ریٹینل ڈیٹیچمنٹ Retinal Detachment
بَروقت علاج سے بصارت کی کمی اور دھندلے پن کا یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے
آنکھ ہمارے جسم کا سب سے اہم اور حساس عضو ہے، جسے بہت زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات آنکھوں کا معمولی مسئلہ بھی شدید تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔ عام بیماریوں کے علاوہ مختلف دوسرے امراض بھی بصارت کی کمی، دھندلے پن یا بینائی ختم ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی، گرد وغبار اور تیز روشنی سے بھی ہماری آنکھوں پر بُرا اثر پڑسکتا ہے۔
عام طور پر کمپیوٹر یا ٹیلی ویژن اسکرین کے آگے بہت وقت گزارنے، دورانِ مطالعہ مناسب روشنی نہ ہونے کی وجہ سے بھی آنکھوں میں درد، جلن کا احساس اور ان سے پانی بہنے کی شکایت لاحق ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بصارت کو نقصان پہنچانے والی مختلف خطرناک بیماریوں میں سے ایک Retinal Detachment بھی ہے۔ آنکھ کے پچھلے حصّے پر موجود ایک حساس جھلّی کو ہم 'ریٹینا' (پردۂ چشم) کہتے ہیں۔ آنکھ پر پڑنے والی روشنی کے ذریعے اس پردۂ چشم پر بننے والا کسی بھی شے کا خاکہ جب دماغ کے مخصوص حصّے تک منتقل ہوجاتا ہے تو ہم اس شے کو دیکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اگر شبیہہ بنانے والا یہ پردہ (ریٹینا) اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو کوئی بھی فرد بصارت کی کمی کے ساتھ دھندلے پن کی شکایت کرسکتا ہے۔
پردۂ چشم کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا یا اس میں سوراخ ہوجانے کو طبی زبان میںRetinal Detachment کہا جاتا ہے۔ ماہرینِ امراضِ چشم کے مطابق بعض کیسز میں ایسا فرد طویل عرصے تک مکمل طور پر دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ تاہم اسے اندھا پن نہیں کہا جاسکتا۔ اس بیماری میں بصارت کی کمی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ریٹینا اپنی جگہ سے کس حد تک ہٹا ہے۔ پردۂ چشم کے اپنی جگہ سے ہٹ جانے کے علاوہ اس میں سوراخ ہو جانا بھی اسی بیماری کی ایک علامت ہے۔ بصارت کی کمی یا دھندلا نظر آنے کی صورت میں فوراً کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ فوری اور بروقت علاج نہ کیا جائے تو بصارت کی کمی اور دھندلے پن کا یہ مسئلہ مستقل بھی ہوسکتا ہے۔
اس بیماری کے دوران متأثرہ فرد کو کسی قسم کا درد محسوس نہیں ہوتا، البتہ ریٹینا کے متأثر ہونے کی چند علامات ضرور سامنے آتی ہیں۔ ان میں دھندلا نظر آنا، آنکھ کا تیز روشنی برداشت نہ کرپانا، کسی بھی منظر یا اشیا کا رنگ گہرا نظر آنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اشیا اپنے سائز سے بڑی یا چھوٹی نظر آسکتی ہیں۔ طبی محققین نے آنکھوں کے اس مسئلے کی تین اقسام بیان کی ہیں۔
ان میں پہلی قسم کو ماہرین آنکھوں کے لیے نہایت خطرناک قرار دیتے ہیں۔ اسے طبی زبان میں Rhegmatogenous کہا جاتا ہے۔ مرض کی اس حالت میں ریٹینا اپنی جگہ نہیں چھوڑتا ہٹتا بلکہ اس نہایت حساس جھلّی میں سوراخ ہونے لگتے ہیں اور وہ پھٹنے لگتا ہے۔ آنکھوں میں قدرتی طور پر موجود مخصوص مواد ریٹینا میں ہونے والے سوراخوں سے اس پردے کے پچھلے حصّے کی طرف خارج ہونے لگتا ہے۔ بعض اوقات اس مواد کے نکلنے سے بننے والے دباؤ کی وجہ سے ریٹینا اپنی اصل جگہ سے سرکنے لگتا ہے اور بینائی کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کی دوسری حالت Tractional retinal detachment کہلاتی ہے جس میں آنکھوں میں موجود ٹشوز ریٹینا کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔
اس طرح وہ اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے۔ تاہم اس مسئلے سامنا زیادہ تر ذیابیطس کے مریض کرتے ہیں۔ اس بیماری کی تیسری حالت کو طبی ماہرین نے Exudative detachment کا نام دیا ہے۔ اس میں نہ تو ریٹینا میں سوراخ ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ پھٹتا ہے بلکہ اس پر سوجن آجاتی ہے۔ اس سوجن کی وجہ سے ریٹینا کے پیچھے خون کی نہایت باریک نالیوں کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں بینائی سے متعلق مسائل جنم لیتے ہیں۔ Retinal detachment کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ زیادہ تر چالیس سال یا اس سے زائد عمر کے افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جن کی قریب کی نظر بہت زیادہ کم زور ہوتی ہے، اس بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ یہ مسئلہ موروثی بھی ہوسکتا ہے۔
اس بیماری کی تشخیص کے لیے ماہر ڈاکٹر بصارت سے متعلق عام ٹیسٹ کے ساتھ آئی پریشر، آنکھوں کی ساخت، کلر تھراپی اور مریض کی مکمل طبی کیفیات کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریٹینا کے ذریعے دماغ کو بھیجے جانے والے سگنلز کا بھی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ایسے مریض کی آنکھوں میں خون کی روانی کا بھی ٹیسٹ بھی کرایا جاتا ہے۔
بعض کیسز میں پردۂ چشم کو اس کی اصل جگہ پر لانے اور جوڑنے کے لیے ڈاکٹروں کو سرجری کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اگر مسئلہ زیادہ پیچیدہ نہ ہو تو ڈاکٹر مخصوص طریقۂ علاج تک محدود رہتے ہیں۔ اگر کسی مریض کا پردۂ چشم سوراخ ہوجانے کے باوجود اپنی جگہ پر قائم رہے تو اس کے علاج کے لیے ڈاکٹرز لیزر تھراپی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طریقے میں لیزر کی مدد سے پھٹے ہوئے حصے کو جلانے کے بعد خراب حصّوں کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔
ریٹینا کو اس کے اصل مقام پر واپس لانے کے لیے آنکھوں میں گیس ببلز بھی چھوڑے جاتے ہیں۔ جب پردۂ چشم اپنی جگہ پہنچ جاتا ہے تو ڈاکٹر اس میں پڑ جانے والے سوراخوں کو بھر دیتے ہیں۔ اگر ریٹنا میں پڑنے والے سوراخ زیادہ بڑے ہوں تو مریض کو بے ہوش کرکے سرجری کی جاتی ہے۔ اس عمل میں آنکھ کے خراب ٹشوز اور دوسرا مواد بھی نکالا جاتا ہے۔ اس کے بعد ریٹینا کو اس کے اصل مقام پر دوبارہ لگا دیا جاتا ہے۔
اس مرض کا فوری اور بروقت علاج بینائی کے مسائل سے نجات دلا دیتا ہے۔ ذیابیطس اور دیگر خطرناک امراض میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ وہ سال میں دو مرتبہ اپنی آنکھوں کا معائنہ ضرور کروائیں تاکہ بصارت سے متعلق کسی بھی مسئلے کی علامات ظاہر ہونے پر فوری علاج شروع کیا جاسکے۔ اسی طرح عام زندگی میں ان چند باتوں کا خیال رکھنے سے آنکھوں کی حفاظت زیادہ بہتر انداز سے کی جاسکتی ہے۔
موجودہ دور میں کمپیوٹر اور موبائل فونز کا استعمال عام ہے۔ اسی طرح ہم کئی گھنٹے ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بھی گزارتے ہیں اور بعض اوقات آنکھوں میں جلن، معمولی درد کے احساس کے ساتھ ان سے پانی بہنے کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر یا ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے سے تھکن کا احساس ہونے لگے تو فوراً اس سے دور ہو جائیں۔ اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارنا بھی اس مسئلے سے نجات دلا سکتا ہے۔
آنکھوں اور اسکرین کے درمیان مناسب فاصلہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح لکھنے پڑھنے کے دوران مناسب روشنی ضروری ہے۔ دورانِ مطالعہ آنکھوں اور کتاب کے درمیان ڈیڑھ فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ پڑھنے لکھنے یا کسی دوسرے کام کے دوران وقفے وقفے سے ایک آدھ منٹ تک آنکھیں بند رکھیں۔ یہ آنکھوں کو آرام دینے کا ایک طریقہ ہے۔ آنکھیں دھول مٹی سے بھی متأثر ہوتی ہیں، اس لیے انہیں روزانہ صاف پانی سے دھونا چاہیے۔
عام طور پر کمپیوٹر یا ٹیلی ویژن اسکرین کے آگے بہت وقت گزارنے، دورانِ مطالعہ مناسب روشنی نہ ہونے کی وجہ سے بھی آنکھوں میں درد، جلن کا احساس اور ان سے پانی بہنے کی شکایت لاحق ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بصارت کو نقصان پہنچانے والی مختلف خطرناک بیماریوں میں سے ایک Retinal Detachment بھی ہے۔ آنکھ کے پچھلے حصّے پر موجود ایک حساس جھلّی کو ہم 'ریٹینا' (پردۂ چشم) کہتے ہیں۔ آنکھ پر پڑنے والی روشنی کے ذریعے اس پردۂ چشم پر بننے والا کسی بھی شے کا خاکہ جب دماغ کے مخصوص حصّے تک منتقل ہوجاتا ہے تو ہم اس شے کو دیکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اگر شبیہہ بنانے والا یہ پردہ (ریٹینا) اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو کوئی بھی فرد بصارت کی کمی کے ساتھ دھندلے پن کی شکایت کرسکتا ہے۔
پردۂ چشم کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا یا اس میں سوراخ ہوجانے کو طبی زبان میںRetinal Detachment کہا جاتا ہے۔ ماہرینِ امراضِ چشم کے مطابق بعض کیسز میں ایسا فرد طویل عرصے تک مکمل طور پر دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ تاہم اسے اندھا پن نہیں کہا جاسکتا۔ اس بیماری میں بصارت کی کمی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ریٹینا اپنی جگہ سے کس حد تک ہٹا ہے۔ پردۂ چشم کے اپنی جگہ سے ہٹ جانے کے علاوہ اس میں سوراخ ہو جانا بھی اسی بیماری کی ایک علامت ہے۔ بصارت کی کمی یا دھندلا نظر آنے کی صورت میں فوراً کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ فوری اور بروقت علاج نہ کیا جائے تو بصارت کی کمی اور دھندلے پن کا یہ مسئلہ مستقل بھی ہوسکتا ہے۔
اس بیماری کے دوران متأثرہ فرد کو کسی قسم کا درد محسوس نہیں ہوتا، البتہ ریٹینا کے متأثر ہونے کی چند علامات ضرور سامنے آتی ہیں۔ ان میں دھندلا نظر آنا، آنکھ کا تیز روشنی برداشت نہ کرپانا، کسی بھی منظر یا اشیا کا رنگ گہرا نظر آنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اشیا اپنے سائز سے بڑی یا چھوٹی نظر آسکتی ہیں۔ طبی محققین نے آنکھوں کے اس مسئلے کی تین اقسام بیان کی ہیں۔
ان میں پہلی قسم کو ماہرین آنکھوں کے لیے نہایت خطرناک قرار دیتے ہیں۔ اسے طبی زبان میں Rhegmatogenous کہا جاتا ہے۔ مرض کی اس حالت میں ریٹینا اپنی جگہ نہیں چھوڑتا ہٹتا بلکہ اس نہایت حساس جھلّی میں سوراخ ہونے لگتے ہیں اور وہ پھٹنے لگتا ہے۔ آنکھوں میں قدرتی طور پر موجود مخصوص مواد ریٹینا میں ہونے والے سوراخوں سے اس پردے کے پچھلے حصّے کی طرف خارج ہونے لگتا ہے۔ بعض اوقات اس مواد کے نکلنے سے بننے والے دباؤ کی وجہ سے ریٹینا اپنی اصل جگہ سے سرکنے لگتا ہے اور بینائی کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کی دوسری حالت Tractional retinal detachment کہلاتی ہے جس میں آنکھوں میں موجود ٹشوز ریٹینا کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔
اس طرح وہ اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے۔ تاہم اس مسئلے سامنا زیادہ تر ذیابیطس کے مریض کرتے ہیں۔ اس بیماری کی تیسری حالت کو طبی ماہرین نے Exudative detachment کا نام دیا ہے۔ اس میں نہ تو ریٹینا میں سوراخ ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ پھٹتا ہے بلکہ اس پر سوجن آجاتی ہے۔ اس سوجن کی وجہ سے ریٹینا کے پیچھے خون کی نہایت باریک نالیوں کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں بینائی سے متعلق مسائل جنم لیتے ہیں۔ Retinal detachment کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ زیادہ تر چالیس سال یا اس سے زائد عمر کے افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جن کی قریب کی نظر بہت زیادہ کم زور ہوتی ہے، اس بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ یہ مسئلہ موروثی بھی ہوسکتا ہے۔
اس بیماری کی تشخیص کے لیے ماہر ڈاکٹر بصارت سے متعلق عام ٹیسٹ کے ساتھ آئی پریشر، آنکھوں کی ساخت، کلر تھراپی اور مریض کی مکمل طبی کیفیات کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریٹینا کے ذریعے دماغ کو بھیجے جانے والے سگنلز کا بھی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ایسے مریض کی آنکھوں میں خون کی روانی کا بھی ٹیسٹ بھی کرایا جاتا ہے۔
بعض کیسز میں پردۂ چشم کو اس کی اصل جگہ پر لانے اور جوڑنے کے لیے ڈاکٹروں کو سرجری کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اگر مسئلہ زیادہ پیچیدہ نہ ہو تو ڈاکٹر مخصوص طریقۂ علاج تک محدود رہتے ہیں۔ اگر کسی مریض کا پردۂ چشم سوراخ ہوجانے کے باوجود اپنی جگہ پر قائم رہے تو اس کے علاج کے لیے ڈاکٹرز لیزر تھراپی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طریقے میں لیزر کی مدد سے پھٹے ہوئے حصے کو جلانے کے بعد خراب حصّوں کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔
ریٹینا کو اس کے اصل مقام پر واپس لانے کے لیے آنکھوں میں گیس ببلز بھی چھوڑے جاتے ہیں۔ جب پردۂ چشم اپنی جگہ پہنچ جاتا ہے تو ڈاکٹر اس میں پڑ جانے والے سوراخوں کو بھر دیتے ہیں۔ اگر ریٹنا میں پڑنے والے سوراخ زیادہ بڑے ہوں تو مریض کو بے ہوش کرکے سرجری کی جاتی ہے۔ اس عمل میں آنکھ کے خراب ٹشوز اور دوسرا مواد بھی نکالا جاتا ہے۔ اس کے بعد ریٹینا کو اس کے اصل مقام پر دوبارہ لگا دیا جاتا ہے۔
اس مرض کا فوری اور بروقت علاج بینائی کے مسائل سے نجات دلا دیتا ہے۔ ذیابیطس اور دیگر خطرناک امراض میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ وہ سال میں دو مرتبہ اپنی آنکھوں کا معائنہ ضرور کروائیں تاکہ بصارت سے متعلق کسی بھی مسئلے کی علامات ظاہر ہونے پر فوری علاج شروع کیا جاسکے۔ اسی طرح عام زندگی میں ان چند باتوں کا خیال رکھنے سے آنکھوں کی حفاظت زیادہ بہتر انداز سے کی جاسکتی ہے۔
موجودہ دور میں کمپیوٹر اور موبائل فونز کا استعمال عام ہے۔ اسی طرح ہم کئی گھنٹے ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بھی گزارتے ہیں اور بعض اوقات آنکھوں میں جلن، معمولی درد کے احساس کے ساتھ ان سے پانی بہنے کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر یا ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے سے تھکن کا احساس ہونے لگے تو فوراً اس سے دور ہو جائیں۔ اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارنا بھی اس مسئلے سے نجات دلا سکتا ہے۔
آنکھوں اور اسکرین کے درمیان مناسب فاصلہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح لکھنے پڑھنے کے دوران مناسب روشنی ضروری ہے۔ دورانِ مطالعہ آنکھوں اور کتاب کے درمیان ڈیڑھ فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ پڑھنے لکھنے یا کسی دوسرے کام کے دوران وقفے وقفے سے ایک آدھ منٹ تک آنکھیں بند رکھیں۔ یہ آنکھوں کو آرام دینے کا ایک طریقہ ہے۔ آنکھیں دھول مٹی سے بھی متأثر ہوتی ہیں، اس لیے انہیں روزانہ صاف پانی سے دھونا چاہیے۔