تعلیم گاہوں کی سیکیورٹی
اس شہر کے تاجر حضرات بہت مطمئن ہیں، ہمارا اسٹاک ایکس چینج بھی بلندی کی حدوں کو چھو رہا ہے
MIAMI:
بڑے اطمینان اور خوشی کی بات ہے کہ پاکستان آرمی نے سندھ رینجرز کے ذریعے شہر قائد کراچی کو مستقل امن کا گہوارہ بنانے کی جو کوششیں کی ہیں وہ قابل تحسین ہیں ۔ یہ شہر کراچی ہی ہے جو پاکستان کی معیشت کا سرچشمہ ہے ۔ یہ شہر صنعتی بھی ہے تجارتی بھی ۔ اس شہر میں بندرگاہ بھی ہے ۔اس شہر نے پورے پاکستان کو اپنے اندر سمو لیا ہے یہ شہر بے مثال صرف امن کی حالت میں ہی ترقی کر سکتا ہے۔
اس شہر کے تاجر حضرات بہت مطمئن ہیں، ہمارا اسٹاک ایکس چینج بھی بلندی کی حدوں کو چھو رہا ہے ۔ امن کی بحالی کا عمل جاری ہے، بدامنی کا اندھیرا چھٹ رہا ہے، مگر اب بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، تساہل کی کوئی گنجائش نہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مساعی ٔ جمیلہ سے کافی حالات بدلے ہیں۔ لیکن جرائم پیشہ گروہوں کو کراچی کا امن راس نہیں آتا ،اس لیے ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، بلاشبہ رینجرز نے بڑے سفاک مجرموں کو سرینڈر کرنے پر مجبور کردیا ہے، تاہم کراچی میں اب بھی اسٹریٹ کرائم کا اندوہ ناک سلسلہ جاری ہے ۔
اب بھی اس شہر کی مساجد ، امام بارگاہیں اور مدرسہ بہترین سیکیورٹی کی طالب ہیں ، خاص طور پر شہر کراچی میں پرائیوٹ اسکولز کی بھر مار ہے ، زیادہ تر اسکولز بنگلوں ، رہائشی مکانوں میں بنائے گئے ہیں، بعض وسیع پلاٹ پر ہیں مگر بیشتر تنگ کمروں والے کلاس رومز پر مشتمل ہیں، بچے گھٹن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، بلاشبہ خوبصورت نجی اسکولز بھی بے شمار ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے کئی اسکولز ہیں جہاں کھیلنے کا کوئی میدان بھی نہیں ہے، نہ وسیع و عریض چار دیواری ہے۔
نارتھ ناظم آباد کی گلیوں میں کئی پرائیوٹ اسکولز ہیں ۔ ان اسکولوں کی چھٹیاں بھی ایک وقت میں ہوتی ہیں ، طالب علموں کو لینے کے لیے جو گاڑیاں ،کاریں، رکشے آتے ہیں وہ ہر گلی کو جام کردیتے ہیں ، کوئی ٹریفک کنٹرول کرنے والا نہیں ہوتا ، اس مشکل صورتحال سے عوام اور وہاں کے مکین بہت پریشان رہتے ہیں ، اس لیے حکومت سندھ کی وزارت داخلہ اس پر توجہ دے کیونکہ اس رش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی بھی دہشت گرد بآسانی کارروائی کر سکتا ہے ، کوشش کی جائے ایسے اسکولوں کو گلیوں سے نکال کر کھلی جگہوں پر منتقل کیا جائے اور ان جگہوں پر کم از کم رینجرز کی ایک چوکی ضرور ہونی چاہیے ۔
یہ سارے پرائیوٹ اسکول خاصی فیس لیتے ہیں ، اس لیے انھیں اسکول کے ماحول اور اس میں دی جانے والی تعلیم کے معیار کو بر قرار رکھنا چاہیے ۔ پرائیوٹ اسکول کی انتظامیہ اسکول کے اندر کافی بہتر انداز میں Managementرکھتی ہیں ، علم کے فروغ میں ان کا کنٹری بیوشن احسن ہے مگر انھی اسکول کے گیٹ پر بہت بد انتظامی ہوتی ہے Private School Associationکے سربراہ جناب خالد شاہ صاحب اس سلسلے میں کافی تجربہ کار بھی ہیں اور تعلیمی شعبہ سے بھی وابستہ ہیں ۔ وہ اسکولوں کی سیکیورٹی پر خاص پلان مرتب کر کے سندھ رینجرز اور حکومت سندھ کے داخلہ کو بھیجیں اور ہوسکے تو ان اسکولوں کی معائنہ ٹیم بنائیں جو سیکیورٹی رسک کا تفصیلی جائزہ لے ۔
یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے دشمن سفاک ہیں ، وہ وحشت اور بربریت پھیلانے کے لیے معصوم طلبا و طالبات کو نشانہ بناتے ہیں ۔ واقعات بے شمار ہیں، ابھی حال ہی میں کراچی رینجرز نے پورے شہر کو 60زون میں تقسیم کر کے بہترین سیکیورٹی پلان بنایا ہے جس میں کسی نا خوشگوار واقعہ کی فوری اطلاع حکام تک پہنچ جائے گی۔ تمام پرائیویٹ اسکولز کے مالکان اور ان کی انتظامیہ کی ذمے داری ہے کہ جتنی جلد ہوسکے اسکولز کو گلیوں اور کوچوں سے کھلے علاقوں میں منتقل کریں ، جہاں طلباء کے لیے ٹریفک کے مسائل نہ ہوں ۔ کھلی فضا ہو، روشن کلاس رومز ہوں ۔ محکمہ تعلیم بھی ان پرائیویٹ اسکولز کی نگرانی کو بہتر بنائے تا کہ جو طلباء ان پرائیویٹ اسکولز میں بھاری فیسیں ادا کر رہے ہیں ان کے والدین اپنے بچوں کی حفاظت پر اطمینان ظاہر کریں۔
لاہور میں تمام پرائیویٹ اسکولز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ گرمیوں کی چھٹیوں کی دو ماہ کی ایڈوانس فیس نہ لیں ۔ اسی طرح کراچی میں بھی ہونا چاہیے تھا، ورنہ ان گرمیوں کی تعطیلات میں 2ماہ کے بجائے 4 ماہ کی ایڈوانس فیس کا بوجھ والدین پر آتا ہے ، پرائیویٹ وین والے الگ پیسوں کا ایڈوانس مطالبہ کرتے ہیں۔حالانکہ یہ فیس اپنے وقت پر بینکوں میں جمع کرائی جا سکتی ہے ۔ یا پھر حکومت سندھ ایجوکیشن سبسڈی دے۔ یہ فروغ تعلیم میں معاون ثابت ہوگا۔ صوبائی محکمہ تعلیم کے حکام ان پرائیویٹ اسکولز میں جاکر یہ معلومات حاصل کریں کہ وہ اسکول طلباء سے کتنی فیس وصول کر رہا ہے ، کچھ اقدامات کیے جا چکے ہیں مگر ان کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے، دیکھا جائے کہ طلباء کو اس کے عوض کیا سہولتیں میسّر ہیں ۔
بہت سے اسکولز میں KGکے بچوں سے بھی کمپیوٹر کی فیس علیحدہ سے وصول کی جاتی ہے جو سراسر زیادتی ہے ، اگر کمپیوٹر طالب علم کا SUBJECTہے تو علیحدہ فیس وصول کرنا مناسب نہیں ، ارباب اختیار اس پر توجہ دیں۔ آیندہ برسوں میں تو ساری تعلیم ڈیجیٹل ہونے والی ہے، کیا ہر ڈیوائس کی الگ فیس ہوگی؟ یہ ناانصافی ہوگی۔
ہر اسکول میں سول ڈیفینس پوسٹ ہونی چاہیے اور آگ بجھانے، ریسکیو اور فرسٹ ایڈ کے اطمینان بخش انتظام ہونے چاہئیں۔ اسکول کی انتظامیہ میں کچھ لوگ سول ڈیفینس سے شارٹ کورسز کیے ہوئے ہوں ۔ ہر اسکول کے پاس ایک کوالیفائڈ انسٹرکٹر ہو تا کہ داخلی Incident کسی قسم کی غیر معمولی صورتحال پر قابو پایا جا سکے۔
بڑے اطمینان اور خوشی کی بات ہے کہ پاکستان آرمی نے سندھ رینجرز کے ذریعے شہر قائد کراچی کو مستقل امن کا گہوارہ بنانے کی جو کوششیں کی ہیں وہ قابل تحسین ہیں ۔ یہ شہر کراچی ہی ہے جو پاکستان کی معیشت کا سرچشمہ ہے ۔ یہ شہر صنعتی بھی ہے تجارتی بھی ۔ اس شہر میں بندرگاہ بھی ہے ۔اس شہر نے پورے پاکستان کو اپنے اندر سمو لیا ہے یہ شہر بے مثال صرف امن کی حالت میں ہی ترقی کر سکتا ہے۔
اس شہر کے تاجر حضرات بہت مطمئن ہیں، ہمارا اسٹاک ایکس چینج بھی بلندی کی حدوں کو چھو رہا ہے ۔ امن کی بحالی کا عمل جاری ہے، بدامنی کا اندھیرا چھٹ رہا ہے، مگر اب بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، تساہل کی کوئی گنجائش نہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مساعی ٔ جمیلہ سے کافی حالات بدلے ہیں۔ لیکن جرائم پیشہ گروہوں کو کراچی کا امن راس نہیں آتا ،اس لیے ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، بلاشبہ رینجرز نے بڑے سفاک مجرموں کو سرینڈر کرنے پر مجبور کردیا ہے، تاہم کراچی میں اب بھی اسٹریٹ کرائم کا اندوہ ناک سلسلہ جاری ہے ۔
اب بھی اس شہر کی مساجد ، امام بارگاہیں اور مدرسہ بہترین سیکیورٹی کی طالب ہیں ، خاص طور پر شہر کراچی میں پرائیوٹ اسکولز کی بھر مار ہے ، زیادہ تر اسکولز بنگلوں ، رہائشی مکانوں میں بنائے گئے ہیں، بعض وسیع پلاٹ پر ہیں مگر بیشتر تنگ کمروں والے کلاس رومز پر مشتمل ہیں، بچے گھٹن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، بلاشبہ خوبصورت نجی اسکولز بھی بے شمار ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے کئی اسکولز ہیں جہاں کھیلنے کا کوئی میدان بھی نہیں ہے، نہ وسیع و عریض چار دیواری ہے۔
نارتھ ناظم آباد کی گلیوں میں کئی پرائیوٹ اسکولز ہیں ۔ ان اسکولوں کی چھٹیاں بھی ایک وقت میں ہوتی ہیں ، طالب علموں کو لینے کے لیے جو گاڑیاں ،کاریں، رکشے آتے ہیں وہ ہر گلی کو جام کردیتے ہیں ، کوئی ٹریفک کنٹرول کرنے والا نہیں ہوتا ، اس مشکل صورتحال سے عوام اور وہاں کے مکین بہت پریشان رہتے ہیں ، اس لیے حکومت سندھ کی وزارت داخلہ اس پر توجہ دے کیونکہ اس رش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی بھی دہشت گرد بآسانی کارروائی کر سکتا ہے ، کوشش کی جائے ایسے اسکولوں کو گلیوں سے نکال کر کھلی جگہوں پر منتقل کیا جائے اور ان جگہوں پر کم از کم رینجرز کی ایک چوکی ضرور ہونی چاہیے ۔
یہ سارے پرائیوٹ اسکول خاصی فیس لیتے ہیں ، اس لیے انھیں اسکول کے ماحول اور اس میں دی جانے والی تعلیم کے معیار کو بر قرار رکھنا چاہیے ۔ پرائیوٹ اسکول کی انتظامیہ اسکول کے اندر کافی بہتر انداز میں Managementرکھتی ہیں ، علم کے فروغ میں ان کا کنٹری بیوشن احسن ہے مگر انھی اسکول کے گیٹ پر بہت بد انتظامی ہوتی ہے Private School Associationکے سربراہ جناب خالد شاہ صاحب اس سلسلے میں کافی تجربہ کار بھی ہیں اور تعلیمی شعبہ سے بھی وابستہ ہیں ۔ وہ اسکولوں کی سیکیورٹی پر خاص پلان مرتب کر کے سندھ رینجرز اور حکومت سندھ کے داخلہ کو بھیجیں اور ہوسکے تو ان اسکولوں کی معائنہ ٹیم بنائیں جو سیکیورٹی رسک کا تفصیلی جائزہ لے ۔
یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے دشمن سفاک ہیں ، وہ وحشت اور بربریت پھیلانے کے لیے معصوم طلبا و طالبات کو نشانہ بناتے ہیں ۔ واقعات بے شمار ہیں، ابھی حال ہی میں کراچی رینجرز نے پورے شہر کو 60زون میں تقسیم کر کے بہترین سیکیورٹی پلان بنایا ہے جس میں کسی نا خوشگوار واقعہ کی فوری اطلاع حکام تک پہنچ جائے گی۔ تمام پرائیویٹ اسکولز کے مالکان اور ان کی انتظامیہ کی ذمے داری ہے کہ جتنی جلد ہوسکے اسکولز کو گلیوں اور کوچوں سے کھلے علاقوں میں منتقل کریں ، جہاں طلباء کے لیے ٹریفک کے مسائل نہ ہوں ۔ کھلی فضا ہو، روشن کلاس رومز ہوں ۔ محکمہ تعلیم بھی ان پرائیویٹ اسکولز کی نگرانی کو بہتر بنائے تا کہ جو طلباء ان پرائیویٹ اسکولز میں بھاری فیسیں ادا کر رہے ہیں ان کے والدین اپنے بچوں کی حفاظت پر اطمینان ظاہر کریں۔
لاہور میں تمام پرائیویٹ اسکولز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ گرمیوں کی چھٹیوں کی دو ماہ کی ایڈوانس فیس نہ لیں ۔ اسی طرح کراچی میں بھی ہونا چاہیے تھا، ورنہ ان گرمیوں کی تعطیلات میں 2ماہ کے بجائے 4 ماہ کی ایڈوانس فیس کا بوجھ والدین پر آتا ہے ، پرائیویٹ وین والے الگ پیسوں کا ایڈوانس مطالبہ کرتے ہیں۔حالانکہ یہ فیس اپنے وقت پر بینکوں میں جمع کرائی جا سکتی ہے ۔ یا پھر حکومت سندھ ایجوکیشن سبسڈی دے۔ یہ فروغ تعلیم میں معاون ثابت ہوگا۔ صوبائی محکمہ تعلیم کے حکام ان پرائیویٹ اسکولز میں جاکر یہ معلومات حاصل کریں کہ وہ اسکول طلباء سے کتنی فیس وصول کر رہا ہے ، کچھ اقدامات کیے جا چکے ہیں مگر ان کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے، دیکھا جائے کہ طلباء کو اس کے عوض کیا سہولتیں میسّر ہیں ۔
بہت سے اسکولز میں KGکے بچوں سے بھی کمپیوٹر کی فیس علیحدہ سے وصول کی جاتی ہے جو سراسر زیادتی ہے ، اگر کمپیوٹر طالب علم کا SUBJECTہے تو علیحدہ فیس وصول کرنا مناسب نہیں ، ارباب اختیار اس پر توجہ دیں۔ آیندہ برسوں میں تو ساری تعلیم ڈیجیٹل ہونے والی ہے، کیا ہر ڈیوائس کی الگ فیس ہوگی؟ یہ ناانصافی ہوگی۔
ہر اسکول میں سول ڈیفینس پوسٹ ہونی چاہیے اور آگ بجھانے، ریسکیو اور فرسٹ ایڈ کے اطمینان بخش انتظام ہونے چاہئیں۔ اسکول کی انتظامیہ میں کچھ لوگ سول ڈیفینس سے شارٹ کورسز کیے ہوئے ہوں ۔ ہر اسکول کے پاس ایک کوالیفائڈ انسٹرکٹر ہو تا کہ داخلی Incident کسی قسم کی غیر معمولی صورتحال پر قابو پایا جا سکے۔