بارہ سوال
یوتھائیڈیمس: یہ تو میں پہلے ہی سے جانتا ہوں اس لیے کچھ زیادہ توجہ نہیں دی
HANOI:
''معزز اراکین مجلس ! ہم اب مختلف راستو ں کے مسافر ہیں، میں موت کی تنگ و تاریک گھاٹی کی جانب رواں اور تم شارع زندگی کی طرف گامزن کون سا راستہ ٹھیک ہے، یہ نہ تم جانتے ہو، نہ میں جانتا ہوں مگر خیر تم سے مجھے کوئی شکوہ نہیں تم تو یہ بھی نہیں جانتے ہوکہ تم کچھ نہیں جانتے ہاں مگر کچھ دنوں بعد تم جان لو گے کہ تم نے ایک ایسا فطین آدمی کو کھو دیا ہے جو یہ جانتا تھا کہ وہ کچھ نہیں جانتا ۔ یہ سقراط کا آخری بیان تھا یونان کی قدیم تاریخ کے حوالے سے ''گاڈ آف ڈیلفی ''سچ کا خدا تھا ڈیلفی میں اپالو کے معبد پر یہ معروف فقرہ تحریر تھا کہ ''اپنے آپ کو پہچانو'' ایک دفعہ سقراط نے ایک نوجوان کو اصلاح نفس کی طرف راغب کرتے ہوئے۔
اس سے پو چھا کیا تم کبھی ڈیلفی گئے ہو۔ نوجوان یوتھائیڈیمس نے جواب میں کہا جی میں تو دوبار جا چکا ہوں سقراط، اچھا تو کیا وہاں یہ الفاظ لکھے ہوئے دیکھے تھے کہ ''اپنے آپ کو پہچانو''یوتھائیڈیمس: بالکل میں نے پڑھے تھے سقراط :صرف پڑھنا ہی تو کافی نہیں ہے ، کیا اس پر غور بھی کیا تھا کیا تمہیں اس کی فکر بھی ہوئی کہ اپنے بارے میں یہ جاننے کی کوشش کرو کہ تم ہو کیا۔
یوتھائیڈیمس: یہ تو میں پہلے ہی سے جانتا ہوں اس لیے کچھ زیادہ توجہ نہیں دی ۔ سقراط: اپنے آپ کو جاننے کے لیے اپنا نام جاننا تو کافی نہیں ہے ایک شخص جو گھوڑا خریدنا چاہتا ہو جب تک اس پر سواری کر کے یہ نہ دیکھ لے کہ وہ سدھایا ہوا ہے یا سرکش، مضبوط ہے یا کمزور، تیز رفتار ہے یا سست اورایسی ہر اچھی بری چیز کا اس میں جائزہ نہ لے تب تک وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ میں نے اس گھوڑے کو اچھی طرح جان لیا ہے اسی طرح ہمارے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنے آپ کو جاننے کا دعویٰ کریں جب کہ ہم اپنے اندر موجود صلاحیتوں سے بے خبر ہوں اور ان فرائض سے نا آشنا ہوں جو بحیثیت انسان ہم پر عائد ہوتے ہیں۔''
آئیں! ہم اپنی بات کرتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم کچھ نہیں جانتے اور اپنے آپ پر ظلم یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں اور تیسری یہ کہ ہم کچھ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے ہیں۔ ٹیگور نے کہا تھا فکر، فکر کو دور کرتی ہے جب انسان یہ سمجھ جاتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا تو وہ جاننے کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ یاد رہے نہ جاننے سے جاننے تک کا سفر بہت دشوار اور تکلیف دہ ہوتا ہے جب تک آپ کچھ نہیں جانتے تو آپ خوش رہتے ہیں، مست رہتے ہیں لیکن جیسے ہی آپ جاننے لگتے ہیں تو آپ پر بھیانک اور اذیت ناک سچائیاں ایک ایک کرکے کھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔
ایسی ایسی ڈراؤنی سچائیاں جسے دیکھ کر انسان خوف سے کانپنا شروع کردے، آج ہم سب خوش اور مست ہیں اس لیے کہ ہم سچائیوں سے آگا ہ نہیں ہیں۔ آئیں خو فزدہ اور ڈرنے کے لیے تیار ہوجائیں کیونکہ ایک ایک کرکے آپ پر سچائیاں کھلنے والی ہیں لیکن پہلے میرے چند سوالوں کا جواب دے دیں ۔ پہلا سوال: یہ ہے کہ یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ اس میں عام لوگ خوشحال ہوں با اختیار ہوں آزاد ہوں ملک کے ہر فیصلے کا اختیار ان کے پاس ہو ملک میں مساوات ہو طبقاتی کشمکش نہ ہو ملک میں عوام کی حاکمیت ہو آپ کے بزرگوں نے صرف اسی لیے جانی و مالی قربانیاں دیں تھیں کہ ان کے یہ سارے خواب حقیقت کا روپ دھار لیں کیا ہمارے بزرگوں کی قربانیاں رنگ لائیں یاساری کی ساری ضایع ہوگئیں دوسرا سوال: کیا ہم دنیا بھر کے ساتھ چل رہے ہیں یا الگ تھلگ ایک کونے میں کھڑے اپنے آپ پر ماتم کررہے ہیں تیسرا سوال: کیاہمارا اور ہماری اولاد کا حال اور مستقبل محفوظ ہے ۔
چوتھا سوال :کیا ہم سب ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست ہیں یا خوفناک بیماریوں کے جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ پانچواں سوال :کیا ہمارا ہر جائزکام بغیر رشوت اور سفارش کے باآسانی ہورہا ہے یا ہم سب روز اس کے لیے دھکے کھاتے پھرتے ہیں چھٹا سوال :کیا ہم اپنی اور اپنے پیاروں کی ساری خواہشوں، آرزؤں، تمناؤں اور چھوٹے چھوٹے خوابوں کو پورا کررہے ہیں یا روز ذلیل وخوار ہوتے ہی پھررہے ہیں اور روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں ۔
ساتوں سوال :کیا ہماری معاشرے میں کوئی عزت ہے یا ہر بڑا امیر و کبیر اور طاقتور آدمی ہمیں ذلیل کر کے تسکین حاصل کرتا رہتا ہے ۔ آٹھواں سوال:کیا وہ لوگ جو ہمارے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آتے ہیں جیتنے کے بعد کیا ہمیں گھاس ڈالتے ہیں ۔کیا ہمیں ذرا برابر اہمیت دیتے ہیں کیا ہمارے چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں ۔کیاہم سے باآسانی ملاقات کرتے ہیں ۔ نواں سوال: کیاہمیں اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی حاصل ہے یاہم ہروقت خو فزدہ رہتے ہیں۔ دسواں سوال :کیا خواتین اور اقلیتوں کو مکمل مساوی حقوق حاصل ہیں یاانھیں کوئی انسان ہی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ گیارہواں سوال :گنتی کے جو چند لوگ ملک میں لوٹ مار اور کرپشن کررہے ہیں کیا ہم کبھی متحد ہو کر ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں بارہواں سوال: کیاہمارے حکمران سچے، ایماندار، دیانتداراور ہرقسم کی کرپشن سے پاک ہیں۔
جب آپ ان سوالوں کے جواب دے رہے ہوں گے تو آپ پر یہ ڈراؤنی سچائی کھل چکی ہوگی کہ آپ دراصل ایک دوزخ میں رہ رہے ہیں ،ایسی دوزخ جو پہلے پہل جنت تھی لیکن ہم نے اسے مل کر دوزخ میں تبدیل کردیا ہے اور جب کبھی کوئی گھبرا کر خوفزدہ ہوکر اس دوزخ سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم سب مل کر اسے دبوچ لیتے ہیں وہ پھرکوشش کرتا ہے ہم پھر اسے دبوچ لیتے ہیں اصل میں ہم سب اس دوزخ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ نہ توہمارا دل اسے تبدیل کرنے کو چاہتا ہے اور نہ ہی کسی کواسے تبدیل کرنے دیتے ہیں ہم سب ان فرائض سے ناآشنا ہوچکے ہیں جو بحیثیت انسان ہم پر عائد ہوتے ہیں، اصل میں ہم سب اپنی اپنی یاداشت کھوچکے ہیں کیونکہ ہم الزائمر مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔
الزائمر ایک ایسی دماغی بیماری ہے جس میں نہ صرف یاداشت ختم ہوجاتی ہے بلکہ سماجی سرگرمیوںمیں خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ اس مرض سے متاثرہ مریضوں میں دماغ کے ایسے حصے متاثر ہوتے ہیں جو فکر، یاداشت اورزبان کے استعمال کو قابوکرتے ہیں ۔ اسی مرض کی وجہ سے نہ ہم اپنے آپ کو پہچان رہے ہیں نہ اپنے آپ کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں اور نہ ہی اپنی صلاحیتوں کو برو ئے کار لارہے ہیں۔ بس سب کچھ بھول بھال کر صرف زندہ ہیں نہ ہمیں اپنی کوئی فکر ہے نہ اپنے پیاروں کی اورخو شحالی، ترقی، کامیابی،آزادی اورخوشیاں کیا ہوتی ہیں نہ ہمیں یاد ہے اور نہ ہمیں ان کی کوئی فکر ہے بس صرف زند ہ ہیں ۔