مکھیمچھر اور کرپشن

مکھی، مچھر ہمارے جیسے عام آدمی کی زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں، مکھی مچھر کا شمار ایسے حشرات الارض میں ہوتا ہے


Zaheer Akhter Bedari May 20, 2016
[email protected]

مکھی، مچھر ہمارے جیسے عام آدمی کی زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں، مکھی مچھر کا شمار ایسے حشرات الارض میں ہوتا ہے جو انسانی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مکھی مچھر سے نجات کے لیے بے شمار دوائیں، گلوب کوائل، اسپرے مارکیٹ میں موجود ہیں جن کے استعمال سے وقتی فائدے تو ہوتے ہیں لیکن ان بلاؤں سے مستقل نجات نہیں ملتی۔

سانپ کا شمار بھی حشرات الارض ہی میں ہوتا ہے اور اس کی ہلاکت خیزی کی وجہ انسان اس کے نام ہی سے خوفزدہ رہتا ہے۔ اس کے کاٹے کے علاج کے لیے ملک میں ویکسین کا استعمال ہوتا ہے لیکن اس ویکسین کی عدم دستیابی دوسرے ویکسین کی نیم کامیابی۔ اب ایک تازہ اطلاع کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی سیروبیالوجیکل لیبارٹری میں ایک ایسی ویکسین تیار کر لی گئی ہے جس سے سانپ کے زہر کا شافی علاج کیا جا سکتا ہے یہ ویکسین یونیورسٹی کے اس شعبے کے ماہرین نے تیار کی ہے ۔

مکھی مچھر کے خلاف بے شمار دوائیں بازار میں موجود ہیں اور ان کی بڑے پیمانے پر فروخت کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن نہ مچھیروں سے عوام کی جان چھوٹتی ہے نہ مکھیوں سے آپ ایک مچھر ماریں گے سو مچھر پیدا ہو جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت گندی جگہوں پر اسپرے کے لیے کروڑوں روپے جاری کرتی ہے جسے دو پیر والے مکھی مچھر ہڑپ کر لیتے ہیں۔ کرپشن ہمارے معاشروں میں مکھی مچھر سانپ بچھو کی طرح پھیلی ہوئی ہے جس کے خلاف قانون انصاف کے بے شمار ادارے موجود ہیں لیکن عموماً یہ ادارے خود بھی کرپٹ ہوتے ہیں لہٰذا کرپشن دھڑلے سے جاری رہتی ہے۔

ویسے تو سال کے بارہ مہینے ساری دنیا کرپشن کی دھند میں لپٹی رہتی ہے لیکن کبھی کبھی یہ دھند طوفانوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور آج کل ساری دنیا کرپشن کے طوفان میں پھنسی ہوئی ہے، کئی ملکوں کے سربراہ اس جرم کی پاداش میں اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے ہیں اور کئی جگہوں پر تحقیقات کا بازار گرم ہے مغربی ملکوں میں ابھی تک اخلاقیات شرم و حیا کسی نہ کسی حد تک زندہ ہے۔ اس لیے وہاں کرپشن کے ملزمان اپنے عہدوں سے مستعفی ہو رہے ہیں لیکن پسماندہ ملکوں کے ڈھیٹ بے ثمر اور اخلاق سے عاری حکمران اپنے جرم قبول کرنے کے بجائے جرم کی نشان دہی اور جواب دہی طلب کرنے والوں پر یوں غرا رہے ہیں جیسے انھیں مجرم کہنے والے خود ہی مجرم ہیں۔

کرپشن کوئی اچانک مسلط ہونے والی بلا نہیں بلکہ اس کا جنم سرمایہ دارانہ نظام کی پیدائش کے ساتھ ہی ہوا ہے بلکہ اس کی حیثیت سرمایہ دارانہ نظام میں سانس کی طرح ہے جس طرح انسان سانس کے بغیر چند منٹ بھی زندہ نہیں رہتا اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کرپشن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن المیہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں کرپشن کے خلاف اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں اور سخت قوانین بھی بنائے جا رہے ہیں لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ درپیش ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کرپشن کے بڑے گھپلے ملک کی اشرافیہ ہی کے کارنامے ہوتے ہیں کیونکہ اربوں کھربوں کے لین دین تک عام آدمی کی رسائی ہی ممکن نہیں نہ عام آدمی کے پاس اتنی دولت ہوتی ہے کہ وہ آف شور کمپنیاں بنائے یا سوئس بینکوں کے محفوظ اکاؤنٹس میں اپنی رقم رکھے۔بدقسمتی سے پانامہ لیکس میں سیکڑوں پاکستانیوں کے نام بھی آ رہے ہیں پانامہ لیکس جن آف شور کمپنیوں کی نشان دہی کر رہا ہے ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ کمپنیاں صرف اور صرف منی لانڈرنگ اور ٹیکس بچانے کی خدمات انجام دیتی ہیں۔

اس کے علاوہ ان کمپنیوں کا کوئی اور مصرف نہیں اور یہ بات اس لیے درست لگتی ہے کہ ہر ملک میں سرمایہ کاری کے لیے بے شمار ادارے موجود ہیں کوئی بھی سرمایہ کار اپنے ملک میں جتنی چاہے کمپنیاں کھول سکتا ہے کارخانے اور ملز لگا سکتا ہے لیکن اگر ملک کے اندر ایسی کمپنیاں کھولی جائیں تو اول تو ان کے ذریعے منی لانڈرنگ اور ٹیکس بچانا مشکل ہو جاتا ہے دوم اشرافیہ کی بدنامی کا خطرہ بھی رہتا ہے اس سے بچنے کے لیے سوئس بینک اور آف شور کمپنیوں کی سہولتیں ایلیٹ کو فراہم کی گئی ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم کا خاندان بھی پانامہ لیکس میں آ گیا ہے وزیر اعظم براہ راست اس میں ملوث نہیں لیکن ان کے دو صاحبزادے حسن، حسین اور ایک صاحبزادی مریم کا آف شور کمپنیاں رکھنا ثابت ہو گیا ہے چونکہ ملک کا وزیر اعظم قوم کا سربراہ ہوتا ہے اس لیے وہ یہ کہہ کر تو جان نہیں چھڑا سکتا کہ میں آف شور کمپنیوں کا مالک نہیں میرے بچے ان کے مالک ہیں۔

اس حوالے سے دھواں دھار بیانات اور جوابی بیانات آ رہے ہیں لیکن یہ سب آہستہ آہستہ جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی جمہوریت کے مشترکہ عاشق ہیں اگر وزیر اعظم کے خلاف کوئی طاقتور تحریک چلائی جاتی ہے تو جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور جمہوریت وہ پردہ ہے جس میں سیکڑوں آف شور کمپنیاں چھپی ہوتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام گندگی کا وہ ڈھیر ہے جس میں ہزاروں آف شور کمپنیاں سوئس بینکس چھپے ہوئے ہیں۔ کیا گندگی کے ڈھیروں کے خاتمے کے بغیر مکھیوں مچھروں کا مکمل خاتمہ ممکن ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں