگیا،میں قسم کھاتاہوں کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف سچ کہنے کی پاداش میں اگرمجھے ماربھی دیا جائے تو میں خوشی سے اپنی موت قبول کرلوںگا،میرے والدین نے ہمیشہ مجھے سچ بولنے کی ترغیب دی ۔الطاف حسین نے او آئی سی پرسخت تنقیدکرتے ہوئے کہاکہ او آئی کانام ہی غلط ہے جب معصوم وبے گناہ مسلمانوں کے قتل عام سے انہیں آگاہ کیا جائے تو یہ کہتے ہیں،oh I see ۔گزشتہ روز او آئی سی کے وزرائے خارجہ کاجواجلاس ہواوہ بھی بیکارتھا،اگران میں جذبہ ایمانی ہوتااورتمام مسلم ممالک جرات و ہمت کا مظاہرہ کرتے توایک کیاایک ہزاراسرائیل بھی ہوتے توکسی کو غزہ پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔

الطاف حسین نے کہاکہ حکومت پاکستان اوروزارت خارجہ ہمت پکڑے اوراگرہمت کی ضرورت ہے توایم کیوایم کے کسی ایم این اے کو بین الاقوامی فورم پرساتھ لے جائیں،اسرائیلی جارحیت پرسیاسی جماعتوں ومذہبی جماعتوں کی خاموشی پرافسوس ہے ،بحیثیت انسان سیاسی رہنماؤں کافرض بہے کہ وہ ظلم کے خلاف بولیں مگروہ اسی چکرمیں لگے ہوئے ہیںکہ اگرہم نے بات کی توکہیں اگلی حکومت میں اسرائیل ہماری مخالفت نہ کردے جبکہ مذہبی جماعتیں نہ جانے کن غاروں میں چھپی بیٹھی ہیں؟معصوم فلسطینی مسلمانوں پر ظلم ہورہاہے ، آخراس ظلم کے خلاف پاکستان کے مفتی اعظم کہاں ہیں؟

میں بہت گناہ گارانسان سہی مگرمیں ظلم کوظلم کہتاہوں اورظالم کی مذمت کرتاہوں۔کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام ، مفتیان کرام اورمشائخ عظام کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں،دانشوروں،اینکرپرسنز،دینی وصحافتی تنظیموں اوراین جی اوز کے نمائندوں،تاجروں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ٹیکنوکریٹس نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

Recommended Stories

Load Next Story