عشق پر زور نہیں …

سوکنیں تو ہر آن جلتی رہتی ہیں۔ آتشِ نمرود کے بعد شاید یہی آگ سب سے زیادہ خوفناک اور ہلاکت خیز ہوتی ہے ۔


Shakeel Farooqi November 20, 2012
[email protected]

یہ اپنے چچا غالبؔ بھی بڑے کمال کے شاعر گزرے ہیں، آخر یوں ہی تو جگت چچا تسلیم نہیں کیے گئے۔ آپ کے بعض اشعار ضرب المثل اور بعضے قولِ فیصل کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلاً چچا جان کا یہ شعر

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

آج بھی اپنی صداقت کا لوہا منوا رہا ہے جس کی تازہ ترین مثال طُرّم خاں امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس ہے۔ یہ 60 سالہ بڈھا ایک خاتون صحافی پاؤلا کی محبت کے جال میں پھنس کر اپنی مٹی پلید کر بیٹھا۔ یہ عشق کا چکر کب سے چل رہا ہوگا، اس کے بارے میں تو ٹھیک سے کچھ کہنا ممکن نہیں ہے، مگر اس کا انجام آخر کار وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ یعنی یہ کہ ''عشق اور مُشک'' دونوں کا زیادہ دیر تک چھپے رہنا ممکن نہیں۔ یہ حضرت ڈیوڈ پیٹریاس کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ امریکا کے بڑے نامی گرامی جاسوس اور امریکا کی بدنام زمانہ جاسوس ایجنسی سی آئی اے کی ناک ہوا کرتے تھے۔

عشق کا یہ چکر نہ معلوم کب تک یوں ہی چلتا رہتا، مگر بُرا ہو رقیبِ رُو سیاہ یعنی امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کا کہ اس نے یکایک چوراہے کے بیچوں بیچ بھانڈا پھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں بے چارے کو اپنی نوکری سے بھی استعفیٰ دینا پڑ گیا۔ مگر یہ کوئی انہونی نہیں ہے کیونکہ عشق کی ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ یہ کمبخت کسی نہ کسی صورت بھینٹ ضرور لیتا ہے، خواہ یہ شکل جان کی ہو یا مال کی، مگر سچ پوچھیے تو اس بھینٹ کی بدترین صورت وہ عزت و شرم ہوتی ہے جو بڑے پاپڑ بیل کر اور عمرِ عزیز کا ایک بڑا حصہ گزارنے کے بعد حاصل ہوتی ہے، مگر جو محض پَل بھر میں ملیا میٹ ہوجاتی ہے اور انجام کار عاشق نامراد ہاتھ ملتے ہوئے یہ کہتا ہوا رہ جاتا ہے کہ ''اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی''۔

جنرل پیٹریاس کے عشق کی ناکامی نے ہمیں انگریزی کے شہرۂ آفاق ڈراما نگار ولیم شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے ''اوتھیلو'' کی یاد دلادی جس کے مرکزی کردار اوتھیلو نے دوسرے کردار ایاگو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا "O, beware, my lord, of jealousy" جی ہاں! اوتھیلو نے حسد (Jealousy) کے بارے میں جو بھی کہا تھا وہ حرف بہ حرف درست ہے۔ یہ حسد واقعی وہ آگ ہے جو فولاد کو بھی جلا کر بھسم کرسکتی ہے۔ اگرچہ مرد حضرات بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں ہیں، مگر خواتین پر اس کا سب سے زیادہ غلبہ ہوتا ہے۔

خصوصاً سوتنیں (سوکنیں) تو ہر آن اس آگ میں جلتی رہتی ہیں۔ آتشِ نمرود کے بعد شاید یہی آگ سب سے زیادہ خوفناک اور ہلاکت خیز ہوتی ہے۔ اوتھیلو کے قصے میں تو جو کچھ ہوا وہ محض ایک ڈراما تھا، مگر پیٹریاس کے معاملے میں اس نے ایک خوف ناک حقیقت کا روپ دھار لیا۔ ایک عورت نے جب یہ دیکھا کہ ایک دوسری عورت کو بھی اس کے محبوب کا قرب حاصل ہے تو اس کا پیمانۂ صبر ایک دم چھلک پڑا۔ ایک میان میں دو تلواریں بھلا کیسے سما سکتی ہیں۔ امریکی تفتیشی ادارے FBI کی چھان بین کے دوران یہ عقدہ کھلا کہ ان کی سوانح نگار پاؤلا براڈ ویل جو اُن پر ڈورے ڈال چکی تھی اپنی حریفہ کو دھمکی آمیز ای میل پیغامات بھیج رہی تھی، مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حریفہ بھی کوئی کنواری دوشیزہ نہیں بلکہ ایک شادی شدہ خاتون تھی جس کے دو جیتے جاگتے بچے بھی موجود تھے۔

ایف بی آئی کے اہلکاروں کو جب چھان بین کے دوران یہ معلوم ہوا کہ دنیا کے سب سے طاقتور ادارے سی آئی اے کا سربراہ (ڈیوڈ پیٹریاس) دل کے معاملات کو ریاست کے اُمور پر ترجیح دے رہا ہے تو وہ ہکّا بکّا رہ گئے اور بالآخر مریضِ عشق کو وارننگ دینے پر مجبور ہوگئے، مگر جیساکہ عشق کا دستور رہا ہے مبتلائے عشق نے ان کی وارننگ کو ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے اُڑا دیا جس کے بعد تنگ آمد بہ جنگ آمد تک نوبت پہنچ گئی، لیکن اس واقعہ کا اہم ترین غور طلب پہلو یہ ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کو ایک ہفتہ پہلے تک اس معاملے کی بھنک نہیں پڑی۔ سوال یہ ہے کہ ایف بی آئی نے یہ بات ان کے علم میں نہ لاکر کیا کوئی کوتاہی کی ہے؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ اوباما انتظامیہ کو اس بات کا پتا اس وقت چلا جب الیکشن والے دن شام کے 5 بجے ایف بی آئی کی جانب سے قومی سلامتی کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر کو بذریعہ فون اس بارے میں ایک پیغام موصول ہوا۔

امریکی سینیٹر فئینٹین کا کہنا ہے کہ انھیں اس معاملے کا علم میڈیا کے ذریعے ہوا اور اس کے بعد جب انھوں نے ڈیوڈ پیٹریاس سے اس بارے میں فون پر رابطہ قائم کیا تو وہ ان کے اعتراف پر حیران ہوگئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خبر نے ان پر گولی کا سا اثر کیا۔ جب غیروں کا یہ حال ہے تو اس بات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ مسز پیٹریاس کے دل و دماغ پر اس کا کتنا گہرا اثر ہوا ہوگا۔ وہ بے چاری تو اس ناگہانی صدمے سے بُری طرح نڈھال ہوکر بس یہی کہہ رہی ہوں گی کہ

بلما بڑا دھوکے باز نکلا
بیری بڑا دغا باز نکلا

مگر وہ جو کسی نے کہا ہے کہ "Every thing is fair in love and war" (محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے) ڈیوڈ پیٹریاس نے اپنی حکومت سے اسے درست ثابت کر دکھایا ہے۔ عشق بڑی ظالم شے ہے۔ یہ اچھے اچھوں کو اندھا کردیتا ہے، اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ ''عشق نہ پُچھے ذات'' ۔ شنید ہے کہ لیلیٰ بالکل سیاہ فام تھی، اُلٹے توے کی طرح، مگر مجنوں صرف اُسی کا نہیں بلکہ اُس کے کُتّے کا بھی دیوانہ تھا۔ اس کا اعتراف چچا جان نے اپنے الفاظ میں یوں کیا ہے۔

عشق نے غالب نکمّا کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

ہمارے ایک مرحوم دوست اس کی پیروڈی یوں کیا کرتے تھے

عشق نے غالب تِکونا کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی چوکور تھے

پیٹریاس عمر میں پاؤلا سے 20 برس بڑا ہے، مگر وہ پاؤلا کی محبت میں باؤلا ہوگیا ہے۔ عشق کے نشے نے اس کی مت مار دی۔ تب ہی تو اس نے اچھی خاصی نوکری کو لات مار دی اور بے ساختہ چیخ چیخ کر یہ کہنے لگا

پاؤلا پاؤلا پکاروں میں بن میں
میری پاؤلا بسی میرے من میں

معاف فرمایے! جب مرد عورت کے سبب جنت سے نکالا جاسکتا ہے تو موئی نوکری کی تو بھلا اوقات ہی کیا ہے۔ لیلیٰ، شیریں اور سوہنی ہی پر کیا موقوف ہے ایک ادنیٰ کنیز انار کلی نے بھی شہزادہ سلیم کو کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔

امریکی سیاست میں ڈیوڈ پیٹریاس کا قصہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل امریکا کے سابق صدر بل کلنٹن کا تو افیئر بھی کوئی زیادہ پرانا قصہ نہیں، مگر داد دینی پڑے گی ان کی وفا شکار بیوی ہلیری کلنٹن کی، جنہوں نے اس سانحے کا زنانہ وار نہیں مردانہ وار مقابلہ کیا اور اسے کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا۔ ان کی اس روش نے ہمیں ان کے بارے میں اس شک وشبہ میں مبتلا کردیا تھا کہ کہیں ان کے خاندان کے ڈانڈے ماضی بعید میں مشرقی تہذیب، بالخصوص برصغیر کی تہذیب سے تو جاکر نہیں ملتے؟ جہاں کی عورت وفا شعار اور ستی ساوِتری ہوا کرتی ہے۔

برصغیر کی عورت پَتی ورتا ہونے کی عالمگیر شہرت رکھتی ہے جب کہ امریکی عورت کی روایت اس سے مختلف بتائی جاتی ہے یعنی مرد مار قسم کی عورت۔ غالباً منفرد مزاج نگار شوکت تھانوی نے جب ''جی ہاں پٹے ہیں'' کے زیر عنوان اپنا طنزیہ شاہکار تحریر کیا تھا تو اس وقت ان کا رُوئے سخن بدنصیب امریکی شوہر کی جانب ہی رہا ہوگا۔ جنرل پیٹریاس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ آسمان سے گِرا کھجور میں اٹکا کے مترادف ہے۔ یعنی بیوی کے چنگل سے نکلنے کی کوششِ ناکام کے نتیجے میں ایک صحافی خاتون کے ہتھے چڑھ گئے اور اس سے اپنی سوانح عمری تحریر کرنے کی فرمائش کر بیٹھے جو ان کی زندگی کی آخری فرمائش ثابت ہوئی۔

نتیجتاً ان کی کیفیت یہی ہوگی کہ دھوبی کا کُتّا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا، نہ خدا ہی مِلا نہ وصالِ صنم، نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے، گناہ اور بے لذت، بے چارے دل ہی دل میں بس یہی کہہ رہے ہوں گے کہ ''دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو''، مگر اب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے، لہٰذا کفِ افسوس ملنے سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا کیونکہ اب پچھتاوت کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔ شُنید ہے کہ جنرل پیٹریاس کی 38 سالہ بیگم ہولی کا پارہ بُری طرح چڑھا ہوا ہے جوکہ ایک فطری ردِ عمل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہولی اپنے ہولے ہوئے شوہر کی کیا درگت بناتی ہے۔ مگر جیساکہ ہم نے اس سے پہلے عرض کیا ہے امریکا کی تاریخ کا یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن سے بہت پہلے امریکا کے ایک اور مشہور و معروف صدر جنرل آئزن ہاؤر کے بھی اپنی خاتون ڈرائیور کے سمرز بائے (Kay Summersby) کے ساتھ بڑے عاشقانہ مراسم تھے۔

دوسری عالمی جنگ کے شہرت یافتہ جنرل میتھئیو رِگوے بھی خواتین کے بڑے رسیا تھے۔ ان کا بس چلتا تو ہر جنگ لڑنے کے بعد ایک نیا بیاہ رچاتے۔ امریکی صدر اور جرنیلوں کے دل پھینک ہونے کا اس سے بھی بڑا ثبوت بھلا اور کیا ہوگا کہ افغانستان میں جنرل پیٹریاس کے جانشین جنرل جون ایلن کے بارے میں بھی یہ اُڑتی اُڑتی خبریں آرہی ہیں کہ پیٹریاس اسکینڈل میں ملوث خاتون جل کیلی کے ساتھ ان کا بھی معاشقہ چل رہا تھا۔ ان حالات میں امریکا کے موجودہ فاتح صدر اور کمانڈر انچیف باراک اوباما کے بارے میں دعائے خیر ضروری ہوگئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں