توانائی کا بحران اورحکومتی کوششیں

خطے میں امریکا کی استعماری پالیسیوں اور دہشت ردی کے بعد پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان توانائی کے بحران سے پہنچا ہے۔


[email protected]

خطے میں امریکا کی استعماری پالیسیوں اور دہشت ردی کے بعد پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان توانائی کے بحران سے پہنچا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور سے شروع ہونے والا توانائی کا بحران پاکستان کی معیشت اور عوام کے لیے سوہان روح بن گیا۔

ملک میں توانائی کا بحران کیوں پیدا ہوا؟ اس کے ذمے دار کون تھے؟ ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی اور ملک کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کا اصل ذمے دارکون ہے؟ پھر سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور آصف زرداری کے دور میں اس بحران پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ یہ سوالات آج بھی حل طلب ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی توانائی بحران خاص طور پر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے دعوے کیے تھے مگر وہ دعوے دھرے کے دھرے ہی رہ گئے۔

توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں قابل ذکر حد تک کمی آگئی۔ معیشت مسلسل زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔ صنعتی ترقی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ بجلی اورگیس کی عدم فراہمی سے بڑے بڑے صنعتی یونٹ بند ہوگئے اور صنعتی اداروں میں کام کرنے والے مزدور بیروزگار ہوگئے اور نوبت فاقوں تک آگئی۔ پیپلز پارٹی کے سابق دور میں حکومت کے خلاف اس معاملے پر ہڑتالیں بھی کی گئیں، جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں، عوام لوڈ شیڈنگ کے خلاف مشتعل تھے جس کا دورانیہ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا تھا۔

ملک کا معاشی بحران بدترین صورت اختیار کرتا جارہا تھا۔ اس لیے مسلم لیگ ن نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے نعرے کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیا اور موجودہ حکومت نے ابتداء ہی سے دانشمندانہ حکمت عملی اور مدبرانہ پالیسیوں کی بدولت بحران پر قابو پانے کے لیے کوششیں تیز کردیں تاکہ عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کیا جاسکے۔ کیونکہ یہ حقیقت عیاں ہے کہ پاکستان توانائی بحران کا خاتمہ کیے بغیر معاشی ترقی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

یہ حکومت کی شاندار حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ حکومت اب تک 3 ہزار میگا واٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کرچکی ہے۔ بلاشبہ اس سے ماضی کے مقابلے میں اب لوڈ شیڈنگ میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ بلکہ بجلی کے نرخ بھی 30 فیصد کم ہوچکے ہیں۔ حکومت عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے مسلسل توانائی منصوبوں پر کام کررہی ہے جس میں سے بیشتر 2017 اور 2018 میں ہی مکمل ہوجائیں گے جب کہ مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر بعض منصوبے 2018 کے بعد مکمل ہوں گے۔

مجموعی طور پر 2016 میں 3390 میگاواٹ، 2017 میں 3738 میگا واٹ جب کہ 2018 میں 3960 میگا واٹ اور 2018 کے بعد کے منصوبوں سے 30190 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ حکومت کی اس حکمت عملی سے بجلی کی پیداوار فاضل ہو جائے گی۔ یہی وزیر اعظم محمد نوازشریف کا مشن ہے اسی سلسلے میں وہ توانائی منصبوں پر کام کررہے ہیں۔ اس ضمن میں چند روز قبل انھوں نے تاجکستان کا دورہ کیا اورکرغزستان، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان توانائی کے ایک اہم منصوبے کاسا1000 کا افتتاح کیا۔ اس منصوبے کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم محمد نوازشریف، افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، کرغزستان کے وزیر اعظم سورن بے جینا کوف، تاجسکتان کے صدرامام علی رحمان اور عالمی بینک کی نائب صدر انیگر ایڈریسن نے بھی شرکت کی۔ جس سے اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

کاسا 1000 کے ذریعے کرغزستان اور تاجکستان سے 1300 میگاواٹ بجلی افغانستان اور پاکستان کو دی جائے گی۔ پاکستان یک مئی سے 30 ستمبر تک 1000 میگا واٹ بجلی حاصل کرے گا۔ 300 میگاواٹ بجلی افغانستان کو ملے گی لیکن اسے عبوری مدت تک پاکستان ہی استعمال کرے گا۔ اس عظیم الشان منصوبے پر ایک ارب 17 کروڑ ڈالر لاگت آئے گی جب کہ اس منصوبے کے لیے 750 کلو میٹر ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے گی۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ کاسا منصوبے کے تحت پاکستان کو جو بجلی میسر آئے گی اس کے نرخ 9.48 سینٹ ہوں گے۔ اس منصوبے کے افتتاح سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت توانائی کے بحران کے خاتمے میں انتہائی پرعزم ہے۔ کاسا 1000 منصوبہ اگر بلارکاوٹ جاری رہا تو اسے 2018 تک مکمل کرلیاجائے گا۔ ایک مثبت بات یہ ہے کہ ورلڈ بینک نے اس منصوبے میں مالی معاونت پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کو اس منصوبے کے ذریعے ملنے والی بجلی نسبتاً سستی ہوگی اور چونکہ یہ موسم گرما سے دستیاب ہوگی لہٰذا اس کے نتیجے میں گرمیوں میں بجلی کی طلب کو کسی حد تک پورا کیا جاسکے گا۔ اس منصوبے کے علاوہ بھی حکومت توانائی کے متعدد منصوبوں پر کام کررہی ہے۔

ان میں قطر سے ایل این جی کی درآمد کے منصوبے پر کام شروع ہوچکا ہے۔ اسی طرح ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت کے درمیان تاپی گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی پیش رفت جاری ہے۔ جب کہ ایران سے پاکستان تک گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی تکمیل کا منتظر ہے۔ ایران نے پاکستان کو 3 ہزار میگاواٹ بجلی کی فروخت کی پیش کش بھی کررکھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کے ان اہم منصوبوں سے توانائی کے بحران پر قابو پانے میں زبردست مدد ملے گی۔ میرے خیال میں اس امر میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ توانائی کا بحران ختم کیے بغیر معاشی اور معاشرتی ترقی ممکن نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت توانائی بحران کے خاتمہ میں نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے اور اس بحران کو دور کرکے عوام سے کیے گئے وعدے پورے کررہی ہے۔ میرے خیال میں وزیر اعظم محمد نوازشریف اور ان کی ٹیم کو اس بات کا احساس ہے کہ اب ان کی حکومت کے تین برس مکمل ہوچکے ہیں اور صرف دو برس باقی ہیں اور اس دوران اگر بجلی کی قلت کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکا تو ان کی عوامی مقبولیت اور ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسی لیے حکومت کی کوشش ہے کہ وہ توانائی کے منصوبہ کے اثرات کو عملی طور پر عوام کے سامنے لائے۔ میری رائے یہ ہے کہ حکومت کا یہ اقدام مستحسن ہے کہ وہ توانائی بحران کے خاتمے کے لیے علاقائی اور پڑوسی ممالک سے بجلی کے حصول کی کوششیں ضرور کرے مگر اسے ملکی وسائل کو بھی بھرپور انداز سے استعمال کرنا چاہیے۔

اس سلسلے میں سورج اور ہوا کے علاوہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ بڑے آبی ذخائر کی تعمیر میں اگر رکاوٹیں ہیں تو ہائیڈل پاور کے چھوٹے اور کم لاگت منصوبے بھی شروع کیے جاسکتے ہیں ۔ ہم وطن عزیز کو اس وقت ہی اندھیروں سے نجات اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ جب ہم ملک کو توانائی کے جتنے ذخائر کی طلب ہے اس فوری طور پر پورا کریں گے اور اس سلسلے میں مستقبل کی ٹھوس منصوبہ بندی کریں تاکہ آیندہ ملک و قوم کو اس بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں