آپ کو عمر بھر نیند نہ آئے
لکھاری، معاشر ے کے نباض ہوتے ہیں اور وہ وہی لکھتے ہیں جو وہ اپنے ارد گرد سچائی کی صورت دیکھتے ہیں
''اڈاری '' نام کے سیریل کا فیس بک اور پرنٹ میڈیا پر اس قدر تذکرہ پڑھا کہ بے اختیار تجسس جاگا اور میں نے اب تک کا دکھایا جانے والا ڈرامہ ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھا۔ جس نقطہء نظر سے اس سیریل کا بارہا تذکرہ وہ کر رہا تھا وہ اس ڈرامے پر بعض اداروں کی طرف سے تحفظات اورلکھاری اور ڈرامہ نگار برادری کی طرف سے دفاع تھا، میں اپنی انتہائی ذاتی رائے کے لیے آج اس سیریل کو موضوع بنا رہی ہوں ۔
لکھاری، معاشر ے کے نباض ہوتے ہیں اور وہ وہی لکھتے ہیں جو وہ اپنے ارد گرد سچائی کی صورت دیکھتے ہیں ، اب وہ دور گیا جب تخیلاتی افسانے کا زور تھا، افسانہ نگار قاری کو حقیقت سے دور ایک ایسی دنیا میں لے جاتا تھا جہاں غم ہے نہ تکلیف، دکھ ہیں نہ آلام اور قاری تھوڑی دیر کے لیے اپنے ماحول سے کٹ جاتا، اپنی زندگی کے تلخ حقائق کو بھول کر ایک تصوراتی دنیا میں رہنے لگتا، مگر پھر افسانے نے بھی حقیقت کا لبادہ اوڑھا اور لکھاری حالات کی تلخیوں اور مصائب کو بھی افسانے کا موضوع بنانے لگے۔
تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے دوران جن تلخ حقائق پر افسانہ لکھا گیا وہ زندگی کی ان تلخیوں پر تھا جسے ہرعام قاری اپنی کہانی سمجھتا مگر نقادوں نے ایسے افسانے پر بے حیائی کے فتوے لگا دیے کہ اردو ادب ایسی بے ادبی کا متحمل نہ ہو سکتا تھا، مگر وہ افسانہ، اردو ادب میں آج بھی زندہ ہے اپنی تمام تر بے ادبی کے با وصف۔
اسی طرح آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہر ڈرامے میں دکھایا جا رہا ہے، ساس بہو کے جھگڑے، اندرون خانہ سازشیں، میاں بیوی کے درمیان اختلافات، حرام کی آمیزش، شادی شدہ مردوں اور عورتوں کے دوسرے مردوں اور عورتوں سے غیر اخلاقی تعلقات اور طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان ... یہ سب وہ موضوعات ہیں کہ جس پر آج کا ہر ڈرامہ مبنی ہے اور پورے پورے خاندان مل بیٹھ کر ان ڈراموں کو دیکھتے ہیں جن میں کھلم کھلا قابل اعتراض مناظر بھی ہوتے ہیں اور غیر اخلاقی مکالمے بھی۔
عام آدمی کی زندگی میں اب اتنا وقت ہی کہاں رہا ہے کہ ہر کوئی اپنی دوڑ میں مصروف ہے، ایسے میں اگر کوئی اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر ٹیلی وژن پرکچھ دیکھنا چاہتا ہے تو اس کا فقدان ہے، کوئی معلوموت عامہ کا پروگرام نہیں ، کوئی ایسا ٹاک شو نہیں جس میں کوئی انسانوں کی طرح بات کرتا رہے، تھوڑی دیر کے بعد ٹاک شو جانوروں کی جنگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں، خبروں میں کوئی اچھی خبر نہیں آتی۔
ایسے میں جو طبقہ ڈرامہ دیکھنے کا شوقین ہے ،اسے کم از کم ایسے موضوعات پر ڈرامہ دکھانا چاہیے جن سے اس کا اپنی روزمرہ زندگی میں پالا پڑتا ہے، سانحہء قصور ابھی کل کی بات لگتی ہے، معصوم بچوں کی معصومیت سے کھیلا جانے والا حقیقی زندگی کا وہ تلخ حقیقت کا ڈرامہ ہے کہ اگر آپ ان متاثرہ بچوں میں سے ایک بچے کو اپنا تصور کر لیں تو آپ کو عمر بھر نیند نہ آئے... بچے تو سبھی معصوم ہوتے ہیں مگر بے رحم اور شیطانی اذہان رکھنے والے ایسے بیمار لوگ ان بچوں کی معصومیت کا قتل کر دیتے ہیں۔
میں نے خود اس موضوع پر لکھا ہے، قلم ایسے موضوع پر لکھتے ہوئے خون کے آنسو روتا ہے مگر، یہ معاشرے کے وہ زخم ہیں جن پر نشتر چلانا ہی پڑتا ہے۔ ایک مختصر افسانہ ''پریاں '' کے نام سے، ناولٹ، '' بیٹیاں پھول ہیں'' ، ناول '' شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں '' اور گزشتہ برس میرا انتہائی مقبول ہونے والا ناول '' زندگی خاک نہ تھی! '' بھی اسی موضوع پر تھا، اس میں بھی ایک ایسے ہی بیمار ذہنیت والے شخص کی کہانی ہے جس کے اپنے گھٹیا جذبات کی وجہ سے اسے کسی رشتے کی پہچان نہیں رہتی۔
مجھے اس ناول کے دوران اپنے قارئین کی جو رائے ملتی تھی اس میں تقریباً پچاس فیصد لوگوں کی طرف سے یہ کہنا ہوتا تھا کہ وہ بھی اپنے خاندان، محلے یا دوستوں میں ایسے ہی کسی شخص کو جانتے ہیں جو میرے ناول کا ایک انتہائی گھناؤنا کردار تھا۔ ہم سب اپنے ارد گرد ایسے کسی نہ کسی شخص کو ضرور جانتے ہیں ،جس کی نفسانی خواہشات کا بے لگام گھوڑا ہمارے لیے خطرے کا باعث ہوتا ہے، ہمارے بچوں اور ہماری معصوم بیٹیوں کے لیے بھی۔
اس خطرے سے سب کو آگاہ کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کسی بھی اور بیماری یا خطرے کے نقصانات سے۔ ممکن ہے کہ ہمارے وہ بچے ان ڈراموں کے ناظرین نہ ہوں جو ایسے خطرات کا شکار ہو سکتے ہیں مگر ایسے ڈرامے ان کے والدین کو جگانے کے لیے ہیں، انھیں آگاہ کرنے کے لیے ہیں کہ ان کے بچے کس طرح کے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں اور کس حد تک رشتہ داروں یا دوستوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ اپنے معصوم بچوں یا نوجوان بیٹیوں کو ان کے ساتھ تنہا چھوڑا جا سکے۔ کس حد تک آپ کے بچے آگاہ ہیں کہ ان کے معصوم وجود کس نوعیت کے حادثات کا شکار ہوسکتے ہیں، ان کے جاننے والوں میں ہی لوگ کس طرح ان کا استحصال کر سکتے ہیں۔ جب تک والدین خود اس سے آگاہ نہیں ہوں گے وہ اپنے بچوں کو کس طرح ایسے خطرات کے لیے تیار کر سکیں گے۔
تین سال قبل ہمارے اسکول میں کے جی کی ایک بچی کلاس میں اپنی استاد کو غسل خانے جانے کا کہہ کر کلاس سے نکلی اورکافی دیر گزر جانے پر واپس نہ لوٹی تو وہ استاد بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی، بتایا کہ فلاں بچی کافی دیر سے غائب ہے، غسل خانے میں بھی نہیں ہے اور نہ ہی کہیں اور... میں گھبرا کر اٹھی اور ہر ممکنہ جگہ پر دو تین ٹیچرز کو لے کر اسے ڈھونڈنے لگی، اس بیس پچیس منٹ میں، میں نے دنیا کے ہر بھیانک حادثے کو سوچ لیا، چوکیداروں کے کوارٹر تک کھلوا کر دیکھے، کیفے ٹیریا کے کچن تک اندر جا کر دیکھے، اسکول بس کے اندر تلاش کیا، ہر گارڈ ، مالی، چوکیدار اور رنر کے چہروں پر غور سے دیکھ رہی تھی کہ ان میں سے مجر م کون ہے... '' یااللہ اس بچی کو محفوظ رکھنا، کسی بھی نوعیت کے حادثے سے، حتی کہ کسی حادثے کے امکان سے بھی!! '' میں دل سے دعائیں کر رہی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد اس بچی کی بہن اسے ساتھ لیے ہوئے آئی، وہ کالج بلاک میں تھی اور بچی اس کے پاس چلی گئی تھی ۔ جان میں جان آئی، مگر جو کچھ ہوا تھا اور جو کچھ سوچا جا چکا تھا، اس کے نتیجے میں، میں نے خود کے جی کلاس کے دونوں سیکشنز میں جا کر بچوں کو اپنی حفاظت پر سادہ الفاظ میں لیکچر دیے، انھیں بتایا کہ انھیں اس ظالم دنیا میں کس کس طرح کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور ان سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔ کسی اجنبی پر اعتماد نہ کریں ، کسی سے لے کر کچھ نہ کھائیں ، کسی ایسے شخص کی کی ہوئی بات یا حرکت کو نہ چھپائیں جو آپ سے یہ کہے کہ فلاں بات اپنے ماں باپ کو نہ بتانا... '' غرض ایسی چھوٹی چھوٹے احتیاطیں میں نے ان بچوں کو بتائیں۔
اگلے ہی دن مجھے ماں باپ کے فون آنا شروع ہو گئے کہ کیا اسکول میں کسی بچے سے زیادتی کا واقعہ ہوا ہے، کیا کسی بچی کے ساتھ کچھ ہوا ہے جو آپ نے اتنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ایسے بڑے موضوع پر لیکچر دیا ہے؟ میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گئی، کیا ہم سب اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی حادثہ ہو اور پھر ہم اپنے بچوں کو اس پر لیکچر دیں، جو نقصان ہو چکا ہو، جو حادثہ بچوں کی معصومیت چھین چکا ہو، جس اذیت سے بچہ گزر چکا ہو، اس کے بعد اس کے بارے میں کچھ بتانا تو سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔
مگر مجھے زیادہ تر والدین کی طرف سے منفی فیڈ بیک ملا، انھیں اپنے بچوں سے میرا یوں بات کرنا اچھا نہ لگا تھا... بچے تو معصوم ہوتے ہیں، یہ موضوع ہمیں واہیات لگتا ہے کیونکہ ہمارے اپنے دماغوں میں پراگندگی ہے، ہم چونکہ اس بارے میں سب کچھ جانتے ہیں اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ بچے بھی اسی طرح جانتے ہیں، جب کہ انھیں سادہ الفاظ میں اپنی حفاظت کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے۔
اس ایک سیریل سے پیغام اتنا واضح نہیں جتنا کہ ہونا چاہیے۔ اس سیریل میں کئی کہانیاں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں اس لیے بچوں کے استحصال کے موضوع کا مکمل احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں ایسے '' خطرات '' سے آگاہ کرنے کے لیے معلوماتی فلمیں اور پروگرام بنائے جائیں، animated پروگراموں کے ذریعے بچوں کو اسکولوںمیں ورکشاپ دلوائی جائیں۔
انھیں بتایا جائے کہ جہاں بات ان کی اپنی ذاتی حفاظت کی آتی ہے وہاں انھیں اپنے گرد ایک حصار باندھنے کی ضرورت ہے، جسے کوئی بھی نہ توڑ سکتا ہو، خواہ وہ ان کا کوئی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، بچوں کے اندر بھی سنسر ہوتے ہیں، ان کے سنسر سے انھیں روشناس کروائیں جو اس وقت کام کرنے لگتا ہے جب کوئی اپنے اختیار کی حد کو توڑتا ہے۔
کبھی کسی کے ساتھ اپنے بچے کو اس طرح تنہا نہ چھوڑیں کہ کوئی تیسری نظر اسے نہ دیکھ رہی ہو، انھیں ہر اس خطرے سے آگاہ کریں جو کسی بھی صورت ان کے گرد منڈلاتا ہے۔ اسکولوں کا اسٹاف،اساتذہ، اور تو اور بد قسمتی سے قرآن کی تعلیم دینے والے، کھیل کی تربیت دینے والے، محلے کے دکاندار اور چھابڑی والے، اسکول کی ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور اور کنڈکٹر، گھریلو ملازمین، ابا کے دوست، ان کے دوست، پڑوسی، ان کے مہمان، فلاں بھائی جان، بھائی کی دوست، باجی کا شوہر... پھوپھا، خالو، نندوئی!!! بچوں کو ان سے محتاط رہنے کو کہیں، لیکن خود ان پر نظر رکھیں، شیطان کو جہاں موقع ملتا ہے وہ اپنا وار کرتا ہے اور اس کے کاری وار کے بعد جو نقصان ہو چکا ہوتا ہے اس کا کوئی ازالہ نہیں ہوتا۔ بچوں کو یہ سب کچھ اس انداز سے سمجھائیں کہ وہ ڈر نہ جائیں یا لوگوں سے اپنی معصومیت میں یہ نہ کہہ دیں کہ میرے والدین نے مجھے آپ کی گود میں بیٹھنے سے منع کیا ہے یا میری مما نے کہا ہے کہ آپ کو اپنے قریب نہ آنے دوں، میرے پاپا کہتے ہیں کہ فلاں انکل سے دور رہنا ہے!!
اس کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ معلوماتی کتابچے، چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بچوں کو آگاہی دی جائے تا کہ وہ براہ راست سمجھانے پر آپ کو دوسروں کے سامنے شرمندہ بھی نہ کریں اور چونکہ بچے ٹیلی وژن شوق سے دیکھتے ہیں تو اس میڈیم کو ان کو سمجھانے کے لیے بخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے، شاید ہم کسی بچے کی معصومیت کا نقصان ہونے سے بچا سکیں!
لکھاری، معاشر ے کے نباض ہوتے ہیں اور وہ وہی لکھتے ہیں جو وہ اپنے ارد گرد سچائی کی صورت دیکھتے ہیں ، اب وہ دور گیا جب تخیلاتی افسانے کا زور تھا، افسانہ نگار قاری کو حقیقت سے دور ایک ایسی دنیا میں لے جاتا تھا جہاں غم ہے نہ تکلیف، دکھ ہیں نہ آلام اور قاری تھوڑی دیر کے لیے اپنے ماحول سے کٹ جاتا، اپنی زندگی کے تلخ حقائق کو بھول کر ایک تصوراتی دنیا میں رہنے لگتا، مگر پھر افسانے نے بھی حقیقت کا لبادہ اوڑھا اور لکھاری حالات کی تلخیوں اور مصائب کو بھی افسانے کا موضوع بنانے لگے۔
تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے دوران جن تلخ حقائق پر افسانہ لکھا گیا وہ زندگی کی ان تلخیوں پر تھا جسے ہرعام قاری اپنی کہانی سمجھتا مگر نقادوں نے ایسے افسانے پر بے حیائی کے فتوے لگا دیے کہ اردو ادب ایسی بے ادبی کا متحمل نہ ہو سکتا تھا، مگر وہ افسانہ، اردو ادب میں آج بھی زندہ ہے اپنی تمام تر بے ادبی کے با وصف۔
اسی طرح آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہر ڈرامے میں دکھایا جا رہا ہے، ساس بہو کے جھگڑے، اندرون خانہ سازشیں، میاں بیوی کے درمیان اختلافات، حرام کی آمیزش، شادی شدہ مردوں اور عورتوں کے دوسرے مردوں اور عورتوں سے غیر اخلاقی تعلقات اور طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان ... یہ سب وہ موضوعات ہیں کہ جس پر آج کا ہر ڈرامہ مبنی ہے اور پورے پورے خاندان مل بیٹھ کر ان ڈراموں کو دیکھتے ہیں جن میں کھلم کھلا قابل اعتراض مناظر بھی ہوتے ہیں اور غیر اخلاقی مکالمے بھی۔
عام آدمی کی زندگی میں اب اتنا وقت ہی کہاں رہا ہے کہ ہر کوئی اپنی دوڑ میں مصروف ہے، ایسے میں اگر کوئی اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر ٹیلی وژن پرکچھ دیکھنا چاہتا ہے تو اس کا فقدان ہے، کوئی معلوموت عامہ کا پروگرام نہیں ، کوئی ایسا ٹاک شو نہیں جس میں کوئی انسانوں کی طرح بات کرتا رہے، تھوڑی دیر کے بعد ٹاک شو جانوروں کی جنگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں، خبروں میں کوئی اچھی خبر نہیں آتی۔
ایسے میں جو طبقہ ڈرامہ دیکھنے کا شوقین ہے ،اسے کم از کم ایسے موضوعات پر ڈرامہ دکھانا چاہیے جن سے اس کا اپنی روزمرہ زندگی میں پالا پڑتا ہے، سانحہء قصور ابھی کل کی بات لگتی ہے، معصوم بچوں کی معصومیت سے کھیلا جانے والا حقیقی زندگی کا وہ تلخ حقیقت کا ڈرامہ ہے کہ اگر آپ ان متاثرہ بچوں میں سے ایک بچے کو اپنا تصور کر لیں تو آپ کو عمر بھر نیند نہ آئے... بچے تو سبھی معصوم ہوتے ہیں مگر بے رحم اور شیطانی اذہان رکھنے والے ایسے بیمار لوگ ان بچوں کی معصومیت کا قتل کر دیتے ہیں۔
میں نے خود اس موضوع پر لکھا ہے، قلم ایسے موضوع پر لکھتے ہوئے خون کے آنسو روتا ہے مگر، یہ معاشرے کے وہ زخم ہیں جن پر نشتر چلانا ہی پڑتا ہے۔ ایک مختصر افسانہ ''پریاں '' کے نام سے، ناولٹ، '' بیٹیاں پھول ہیں'' ، ناول '' شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں '' اور گزشتہ برس میرا انتہائی مقبول ہونے والا ناول '' زندگی خاک نہ تھی! '' بھی اسی موضوع پر تھا، اس میں بھی ایک ایسے ہی بیمار ذہنیت والے شخص کی کہانی ہے جس کے اپنے گھٹیا جذبات کی وجہ سے اسے کسی رشتے کی پہچان نہیں رہتی۔
مجھے اس ناول کے دوران اپنے قارئین کی جو رائے ملتی تھی اس میں تقریباً پچاس فیصد لوگوں کی طرف سے یہ کہنا ہوتا تھا کہ وہ بھی اپنے خاندان، محلے یا دوستوں میں ایسے ہی کسی شخص کو جانتے ہیں جو میرے ناول کا ایک انتہائی گھناؤنا کردار تھا۔ ہم سب اپنے ارد گرد ایسے کسی نہ کسی شخص کو ضرور جانتے ہیں ،جس کی نفسانی خواہشات کا بے لگام گھوڑا ہمارے لیے خطرے کا باعث ہوتا ہے، ہمارے بچوں اور ہماری معصوم بیٹیوں کے لیے بھی۔
اس خطرے سے سب کو آگاہ کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کسی بھی اور بیماری یا خطرے کے نقصانات سے۔ ممکن ہے کہ ہمارے وہ بچے ان ڈراموں کے ناظرین نہ ہوں جو ایسے خطرات کا شکار ہو سکتے ہیں مگر ایسے ڈرامے ان کے والدین کو جگانے کے لیے ہیں، انھیں آگاہ کرنے کے لیے ہیں کہ ان کے بچے کس طرح کے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں اور کس حد تک رشتہ داروں یا دوستوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ اپنے معصوم بچوں یا نوجوان بیٹیوں کو ان کے ساتھ تنہا چھوڑا جا سکے۔ کس حد تک آپ کے بچے آگاہ ہیں کہ ان کے معصوم وجود کس نوعیت کے حادثات کا شکار ہوسکتے ہیں، ان کے جاننے والوں میں ہی لوگ کس طرح ان کا استحصال کر سکتے ہیں۔ جب تک والدین خود اس سے آگاہ نہیں ہوں گے وہ اپنے بچوں کو کس طرح ایسے خطرات کے لیے تیار کر سکیں گے۔
تین سال قبل ہمارے اسکول میں کے جی کی ایک بچی کلاس میں اپنی استاد کو غسل خانے جانے کا کہہ کر کلاس سے نکلی اورکافی دیر گزر جانے پر واپس نہ لوٹی تو وہ استاد بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی، بتایا کہ فلاں بچی کافی دیر سے غائب ہے، غسل خانے میں بھی نہیں ہے اور نہ ہی کہیں اور... میں گھبرا کر اٹھی اور ہر ممکنہ جگہ پر دو تین ٹیچرز کو لے کر اسے ڈھونڈنے لگی، اس بیس پچیس منٹ میں، میں نے دنیا کے ہر بھیانک حادثے کو سوچ لیا، چوکیداروں کے کوارٹر تک کھلوا کر دیکھے، کیفے ٹیریا کے کچن تک اندر جا کر دیکھے، اسکول بس کے اندر تلاش کیا، ہر گارڈ ، مالی، چوکیدار اور رنر کے چہروں پر غور سے دیکھ رہی تھی کہ ان میں سے مجر م کون ہے... '' یااللہ اس بچی کو محفوظ رکھنا، کسی بھی نوعیت کے حادثے سے، حتی کہ کسی حادثے کے امکان سے بھی!! '' میں دل سے دعائیں کر رہی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد اس بچی کی بہن اسے ساتھ لیے ہوئے آئی، وہ کالج بلاک میں تھی اور بچی اس کے پاس چلی گئی تھی ۔ جان میں جان آئی، مگر جو کچھ ہوا تھا اور جو کچھ سوچا جا چکا تھا، اس کے نتیجے میں، میں نے خود کے جی کلاس کے دونوں سیکشنز میں جا کر بچوں کو اپنی حفاظت پر سادہ الفاظ میں لیکچر دیے، انھیں بتایا کہ انھیں اس ظالم دنیا میں کس کس طرح کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور ان سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔ کسی اجنبی پر اعتماد نہ کریں ، کسی سے لے کر کچھ نہ کھائیں ، کسی ایسے شخص کی کی ہوئی بات یا حرکت کو نہ چھپائیں جو آپ سے یہ کہے کہ فلاں بات اپنے ماں باپ کو نہ بتانا... '' غرض ایسی چھوٹی چھوٹے احتیاطیں میں نے ان بچوں کو بتائیں۔
اگلے ہی دن مجھے ماں باپ کے فون آنا شروع ہو گئے کہ کیا اسکول میں کسی بچے سے زیادتی کا واقعہ ہوا ہے، کیا کسی بچی کے ساتھ کچھ ہوا ہے جو آپ نے اتنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ایسے بڑے موضوع پر لیکچر دیا ہے؟ میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گئی، کیا ہم سب اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی حادثہ ہو اور پھر ہم اپنے بچوں کو اس پر لیکچر دیں، جو نقصان ہو چکا ہو، جو حادثہ بچوں کی معصومیت چھین چکا ہو، جس اذیت سے بچہ گزر چکا ہو، اس کے بعد اس کے بارے میں کچھ بتانا تو سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔
مگر مجھے زیادہ تر والدین کی طرف سے منفی فیڈ بیک ملا، انھیں اپنے بچوں سے میرا یوں بات کرنا اچھا نہ لگا تھا... بچے تو معصوم ہوتے ہیں، یہ موضوع ہمیں واہیات لگتا ہے کیونکہ ہمارے اپنے دماغوں میں پراگندگی ہے، ہم چونکہ اس بارے میں سب کچھ جانتے ہیں اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ بچے بھی اسی طرح جانتے ہیں، جب کہ انھیں سادہ الفاظ میں اپنی حفاظت کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے۔
اس ایک سیریل سے پیغام اتنا واضح نہیں جتنا کہ ہونا چاہیے۔ اس سیریل میں کئی کہانیاں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں اس لیے بچوں کے استحصال کے موضوع کا مکمل احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں ایسے '' خطرات '' سے آگاہ کرنے کے لیے معلوماتی فلمیں اور پروگرام بنائے جائیں، animated پروگراموں کے ذریعے بچوں کو اسکولوںمیں ورکشاپ دلوائی جائیں۔
انھیں بتایا جائے کہ جہاں بات ان کی اپنی ذاتی حفاظت کی آتی ہے وہاں انھیں اپنے گرد ایک حصار باندھنے کی ضرورت ہے، جسے کوئی بھی نہ توڑ سکتا ہو، خواہ وہ ان کا کوئی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، بچوں کے اندر بھی سنسر ہوتے ہیں، ان کے سنسر سے انھیں روشناس کروائیں جو اس وقت کام کرنے لگتا ہے جب کوئی اپنے اختیار کی حد کو توڑتا ہے۔
کبھی کسی کے ساتھ اپنے بچے کو اس طرح تنہا نہ چھوڑیں کہ کوئی تیسری نظر اسے نہ دیکھ رہی ہو، انھیں ہر اس خطرے سے آگاہ کریں جو کسی بھی صورت ان کے گرد منڈلاتا ہے۔ اسکولوں کا اسٹاف،اساتذہ، اور تو اور بد قسمتی سے قرآن کی تعلیم دینے والے، کھیل کی تربیت دینے والے، محلے کے دکاندار اور چھابڑی والے، اسکول کی ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور اور کنڈکٹر، گھریلو ملازمین، ابا کے دوست، ان کے دوست، پڑوسی، ان کے مہمان، فلاں بھائی جان، بھائی کی دوست، باجی کا شوہر... پھوپھا، خالو، نندوئی!!! بچوں کو ان سے محتاط رہنے کو کہیں، لیکن خود ان پر نظر رکھیں، شیطان کو جہاں موقع ملتا ہے وہ اپنا وار کرتا ہے اور اس کے کاری وار کے بعد جو نقصان ہو چکا ہوتا ہے اس کا کوئی ازالہ نہیں ہوتا۔ بچوں کو یہ سب کچھ اس انداز سے سمجھائیں کہ وہ ڈر نہ جائیں یا لوگوں سے اپنی معصومیت میں یہ نہ کہہ دیں کہ میرے والدین نے مجھے آپ کی گود میں بیٹھنے سے منع کیا ہے یا میری مما نے کہا ہے کہ آپ کو اپنے قریب نہ آنے دوں، میرے پاپا کہتے ہیں کہ فلاں انکل سے دور رہنا ہے!!
اس کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ معلوماتی کتابچے، چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بچوں کو آگاہی دی جائے تا کہ وہ براہ راست سمجھانے پر آپ کو دوسروں کے سامنے شرمندہ بھی نہ کریں اور چونکہ بچے ٹیلی وژن شوق سے دیکھتے ہیں تو اس میڈیم کو ان کو سمجھانے کے لیے بخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے، شاید ہم کسی بچے کی معصومیت کا نقصان ہونے سے بچا سکیں!