مشتاق رئیسانی کا خزانہ بلوچستان میں گھرگھر سولر پاور
63 کروڑ روپے کیش اور زیور و جواہرات پر مشتمل اس خزانے کا کیا ہوگا
63 کروڑ روپے کیش اور زیور و جواہرات پر مشتمل اس خزانے کا کیا ہوگا جوکہ اس مہینے کی 6 تاریخ کو بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے غریب خانے پر نیب کے ''تاریخی'' چھاپے کے دوران بر آمد ہوا؟ اس منفرد واقعے کے سلسلے میں کچھ باتیں عام لوگوں پر بھی واضح ہیں مثلاً یہ کہ 63 کروڑ تو در اصل لوٹی گئی قومی دولت کا ایک معمولی حصہ بھی نہیں، مثلاً یہ کہ مشتاق رئیسانی تو در اصل ہزاروں چھوٹے بڑے پرزوں پر مشتمل اس مہیب کرپشن مشینری کا محض ایک پرزہ ہے، جو ہر سال اس ملک کے سیکڑوں ارب روپے لوٹ لیتی ہے اور مثلاً یہ کہ در اصل اصل مال تو نجانے کتنے ملکوں کی کتنی آف شور کمپنیوں، کتنے بینکوں، کتنی جائیدادوں میں لگ چکا ہوگا۔
اپریل 2015 میں دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ کے مطابق صرف 2015 کی پہلی سہ ماہی میں ہی پاکستانیوں نے دبئی میں 379 ملین ڈالر یعنی تقریباً 38 ارب روپے یعنی تقریباً 3 ہزار 8 سو کروڑ روپے کی پراپرٹی خریدی۔ جب کہ 2013 اور 2014 کے درمیان پاکستانیوں نے صرف دبئی میں ہی 4.3ارب ڈالر یعنی کوئی 430 ارب روپے یعنی 43 ہزار کروڑ روپے یعنی 4 لاکھ 30 ہزار ملین روپوں کی جائیدادیں خریدیں۔ ہوسکتا ہے ان پاکستانیوں میں سے کچھ یا بہت سوں نے یا سبھی نے ہی دبئی میں یہ ہزاروں کروڑوں کی جائیدادیں جائز کاموں سے خالص حلال مال کماکر خریدی ہوں مگر پھر انھوں نے اس جائز و حلال آمدنی پر پاکستان میں کتنا ٹیکس دیا اور اس سے پاکستانی معیشت کو کتنا فائدہ پہنچا اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا۔
جی ہاں اس پاکستانی معیشت کہ جس کے بارے میں اس سال 7 اپریل کو حکومت پاکستان کے اعلان کے مطابق 6 کروڑ انسان غربت کی نچلی سطح سے بھی نیچے پائے جاتے ہیں۔ وہی پاکستانی معیشت جو محض آٹھ ایف 16 طیاروں کے لیے صرف 700 ملین ڈالر یعنی 70 ارب روپوں کی یکمشت ادائیگی کرکے اپنی فضائیہ کو مضبوط بنانے سے قاصر ہیں وہی پاکستانی معیشت جہاں سے پاکستانیوں نے ''کما'' کر 200 ارب ڈالر یعنی 20 ہزار ارب روپے تو صرف سوئزر لینڈ کے بینکوں میں ہی چھپا کر رکھے ہیں۔ ذرا سوچیں کہاں 20 ہزار ارب روپے۔
2008 سے لے کر اب تک کے صوبائی بجٹوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو صرف بلوچستان اور سندھ میں ہی صوبوں کے ترقیاتی فنڈز کے نام پر سیکڑوں ارب روپے رکھے جاچکے ہیں۔ تاہم صوبوں میں گھوم پھر کر دیکھیں تو صوبوں اور لوگوں کی حالت مزید تباہ حال نظر آتی ہے۔
آپ دنیا کے 10 بڑے ترین شہروں میں شامل کراچی کو تو چھوڑیے جو اپنی منتخب بااختیار شہری حکومت سے محروم محض ایک لٹی پٹی کالونی نظر آتا ہے، وڈیرہ جمہوریت کی کہ جہاں جاپان کی فراخ دلانہ پیشکش اور سالوں کے انتظار کے بعد بھی سرکلر ریلوے کا نظام بحال نہ ہوسکا جب کہ اسی دوران ایتھوپیا جسے ہم قحط اور غربت کے حوالے سے جانتے ہیں کہ سب سے بڑے شہر عدیس ابابا جو کراچی سے کہیں چھوٹا ہے وہاں کے شہریوں کے لیے 31.6 کلو میٹر طویل لائٹ ریل کا 20 ستمبر اور 9 نومبر 2015 سے آغاز بھی ہوگیا، لاڑکانہ اور اس کے شہریوں تک کی آج تک حالت نہیں بدل سکی۔ ان ہی سالوں میں البتہ اس طرح کی خبریں ضرور سننے میں آئیں کہ اتنے ارب روپے لانچوں میں پکڑے گئے اور پھر پتا نہیں کہاں گئے اور اتنے ارب روپے تہہ خانوں میں حادثاتی طور پر جل کے راکھ ہوئے۔
پاکستان میں ہر سال سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ارب روپے کرپشن کے ذریعے لوٹ لیے جاتے ہیں اور یہ کوئی سنی سنائی اڑی اڑائی بات نہیں بلکہ 13 دسمبر 2012 کو اس وقت کے نیب چیئرمین ریٹائرڈ ایڈمرل فصیح بخاری کی طرف سے پیش کیے گئے اعداد و شمار ہیں کہ جن کے مطابق انھوں نے ملک میں کرپشن کا یومیہ سائز 13 ارب روپے یعنی تقریباً 5 کھرب روپے سالانہ بتایا جوکہ روز کے 1300 کروڑ اور سال کے تقریباً 5 لاکھ کروڑ یعنی تقریباً پچاس لاکھ ملین روپے بنتے ہیں۔
اب اگر کہیں قسمت سے ان لاکھوں کروڑوں روپوں میں سے 63 کروڑ روپے مشتاق رئیسانی کے دولت کدے سے برآمد ہوگئے ہیں تو اس سے پہلے کہ ملک میں رائج میگا کرپٹ اور کرپشن کے نظام کی پاسداری میں جناب رئیسانی کے ساتھ ''پلی بارگین'' کردیا جائے جس میں وہ کرپشن کے 63 کروڑ میں سے 63 لاکھ یا 6 کروڑ 30 لاکھ ''قومی خزانے'' میں جمع کراکر باقی رقم وائٹ صاف ستھری کرکے اپنے پاس رکھ لیں اور NEAT اینڈ کلین ہوجائیں، جناب آپ نے بلوچستان کے لوگوں کے لیے رکھے گئے پیسے لوٹنے والے بلوچ افسر کو تو گرفتار کرلیا مگر پنجاب کے لوگوں کے لیے رکھے گئے پیسے لوٹنے والے پنجابی افسروں کو گرفتار نہیں کررہے۔
اس سے پہلے کہ یہ 63 کروڑ روپے بھی کہیں گم ہوجائیں کتنا ہی اچھا ہو کہ متعلقہ حکومتی حلقے اس رقم کو بلوچستان کے عوام جو بد ترین غربت سہتے ہیں مگر نہ پیسے مانگتے ہیں نہ کہیں سے چوری کرتے ہیں ان کے لیے کسی منفرد سی اسکیم پر لگادیے جائیں مثلاً ہم ان 63 کروڑ روپوں سے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بجلی سے یکسر محروم گھروں میں سولر پاور یونٹس اور اپلائنسز مفت فراہم کریں۔
2014 میں 75 WP یعنی WATTS PEAK کا سولر پاور سسٹم جوکہ سورج کی روشنی کی اوسط 10 گھنٹے روزانہ کی موجودگی پر آٹھ سے دس گھنٹے کے بیک اپ کے ساتھ چھت کا ایک پنکھا اور ایک اینرجی سیور چلاسکتا ہے کی قیمت لگ بھگ 30 ہزار ہوگئی تھی جب کہ پانچ سال کی زندگی رکھنے والے سولر ٹیبل فین کی قیمت 7 سے 10 ہزار تھی، اب درجنوں ملکی و غیر ملکی خصوصاً چینی کمپنیوں کے میدان میں آنے کے بعد ہم 20 ہزار روپے کی مالیت والے سولر پاور ٹیبل فین اور انرجی سیورز پہ مبنی چھوٹے سولر یونٹس بنواکر بلوچستان کے قصباتی و دیہی علاقوں میں بانٹ سکتے ہیں۔
20 ہزار روپے فی یونٹ کے حساب سے 63 کروڑ روپوں سے 31500 گھروں کو یہ سولر اپلائنس یونٹس فراہم کیے جاسکتے ہیں اور فی گھر ہم اگر محض پانچ افراد بھی رکھیں تو 157500 انسانوں کی زندگی بدل سکتی ہے۔ اب سوچیے کہ اگر صرف 63 کروڑ سے اتنے انسانوں کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی آسکتی ہے تو ہر سال کرپشن کی بھینٹ چڑھ جانے والے ہزاروں لاکھوں کروڑ روپوں سے کیا۔ 20 کروڑ لوگوں اور اس ملک کی قسمت مستقل طور پر بدل نہیں سکتی۔
ایک بات اور وہ یہ کہ اگر ان 63 کروڑ روپوں کو واقعتاً بلوچستان کے بجلی سے محروم گھروں کو سولر اپلائنس یونٹس مفت فراہم کرنے کے لیے رکھا جائے تو یہ کام پاک فوج کے حوالے کیا جائے تاکہ یہ بخیر وخوبی پایہ تکمیل کو پہنچ سکے ورنہ ہوسکتا ہے کہ اس اسکیم کا حال بھی سندھ میں سولر لائٹس لگانے کے لیے 2015 میں بنائے گئے۔
''روشن سندھ پروگرام'' سا ہو جس میں فی بلب کی قیمت ''محض'' 2 لاکھ روپے رکھی گئی جو اپنی جگہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ بلوچستان کے بجلی سے محروم ہزاروں گھروں کو ان سولر اپلائنس یونٹس دینے سے نہ صرف لوگوں کی زندگی میں بہتری آئے گی بلکہ ان کی دیکھ بھال اور مرمت کے سلسلے میں مقامی لوگوں کو روزگار بھی مل سکے گا۔ ساتھ ہی انھیں یہ بھی پتا چل سکے گا کہ پیسہ جو کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے کیسے ان کی زندگیاں بدل سکتا ہے اور یہ کہ کرپشن تو کرپشن ہے چاہے اپنی زبان بولنے والا ہی کیوں نہ کرے اور ظالم تو ظالم ہی ہوتا ہے۔
اپریل 2015 میں دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ کے مطابق صرف 2015 کی پہلی سہ ماہی میں ہی پاکستانیوں نے دبئی میں 379 ملین ڈالر یعنی تقریباً 38 ارب روپے یعنی تقریباً 3 ہزار 8 سو کروڑ روپے کی پراپرٹی خریدی۔ جب کہ 2013 اور 2014 کے درمیان پاکستانیوں نے صرف دبئی میں ہی 4.3ارب ڈالر یعنی کوئی 430 ارب روپے یعنی 43 ہزار کروڑ روپے یعنی 4 لاکھ 30 ہزار ملین روپوں کی جائیدادیں خریدیں۔ ہوسکتا ہے ان پاکستانیوں میں سے کچھ یا بہت سوں نے یا سبھی نے ہی دبئی میں یہ ہزاروں کروڑوں کی جائیدادیں جائز کاموں سے خالص حلال مال کماکر خریدی ہوں مگر پھر انھوں نے اس جائز و حلال آمدنی پر پاکستان میں کتنا ٹیکس دیا اور اس سے پاکستانی معیشت کو کتنا فائدہ پہنچا اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا۔
جی ہاں اس پاکستانی معیشت کہ جس کے بارے میں اس سال 7 اپریل کو حکومت پاکستان کے اعلان کے مطابق 6 کروڑ انسان غربت کی نچلی سطح سے بھی نیچے پائے جاتے ہیں۔ وہی پاکستانی معیشت جو محض آٹھ ایف 16 طیاروں کے لیے صرف 700 ملین ڈالر یعنی 70 ارب روپوں کی یکمشت ادائیگی کرکے اپنی فضائیہ کو مضبوط بنانے سے قاصر ہیں وہی پاکستانی معیشت جہاں سے پاکستانیوں نے ''کما'' کر 200 ارب ڈالر یعنی 20 ہزار ارب روپے تو صرف سوئزر لینڈ کے بینکوں میں ہی چھپا کر رکھے ہیں۔ ذرا سوچیں کہاں 20 ہزار ارب روپے۔
2008 سے لے کر اب تک کے صوبائی بجٹوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو صرف بلوچستان اور سندھ میں ہی صوبوں کے ترقیاتی فنڈز کے نام پر سیکڑوں ارب روپے رکھے جاچکے ہیں۔ تاہم صوبوں میں گھوم پھر کر دیکھیں تو صوبوں اور لوگوں کی حالت مزید تباہ حال نظر آتی ہے۔
آپ دنیا کے 10 بڑے ترین شہروں میں شامل کراچی کو تو چھوڑیے جو اپنی منتخب بااختیار شہری حکومت سے محروم محض ایک لٹی پٹی کالونی نظر آتا ہے، وڈیرہ جمہوریت کی کہ جہاں جاپان کی فراخ دلانہ پیشکش اور سالوں کے انتظار کے بعد بھی سرکلر ریلوے کا نظام بحال نہ ہوسکا جب کہ اسی دوران ایتھوپیا جسے ہم قحط اور غربت کے حوالے سے جانتے ہیں کہ سب سے بڑے شہر عدیس ابابا جو کراچی سے کہیں چھوٹا ہے وہاں کے شہریوں کے لیے 31.6 کلو میٹر طویل لائٹ ریل کا 20 ستمبر اور 9 نومبر 2015 سے آغاز بھی ہوگیا، لاڑکانہ اور اس کے شہریوں تک کی آج تک حالت نہیں بدل سکی۔ ان ہی سالوں میں البتہ اس طرح کی خبریں ضرور سننے میں آئیں کہ اتنے ارب روپے لانچوں میں پکڑے گئے اور پھر پتا نہیں کہاں گئے اور اتنے ارب روپے تہہ خانوں میں حادثاتی طور پر جل کے راکھ ہوئے۔
پاکستان میں ہر سال سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ارب روپے کرپشن کے ذریعے لوٹ لیے جاتے ہیں اور یہ کوئی سنی سنائی اڑی اڑائی بات نہیں بلکہ 13 دسمبر 2012 کو اس وقت کے نیب چیئرمین ریٹائرڈ ایڈمرل فصیح بخاری کی طرف سے پیش کیے گئے اعداد و شمار ہیں کہ جن کے مطابق انھوں نے ملک میں کرپشن کا یومیہ سائز 13 ارب روپے یعنی تقریباً 5 کھرب روپے سالانہ بتایا جوکہ روز کے 1300 کروڑ اور سال کے تقریباً 5 لاکھ کروڑ یعنی تقریباً پچاس لاکھ ملین روپے بنتے ہیں۔
اب اگر کہیں قسمت سے ان لاکھوں کروڑوں روپوں میں سے 63 کروڑ روپے مشتاق رئیسانی کے دولت کدے سے برآمد ہوگئے ہیں تو اس سے پہلے کہ ملک میں رائج میگا کرپٹ اور کرپشن کے نظام کی پاسداری میں جناب رئیسانی کے ساتھ ''پلی بارگین'' کردیا جائے جس میں وہ کرپشن کے 63 کروڑ میں سے 63 لاکھ یا 6 کروڑ 30 لاکھ ''قومی خزانے'' میں جمع کراکر باقی رقم وائٹ صاف ستھری کرکے اپنے پاس رکھ لیں اور NEAT اینڈ کلین ہوجائیں، جناب آپ نے بلوچستان کے لوگوں کے لیے رکھے گئے پیسے لوٹنے والے بلوچ افسر کو تو گرفتار کرلیا مگر پنجاب کے لوگوں کے لیے رکھے گئے پیسے لوٹنے والے پنجابی افسروں کو گرفتار نہیں کررہے۔
اس سے پہلے کہ یہ 63 کروڑ روپے بھی کہیں گم ہوجائیں کتنا ہی اچھا ہو کہ متعلقہ حکومتی حلقے اس رقم کو بلوچستان کے عوام جو بد ترین غربت سہتے ہیں مگر نہ پیسے مانگتے ہیں نہ کہیں سے چوری کرتے ہیں ان کے لیے کسی منفرد سی اسکیم پر لگادیے جائیں مثلاً ہم ان 63 کروڑ روپوں سے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بجلی سے یکسر محروم گھروں میں سولر پاور یونٹس اور اپلائنسز مفت فراہم کریں۔
2014 میں 75 WP یعنی WATTS PEAK کا سولر پاور سسٹم جوکہ سورج کی روشنی کی اوسط 10 گھنٹے روزانہ کی موجودگی پر آٹھ سے دس گھنٹے کے بیک اپ کے ساتھ چھت کا ایک پنکھا اور ایک اینرجی سیور چلاسکتا ہے کی قیمت لگ بھگ 30 ہزار ہوگئی تھی جب کہ پانچ سال کی زندگی رکھنے والے سولر ٹیبل فین کی قیمت 7 سے 10 ہزار تھی، اب درجنوں ملکی و غیر ملکی خصوصاً چینی کمپنیوں کے میدان میں آنے کے بعد ہم 20 ہزار روپے کی مالیت والے سولر پاور ٹیبل فین اور انرجی سیورز پہ مبنی چھوٹے سولر یونٹس بنواکر بلوچستان کے قصباتی و دیہی علاقوں میں بانٹ سکتے ہیں۔
20 ہزار روپے فی یونٹ کے حساب سے 63 کروڑ روپوں سے 31500 گھروں کو یہ سولر اپلائنس یونٹس فراہم کیے جاسکتے ہیں اور فی گھر ہم اگر محض پانچ افراد بھی رکھیں تو 157500 انسانوں کی زندگی بدل سکتی ہے۔ اب سوچیے کہ اگر صرف 63 کروڑ سے اتنے انسانوں کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی آسکتی ہے تو ہر سال کرپشن کی بھینٹ چڑھ جانے والے ہزاروں لاکھوں کروڑ روپوں سے کیا۔ 20 کروڑ لوگوں اور اس ملک کی قسمت مستقل طور پر بدل نہیں سکتی۔
ایک بات اور وہ یہ کہ اگر ان 63 کروڑ روپوں کو واقعتاً بلوچستان کے بجلی سے محروم گھروں کو سولر اپلائنس یونٹس مفت فراہم کرنے کے لیے رکھا جائے تو یہ کام پاک فوج کے حوالے کیا جائے تاکہ یہ بخیر وخوبی پایہ تکمیل کو پہنچ سکے ورنہ ہوسکتا ہے کہ اس اسکیم کا حال بھی سندھ میں سولر لائٹس لگانے کے لیے 2015 میں بنائے گئے۔
''روشن سندھ پروگرام'' سا ہو جس میں فی بلب کی قیمت ''محض'' 2 لاکھ روپے رکھی گئی جو اپنی جگہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ بلوچستان کے بجلی سے محروم ہزاروں گھروں کو ان سولر اپلائنس یونٹس دینے سے نہ صرف لوگوں کی زندگی میں بہتری آئے گی بلکہ ان کی دیکھ بھال اور مرمت کے سلسلے میں مقامی لوگوں کو روزگار بھی مل سکے گا۔ ساتھ ہی انھیں یہ بھی پتا چل سکے گا کہ پیسہ جو کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے کیسے ان کی زندگیاں بدل سکتا ہے اور یہ کہ کرپشن تو کرپشن ہے چاہے اپنی زبان بولنے والا ہی کیوں نہ کرے اور ظالم تو ظالم ہی ہوتا ہے۔