حقوقِ نسواں احکاماتِ الٰہی اور اسوۂ رسولؐؐ کی روشنی میں

ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کو جو حقوق اسلام نے دیے ہیں ان کو تسلیم کیا جائے.

ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کو جو حقوق اسلام نے دیے ہیں ان کو تسلیم کیا جائے. فوٹو: فائل

LOS ANGELES:
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، اس کا مقصد دنیا میں عدل و انصاف کے ابدی اصولوں پر مبنی ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں ہر حق دار کو اس کا پورا حق ملے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کرسکے۔ تاکہ اولاد آدم اس دنیا میں حیات ِ مستعار کے لمحات امن و سکون سے بسر کرسکے۔ اسلام کے اس نظام کی بنیاد انسانی مساوات پر مبنی ہے۔ اسلام کی آمد سے قبل عورت بہت مظلوم اور سماجی عزت و احترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھی اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اسی عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔

اسلام نے دیگر مذاہب کے باطل نظریات کو رد کرتے ہوئے عورت کو معاشرے میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے۔ اسلام نے عورت کو ذلت کی گہرائیوں سے نکا ل کر بلندیوں تک پہنچایا۔ عورت کو پاؤں کی جوتی کی بجائے گھر کی مالکہ اور رفیقۂ حیات کا اعزاز بخشا اور اس کا نان نفقہ خاوند کی ذمے داری قرار دیا۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہر لحاظ سے بلند مقام عطا کیا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے تاریخ میں پہلی بار عورت کو مرد کے مساوی حقوق دینے کا اعلان کیا۔ یہ فقط دعویٰ نہیں ہے بل کہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسلام جدید معاشرے کی عورت کو بھی وہی حقوق، عزت و وقار، عزت نفس اور پاکی و طہارت عطا فرماتا ہے جو اس نے زمانۂ قدیم کی عورت کو عطا کرکے اسے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر اوج ثریا تک پہنچا دیا۔

قرآن حکیم و حدیث نبویؐ میں عورت کی چار حیثیتوں کا بیان ہے

(1) ماں (2) بہن (3) بیوی (4) بیٹی

اسلام نے ماں کی حیثیت سے عورت کا مقام اس قدر بلند کیا ہے کہ معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ کی خدمت میں میرے والد حاضر ہوئے کہ یا رسول اﷲ ﷺ میں چاہتا ہوں کہ جہاد کروں اور آپؐ سے مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری ماں زندہ ہے، عرض کی کہ زندہ ہے، تو آپؐ نے فرمایا کہ تو اسی کے ساتھ رہو، اس لیے کہ جنت ماں کے پاؤں کے نیچے ہے۔ (نسائی)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ تو آپ ؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ تیری والدہ اور چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تیرا والد۔ (بخاری)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ باپ کے مقابلے میں ماں کی حیثیت و مرتبہ استحقاقِ خدمت میں تین گنا زیادہ ہے۔ اگر ماں کافر بھی ہو تو اس سے حسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے۔ حضر ت اسماءؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ میری والدہ اسلام سے نفرت کرتی ہے اب وہ میرے پاس آئی ہے، وہ میرے حسن سلوک کی مستحق ہے یا نہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔ (بخاری) رسول اکرمؐؐ نے ایک صحابیؓ کو والدہ کے بعد خالہ کے ساتھ ماں کے برابر حسن سلوک کی تاکید فرمائی۔ (مسند احمد)


قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے وہاں بہ طور بہن بھی اس کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔ بہ طور بہن، عورت کی وراثت کا حق بڑی ہی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا۔ اسلام کی آمد سے پہلے بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بل کہ اسے وراثت کا حق د ار بھی ٹھہرایا۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل و بقا کے لیے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے ۔

ارشاد ربانی ہے '' اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو، اور اﷲ نے اس میں تمہارے لیے بہت بھلائی رکھی ہو۔

(سورۃ النساء)

رسول اکرمؐ نے بھی بیوی سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی۔ احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو مختلف واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اپنی ازواج مطہراتؓ سے عملی طور پر بہت سے مواقع پر دل جوئی فرمائی۔ رسول اکرمؐ حضرت عائشہؓ کے ساتھ کبھی دوڑ لگا رہے ہیں او ر کبھی ان کو حبشیوں کے کھیل (تفریح) سے محظوظ فرما رہے ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اکرم ؐ کے ساتھ سفر میں تھیں فرماتی ہیں کہ میں اور آپؐ دوڑے، تو میں آگے نکل گئی تو پھر دوبارہ جب میں اور آپؐ دوڑے، تو آپؐ آگے نکل گئے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ اس کا بدلہ ہے تُو پہلے آگے نکل گئی تھی۔ یعنی اب ہم برابر ہوگئے۔ (ابوداؤد)

اسلام نے عورت کو جہاں ذلت و رسوائی کے مقام سے اعلیٰ درجے کا مقام عطا کیا، وہاں بہت سے حقوق و فرائض سے بھی نوازا ہے۔ یہاں تک کہ وہی لوگ جو کل تک عورت کو بے حیثیت سمجھتے تھے، اسلام کی آمد کے بعد عورت کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ سیدنا عبداﷲ بن عمر ؓ بیان فرماتے ہیں ''رسول اکرمؐ کے عہد مبارک میں ہم اپنی عورتوں سے گفت گو کرتے اور بے تکلفی برتتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارے متعلق کوئی حکم نہ نازل ہوجائے۔'' (بخاری)

اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خواتین کے انفرادی حقوق، عائلی حقوق، ازدواجی، معاشی اور دیگر حقوق کو بڑی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ عورتوں کو عزت و تکریم عطا کی ہے۔ عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار ہے، وہ اپنے نام جائیداد خرید سکتی ہے اور اپنی ملکیت میں رکھ سکتی ہے۔ اسے اپنے خاندان، خاوند اور دوسرے قریبی رشتے داروں سے وراثت میں حصہ ملتا ہے۔ جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے اسی طرح عورت کو خلع کے ذریعے نکاح تحلیل کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے۔

اسلام نے انسان ہونے کے ناتے سے مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔ لہٰذا جو اﷲ تعالیٰ اور رسول اکرمؐ نے خواتین کو حقوق دیے ہیں ان کے حقوق کی پاس داری کرنا ہمارا اولین مذہبی فریضہ ہے۔ حقوق نسواں کے حوالے سے خطبہ حجّۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ''خبردار تمہاری عورتوں کے ذمے تمہارا حق اور تمہارے ذمے تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں۔ عورتوں کے حق یہ ہیں کہ انہیں اچھا لباس پہناؤ اور اچھا طعام کھلاؤ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کو جو حقوق اسلام نے دیے ہیں ان کو تسلیم کیا جائے کیوں کہ تمام ادیان سے بڑھ کر خواتین کے حقوق کا تحفظ اسلام نے کیا ہے اور تمام شعبوں میں عورت کے حقوق و فرائض کے ہمہ جہت تحفظ کرنے کا حکم دیا ہے۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ بہ درجہ اتم حقیقت پر مبنی ہے کہ عورتوں کو اپنے حقوق اور تحفظ کے لیے دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ دینی و جدید تعلیم سے مزین ہونا ہوگا جو موجودہ صدی کا اہم تقاضا ہے۔
Load Next Story