کس بات کی معافی
ہم سے معافیوں کے تقاضے اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ہمیں اپنی قومی عزت اور غیرت کا احساس نہیں ہو جاتا۔
ایک چینی کہاوت ہے کہ اقوام کا عروج و زوال ان کے ہر شہری کی شخصیت سے عیاں ہوتا ہے۔ یعنی اس میں چھوٹے بڑے' امیر غریب' عالم اور جاہل کی کوئی تخصیص نہیں۔ جس طرح قوموں کی اجتماعی ترقی اور اقوام عالم میں مقام و مرتبہ ہر شہری کے چہرے سے جھلکتا ہے اسی طرح زوال بھی ہر فرد سے عیاں ہوتا ہے۔
ہمارا روبہ زوال ہونا آج سے دو تین دہائیاں قبل شاید ایسا سوال رہا ہو جس پر بحث کی گنجائش سمجھی جاتی ہو لیکن آج اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم ذلت کی پستیوں میں لڑھک گئے ہیں۔ ذلت کا سامنا کوئی خارجی حقیقت نہیں بلکہ انفرادی سطح پر فرد اور اجتماعی سطح پر کسی قوم کا وہ رویہ ہے جو داخلی احساسات کے کی بنیاد پر ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اب ہم تذلیل پر کسی معقول ردعمل کے وصف سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔ البتہ بحث کی رسیا اس قوم کے دانشور اس بات پر ضرور طبع آزمائی کر سکتے ہیں۔ کہ آیا ہم نے ذلت کے پاتال کو چھو لیا ہے یا ابھی کچھ مزید فاصلہ طے کرنا باقی ہے؟
قوموں کے زوال کی ایک اہم ترین نشانیوں میں ایک یہ ہوتی ہے کہ ان کی کامیابیوں کا قد کاٹھ بہت چھوٹا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان نے حال ہی میں جو بڑی کامیابی حاصل کی ہے وہ یہ ہے کہ بھارت نے ہماری کرکٹ ٹیم کو اپنے ملک میں آ کر کھیلنے کی اجازت دے دی ہے۔ ہم اس ''عظیم کامیابی'' پر پھولے نہیں سما رہے۔ شرمندہ ہونے کے بجائے ہم فخریہ اس کا اظہار کرتے پھرتے ہیں اور داد و آفریں کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ کامیابی ہم نے بار بار دھتکارے جانے' تھو تھو کیے جانے اور ڈانٹ ڈپٹ کے بعد حاصل کی ہے۔
ہمارے بورڈ کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ دورے نہ ہوئے تو بورڈ کے وسائل پر عیش کرنے والوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا۔ کھیلوں کی دنیا میں جنوبی افریقہ سب سے زیادہ طویل عرصہ تک بطور سزا کھیلوں سے دور رہا۔ حالانکہ یہ سب جنوبی افریقہ کی نسل پرست انتظامیہ کی کالی کرتوتوں کا نتیجہ تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنی کرکٹ کے معیار کو نہیں گرنے دیا اور جب کیری پیکر نے 1970میں کرکٹ کا میلہ سجایا تو وہاں آنے والے جنوبی افریقہ کے کھلاڑی دنیا کے چوٹی کے کھلاڑیوں کے ہم پلہ تھے۔
گزشتہ دنوں ہماری وزیرخارجہ حناربانی کھر وزیراعظم حسینہ واجد کو 22 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والی 8 ترقی پذیر ملکوں کے سربراہی اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ پہنچانے بنگلہ دیش تشریف لے گئیں تھیں۔ انھوں نے اپنے دورے میں حسب روایت بنگلہ دیش کو برادر اسلامی ملک بھی قرار دیا لیکن جواب میں بنگلہ دیش کی وزیر خارجہ دیپو مونی کا کہنا تھا کہ پہلے پاکستان 1971 کے واقعات پر بنگلہ دیش سے معافی مانگے۔ اس کے بعد ''برادرانہ تعلقات'' کے بارے میں سوچا جائے گا۔ ان کے دورے کے دو روز بعد حسینہ واجد نے بھی باضابطہ طور پر کہہ دیا کہ پہلے معافی مانگیں پھر پاکستان آنے کے بارے میں سوچا جائے گا۔
بے وجہ ایسے مطالبات ان ممالک سے کیے جاتے ہیں جن کے زوال پذیری انحطاط اور بے حسی کا یقین پختہ ہو چکا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جس وقت غیروں کو یہ بات صاف نظر آ رہی ہوتی ہے اس وقت بھی زوال پذیر قومیں اپنی حالت پر متفکر دکھائی دیتیں نہ اس پستی سے اُٹھنے کی جدوجہد پر آمادہ نظر آتی ہیں۔ جن واقعات پر ہم سے معافی طلب کی جا رہی ہے ان کی اصل حقیقت آشکار کرنا بھی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ شاید اس پردہ داری کے عوض بھی بین الاقوامی سطح پر نوازشات کی کوئی بارش ہم پر متوقع ہو' لیکن ان چالیس برسوں میں تو ہم مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں۔
جن واقعات پر معافی مانگنے کا تقاضا کیا جا رہا ہے، اور جسے آج بھی بنگالیوں کی نسل کشی قرار دیا جاتا ہے وہ در حقیقت بھارت کی رہنمائی میں ہونے والی قتل وغارت گری کا رد عمل تھا۔ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہاں کی فاشسٹ اکثریتی پارٹی عوامی لیگ نے 1940 میں جرمنی کے ہاتھوں فرانس کی شکست کی طرز پر حملہ آور بھارت کے ساتھ معاملات طے کر رکھے تھے۔ 27 مارچ 1971کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندہی نے لوک سبھا میں کہا تھا ''مشرقی پاکستان کے بارے میں بروقت فیصلے کیے جائیں گے' ہمارے نزدیک بروقت فیصلوں کی اہمیت ہے کیونکہ وقت گزر جانے کے بعد ان کا کوئی فائدہ نہیں''۔
بھارت کے اہم دفاعی پالیسی ساز ادارے اناسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹیڈیز کے سربراہ اے کے سبرامنیم نے اسی روز ایک سرکاری مذاکرے میں کہا تھا ''بھارت کو اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ اس کا مفاد پاکستان کی شکست وریخت میں ہے۔ اس طرح کا موقع ہمیں پھر کبھی نہیں ملے گا''۔
یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ آخر بھارت نے مارچ' اپریل ہی میں حملہ کر کے بنگال کو ''آزادی''کیوں نہیں دلا دی تو بھارتی میجر جنرل ڈی کے پلیٹ اپنی کتاب THE LIGHTING CAMPAIGN میں اس کا جواب یوں دیتے ہیں۔ ''آرمی چیف نے اس سے انکار کر دیا تھا کیونکہ فوج پچاس ارب روپے کی لاگت سے تنظیم نو کے منصوبے سے گزر رہی تھی جس کی تکمیل میں ابھی چند ماہ باقی تھے''۔
بھارتی مصنفین محمد ایوب اور اے کے سبرامنیم کی کتاب THE LIBRATION WAR کے مطابق ''وزارت خارجہ نے روس سے دوستی کی پرانی فائلوں کو نکالا اور 9 اگست کو روس سے معاہدہ کر لیا۔ عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے پناہ گزینوں کے مسئلے کو اُچھالا حالانکہ ان میں سے زیادہ تر محض بھارت کی شہہ پر اپنے گھروں کو چھوڑ کر چلے آئے تھے۔ پاک فوج کی جنگی صلاحیت کو کُند کرنے کے لیے مکتی باہنی کھڑی کی گئی۔ ہمیں نو مہینوں کی مہلت درکار تھی تاکہ ہم عالمی رائے عامہ ہموار کر لیں اور (چین کی ممکنہ امداد کے خلاف) روس کی یقین دہانی حاصل کر لیں۔ ان اقدامات کے بغیر حملے کا آغاز ممکن نہ تھا''۔
ممتاز صحافی' محقق اور مشہور کتاب The hope of Bangladesh کے مصنف Anthony Mascarenhanکو بنگال میں پاکستانی کارروائیوں کا بے رحم نقاد سمجھا جاتا ہے اور اس کے تجزیئے کو بھارتی نقطہ نظر سے قریب تر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے۔ 1947میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان کو اپنا وطن بنانے والے ہزاروں مسلم خاندانوں کو جن میں بہاریوں کی اکثریت تھی''انتہائی سفاکی کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔ باغیوں نے ایک خاص طرز کے تیز دھار آلے بنا رکھتے تھے جن کو خواتین کی چھاتیاں کاٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان خواتین کی عصمت دری کی جاتی تھی' بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا' ان میں سے وہ خوش قسمت رہے جنھیں ان کے والدین کے ساتھ ہی موت نصیب ہو گئی' لیکن ہزاروں ایسے تھے جنھیں ابھی زندگی کی ان سختیوں کو جھیلنا تھا جو ان کے مقدر میں لکھی گئی تھیں۔
بہت سوں کی آنکھیں نکال دی گئیں اور اعضاء کاٹ دیے گئے۔ اب تک چٹاگانگ'کُھلنا اور جیسور جیسے بڑے شہروں سے غیر بنگالیوں کی 20 ہزار سے زائد لاشیں مل چکی ہیں' لیکن مجھے ہر جگہ سے یہی بتایا گیا ہے کہ اصل اعداد و شمار ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہیں' جن کا کہیں کوئی ریکارڈ بھی نہیں۔ اس کے جواب میں مغربی پاکستان کی فوج نے بھی ردعمل دکھایا جس نے معاملے کی سنگینی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ مغربی پاکستان کے حکام نے مجھے درپردہ جو بات بتائی ہے اس کے مطابق دونوں طرف سے ڈھائی لاکھ لوگ ہلاک کیے جا چکے ہیں۔
کاٹ پیٹ کے خصوصی آلات ایجاد کرنے ہوں یا بوریوں میں لاشیں بھرنی ہوں یہ کسی عام ذہن کے بس کی بات نہیں، یہ کچھ بھارتی خفیہ ایجنسی' را ' کے ذہن رسا کی کارگزاری ہی ہو سکتی ہے' یہ الگ بات ہے کہ ہمارے سیفما فیم دانشور آپ کو ثابت کر دکھائیں کہ یہ سب قتل و غارت گری تو درحقیقت آئی ایس آئی کروا رہی تھی تاکہ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کا دامن کو داغدار کیا جا سکے۔ ہم سے معافیوں کے تقاضے اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ہمیں اپنی قومی عزت اور غیرت کا احساس نہیں ہو جاتا۔ اور یہ احساس اُس وقت پروان چڑھے گا جب کم از کم اہم ترین قومی معاملات میں ہماری تمام سیاسی جماعتیں تضادات سے پاک ہو جائیں گے۔
ہمارا روبہ زوال ہونا آج سے دو تین دہائیاں قبل شاید ایسا سوال رہا ہو جس پر بحث کی گنجائش سمجھی جاتی ہو لیکن آج اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم ذلت کی پستیوں میں لڑھک گئے ہیں۔ ذلت کا سامنا کوئی خارجی حقیقت نہیں بلکہ انفرادی سطح پر فرد اور اجتماعی سطح پر کسی قوم کا وہ رویہ ہے جو داخلی احساسات کے کی بنیاد پر ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اب ہم تذلیل پر کسی معقول ردعمل کے وصف سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔ البتہ بحث کی رسیا اس قوم کے دانشور اس بات پر ضرور طبع آزمائی کر سکتے ہیں۔ کہ آیا ہم نے ذلت کے پاتال کو چھو لیا ہے یا ابھی کچھ مزید فاصلہ طے کرنا باقی ہے؟
قوموں کے زوال کی ایک اہم ترین نشانیوں میں ایک یہ ہوتی ہے کہ ان کی کامیابیوں کا قد کاٹھ بہت چھوٹا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان نے حال ہی میں جو بڑی کامیابی حاصل کی ہے وہ یہ ہے کہ بھارت نے ہماری کرکٹ ٹیم کو اپنے ملک میں آ کر کھیلنے کی اجازت دے دی ہے۔ ہم اس ''عظیم کامیابی'' پر پھولے نہیں سما رہے۔ شرمندہ ہونے کے بجائے ہم فخریہ اس کا اظہار کرتے پھرتے ہیں اور داد و آفریں کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ کامیابی ہم نے بار بار دھتکارے جانے' تھو تھو کیے جانے اور ڈانٹ ڈپٹ کے بعد حاصل کی ہے۔
ہمارے بورڈ کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ دورے نہ ہوئے تو بورڈ کے وسائل پر عیش کرنے والوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا۔ کھیلوں کی دنیا میں جنوبی افریقہ سب سے زیادہ طویل عرصہ تک بطور سزا کھیلوں سے دور رہا۔ حالانکہ یہ سب جنوبی افریقہ کی نسل پرست انتظامیہ کی کالی کرتوتوں کا نتیجہ تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنی کرکٹ کے معیار کو نہیں گرنے دیا اور جب کیری پیکر نے 1970میں کرکٹ کا میلہ سجایا تو وہاں آنے والے جنوبی افریقہ کے کھلاڑی دنیا کے چوٹی کے کھلاڑیوں کے ہم پلہ تھے۔
گزشتہ دنوں ہماری وزیرخارجہ حناربانی کھر وزیراعظم حسینہ واجد کو 22 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والی 8 ترقی پذیر ملکوں کے سربراہی اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ پہنچانے بنگلہ دیش تشریف لے گئیں تھیں۔ انھوں نے اپنے دورے میں حسب روایت بنگلہ دیش کو برادر اسلامی ملک بھی قرار دیا لیکن جواب میں بنگلہ دیش کی وزیر خارجہ دیپو مونی کا کہنا تھا کہ پہلے پاکستان 1971 کے واقعات پر بنگلہ دیش سے معافی مانگے۔ اس کے بعد ''برادرانہ تعلقات'' کے بارے میں سوچا جائے گا۔ ان کے دورے کے دو روز بعد حسینہ واجد نے بھی باضابطہ طور پر کہہ دیا کہ پہلے معافی مانگیں پھر پاکستان آنے کے بارے میں سوچا جائے گا۔
بے وجہ ایسے مطالبات ان ممالک سے کیے جاتے ہیں جن کے زوال پذیری انحطاط اور بے حسی کا یقین پختہ ہو چکا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جس وقت غیروں کو یہ بات صاف نظر آ رہی ہوتی ہے اس وقت بھی زوال پذیر قومیں اپنی حالت پر متفکر دکھائی دیتیں نہ اس پستی سے اُٹھنے کی جدوجہد پر آمادہ نظر آتی ہیں۔ جن واقعات پر ہم سے معافی طلب کی جا رہی ہے ان کی اصل حقیقت آشکار کرنا بھی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ شاید اس پردہ داری کے عوض بھی بین الاقوامی سطح پر نوازشات کی کوئی بارش ہم پر متوقع ہو' لیکن ان چالیس برسوں میں تو ہم مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں۔
جن واقعات پر معافی مانگنے کا تقاضا کیا جا رہا ہے، اور جسے آج بھی بنگالیوں کی نسل کشی قرار دیا جاتا ہے وہ در حقیقت بھارت کی رہنمائی میں ہونے والی قتل وغارت گری کا رد عمل تھا۔ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہاں کی فاشسٹ اکثریتی پارٹی عوامی لیگ نے 1940 میں جرمنی کے ہاتھوں فرانس کی شکست کی طرز پر حملہ آور بھارت کے ساتھ معاملات طے کر رکھے تھے۔ 27 مارچ 1971کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندہی نے لوک سبھا میں کہا تھا ''مشرقی پاکستان کے بارے میں بروقت فیصلے کیے جائیں گے' ہمارے نزدیک بروقت فیصلوں کی اہمیت ہے کیونکہ وقت گزر جانے کے بعد ان کا کوئی فائدہ نہیں''۔
بھارت کے اہم دفاعی پالیسی ساز ادارے اناسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹیڈیز کے سربراہ اے کے سبرامنیم نے اسی روز ایک سرکاری مذاکرے میں کہا تھا ''بھارت کو اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ اس کا مفاد پاکستان کی شکست وریخت میں ہے۔ اس طرح کا موقع ہمیں پھر کبھی نہیں ملے گا''۔
یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ آخر بھارت نے مارچ' اپریل ہی میں حملہ کر کے بنگال کو ''آزادی''کیوں نہیں دلا دی تو بھارتی میجر جنرل ڈی کے پلیٹ اپنی کتاب THE LIGHTING CAMPAIGN میں اس کا جواب یوں دیتے ہیں۔ ''آرمی چیف نے اس سے انکار کر دیا تھا کیونکہ فوج پچاس ارب روپے کی لاگت سے تنظیم نو کے منصوبے سے گزر رہی تھی جس کی تکمیل میں ابھی چند ماہ باقی تھے''۔
بھارتی مصنفین محمد ایوب اور اے کے سبرامنیم کی کتاب THE LIBRATION WAR کے مطابق ''وزارت خارجہ نے روس سے دوستی کی پرانی فائلوں کو نکالا اور 9 اگست کو روس سے معاہدہ کر لیا۔ عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے پناہ گزینوں کے مسئلے کو اُچھالا حالانکہ ان میں سے زیادہ تر محض بھارت کی شہہ پر اپنے گھروں کو چھوڑ کر چلے آئے تھے۔ پاک فوج کی جنگی صلاحیت کو کُند کرنے کے لیے مکتی باہنی کھڑی کی گئی۔ ہمیں نو مہینوں کی مہلت درکار تھی تاکہ ہم عالمی رائے عامہ ہموار کر لیں اور (چین کی ممکنہ امداد کے خلاف) روس کی یقین دہانی حاصل کر لیں۔ ان اقدامات کے بغیر حملے کا آغاز ممکن نہ تھا''۔
ممتاز صحافی' محقق اور مشہور کتاب The hope of Bangladesh کے مصنف Anthony Mascarenhanکو بنگال میں پاکستانی کارروائیوں کا بے رحم نقاد سمجھا جاتا ہے اور اس کے تجزیئے کو بھارتی نقطہ نظر سے قریب تر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے۔ 1947میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان کو اپنا وطن بنانے والے ہزاروں مسلم خاندانوں کو جن میں بہاریوں کی اکثریت تھی''انتہائی سفاکی کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔ باغیوں نے ایک خاص طرز کے تیز دھار آلے بنا رکھتے تھے جن کو خواتین کی چھاتیاں کاٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان خواتین کی عصمت دری کی جاتی تھی' بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا' ان میں سے وہ خوش قسمت رہے جنھیں ان کے والدین کے ساتھ ہی موت نصیب ہو گئی' لیکن ہزاروں ایسے تھے جنھیں ابھی زندگی کی ان سختیوں کو جھیلنا تھا جو ان کے مقدر میں لکھی گئی تھیں۔
بہت سوں کی آنکھیں نکال دی گئیں اور اعضاء کاٹ دیے گئے۔ اب تک چٹاگانگ'کُھلنا اور جیسور جیسے بڑے شہروں سے غیر بنگالیوں کی 20 ہزار سے زائد لاشیں مل چکی ہیں' لیکن مجھے ہر جگہ سے یہی بتایا گیا ہے کہ اصل اعداد و شمار ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہیں' جن کا کہیں کوئی ریکارڈ بھی نہیں۔ اس کے جواب میں مغربی پاکستان کی فوج نے بھی ردعمل دکھایا جس نے معاملے کی سنگینی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ مغربی پاکستان کے حکام نے مجھے درپردہ جو بات بتائی ہے اس کے مطابق دونوں طرف سے ڈھائی لاکھ لوگ ہلاک کیے جا چکے ہیں۔
کاٹ پیٹ کے خصوصی آلات ایجاد کرنے ہوں یا بوریوں میں لاشیں بھرنی ہوں یہ کسی عام ذہن کے بس کی بات نہیں، یہ کچھ بھارتی خفیہ ایجنسی' را ' کے ذہن رسا کی کارگزاری ہی ہو سکتی ہے' یہ الگ بات ہے کہ ہمارے سیفما فیم دانشور آپ کو ثابت کر دکھائیں کہ یہ سب قتل و غارت گری تو درحقیقت آئی ایس آئی کروا رہی تھی تاکہ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کا دامن کو داغدار کیا جا سکے۔ ہم سے معافیوں کے تقاضے اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ہمیں اپنی قومی عزت اور غیرت کا احساس نہیں ہو جاتا۔ اور یہ احساس اُس وقت پروان چڑھے گا جب کم از کم اہم ترین قومی معاملات میں ہماری تمام سیاسی جماعتیں تضادات سے پاک ہو جائیں گے۔