حیدر بخش جتوئی و دہقانوں کا سندھ
دنیا بدل رہی ہے اور یہ سب کچھ تیزی سے بھی ہورہا ہے، اتنی تیزی سے کہ شاید ہمیں اندازہ نہ ہو۔
دنیا بدل رہی ہے اور یہ سب کچھ تیزی سے بھی ہورہا ہے، اتنی تیزی سے کہ شاید ہمیں اندازہ نہ ہو۔ دنیا کے اس بدلنے کے پراسس میں دنیا سکڑ بھی رہی ہے۔ ہم سب آمنے سامنے ہیں، ریاستوں کے خدوخال بھی تبدیل ہو رہے ہیں تو انسانوں کی بحیثیت شہری ماہیت بھی تبدیل ہو رہی ہے اور اس ساری رفتار میں کوئی اگر تبدیل ہونے کو تیار نہیں تو وہاں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔
کیپٹلزم کی کوکھ سے نکلا سامراج اور سامراج کی کوکھ سے جدید نوآبادیاتی دنیا۔ پہلے انگریز خود حکومت کرتا تھا پھر انگریز کے پٹھو نے حکومت کی اور پھر سائنس کی ترقی نے انسان کو آزاد کیا، اتنا آزاد اور اتنا خودمختار کہ شاید اورنگزیب بادشاہ ہوتے ہوئے بھی نہ ہو کہ میرے پاس اسمارٹ فون ہے اس کے پاس نہ تھا، گوگل اس کی انگلیوں پر نہ تھا، نہ یوٹیوب تھا، نہ فیس بک تھا۔ وہ صرف گھوڑوں، اونٹوں اور ہاتھیوں والا بادشاہ سلامت تھا۔ اب قدغن لگانا آسان نہیں، گوکہ لہو رونا بھی آساں نہ ہو، مگر اب جو کہنا ہے وہ کہہ دے، ناچنا، گانا، رونا دھونا ہے، جو کرنا ہے کردے کہ اب کے زباں پہ نہ مہر ہے، نہ حلقہ زنجیر ہے، اب صرف فیض کی یہ کہی بات حقیقت ہے:
دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
زہر کا ظلم گھولنے والے
کامراں ہوسکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
وہ چاند گوگل ہے، وہ گوگل جس کی معیشت کی بنیاد بازار کے اصولوں پر چلتی ہے کہ وہ اپنے ہونے میں تو بے رحم ہے مگر اپنی روح میں چاند ہے، وہ چاند جو اندھیروں میں اجالا کرتا ہے۔ وہ اندھیرے جو صدیوں سے گھنے جنگل کے ڈیرے تھے۔
نہ جانے کیوں شاعر نے چاند کو اپنا موضوع سخن بنایا، وہ بھول گیا چاند کی ساخت جو فزکس میں بیان ہے کہ جہاں آکسیجن ہے نہ پانی ہے۔ ہاں مگر چاند جو سورج سے روشنی چرا لیتا ہے جب اندھیرے گھنے ہوتے ہیں وہاں جگنو بن کے دستک دیتا ہے۔
بات گوگل کی بھی نہیں، بات تبدیل ہوتے ہوتے اس حد کو چھو لینے کی ہے جہاں گوگل بھی ماضی بن جائے گا، مگر پھر بھی گوگل یدبیضا آج کے عہد کا، جو مانگو وہ دیتا ہے، انگلیوں سے دور اتنی طویل اور اتنی بڑی انسائیکلو پیڈیا، جو صرف آپ کے سوال کا منتظر، آپ کو جو چاہیے کہیے! گوگل آپ کے پاس بہت کچھ لے آتا ہے۔
یہ ساری گھمسان کی جنگ جس سے میرے کمرے کی کھڑکیاں لرز رہی ہیں، یہ اسی کا ردعمل ہے، کہ میں جس پڑوس میں رہتا ہوں، وہاں عقیدوں کا دور دورا ہے۔ وہی دور جب گلیلو کو کلیسا نے اس حقیقت پر سزا دی تھی کہ زمین کائنات کا محور نہیں اور پھر گلیلو نے جان کی امان پانے کے لیے اس حقیقت سے انحراف کیا تھا، مگر کیا ہوا؟ گلیلو نے بھی زندگی پائی تو وہ حقیقت بھی تسلیم ہوئی اور شکست کلیسا کی ہوئی۔
اس کلیسا نے عورت کے ساتھ وہ محشر برپا کیا جو شاید ہمارے تنگ نظروں نے بھی نہ کیا ہو۔ وہ کلیسا جس کے پاس کیا کیا نہ تھا۔ خود بادشاہ سلامت اس کے تابع تھا اور آج وہ کلیسا کہاں ہے؟
وہ سب ٹوٹ گیا، پھوٹ گیا، ترقی کی رفتار نے اسے دھول بناکے اڑا دیا، نہ کلیسا رہا نہ فیوڈل رہا اور ہاں مڈل کلاس، وہ مڈل کلاس جس نے ہنر سے اپنی طاقت بنائی، انفرااسٹرکچر کھڑا کیا، اتنی تیزی سے یہ سب کچھ ہوا کہ شاید کارل مارکس کو بھی پتہ نہ تھا کہ اس کا پرولتاریہ اب اس جگہ نہیں ہے جو انقلاب برپا کرے۔
یہ سب اتنا سلیس بھی نہیں کہ اس چھوٹے سے مضمون میں سما سکوں، ہاں پھر بھی لیکن یہ جو میں ہوں، میں سے میری مراد میرا پاکستان ہے، یہ جو آپ ہیں یا ہم سب ہیں، ہمیں تبدیل ہونے سے اختلاف ہے۔ یا ہم بہت سست رفتاری سے تبدیل ہورہے ہیں۔ یوں تو ہمارے پاس اسپرنگ انقلاب عرب دنیا کی طرح نہیں آئے گا، کوئی پنک انقلاب یا بلیو انقلاب ضرور آئے گا جب شرفاؤں کے پاکستان سے نکل کر ہم اک نئی راہ پکڑیں گے۔
انگلستان میں بھی پہلے جاگیرداروں کی جمہوریت تھی، شرفاؤں کی کلب تھی، کہاں تھا اس میں ہاؤس آف کامن۔ اس میں پہلے سب ایک ہی ہاؤس تھا۔ ہاؤس آف لارڈ، جب کرام ویل نے اس نالائق پارلیمنٹ کو بھسم کرنے کے لیے شب خون مارا تھا۔ (یہ جو انسانی حقوق کا پہلا معرکہ وہاں مارا گیا، جسے Magna Carta کہتے ہیں، پارلیمنٹ نے نہیں بلکہ کلیسا نے دیا تھا) اور پھر کرام ویل جو جرنیل تھا، آمر تھا، اس کی لاش کو نکال کر لٹکا دیا گیا تھا۔ پھر آیا تھا عام لوگوں کا ایوان، یعنی ہاؤس آف کامن۔ لیکن فیوڈل کا ایوان، شرفا کا ایوان یعنی ہاؤس آف لارڈ سے زیادہ طاقت ور تھا۔ اور اب ہاؤس آف کامن کا دور دورا ہے، کہ اب ایک ڈرائیور کا بیٹا لندن کا میئر بنا ہے۔ ڈرائیور کا بیٹا کیا وہ مسلمان بھی ہے، لیکن وہ سیکولر ہونے کے حوالے سے مندر بھی گیا، بھکشو کے پاس بھی گیا۔ سب مذاہب کے لوگوں کا لندن، سب رنگوں کا لندن، سب خیالوں اور افکار کا لندن، وہ انیسویں صدی میں بھی اتنی برداشت رکھتا تھا کہ اس کے نظام کے خلاف لکھنے والے کارل مارکس کو بھی اپنی آنکھوں پہ رکھا تھا۔
اتنی ساری تمہید مجھے اس لیے باندھنی پڑی کہ کل پھر گاؤں میں ایک وڈیرے کی گاڑی سے غریب مزدور کی گدھا گاڑی ٹکرا گئی، جرگہ ہوا اور ان دونوں مزدوروں کی زبان پر جوتا رکھ کر گھٹنوں کے بل معافی مانگنے کا فیصلہ صادر ہوا اور یہ سارے فوٹو اخباروں کی زینت بنے۔ کیوں یہ سب اخباروں میں آج نظر آیا، یہ تو روز ہوتا ہے، کاروکاری، دلت لڑکیوں کی عزت لوٹنا، اور پھر انھیں مسلمان کرنا، کہ صرف چھوٹی عمر کی لڑکیاں کیوں اپنا مذہب چھوڑتی ہیں، ان کے لڑکے کیوں نہیں یا عمر رسیدہ عورتیں کیوں نہیں؟ یہ سب رواں ہے، دواں ہے۔
خبر یہ نہ تھی کہ مزدور کی تذلیل ہوئی، خبر یہ ہے کہ مزدور کی خبر اتنی بڑی خبر بنی کہ آئی جی سندھ نے اس خبر کا نوٹس لیا۔ یہ تو بھلا ہو ہائی کورٹ کے جج کا، جس نے جرگوں کی ذمے داری اب پولیس پر ڈال دی۔ مجھے اب یقین ہوچلا ہے کہ سندھ تبدیل ہو رہا ہے۔ جس دن میرا مضمون آپ کی آنکھوں سے گزرے گا، وہ سندھ کے دہقانوں کے عظیم رہنما کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی برسی کا دن ہے۔ یہ وہ شخص تھا جو انگریزوں کے زمانے میں کلکٹر تھا، استعفیٰ دیا اور دہقانوں کے حقوق کی تحریک، ہاری کمیٹی کا حصہ بنا، اس کی آواز ایوانوں تک جا پہنچی۔ 1971 میں اسی دن اس کا انتقال ہوا۔ ہم سمجھتے تھے کہ حیدر بخش جتوئی تاریخ ہوا، لیکن اس طرح نہیں، وہ جن افکار کی بات کرتا تھا وہ آج بھی زندہ ہیں اور اس کی تحریک آج بھی پایندہ ہے۔