ایکایک دو غلطیاں
-3سپرنٹ‘ لانگ دوڑ‘ شٹل رن‘ بل ٹریننگ‘ بیلون پش اپ اور سیڑھیوں پر ڈبل اسٹیپ شامل ہیں
KARACHI:
آج کے ایکسپریس کے کھیلوں کے صفحے پر ایک بہت دلچسپ خبر ہے جس کی مرکزی اور ذیلی سرخیاں کچھ اس طرح سے ہیں۔
-1 کاکول کیمپ۔ سخت ٹریننگ نے کھلاڑیوں کے پسینے چھڑا دیے
(بائی دا وے چھکے چھڑانا تو سنا تھا یہ پسینے چھڑانا کیا ہوتا ہے؟)
-2 ٹیسٹ میں فیل ہونے والوں کے لیے پلان تیار۔ صبح7بجے سے ایک بجے تک خصوصی مشقیں
-3سپرنٹ' لانگ دوڑ' شٹل رن' بل ٹریننگ' بیلون پش اپ اور سیڑھیوں پر ڈبل اسٹیپ شامل ہیں۔ اب یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس میں ''دلچسپ'' بات کیا ہے؟ اگر میں نے کل ہی رات پی ٹی وی کا اسپورٹس پروگرام ''گیم آن ہے'' نہ دیکھا ہوتا تو شاید میں اس کا مکمل اور موثر جواب نہ دے پاتا، سو شکریہ اس پروگرام کے میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز کا جس نے لاکھوں ناظرین کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اس مسئلے کے اس پہلو سے آگاہ کیا جو انتہائی اہم ہے اور جس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے اور وہ ہے ہر کھلاڑی کی ضرورت کے مطابق اس کے جسمانی مسلز کی خصوصی تیاری اور ان کی مسلسل دیکھ بھال کہ بظاہر گیارہ کھلاڑیوں میں اپر' مڈل اورلوئر آرڈر کے بیٹسمین' فاسٹ اور سلو بالر اور ایک وکٹ کیپر شامل ہوتا ہے اور یہ سب اپنے اپنے کام کے علاوہ فیلڈنگ بھی کرتے ہیں لیکن ہر ایک کی جسمانی ساخت میں بعض مخصوص مسلز کی حد تک واضح فرق ہوتا ہے۔
جس کا براہ راست تعلق ان کے بالنگ اور بیٹنگ اسٹائل اور فیلڈنگ پوزیشن سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نعمان کے ساتھ سابق ٹیسٹ بیٹسمین محمد وسیم اور بے مثال آف سپنر ثقلین مشتاق بھی گفتگو میں شامل تھے، دونوں نے اپنے اپنے کرکٹ کیرئیر اور فٹ نس مسائل کے حوالے سے بہت دلچسپ اور خیال افروز باتیں کیں جس میں ''گوڈوں'' یعنی گھٹنوں کی خرابی کا بہت ذکر رہا اور وقار یونس اور شعیب اختر سے لے کر حال ہی میں خراب ہونے والے یاسر شاہ اورمحمد حفیظ کے گھٹنوں کی خرابی اور ان کی وجوہات کی میڈیکل حوالے سے تفصیلات کے ساتھ ساتھ کرکٹ بورڈ کے مقرر کردہ بعض میڈیکل ایکسپرٹس اور فزیکل ٹرینرز کے وہ کارنامے بھی سامنے آئے جن کی وجہ سے کئی انتہائی باصلاحیت کھلاڑیوں کے کیرئیر وقت سے پہلے ختم ہو گئے۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ کھیل کے لیے جس جسمانی فٹ نس اور متوازن خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اس کا اہتمام کلب' ڈویژن اور فرسٹ کلاس کرکٹ تو کیا ٹیسٹ کھلاڑیوں کے لیے بھی نہیں کیا جاتا، کسی مخصوص کھلاڑی بالخصوص فاسٹ بالرز کی کمر پر ان بالنگ ایکشن کی کسی خرابی یا ضرورت سے زیادہ سٹریس کی وجہ سے کیا اثر پڑ سکتا ہے اس پر کسی نے بھی غور کرنے کی زحمت نہیں کی۔ 1960 ء کے دورہ بھارت کے دوران ممبئی ٹیسٹ میں ابھرتے ہوئے فاسٹ بالر محمد فاروق سے ساٹھ سے زیادہ اوورز کرائے گئے۔
جس نے اس کی کمر کا ایسا ستیاناس کیا کہ اب شاید اس کا نام بھی کسی کو یاد نہ ہو، کچھ ایسا ہی معاملہ محمد زاہد کے ساتھ ہوا اور اسی سے ملتی جلتی کہانی شعیب اختر کے ساتھ دہرائی گئی جس نے ٹیکوں' دواؤں اور جوڑوں سے پانی نکلوا نکلوا کر باقی دونوں کی نسبت زیادہ وقت تو نکال لیا لیکن بورڈ اور میڈیا کا تعلق صرف اس کے غیرذمے دارانہ بیانات اور غیر کھلاڑیانہ حرکات و سکنات تک ہی محدود رہا جب کہ بقول ثقلین مشتاق بعض دفعہ اس کو مجبور کر کے ایسے میچوں میں بھی کھلایا گیا جب وہ ٹھیک طرح سے چلنے کے بھی قابل نہیں تھا اور اس کے گھٹنے اور ٹخنے اپنے اصل سے دگنے سائز کے ہو رہے تھے، خود ثقلین کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ دونوں مہمانوں نے یہ بھی بتایا کہ فرسٹ کلاس کی سطح کے میچز کھیلنے کے لیے انھیں جس طرح کی ٹرانسپورٹ، رہائش اور خوراک دی جاتی تھی وہ اپنی جگہ پر ''صحت دشمن'' تھی اور انھیں جو ڈیلی الاؤنس منتظمین کی ہیرا پھیریوں کے بعد ملتا تھا وہ اس قدر کم ہوتا تھا کہ اس سے سستی اور عام طور پر مضر صحت خوراک کے سوا وہ کچھ کھا ہی نہیں سکتے تھے۔
گزشتہ چند برسوں میں کھلاڑیوں کے معاوضے اور ذرایع آمدن تو کسی حد تک بڑھے ہیں لیکن کھیل کے لیے جس جسمانی فٹ نس کی ضرورت ہوتی ہے وہ اب بھی زیادہ تر ''کاغذی کارروائی'' تک ہی محدود ہے جس کا تازہ تر ثبوت یاسر شاہ اور محمد حفیظ کے گھٹنوں سمیت انگلینڈ کے دورے کے لیے ابتدائی طور پر چنے گئے 35 کھلاڑیوں میں تقریباً چھ کو لاحق مختلف قسم کی انجریز ہیں۔
فاسٹ بالرز میں سے عمر گل' جنید خان' وہاب ریاض' سہیل خان' راحت علی مکمل طور پر فٹ نہیں ہیں جب کہ سپنرز میں سے یاسر شاہ' ذوالفقار بابر اور نوجوان عمار وسیم بھی مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر نعمان نیاز کی گفتگو سے پتہ چلا کہ ان سب انجریز کی اصل وجہ ان کھلاڑیوں کے زیادہ استعمال ہونے والے مسلز سے ملحقہ مسائل اور ان کی صورت حال ہے جو میڈیکل حوالے سے ان کے مطلوبہ مسلز کی مسلسل دیکھ بھال اور ٹریننگ کی سطح پر جسم کے مختلف حصوں پر پڑنے والے سٹریس میں وہ توازن چاہتے ہیں جس کی طرف سے فی الوقت مجرمانہ غفلت برتی جا رہی ہے۔
میں اس بات کی اس لیے بھی تائید کرتا ہوں کہ یونیورسٹی کے زمانے تک میں خود بطور ایک آف سپنر اچھی سطح پر کرکٹ کھیلا ہوں اور میں نے امیر الہی اور ذوالفقار احمد سے لے کر حسیب احسن نذیر جونیئر' توصیف احمد' ثقلین مشتاق' سعید اجمل اور محمد حفیظ سمیت بہت سے آف سپنرز کے بالنگ اسٹائل کو غور سے دیکھا اور سمجھا ہے بلاشبہ ان سب کے اسٹارٹ' بال کو گرپ کرنے کے انداز' ڈلیوری اسٹرائڈ' بال کو انگلیوں سے ریلیز کرنے اور فالو اپ کے انداز میں واضح فرق ہے اور اس فرق کی وجہ سے ان کے بعض مسلز کم اور بعض زیادہ استعمال ہوتے ہیں ان میں سے کچھ کا بالنگ ایکشن قدرتی طور پر ایسا ہے جو ان کے جسم کی مخصوص فزیک کے مطابق ان کے لیے آسان تو ہے مگر مجموعی طور پر زیادہ موزوں نہیں ہے، اگر ابتدائی سطح پر یعنی ان کے متعلقہ مسلز کی کوئی خاص شکل بننے سے پہلے اس کا تجزیہ کر لیا جاتا تو یہ باصلاحیت کھلاڑی مستقبل میں کئی مسائل سے بچ سکتے تھے۔
آسٹریلیا' ساؤتھ افریقہ' انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں اسکولوں اور اکیڈیمیز کی سطح پر بہترین اسپورٹس ڈاکٹر اور فزیوٹرینرز ان چیزوں کو نہ صرف چیک کرتے ہیں بلکہ بقیہ اسٹاف کے ساتھ مل کر اس نوجوان کھلاڑی کے ایکشن میں شروع سے ہی کچھ ایسی تبدیلیاں کرا دیتے ہیں جو اس کے مطلوبہ مسلز کی ساخت اور تعمیر سے ہم آہنگ ہوں اور یوں وہ لمبے عرصے تک کھیل سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے ماضی قریب تک ہمارے کرکٹ بورڈ کے مہربانوں نے اس طرف توجہ نہیں دی اور مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اب بھی ان کی توجہ صرف ان کھلاڑیوں تک محدود ہے جو کسی نہ کسی طرح ملکی سطح پر نمایندگی کے قابل ہو گئے ہیں جب کہ اس سطح پر پہنچنے سے قبل خوراک کی کمی' ہڈیوں کی کمزوری' تعلیم اور ڈسپلن کے مسائل' لالچ اور خوف کی کشاکش اور جسمانی مسلز کی تعمیر کی حد تک وہ بعض ایسے ذہنی اور جسمانی رویوں میں فکس Fix ہو چکے ہوتے ہیں جن میں تبدیلی اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہو جاتی ہے ۔
اس پر مستزاد اس قسم کے فٹ نس ٹریننگ کیمپس میں جن میں ہنگامی بنیادوں پر Crash Courses کے ذریعے مہینوں کا کام دنوں میں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جب کہ انسانی بدن کی کیمسٹری ایسے تجربات سے مطابقت نہیں رکھتی اور معاملہ سدھرنے کے بجائے مزید بگڑ جاتا ہے ۔کچھ اسی قسم کا کام آج کل ایبٹ آباد میں قائم فٹ نس اور ٹریننگ کیمپ میں بھی کیا جا رہا ہے ۔
جہاں فوجی انسٹرکٹر ان کھلاڑیوں کو فزیکل ٹریننگ کروا رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ٹریننگ ایک فوجی جوان یا نوجوان افسر کے لیے بے حد ضروری اور کار آمد ہے کیونکہ یہ وضع ہی ان کو میدان جنگ میں جسمانی طور پر بہترین حالت میں رکھنے کے لیے کی گئی ہے لیکن ہر کھیل کے لیے عمومی سے زیادہ ایسی خصوصی مشقوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان انسانی مسلز کی طاقت اور افزائش کے لیے کام کرتی ہیں جن کا استعمال متعلقہ کھیل میں زیادہ ہوتا ہے، مناسب طریقہ یہی ہے کہ یہ کام کم از کم انڈر 15 کی سطح سے شروع کیا جائے اور سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ ان ٹرک ڈرائیوروں والا رویہ نہ رکھا جائے جو لیٹ نکالنے کے لیے ٹرک ہی کو کسی دیوار میں مار دیتے ہیں۔
آج کے ایکسپریس کے کھیلوں کے صفحے پر ایک بہت دلچسپ خبر ہے جس کی مرکزی اور ذیلی سرخیاں کچھ اس طرح سے ہیں۔
-1 کاکول کیمپ۔ سخت ٹریننگ نے کھلاڑیوں کے پسینے چھڑا دیے
(بائی دا وے چھکے چھڑانا تو سنا تھا یہ پسینے چھڑانا کیا ہوتا ہے؟)
-2 ٹیسٹ میں فیل ہونے والوں کے لیے پلان تیار۔ صبح7بجے سے ایک بجے تک خصوصی مشقیں
-3سپرنٹ' لانگ دوڑ' شٹل رن' بل ٹریننگ' بیلون پش اپ اور سیڑھیوں پر ڈبل اسٹیپ شامل ہیں۔ اب یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس میں ''دلچسپ'' بات کیا ہے؟ اگر میں نے کل ہی رات پی ٹی وی کا اسپورٹس پروگرام ''گیم آن ہے'' نہ دیکھا ہوتا تو شاید میں اس کا مکمل اور موثر جواب نہ دے پاتا، سو شکریہ اس پروگرام کے میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز کا جس نے لاکھوں ناظرین کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اس مسئلے کے اس پہلو سے آگاہ کیا جو انتہائی اہم ہے اور جس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے اور وہ ہے ہر کھلاڑی کی ضرورت کے مطابق اس کے جسمانی مسلز کی خصوصی تیاری اور ان کی مسلسل دیکھ بھال کہ بظاہر گیارہ کھلاڑیوں میں اپر' مڈل اورلوئر آرڈر کے بیٹسمین' فاسٹ اور سلو بالر اور ایک وکٹ کیپر شامل ہوتا ہے اور یہ سب اپنے اپنے کام کے علاوہ فیلڈنگ بھی کرتے ہیں لیکن ہر ایک کی جسمانی ساخت میں بعض مخصوص مسلز کی حد تک واضح فرق ہوتا ہے۔
جس کا براہ راست تعلق ان کے بالنگ اور بیٹنگ اسٹائل اور فیلڈنگ پوزیشن سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نعمان کے ساتھ سابق ٹیسٹ بیٹسمین محمد وسیم اور بے مثال آف سپنر ثقلین مشتاق بھی گفتگو میں شامل تھے، دونوں نے اپنے اپنے کرکٹ کیرئیر اور فٹ نس مسائل کے حوالے سے بہت دلچسپ اور خیال افروز باتیں کیں جس میں ''گوڈوں'' یعنی گھٹنوں کی خرابی کا بہت ذکر رہا اور وقار یونس اور شعیب اختر سے لے کر حال ہی میں خراب ہونے والے یاسر شاہ اورمحمد حفیظ کے گھٹنوں کی خرابی اور ان کی وجوہات کی میڈیکل حوالے سے تفصیلات کے ساتھ ساتھ کرکٹ بورڈ کے مقرر کردہ بعض میڈیکل ایکسپرٹس اور فزیکل ٹرینرز کے وہ کارنامے بھی سامنے آئے جن کی وجہ سے کئی انتہائی باصلاحیت کھلاڑیوں کے کیرئیر وقت سے پہلے ختم ہو گئے۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ کھیل کے لیے جس جسمانی فٹ نس اور متوازن خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اس کا اہتمام کلب' ڈویژن اور فرسٹ کلاس کرکٹ تو کیا ٹیسٹ کھلاڑیوں کے لیے بھی نہیں کیا جاتا، کسی مخصوص کھلاڑی بالخصوص فاسٹ بالرز کی کمر پر ان بالنگ ایکشن کی کسی خرابی یا ضرورت سے زیادہ سٹریس کی وجہ سے کیا اثر پڑ سکتا ہے اس پر کسی نے بھی غور کرنے کی زحمت نہیں کی۔ 1960 ء کے دورہ بھارت کے دوران ممبئی ٹیسٹ میں ابھرتے ہوئے فاسٹ بالر محمد فاروق سے ساٹھ سے زیادہ اوورز کرائے گئے۔
جس نے اس کی کمر کا ایسا ستیاناس کیا کہ اب شاید اس کا نام بھی کسی کو یاد نہ ہو، کچھ ایسا ہی معاملہ محمد زاہد کے ساتھ ہوا اور اسی سے ملتی جلتی کہانی شعیب اختر کے ساتھ دہرائی گئی جس نے ٹیکوں' دواؤں اور جوڑوں سے پانی نکلوا نکلوا کر باقی دونوں کی نسبت زیادہ وقت تو نکال لیا لیکن بورڈ اور میڈیا کا تعلق صرف اس کے غیرذمے دارانہ بیانات اور غیر کھلاڑیانہ حرکات و سکنات تک ہی محدود رہا جب کہ بقول ثقلین مشتاق بعض دفعہ اس کو مجبور کر کے ایسے میچوں میں بھی کھلایا گیا جب وہ ٹھیک طرح سے چلنے کے بھی قابل نہیں تھا اور اس کے گھٹنے اور ٹخنے اپنے اصل سے دگنے سائز کے ہو رہے تھے، خود ثقلین کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ دونوں مہمانوں نے یہ بھی بتایا کہ فرسٹ کلاس کی سطح کے میچز کھیلنے کے لیے انھیں جس طرح کی ٹرانسپورٹ، رہائش اور خوراک دی جاتی تھی وہ اپنی جگہ پر ''صحت دشمن'' تھی اور انھیں جو ڈیلی الاؤنس منتظمین کی ہیرا پھیریوں کے بعد ملتا تھا وہ اس قدر کم ہوتا تھا کہ اس سے سستی اور عام طور پر مضر صحت خوراک کے سوا وہ کچھ کھا ہی نہیں سکتے تھے۔
گزشتہ چند برسوں میں کھلاڑیوں کے معاوضے اور ذرایع آمدن تو کسی حد تک بڑھے ہیں لیکن کھیل کے لیے جس جسمانی فٹ نس کی ضرورت ہوتی ہے وہ اب بھی زیادہ تر ''کاغذی کارروائی'' تک ہی محدود ہے جس کا تازہ تر ثبوت یاسر شاہ اور محمد حفیظ کے گھٹنوں سمیت انگلینڈ کے دورے کے لیے ابتدائی طور پر چنے گئے 35 کھلاڑیوں میں تقریباً چھ کو لاحق مختلف قسم کی انجریز ہیں۔
فاسٹ بالرز میں سے عمر گل' جنید خان' وہاب ریاض' سہیل خان' راحت علی مکمل طور پر فٹ نہیں ہیں جب کہ سپنرز میں سے یاسر شاہ' ذوالفقار بابر اور نوجوان عمار وسیم بھی مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر نعمان نیاز کی گفتگو سے پتہ چلا کہ ان سب انجریز کی اصل وجہ ان کھلاڑیوں کے زیادہ استعمال ہونے والے مسلز سے ملحقہ مسائل اور ان کی صورت حال ہے جو میڈیکل حوالے سے ان کے مطلوبہ مسلز کی مسلسل دیکھ بھال اور ٹریننگ کی سطح پر جسم کے مختلف حصوں پر پڑنے والے سٹریس میں وہ توازن چاہتے ہیں جس کی طرف سے فی الوقت مجرمانہ غفلت برتی جا رہی ہے۔
میں اس بات کی اس لیے بھی تائید کرتا ہوں کہ یونیورسٹی کے زمانے تک میں خود بطور ایک آف سپنر اچھی سطح پر کرکٹ کھیلا ہوں اور میں نے امیر الہی اور ذوالفقار احمد سے لے کر حسیب احسن نذیر جونیئر' توصیف احمد' ثقلین مشتاق' سعید اجمل اور محمد حفیظ سمیت بہت سے آف سپنرز کے بالنگ اسٹائل کو غور سے دیکھا اور سمجھا ہے بلاشبہ ان سب کے اسٹارٹ' بال کو گرپ کرنے کے انداز' ڈلیوری اسٹرائڈ' بال کو انگلیوں سے ریلیز کرنے اور فالو اپ کے انداز میں واضح فرق ہے اور اس فرق کی وجہ سے ان کے بعض مسلز کم اور بعض زیادہ استعمال ہوتے ہیں ان میں سے کچھ کا بالنگ ایکشن قدرتی طور پر ایسا ہے جو ان کے جسم کی مخصوص فزیک کے مطابق ان کے لیے آسان تو ہے مگر مجموعی طور پر زیادہ موزوں نہیں ہے، اگر ابتدائی سطح پر یعنی ان کے متعلقہ مسلز کی کوئی خاص شکل بننے سے پہلے اس کا تجزیہ کر لیا جاتا تو یہ باصلاحیت کھلاڑی مستقبل میں کئی مسائل سے بچ سکتے تھے۔
آسٹریلیا' ساؤتھ افریقہ' انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں اسکولوں اور اکیڈیمیز کی سطح پر بہترین اسپورٹس ڈاکٹر اور فزیوٹرینرز ان چیزوں کو نہ صرف چیک کرتے ہیں بلکہ بقیہ اسٹاف کے ساتھ مل کر اس نوجوان کھلاڑی کے ایکشن میں شروع سے ہی کچھ ایسی تبدیلیاں کرا دیتے ہیں جو اس کے مطلوبہ مسلز کی ساخت اور تعمیر سے ہم آہنگ ہوں اور یوں وہ لمبے عرصے تک کھیل سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے ماضی قریب تک ہمارے کرکٹ بورڈ کے مہربانوں نے اس طرف توجہ نہیں دی اور مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اب بھی ان کی توجہ صرف ان کھلاڑیوں تک محدود ہے جو کسی نہ کسی طرح ملکی سطح پر نمایندگی کے قابل ہو گئے ہیں جب کہ اس سطح پر پہنچنے سے قبل خوراک کی کمی' ہڈیوں کی کمزوری' تعلیم اور ڈسپلن کے مسائل' لالچ اور خوف کی کشاکش اور جسمانی مسلز کی تعمیر کی حد تک وہ بعض ایسے ذہنی اور جسمانی رویوں میں فکس Fix ہو چکے ہوتے ہیں جن میں تبدیلی اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہو جاتی ہے ۔
اس پر مستزاد اس قسم کے فٹ نس ٹریننگ کیمپس میں جن میں ہنگامی بنیادوں پر Crash Courses کے ذریعے مہینوں کا کام دنوں میں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جب کہ انسانی بدن کی کیمسٹری ایسے تجربات سے مطابقت نہیں رکھتی اور معاملہ سدھرنے کے بجائے مزید بگڑ جاتا ہے ۔کچھ اسی قسم کا کام آج کل ایبٹ آباد میں قائم فٹ نس اور ٹریننگ کیمپ میں بھی کیا جا رہا ہے ۔
جہاں فوجی انسٹرکٹر ان کھلاڑیوں کو فزیکل ٹریننگ کروا رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ٹریننگ ایک فوجی جوان یا نوجوان افسر کے لیے بے حد ضروری اور کار آمد ہے کیونکہ یہ وضع ہی ان کو میدان جنگ میں جسمانی طور پر بہترین حالت میں رکھنے کے لیے کی گئی ہے لیکن ہر کھیل کے لیے عمومی سے زیادہ ایسی خصوصی مشقوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان انسانی مسلز کی طاقت اور افزائش کے لیے کام کرتی ہیں جن کا استعمال متعلقہ کھیل میں زیادہ ہوتا ہے، مناسب طریقہ یہی ہے کہ یہ کام کم از کم انڈر 15 کی سطح سے شروع کیا جائے اور سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ ان ٹرک ڈرائیوروں والا رویہ نہ رکھا جائے جو لیٹ نکالنے کے لیے ٹرک ہی کو کسی دیوار میں مار دیتے ہیں۔