دنیا کا سب سے چھوٹا انجن بنالیا گیا
نینو مشینوں کی ایجاد کے میدان میں اہم پیش رفت
نینو مشین کا تصور کئی عشرے قبل پیش کیا گیا تھا۔ اس سے مراد ایسی مشین ہے جس کی جسامت ایک یا چند ایٹموں کی جسامت کے برابر ہوتی ہے۔ نینو مشین کو انسان کے نظامِ دوران خون سے منسلک کرکے سرطان جیسی مہلک بیماریوں کے علاج کا تصور بھی پیش کیا جاچکا ہے۔ نینوٹیکنالوجی کی دریافت اور اس کے ارتقا کے بعد سائنس داں نینو مشینوں کے تصور کو حقیقت میں بدلنے کی جانب پیش رفت کررہے ہیں۔
اس ضمن میں انھوں نے خردبینی نینو انجن کی ایجاد کی صورت میں بہت اہم کام یابی حاصل کی ہے۔ یہ کارنامہ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے انجام دیا ہے۔ ان کا ڈیزائن کردہ نینو انجن کتنا چھوٹا ہے؟َ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایک میٹر کے کئی کھرب حصے کرلیے جائیں تو پھر ایک حصہ نینوانجن کی لمبائی کے مساوی ہوگا۔
انجن کی معیاری تعریف کے مطابق یہ ایک ایسی مشین ہوتی ہے جو توانائی کی کسی بھی شکل کو میکانی توانائی میں تبدیل کردیتی ہے۔ دنیا کا یہ سب سے چھوٹا انجن روشنی سے توانائی حاصل کرتے ہوئے مطلوبہ نتائج دے سکتا ہے۔ اس کی جسامت کسی انسانی خلیے سے بھی کہیں کم ہے، چناں چہ اسے خلیے میں داخل کر کے بھی مطلوبہ کام لیا جاسکتا ہے۔
مختصر ترین اور سادہ سی یہ ڈیوائس سونے کے باردار ذرات پر مشتمل ہے جنھیں ایک رال یا پولیمر جیل کے ذریعے باہم جوڑا گیا ہے۔ سائنس دانوں نے اس مشین کو actuating nano-transducers ( ANTs) کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیوائس موجودہ انجنوں یا عضلاتی خلیوں کے مقابلے میں اکائی وزن کی نسبت سو گنا زیادہ قوت فراہم کرسکتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق جب اس انجن کو لیزر کی مدد سے گرم کیا جائے تو پولیمر جیل پھیلتا ہے اور پانی خارج کرنے کے بعد سُکڑ جاتا ہے۔ پھیلنے اور سُکڑنے کے اس عمل کی وجہ سے طلائی نینوذرات گچھے کے شکل میں جُڑے رہتے ہیں۔ لیزر لائٹ سے دور کرنے پر انجن فوراً ٹھنڈا پڑجاتا ہے، اور پانی بھی اس میں ازسر نو جذب ہوجاتا ہے۔ اس حالت میں سونے کے ذرات پھیلتے ہیں اور توانائی خارج کرتے ہیں جسے کام میں لایا جاسکتا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی سے وابستہ سائنس داں اور نینو انجن کے تخلیق کاروں میں شامل ڈاکٹر وینسسلا والیف کہتے ہیں کہ ہمیں یہ معلوم ہے روشنی پانی کو گرم کرسکتی ہے، اب ہم اسے نینواسکیل کی سطح پر ایک پسٹن انجن کو چلانے کے لیے کام میں لاسکتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نینو انجن کی ایجاد میں کام یابی نینومشینوں اور روبوٹوں کے برسوں پرانے تصور کو حقیقت میں بدل سکتی ہے، اور یہ مشینیں سائنسی کہانیوں اور سائنس فکشن فلموں سے نکل کر مادّی روپ اختیار کرسکتی ہیں۔ نینو انجن کے موجدین کا دعویٰ ہے کہ یہ مشین کم لاگت سے تیار ہوسکتی ہے اور اس میں توانائی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔
نینوانجن کے استعمال کے حوالے سے ڈاکٹر وینسسلا والیف اور ان کے دیگر ساتھی کہتے ہیں کہ یہ انجن نینومشینوں کی بنیاد بن سکتا ہے جو ایک زندہ جسم کے اندر آبی ماحول میں حرکت پذیر ہوں، اور اپنے اطراف کا جائزہ لے سکیں اور معلومات اکٹھی کرسکیں۔ بہ الفاظ دیگر نینوانجن ان مشینوں کا حصہ بن سکتا ہے جو انسانی رگوں اور خلیات کے اندر داخل ہوکر مختلف بیماریوں کا سبب بننے والے جراثیم اور ان سے متأثرہ خلیوں کو ختم کرنے کا کام انجام کرسکتی ہوں۔ ان مشینوں کی تیاری سرطان جیسے مہلک امراض سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔
اس ضمن میں انھوں نے خردبینی نینو انجن کی ایجاد کی صورت میں بہت اہم کام یابی حاصل کی ہے۔ یہ کارنامہ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے انجام دیا ہے۔ ان کا ڈیزائن کردہ نینو انجن کتنا چھوٹا ہے؟َ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایک میٹر کے کئی کھرب حصے کرلیے جائیں تو پھر ایک حصہ نینوانجن کی لمبائی کے مساوی ہوگا۔
انجن کی معیاری تعریف کے مطابق یہ ایک ایسی مشین ہوتی ہے جو توانائی کی کسی بھی شکل کو میکانی توانائی میں تبدیل کردیتی ہے۔ دنیا کا یہ سب سے چھوٹا انجن روشنی سے توانائی حاصل کرتے ہوئے مطلوبہ نتائج دے سکتا ہے۔ اس کی جسامت کسی انسانی خلیے سے بھی کہیں کم ہے، چناں چہ اسے خلیے میں داخل کر کے بھی مطلوبہ کام لیا جاسکتا ہے۔
مختصر ترین اور سادہ سی یہ ڈیوائس سونے کے باردار ذرات پر مشتمل ہے جنھیں ایک رال یا پولیمر جیل کے ذریعے باہم جوڑا گیا ہے۔ سائنس دانوں نے اس مشین کو actuating nano-transducers ( ANTs) کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیوائس موجودہ انجنوں یا عضلاتی خلیوں کے مقابلے میں اکائی وزن کی نسبت سو گنا زیادہ قوت فراہم کرسکتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق جب اس انجن کو لیزر کی مدد سے گرم کیا جائے تو پولیمر جیل پھیلتا ہے اور پانی خارج کرنے کے بعد سُکڑ جاتا ہے۔ پھیلنے اور سُکڑنے کے اس عمل کی وجہ سے طلائی نینوذرات گچھے کے شکل میں جُڑے رہتے ہیں۔ لیزر لائٹ سے دور کرنے پر انجن فوراً ٹھنڈا پڑجاتا ہے، اور پانی بھی اس میں ازسر نو جذب ہوجاتا ہے۔ اس حالت میں سونے کے ذرات پھیلتے ہیں اور توانائی خارج کرتے ہیں جسے کام میں لایا جاسکتا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی سے وابستہ سائنس داں اور نینو انجن کے تخلیق کاروں میں شامل ڈاکٹر وینسسلا والیف کہتے ہیں کہ ہمیں یہ معلوم ہے روشنی پانی کو گرم کرسکتی ہے، اب ہم اسے نینواسکیل کی سطح پر ایک پسٹن انجن کو چلانے کے لیے کام میں لاسکتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نینو انجن کی ایجاد میں کام یابی نینومشینوں اور روبوٹوں کے برسوں پرانے تصور کو حقیقت میں بدل سکتی ہے، اور یہ مشینیں سائنسی کہانیوں اور سائنس فکشن فلموں سے نکل کر مادّی روپ اختیار کرسکتی ہیں۔ نینو انجن کے موجدین کا دعویٰ ہے کہ یہ مشین کم لاگت سے تیار ہوسکتی ہے اور اس میں توانائی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔
نینوانجن کے استعمال کے حوالے سے ڈاکٹر وینسسلا والیف اور ان کے دیگر ساتھی کہتے ہیں کہ یہ انجن نینومشینوں کی بنیاد بن سکتا ہے جو ایک زندہ جسم کے اندر آبی ماحول میں حرکت پذیر ہوں، اور اپنے اطراف کا جائزہ لے سکیں اور معلومات اکٹھی کرسکیں۔ بہ الفاظ دیگر نینوانجن ان مشینوں کا حصہ بن سکتا ہے جو انسانی رگوں اور خلیات کے اندر داخل ہوکر مختلف بیماریوں کا سبب بننے والے جراثیم اور ان سے متأثرہ خلیوں کو ختم کرنے کا کام انجام کرسکتی ہوں۔ ان مشینوں کی تیاری سرطان جیسے مہلک امراض سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔