اگر وزیراعظم نے خود کواحتساب کیلئے پیش نہ کیا توتحریک انصاف سڑکوں پر ہو گی عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ اگروزیراعظم نواز شریف نے خود کو احتساب کے لئے پیش نہ کیا تو تحریک انصاف سڑکوں پر ہو گی۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ جن ممالک میں جمہوریت جتنی زیادہ مضبوط ہوتی ہے وہ اتنے ہی زیادہ خوشحال اور ترقی کرتے ہیں، جب یورپ جمہوریت کی طرف جا رہا تھا تو اسلامی دنیا بادشاہت کی طرف جا رہی تھی، پاکستان کو مدینہ کی طرح اسلامی ریاست بننا چاہیئے لیکن افسوس کہ مسلم ممالک جمہوریت سے شروع ہو کر بادشاہت جب کہ یورپ بادشاہت سے شروع ہو کر جمہوریت کی طرف چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام قانون بنانا اور اس پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے جب کہ اپوزیشن کا کام حکومت کے غلط کاموں پر تنقید کرنا ہوتا ہے، جب عوام کا پیسہ غلط استعمال ہو، ٹیکس نہ دیا جا رہا تو اپوزیشن احتجاج کا حق رکھتی ہے۔
عمران خان نے وزیراعظم نوازشریف کی تقریرکے حوالے سے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بنی گالہ محل میں ہیلی کاپٹر آتے اورجاتے ہیں توانھیں بتانا چاہئے کہ وہ عیاشیوں کے لئے پیسہ کہاں سے لاتے ہیں، اس پر میں کہنا چاہتا ہوں کہ کیا اب سب معاملات کی تفیش کرنا میرا کام ہے یا وزیراعظم کا اورایف بی آر، نیب، حکومت ان کے نیچے ہے، اگر میں کوئی غلط کام کر رہا ہوں تو وزیراعظم کا کام مجھ پر الزام لگانا نہیں بلکہ سزا دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پر الزام لگا تو انھوں نے اپوزیشن پر الزام نہیں لگایا کہ آپ بھی یہ کرتے ہیں بلکہ انھوں نے اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دیا۔
چیرمین تحریک انصاف نے کہا کہ سیاست میں صرف ایک پوائنٹ ایجنڈے کی وجہ سے آیا تھا اور وہ تھا پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ، 96 میں شوکت خانم کی بنیاد رکھی اور جب 97 میں الیکشن کے لئے مہم چلائی تو جمائمہ سے تعلق پر مجھ پر یہودی لابی کا الزام لگا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ شوکت خانم کینسر اسپتال میری زندگی کا سب سے بڑا چیلنج تھا، فروری 1997 میں الیکشن مہم ختم ہوئی تو اسپتال کرائسز میں چلا گیا کیونکہ لوگوں نے چندہ دینا بند کردیا تھا، شوکت خانم بند ہونے لگا تھا لیکن میں نے اسے محنت سے کھڑا کیا، اگر میں غلط چندے کے ذریعے اسپتال چلا رہا تھا تو حکومت کا کام تھا کہ اس کی تفتیش کرے اور مجھے گرفتار کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ کینسراسپتال کے خلاف اگلی مہم 2011 میں شروع ہوتی ہے جب تحریک انصاف اوپر کی جانب جانے لگتی ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت اسپتال کا نظام اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ ہمیں اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا، تیسری بار کینسر اسپتال کے خلاف مہم شروع ہوتی ہے جب پاناما لیکس کا معاملہ سامنے آتا ہے، حکومت کے 4 وزراء ٹی وی پر بیٹھ کر مہم شروع کر دیتے ہیں۔ ایک ادارے کو اس لئے نقصان پہنچایا جا رہا کہ کیونکہ میں وہ کام کر رہا ہوں جو اپوزیشن کا کام ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جب میں نے دھاندلی پر بات کی تو کہا گیا کہ آپ جمہوریت کو ڈی ریل کر رہے ہیں، اب کرپشن کی بات کی تو پھر کہا جا رہا ہے کہ آپ جمہوریت ڈی ریل کر رہے ہیں، وزیراعظم نواز شریف کو پتہ ہونا چاہیئے کہ صاف اور شفاف الیکشن سے جمہوریت ڈی ریل نہیں مضبوط ہوتی ہے اس کا مطلب تو واضح ہے کہ اگر آپ حکومت پر تنقید نہ کریں تو آپ خیراتی اسپتال کے ذریعے سے پیسہ بھی کما سکتے ہیں، اور اگر آپ حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو آپ خیراتی ادارے کو بھی نہیں چلا سکتے ہیں، دنیا کا واحد ادارہ ہے جو 70 فیصد مفت علاج کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ حال ہے کہ نواز شریف جو 30 سال سے کسی نہ کسی طرح حکومت میں رہے ہیں انہیں آج بھی اپنا علاج کرانے کے لئے بیرون ملک جانا پڑتا ہے، یہاں اس وقت ہو کیا رہا ہے کہ ہم نے وزیراعظم سے جو سوالات کئے تھے بجائے اس کا جواب دینے کے ہم سے سوال پوچھ رہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہم سب اقتدار میں آئیں اور پیسہ بنائیں۔
چیرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ خدارا اس جمہوریت کو بچائیں کیونکہ جمہوریت کا دفاع عوام کرتی ہے فوج نہیں، جب عوام دیکھے گی کہ حکومت ہمارے حقوق کے لئے کام کر رہی ہے تو ان کا اعتماد حکمرانوں پر بڑھے گا۔ پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد پاکستان کے بعد سنہری موقع ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کیا جائے، جس طرح امریکا اور برطانیہ سمیت پوری دنیا میں بحث چھڑ گئی ہے ہمیں بھی اس معاملے پر مضبوط اور مدلل بحث کرنی چاہیئے۔
پاناما پیپرز کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ میرا نام تو ان میں شامل نہیں ہے، میرے فلیٹس بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، میں نے 1983 میں لندن میں فلیٹ خریدا اورانگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیل کر پیسہ کمایا، 10 سال تک قومی ٹیم کا کپتان رہا لیکن ایک بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا، سب سے پہلے انٹرنیشنل کرکٹ میں نیوٹرل امپائر میں نے ہی متعارف کرائے، میں لندن کا شہری نہیں تھا اوراپنے وکیل کے کہنے پر نیازی سروسز کے نام سے آف شور اکاؤنٹ کھولا، 2003 میں لندن والا فلیٹ فروخت کر کے تمام رقم پاکستان واپس لایا، میں نہ تو وزیر تھا اور نہ ہی کسی حکومتی عہدے پر فائز تھا تو مجھ سے سوال پوچھنے کا کیا جواز بنتا ہے، میری ساری کمائی میرے اپنے نام پر ہے، میرے بچوں یا کسی اور کے نام پر میرا کوئی اثاثہ نہیں ہے، میں تو اس پر بھی تیار ہوں کہ حکومت نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے جو ٹی او آرز بنائے ہیں اس میں شوکت خانم کا نام بھی شامل کیا جائے۔
چیرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ 92 کا ورلڈ کپ جیتا اور تمام پیسہ شوکت خانم اسپتال کو دیا، 2 پلاٹس انعام میں ملے، ایک جب نواز شریف وزیراعلیٰ تھے اور جب ہم بھارت کو ہرا کو وطن واپس پہنچے تھے تو انھوں نے ایئرپورٹ مجھے پلاٹ دینے کا اعلان کیا۔ دوسری مرتبہ جب 92 ورلڈ کپ جیت کر واپس آئے تو وزیراعظم نواز شریف نے مجھے پلاٹ دینے کا اعلان کیا، مجھے 2 گاڑیاں بھی ملیں وہ بھی شوکت خانم کے نام کردیں۔ اگر میں نے پیسہ ہی بنانا تھا تو میں شوگر ملز یا کوئی فاؤنڈری لگا سکتا تھا مجھے اسپتال بنانے کی کیا ضرورت تھی۔
عمران خان اپنی تقریر کے دوران اراکین اسمبلی کو کینسر سے بھی ڈراتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ ہر 7 میں سے ایک شخص کینسر کا شکار ہے، اللہ نہ کرے لیکن اس ایوان میں موجود لوگوں کو بھی کبھی نہ کبھی کینسر ہو گا۔
عمران خان نے کہا کہ فوری طور پر ٹی او آرز کے لئے کمیٹی بیٹھے اور یہ سب پوائنٹ اسکورنگ کے لئے نہیں بلکہ ملک کی بہتری کے لئے ہونا چاہیئے کیونکہ جب تک کرپشن ختم نہیں ہو گی تو ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ملک میں ٹیکس ریوینو سے زیادہ کرپشن ہے، ہم قرضے لے رہے ہیں، پاکستان پر 21 ٹریلین کا قرض ہے جو 10 سال پہلے 5 ٹریلین تھا، اگر اسی طرح طوطہ مینہ کی کہانی سنانی ہے تو پھر اس پارلیمنٹ کا کیا فائدہ جو عوام کے ٹیکس کے 60 ہزار روپے فی منٹ خرچ کرتی ہے، اگر ہم عوامی فلاح و بہبود کے لئے قانون سازی نہیں کر سکتے تو پھر اس ایوان کا کوئی فائدہ نہیں، اگر وزیراعطم نواز شریف نے خود کو احتساب کے لئے پیش نہیں کیا تو تحریک انصاف ایک بار پھر سڑکوں پر ہوگی۔
چیرمین تحریک انصاف نے اپنی تقریر کے دوران وزیراعظم نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا تو مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے ایوان میں شور شرابہ شروع کردیا جس پر عمران خان نے کہا کہ اگر آپ نے مجھے بات کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا تو یاد رکھیں کہ وزیراعظم سے تو پڑھ کر بھی تقریر نہیں ہوتی تو پھر وہ اس ایوان میں کیسے بات کریں گے جس پر ایوان میں خاموشی چھا گئی۔