جنرل پِیٹریاس کا قصور

مغرب کو یہ طے کر لینا چاہیے کہ اُس کی آزادی اور حقِ خود ارادیت کی بنیاد اقدار ہیں یا انسان خود۔


Shaikh Jabir November 20, 2012
[email protected]

آخر ِکار جنرل ڈیوڈ پیٹریاس 7)نومبر1952(کوبھی ،مغرب کے فکری تضاد کا شکار ہو کر استعفیٰ دینا پڑا۔جنرل ڈیوڈ پیٹریاس امریکی فوج میں فور اسٹار جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔

آپ نے37برس تک امریکی فوج میں نمایاں اوراہم ترین خدمات انجام دیں۔31اگست 2011 کو آپ فوج سے ریٹائر ہوئے۔ آپ کی آخری فوجی خدمات بہ طورانٹر نیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس ISAFکمانڈر، اور کمانڈر امریکی افواج برائے افغانستانUSFOR-A کے رہیں۔یہ مدت 4جولائی2010 سے18جولائی2011 تھی۔آپ امریکی مرکزی کمانڈ کے دسویں کمانڈر بھی رہے ہیں۔ 10 فروری 2007 سے 16ستمبر2008 تک عراق میںکثیرالقومی افواج عراقMNF-1کے کمانڈر بھی رہے۔6ستمبر2011 سے لے کر9نومبر2012 کو اپنے استعفے سے قبل تک پیٹریاس امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر رہے۔ بہ طور ڈائریکٹر سی آئی اے آپ کے عہدے کی توثیق امریکی سینیٹ نے متفقہ طور پر کی تھی۔جنرل پیٹریاس زمانہئِ طالب علمی ہی سے نمایاں اور ممتاز رہے۔

بہ طور کیڈٹ آپ نےB.Sکی ڈگری امریکی ملٹری اکیڈمی سے حاصل کی۔آپ کا شمار کلاس کے پانچ بہترین طالبعلموں میں کیا جاتا تھا۔بعد ازاں آپ نے M.P.A اور پھر Ph.Dکی اعلیٰ اسناد تک تعلیم حاصل کی۔ ٹائم میگزین نے آپ کو 2011 کے 100اہم افراد کی فہرست میں جگہ دی۔ڈیلی ٹیلیگراف نے کنزرویٹیوز کا دوسرا سب سے با اثر شخص قرار دیا۔ اِسی جریدے نے آپ کو2007 کا مین آف دی ائیر بھی قرار دیا۔ غرض شاید ہی کوئی ہو جو جنرل پیٹریاس کی صلاحیتوں کا اوراثرکا معترف نہ ہو۔ایسے جوہرِقابل کا ایسا افسوس ناک بلکہ حسرت ناک انجام چشمِ عبرت کا سامان ہے۔

جنرل پیٹریاس نے جِن خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات کا اعتراف کیا ہے وہ بھی صلاحیتوں اور ہنر میں کچھ کم نہیں ہیں۔ آپ ہیں پائولا ڈین براڈویل (9 نومبر 1972) ایک لکھاری اور ردِ دہشت گردی کی ماہر ہیں۔ آپ کینیڈی اسکول کے مرکز برائے پبلک لیڈرشپ کی ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں اور لندن میں کنگز کالج سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ آپ جنرل پیٹریاس کی بیسٹ سیلر سوانح کی شریک مصنفہ بھی ہیں۔ براڈ ویل خود بھی شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہیں۔اور جیسا کہ ظاہر ہے عمر میں جنرل صاحب سے قریباً 20برس چھوٹی بھی۔ دونوںکے ناجائز روابط کا اندازہ ایف بی آئی کو جنرل پیٹریاس کے ای میل اکائونٹ کی نگرانی سے ہوا۔جنرل پیٹریاس نے استعفا دیتے ہوئے کہا ''وہ 37سال سے شادی شدہ ہیں۔ اِس کے باوجود انھوں نے دوسری خاتون سے جنسی تعلقات رکھے ۔ یہ رویہ شوہر اور تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے ناقابلِ قبول ہے''۔( حیرت ہے جنرل صاحب کو یہ خیال اکتشافِ راز ہی کے بعد کیوں آیا؟)

ای میلز کی نگرانی سے امریکی فوج کے ایک اور حاضر سروس فوراسٹار جنرل ایلن کے ناجائز تعلقات بھی طشت ازبام ہونے جا رہے ہیں۔ وہ اِس عمر میں بھی فحش قسم کی ای میلز خواتین کو پابندی سے بھیجنے کے شوقین ہیں۔مغرب کا یہ عام دستور ہے۔ وہاں ایک بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو شادی کے بعد بھی کسی نہ کسی سے ناجائز تعلقات رکھتے ہیں۔آج سے کئی دہائی قبل الفریڈ کنسے نے مطالعے کے بعد بتایا تھا کہ امریکا کے50فی صد مرد اور 26فی صد خواتین ماورائِ عقد تعلقات استوار رکھتے ہیں۔ واضح رہے یہ برسوں پرانی لیکن ایک وقیع رپورٹ ہے جس کا ہم تذکرہ کررہے ہیں۔آج کی کیفیات کیا ہوں گی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ہمارا سوال یہ ہے کہ مغربی فکر فلسفے،معاشرت، قانون اور آئین ہر ہر لحاظ سے وہاں ماورائِ عقد جنسی تعلقات پر کوئی پابندی نہیں۔ پھر آخر اِن جنرلز کا کیا قصور ؟ اِنہیں کیوں ایک شان دار زندگی کی شام کو ہتک اور استعفیٰ کا سامنا کرنا پڑا؟

کانٹ کہتا ہےAlways treat people as ends in themselves never as means to end.(Groundwork of Metaphysics of Morals,1785)یعنی ہر فرد مقصود با الذات ہے،نہ کہ کسی اور کے مقصد کے حصول کا ذریعہ۔یہ ہے بنیادی اصول۔ مغرب میں ہر فرد اپنی انفرادی حیثیت میں آزاد ہے۔وہ جس چیز کو اچھا سمجھتا ہے وہ کرسکتا ہے۔ ایک فرد ہے وہ نمازیں پڑھنا چاہتا ہے،تہجد پڑھنا چاہتا ہے۔تلاوت ،تسبیح کا خوگر ہے۔ وہ آزاد ہے خوب نمازیں پڑھے ۔ مسجد جائے گھر پر پڑھے کوئی اُسے روک نہیں سکتا۔ اِسی طرح دوسرا فرد ہے وہ مے خانے جانا چاہتا ہے ،کسی بیسوا کے کوٹھے پر ٹھمک ٹھمک سننا اُسے پسند ہو۔ اُسے بھی آزادی حاصل ہے ، کوئی مائی کا لال اُسے روک نہیں سکتا۔وہاں کا سلوگن ہے۔If it feels good, do itیعنی ہر فرد جس چیز کو اپنے لیے خیر سمجھتا ہے وہ اُسے اختیار کرنے میں آزاد ہے۔ ہر فرد اپنے خیر کا خود خالق ہے۔آئین ،قانون، ریاست اُس کی آزادی کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔حقوقِ انسانی کے تحت یہ اُس کا حقِ خود ارادیت ہے۔

فرد کو ایک اور حق بھی حاصل ہے وہ ہے حقِ تعلق۔ Right of Associationاگر کوئی دو افراد کسی بھی قسم کا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔ ریاست اُن کے اِس حق کے حفاظت کی پابند ہے۔ جب ہی تو ہم جنس شادی جائز قرار پاتی ہے۔ دو خواتین ہیں یا دو 'مرد ' ہیں ساتھ زندگی یا کچھ وقت بِتانا چاہتے ہیں۔ کوئی اُنہیں روک نہیں سکتا۔ اور اگر منع کرنا بھی چاہے تو کس اصول کے تحت؟آپ کا اپنا خیر ہے میرا اپنا خیر ہے۔ آپ جس چیز کو اچھا سمجھتے ہیں وہ کریں، مجھے آزاد چھوڑ دیں میں اپنی مرضی کروں گا۔امریکی آئین انسانوں کے حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔خاص کر امریکی آئین کی آٹھویں، نویںاور چودہویں ترمیم۔guarantees the right of privacy...including the right to privacy in sexual matters(Ramer 106-107) یہ باتیں ایک خاص اخلاقی اقدار کی تعریف میں نہیں آتیں۔ لیکن یہی آج کا سچ ہے۔اِسی فلسفے اور آئین کے تحت قانون سازی ہوتی ہے۔ اب مغربی قوانین بھی دیکھ لیں۔امریکا کی بیشتر ریاستوںمیں اور یورپ کے تمام ممالک میںماورائِ عقد تعلقات کہیں بھی جرم نہیںہیں۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر اس با صلاحیت جنرل کا کیا قصورتھا؟ اُس بے چارے نے یا پائولا نے آخر فلسفہ آزادی حقوقِ انسانی، آئین یا قانون آخر کس چیز کے خلاف کچھ کیا؟کیا تمام تر مغرب کا یہی چلن نہیں۔ سارتر اور مادام بوار نے ساری زندگی بِنا کسی عقد کے ساتھ گزار دی۔ اِسی آزادی ، حقِ خود ارادیت کے تحت یا کسی اور اصول سے؟پھر اِن جنرلز کا کیا قصور؟ مغرب کو اب تو یہ طے کر لینا چاہیے کہ اُس کی آزادی اور حقِ خود ارادیت کی بنیاد اقدار ہیں یا انسان خود۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں