ہنگامہ خیز نہیں ایک فعال پارلیمان

پارلیمان جس قدر فعال و مضبوط ہوگی اسی قدر ریاست توانا ہوگی اور اپنے شہریوں کے حقوق احسن طور پر ادا کرنے کے قابل رہیگی۔


جاہد احمد May 18, 2016
جس طرح حزب اختلاف کے پاس اپنے طریقے سے سوال کرنے کا حق موجود تھا، ٹھیک اسی طرح حکومت کے پاس ان سوالات کا جواب اپنی دانست میں اپنے انداز سے دینے کا استحقاق تھا۔

پانامہ لیکس پہلے دن سے ایک قانونی معاملہ تھا، جسے بہرطور موقع پرستوں نے اخلاقیات کے ڈھول میں ڈال کر خوب پیٹا ہے۔ پانامہ لیکس کے نام پر ہیجان برپا کرنے کا مقصد کیا رہ جاتا ہے جب کہ وزیراعظم پہلے دن سے اپنے آپ کو کمیشن کے سامنے پیش کرنے پر تیار رہے ہیں۔

ایک قانونی نوعیت کے معاملے کو ہر طرح قانونی طور پر برتا جانا تھا، لیکن بھلا ہو اُس ''موقع'' کا جسے موقع شناس کسی صورت ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ شیروانی پہننے اور سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کا 'موقع' بھی آئے گا، لیکن ضروری ہے کہ اُس 'موقع' کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے جو خیبر پختونخوا کی عوام نے 'موقع' کے منتظر اعلیٰ حضرت کو ووٹ دے کر فراہم کیا ہے اور جسے دونوں ہاتھوں سے لٹا کر بھی آپ اُس خاص والے 'موقع' کی تاک میں ہیں۔ محترم وہ بد نصیب 'موقع' اگر آیا تو اس 'موقع' سے فائدہ کوئی اور ہی اٹھائے گا، آپ نہیں۔

شاید ذکر سماعت سے گزرا ہو، ایک اصغر خان ہوا کرتے تھے۔ سنا ہے کافی مشہور تھے اور مجمع بھی کافی اکھٹا کرلیا کرتے تھے۔ انہیں بھی وزیراعظم بننا تھا لیکن مسئلہ ان کا بھی یہ تھا کہ ووٹ مجمع کے حساب سے ملتے نہیں تھے، پھر وہ بھی بات بات پر خاص 'موقع' کی طاق میں رہنے لگے۔ اسی 'موقع' کے چکر میں خاص 'موقع' دینے والوں کو خط بھی لکھ ڈالا۔ تاریخ گواہ ہے کہ 'موقع' تو ملا لیکن اصغر خان کو نہیں بلکہ آمریت کے سیاہ دور کو۔ یقیناً آپ اصغر خان دوئم تو بننا پسند نہیں کریں گے، لیکن خدا جھوٹ نہ بلوائے یہ 'موقع' بھی کم بخت بڑی ظالم شے ہے۔

مثالی اور بنیادی طور پر پارلیمان یا مقننہ جمہوری بندوبست میں ریاست کا وہ اہم ترین ادارہ ہے جہاں عوام کے منتخب نمائندے عوامی امنگوں اور مفادات کے تحفظ کے پیش نظر ریاستی امور چلانے کی غرض سے قانون سازی جیسے اعلیٰ ترین فرض کو سر انجام دیتے ہیں۔ اس بنیادی فرض کے علاوہ پارلیمان حکومتی امور پر نگران بھی ہے اور عوامی مفادات کی نگہبان بھی۔ یہ فیصلہ سازی کے عمل میں حکومت کی معاون و مشیر بھی ہے اور اجتماعی دانش و عوامی اعتماد کا استعارہ بھی۔ یہ اجتماع ہے حکومت اور حزب اختلاف کا جس کا محور ریاست کے شہریوں کے مفادات و حقوق کے تحفظ کے سوا کچھ نہیں۔

ریاست مجموعہ ہے زمین کے ٹکڑے، مشترکہ اصول و مفادات پر متفق افراد اور انہی عوامی امنگوں کی ترجمان و کاربند حکومت کا۔ حکومت، مقننہ اور عدلیہ ریاست کے تین مصدقہ بنیادی ستون ہیں۔ پارلیمان قانون سازی کی مجاز ہے، عدلیہ اس کی تشریح اور حکومت کا کام اس کا عملی اور موثر نفاذ ہے۔ حکومت ذمہ دار ہے ریاست اور شہریوں کے مابین اس عمرانی معاہدے اور عہد کی پاسداری کی۔

پارلیمان جس قدر فعال و مضبوط ہوگی اسی قدر ریاست توانا ہوگی، اور اپنے شہریوں کے حقوق احسن طور پر ادا کرنے کے قابل رہے گی۔ سمجھنا پڑے گا کہ پارلیمان کا فعال ہونا ضروری ہے لیکن ہنگامہ خیز ہونا نہیں۔ فعال ہونا مشروط ہےعقل، دانش، سنجیدگی، معاملہ فہمی اور نیک نیتی سے۔ ہنگامہ خیزی جڑتی ہے کج فہمی، کم علمی، جذباتیات، مبالغہ آرائی، کھلنڈرے پن اور بد نیتی سے۔

حزب اختلاف پارلیمان کا وہ جز ہے جو حکومت سے کسی بھی ریاستی امر پر جواب طلب کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور حکومت ذمہ دار ہے جواب دہی پر۔ مندرجہ بالا پارلیمانی نظریات اور تصورات کے پیمانے پر پاکستانی پارلیمان کی کارکردگی کو قابلِ تحسین تو ہرگز نہیں گردانا جاسکتا لیکن، بہرحال اگر ایک نوزائیدہ جمہوری نظام کے طور پر کچھ رعایت برتی جائے تو ایک عدد کمزور جمہوری ریاست کی نمائندہ پارلیمان ہونے کے باوجود متعدد مواقعوں پر اپنی کھال سے باہر آ کر کام کرنے کی سعی اور غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کی جرات ضرور کی ہے۔

پاکستانی پارلیمان اسی طرح حالیہ پانامہ لیکس کے معاملے پر بھی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کا پارلیمان میں آکر اپنے اثاثوں سے متعلق حزب اختلاف کے سات سوالات کا جواب دینا پاکستانی جمہوری نظام کے لئے مثبت قدم تھا، لیکن پھر اسی تناظر میں حزب اختلاف کا ردعمل سمجھ سے بالاتر اور منفی رہا۔ سادہ سی بات تھی کہ جس طرح حزب اختلاف کے پاس اپنے طریقے سے اس معاملے پر سوال کرنے کا حق موجود تھا، ٹھیک اسی طرح حکومت کے پاس ان سوالات کا جواب اپنی دانست میں اپنے انداز سے دینے کا استحقاق تھا۔ حزب اختلاف اگر اُن جوابات سے مطمئن نہیں تھی تو اسے پارلیمان میں موجود وزیراعظم سے مزید سوالات در سوالات کئے جانے چاہیئے تھے، انہیں لاجواب ک دینے کا سنہری موقع موجود تھا لیکن حزب اختلاف کا لائحہ عمل مایوس کن حد تک کمزور اور لایعنی نظر آیا، جس سے محض حکومت کے پیر مضبوط ہوئے۔

اس معاملے پر حکومت کا رویہ پہلے دن سے مثبت رہا ہے اور وزیراعظم نے کسی بھی موقع پر احتساب کے لئے پیش ہونے سے انکار نہیں کیا، اختلاف تھا تو احتساب کے طریقہ کار پر! وزیراعظم نے پانامہ لیکس کے فوراً بعد اپنے آپ کو خاندان سمیت سابقہ ججوں پر مشتمل انکوائری کمیشن کے سامنے احتساب کے لئے پیش کیا جس پر حزب اختلاف نے حاضر سروس چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کا مطالبہ کردیا۔ عدالتی کمیشن کے قیام کی خاطر چیف جسٹس کو خط لکھا تو ٹی او آرز پر اعتراض اٹھایا گیا۔ ٹی او آرز پر مذاکرات کی بات کی گئی تو پارلیمان میں آ کر سات سوالات کا جواب دینے کا سندیسہ بھجوا دیا گیا۔ پارلیمان میں آکر سوالات کے جواب دیے تو انداز بیاں حزب اختلاف کی طبیعت پر گراں گزر گیا اور بنا کوئی اعتراض اٹھائے پارلیمان سے باہر کا رستہ چن لیا گیا۔

حالانکہ اہم نقطہ یہ ہے کہ انہی آنیوں جانیوں کے دوران چیف جسٹس عدالتی کمیشن کے حوالے سے حکومتی خط کا جواب دے چکے ہیں جس میں کمیشن کے قیام، طریقہ کار اور ٹی او آرز کے بارے واضح فریم ورک فراہم کردیا گیا ہے۔ اب جب سوالات اور اعتراضات کی توپوں کا رخ مشترکہ حزب اختلاف کی جانب ہے تو یہ پارلیمان میں واپس آچکی ہے جہاں خورشید شاہ اور خان صاحب جوابی تقریر فرمائی اور سات کے بجائے ستر سوالات کے جواب طلب کئے جاسکتے تھے۔

اب حزب اختلاف پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل اور اس میں شمولیت پر بھی تیار ہے۔ اگر حزب اختلاف حکومتی جوابات سے پھر مطمئن نہیں ہو پاتی جس کا قوی امکان موجود ہے اور پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کرکے ہٹا بھی نہیں سکتی تو پارلیمان کے بعد اگلا رستہ عدلیہ ہی کا موجود ہے جس کا پیش خیمہ بھی پارلیمان ہی ہے۔ یہ مسئلہ ہنگامہ خیز نہیں بلکہ فعال پارلیمان ہی کے ذریعہ سے حل کئے جانے کا ہی ہے۔ پارلیمان اور جمہوری ریاست کی بقاء و مستقبل کے لئے ازحد اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے تمام عناصر کو بھی رد کرنا ہے جو ان معاملات کو سڑکوں اور چوراہوں میں لے جا کر ہیجان برپا کرنے پر پرتولے بیٹھے ہیں جس کی مکمل ذمہ داری بھی پارلیمان پر عائد ہوتی ہے۔

[poll id="1117"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں