کنہیا کمار اور پاکستانی طلبا

موجودہ مضمون جواہر لعل یونیورسٹی، نئی دہلی کے صدر کنہیا کمار کی سرگزشت ہی سمجھیے۔

anisbaqar@hotmail.com

موجودہ مضمون جواہر لعل یونیورسٹی، نئی دہلی کے صدر کنہیا کمار کی سرگزشت ہی سمجھیے۔ گزشتہ کئی برس سے ان کی تنظیم (IASF) نریندر مودی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ تنظیم (اے بی وی پی) (ABVP) کو شکست فاش دے رہی ہے۔

کنہیا کمار کی دست راست جواہر لعل یونیورسٹی کی نائب صدر شہلا راشد ایک کشمیری خاتون ہیں، جو ہر مہم میں کنہیا کمار کے نہ صرف ساتھ ہوتی ہیں بلکہ ان کے ہر پروگرام میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔ جواہر لعل یونیورسٹی ایک کامل جامعہ کا درجہ رکھتی ہے اور شہلا راشد کشمیر میں ہونے والے غیر جمہوری مظالم کی پول کھولنے میں کنہیا جی کا ساتھ دیتی ہیں اور بہت سے ایسے مظالم سے پردہ اٹھاتی ہیں جن کو بی جے پی پاکستان میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو مودی سرکار کے کارندے نفرت کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور ہندوؤں پر الزام لگاتے ہیں، مثلاً تقریباً 6 ماہ ہونے کو آئے کہ سیالکوٹ کے بااثر لوگوں نے دو نوجوانوں کو پول پر لٹکا دیا تھا، جس کو بھارتی سرکار کے کارندوں نے ایک ایسی من گھڑت کہانی میں تبدیل کر دیا کہ ہندوؤں کو سیالکوٹ میں پول پر پھانسی دے دی گئی کہ وہ ہندو تھے۔

یہ فلم بھارتی شہر مظفر نگر میں دکھائی گئی جسے مسلم کُش فسادات کے لیے استعمال کیا گیا۔ واضح رہے مظفر نگر وہی علاقہ ہے جس کے والی خان لیاقت علی خان تھے، یہاں خاصے مسلمان رہ گئے ہیں۔ وہاں یہ فلم دکھائی گئی اور اس کو اس طرح 2 عدد پھانسیوں کو بتایا گیا کہ سیالکوٹ میں مسلمانوں نے 2 ہندو نوجوانوں کو سر راہ لٹکا دیا۔ اس بد زبانی نے اس طرح کم ازکم 80 مسلمان مظفر نگر میں آر ایس ایس نے موت کے گھاٹ اتار دیے۔ جواہر لعل یونیورسٹی میں ایک چوک بھی بنایا گیا ہے، جس کا نام آزادی چوک ہے۔ جہاں عام طور پر جلسے ہوتے ہیں، عوامی ڈیمانڈ اور یونیورسٹی کی ڈیمانڈ یہیں پیش کی جاتی ہیں۔ حالانکہ لوگوں کو یونیورسٹی سے خارج کرنے کے بھی سلسلے جاری ہیں مگر پھر بھی تحریک جاری ہے۔

کنہیا 28 یا 29 برس کا نوجوان ہے جو مسلمانوں کی حمایت میں سرگرداں رہتا ہے، کیونکہ اس نے بھارتی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور مسلمانوں کا بھارت کی تہذیب و ثقافت میں جو کردار رہا ہے وہ اس سے بھی بے حد متاثر ہے۔ کنہیا کمار کی ہر تقریر دو یا تین منٹ تک سرخ سلام کے پرجوش نعروں سے شروع ہوتی ہے۔ تعجب ہے کہ پاکستانی میڈیا نے کنہیا کمار کی اس قدر انوکھی شخصیت اور دلی جو مرکز ہے، آئے دن کی اس کی فرصت نہ ملنے والی سیاسی سرگرمیوں کو کیونکر فراموش کر دیا، جب کہ کشمیر اور افضل گرو کی اس قدر کہانیاں، بغیر کنہیا کی قربانی کے دکھانا آسان نہیں، پھر اس پر سے افضل گرو کی پھانسی کی داستان، کنہیا اور اس کے ساتھیوں کی ریلیاں، دلی کا ہنگامہ وہ بھی شہر کے وسط میں، ہر چیز کو، افضل گرو کے تعزیتی جلسے کو پیش نہ کرنا ایک قسم کی بے عملی ہے۔

امیر حیدر کاظمی، رخصت چرخ کہن ہوئے، رشید حسن بھی پیارے ہوئے جو جوتوں کی نال ٹھونک دیا کرتے تھے، وہ نیم جاں ہو چلے، معراج محمد خان کو دیکھیے، ڈاکٹر باقر عسکری نے وہ محفل بھی چھوڑ دی، طارق فتح نے رنگ بدل ڈالا، راقم سڑکوں کے بجائے کرسیوں پر قلم تھامے، وہ چشم کشا مرد میدان کہاں گئے؟ سرفروش کہاں؟ جن کی موجودگی میں اسٹوڈنٹس یونین کا خاتمہ آسان نہ تھا، خواہ پروفیسر نیئر جوانی میں چل دیے، جن سے طلبا جسم میں حرارت پاتے تھے اور پکارتے تھے:

حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

یہ متحدہ محاذ طلبا کا ہوتا، صرف ایک پوائنٹ پر یونیورسٹی اور کالج کھلیں گے کہ اسٹوڈنٹس یونین بحال ہو کر رہے گی ورنہ جمہوریت کی لنگڑی لاٹھی چلنے نہ دیں گے۔ یہ جمہوریت تو جمہوریت کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔یہ سب مباحثہ کے زیر و زبر تھے، مگر ایسا نہ ہوا ہم اسی بات پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ کراچی میں تو کوئی میئر نہیں البتہ لندن میں ہمارا میئر آ گیا۔

ارے بھائی وہ سیکولر افکار کا اسیر ہے، اپنے اردگرد گردن گھما کر دیکھو کہ کیا ہو رہا ہے۔ منطق، استدلال، افکار زریں رخصت ہوئے، دور جانے کی ضرورت نہیں اپنے پڑوسی ملک سے ہی کچھ سیکھنے کو ملے تو سیکھ لو۔ ہمارے یہاں بھی یونیورسٹیاں اور کالج ہیں مگر یہاں کوئی ایسی محفل سجانے کو تیار نہیں جہاں افکار کے فرش بچھائے جائیں۔ کیونکہ اس کی بنیاد ہی ختم ہو گئی ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی اس مسئلے کو اٹھانے پر تیار نہیں ہے، بس ایک محفل جشن کی سج رہی ہے، اس کے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو اپنے سے ہٹ کر باتیں کرنے والے کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔

یہ کوئی کم پڑھے لکھے لوگوں کا مسلک یہ شیوہ نہیں، جہاں اختلاف کیا، وہاں قتل کیا۔ ابھی ایک ہفتہ ہونے کو آیا کہ آغاخانی مسلک کے ماننے والوں کے 5 قاتلوں کو پھانسی دی گئی ہے، ان لوگوں میں جنھوں نے قتل کیا وہ تعلیم یافتہ تھے، ایم بی اے تھے، انجینئر طلبا تھے، وجہ کیا ہے؟ کہ رواداری نہیں، تربیت ان کو نہ تھی، ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ کوئی نسل چند لوگوں کو مارنے سے ختم نہ ہو گی، بلکہ ان کے عقائد اور مضبوط ہوں گے، البتہ خوف کا منظر عام مزید لوگوں میں پیدا ہو گا اور ملک میں نفرت کی آگ بھڑکتی جائے گی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ طلبا یونین اور پڑھے لکھے لوگوں کو یونین سازی کی تربیت نہیں دی جا رہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اسٹوڈنٹس یونین مسلسل سرگرم عمل تھی اور 70ء کی دہائی تک اسٹوڈنٹس یونین تھی اور ہر نوجوان اپنی من کی باتیں کرتا تھا، مگر جب سے اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی عائد کی گئی ہے تو لوگوں میں سخت گیری کے رجحان پیدا ہوئے، کیونکہ بات چیت کا عمل اور مباحثے جاتے رہے۔ حالانکہ اسٹوڈنٹس پارٹیاں موجود ہیں مگر ان کی قانونی حیثیت موجود نہیں ہے کہ وہ کالج اور یونیورسٹیوں میں انتخابات کا عمل جاری رکھیں۔ کھیل کود، مباحثے، ڈرامے، گانے بجانے اور ایسے بھی لوگ تھے جو نعت شریف اور قرأت میں کمال رکھتے تھے، غرض ہر شخص اپنی پسند میں کمال رکھتا تھا مگر مسلم دنیا میں انتہا پسندی کی لہر دوڑ رہی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتیں اس انتہاپسندی کو عروج بخشتی رہتی ہیں اور اب جب ایک خیال اور فکر پروان چڑھ گئی تو پھر اب ان لوگوں کو روکا جا رہا ہے۔

اگر سوسائٹی کو پروان چڑھانا ہے، رواداری کو عروج بخشنا ہے تو پھر طلبا یونین کو ازسر نو زندہ کرنا ہو گا، ورنہ بلند پایہ لیڈر ملک میں پیدا نہ ہوں گے، بلکہ وزرا کی اولاد ہی قیادت کو جنم دے گی۔ مانا کہ بھارت میں ہزار خرابیاں ہیں مگر وہاں ادارے مضبوط ہیں اور تصادم نہیں ہے، اس لیے بھارت کے جلد یا دیر بہتر ہونے کے امکانات موجود ہیں مگر ہمارے ملک میں اداروں میں تصادم اور اشرافیہ کی لیڈرشپ موجود ہے۔

پاکستان میں اسٹوڈنٹس لیڈر شپ ختم ہو کر رہ گئی ہے، یہی طلبا یونین کی سیڑھیاں تھیں جو کبھی زمین سے آسمان تک جاتی تھیں یعنی طالب علموں کے ذاتی، گھریلو اور اجتماعی تعلیمی مسائل کا یہی الاؤ دہکتا تھا اور ملکی لیڈر ان کے سامنے مسائل کی لو روشن کرتے تھے مگر جمہور کے نام کا قافلہ اب بے لگام مختلف سیاسی جلسوں میں لیڈروں کا تابع بنا ہوا ہے۔
Load Next Story