لاہور کا محافظ کون
دولت مند ہونا نہ سہی خوشحال ہونا پاکستان میں ایک جرم بن گیا ہے۔ جو کوئی کسی دولت مند کی طرح آسودہ زندگی بسر کرتا ہے
BARCELONA:
دولت مند ہونا نہ سہی خوشحال ہونا پاکستان میں ایک جرم بن گیا ہے۔ جو کوئی کسی دولت مند کی طرح آسودہ زندگی بسر کرتا ہے وہ ایسا کیوں اور کیسے کرتا ہے اس کی عوامی انکوائری ضرور کی جاتی ہے کیونکہ ایک پاکستانی بمشکل دو وقت کی پسند کی روٹی کھاتا ہے اور کوئی مناسب سواری بھی رکھتا ہے جو کوئی اس سے آگے بڑھتا ہے وہ دولت مندوں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے اور اسے اس کا حساب دینا پڑتا ہے یعنی عام زندگی میں اسے کچھ قربانی دینی پڑتی ہے تاکہ اپنی دولت مندی کا جواز پیدا کر سکے۔
پاکستان کے عام شہریوں کو سنبھل سنبھل کر چلنا پڑتا ہے، شکر ہے کہ پاکستان اب غربت کے اس مقام سے قدرے نکل آیا ہے جس میں وہ برسوں سے چلا آ رہا تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک پاکستانی اب اپنے اندر مقابلے کی زندگی بسر کرنے کی ہمت پیدا کر چکا ہے۔ کاروبار ہو یا زراعت ایسا قدیم پسماندہ پیشہ، ایک پاکستانی زندگی کے ہر میدان میں اس کے چیلنج کو قبول کرتا ہے، بس یہی رویہ اس کی خوشحالی کا راز ہے جو ان دنوں ہمیں دکھائی دیتی ہے۔
ایک صنعتکار گلہ کر رہا تھا کہ بے روز گاری کا بہت شور مچایا جاتا ہے مگر میں اپنے چھوٹے سے کارخانے کے لیے بھی ضرورت کا عملہ جمع نہیں کر سکا جو مزدور ملتا ہے وہ اپنے آپ کو عام مزدور سمجھنے پر تیار نہیں ہوتا اور زیادہ تنخواہ اور مراعات کا طلب گار ہوتا ہے جو پوری نہیں ہو سکتیں۔ مطلب یہ ہے کہ عام مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستانی اب غربت کے اس مقام کو قبول نہیں کرتا جو مدت سے اس کی قسمت میں رہا ہے۔
وہ کچھ زیادہ چاہتا ہے نہیں تو گھر بیٹھ جاتا ہے۔ اب ہمارے ہاں ایسے گھروں کی کمی نہیں جو پورا گھر مزدوری کرتا ہے، گھر کے نوجوان لڑکے لڑکیاں اور خواتین خانہ بھی گھر کے کام کاج سے جلد فارغ ہو کر کسی آمدنی والے کام میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ میں نے موٹر کار کے مالک کو دیکھا جو اڑوس پڑوس کے طلبہ کو بڑی باقاعدگی سے کالج لے جاتا ہے اور اس کام سے فارغ ہو کر وہ کوئی دوسرا کام کر لیتا ہے جب تک کہ طلبہ کو واپس گھر لانے کا وقت نہیں ہو جاتا۔ وہ اس ڈیوٹی سے فارغ ہو کر ایئر پورٹ چلا جاتا ہے یا ریلوے اسٹیشن پر جہاں اسے معقول سواری مل جاتی ہے۔
وہ تو لاہور کی بدقسمتی ہے کہ اس شہر کو شہر کے اندر ٹیکسی سروس میسر نہیں ورنہ لاہوریوں کے لیے ایک معقول ذریعہ روز گار تھا۔ لاہور پاکستان کا واحد شہر ہے جس میں آپ کو ٹیکسی نہیں مل سکتی ورنہ اس سے چھوٹے شہر راولپنڈی میں بھی ٹیکسی عام ہے۔ ان دنوں لاہور میں بہت کچھ الٹ پلٹ ہو رہا ہے اور شہر میں گھومنا پھرنا جو کسی ضروری کام کے لیے بھی کیوں نہ ہو بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
میرے جیسے پرانے لاہوری کے لیے تو راستے بھی بدل گئے ہیں۔ کہیں آپ کو ایک پل دکھائی دیتا ہے جو ختم ہی نہیں ہو پاتا اور کہیں انڈر پاس جن سے لاہوری مکمل نا آشنا تھے۔ ان نئے راستوں کو طے کرنے کے بعد اگر آپ پھر بھی کسی مناسب راستے پر ہوں تو ممکن ہے کہ کسی سے پوچھ کر آپ صحیح راستے پر آجائیں۔
لاہور ایک پرانا تاریخی شہر ہے جو پرانی مسجدوں، بازاروں، مزاروں اور تاریخی عمارتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ میں نے چوبرجی کے گرد نئی سڑک بنتے دیکھی جو مکمل ہونے پر اس خوبصورت تاریخی عمارت کو کھا جائے گی۔ یہ خدا ہی جانتا ہے کہ اس سے کسی کو کیا ملے گا لیکن لاہور کی تاریخ اپنا ایک تاریخی منظر کھو بیٹھے گی جس کا کوئی بدل نہیں ہو گا۔ ذرا غور کیجیے اگر آگرہ کا تاج محل ختم ہو جائے تو گویا بھارت ہی ختم ہو گیا۔
امریکا کے ایک صدر نے جب تاج محل دیکھا تو کسی نے ان کے تاثرات معلوم کرنے کی کوشش کی تو جواب تھا دنیا میں کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے تاج محل دیکھا ہے اور کچھ وہ ہیں جنہوں نے نہیں دیکھا۔ اگرچہ لاہور میں کوئی مغل عمارت تاج محل کی ہمسر نہیں لیکن اس شہر کی کتنی ہی عمارتیں ہیں جو اس شہر کی پہچان ہیں۔ شاہی قلعہ شاہی مسجد اور نہ جانے کتنی عمارتیں جو لاہور سے اور لاہور ان سے پہچانا جاتا ہے۔ ہم نے ان تاریخی عمارتوں کی حفاظت نہیں کی لیکن اب بھی ان کے حسن میں جتنا کچھ باقی ہے وہ تاریخ کے لیے بہت ہے۔
اسی لاہور کے شالا مار باغ میں ملک غلام محمد کی طرف سے کسی غیر ملکی شخصیت کو کھانا دیا جاتا تھا، طے یہ ہوا کہ دیوار گرا کر ان کی کار سیدھی کھانے کی میز تک چلی جائے۔ اس زمانے میں محکمہ آثار قدیمہ کا ایک سربراہ بڑا حساس تھا اس نے اعلان کیا کہ میری لاش پر یہ گاڑی چل کر اس باغ کے اندر جائے گی۔ پروگرام منسوخ ہوا لیکن نہ معلوم کسی نے اس افسر سے باز پرس کی جس کی تجویز پر مہمان خصوصی کی گاڑی اندر جا رہی تھی۔