بے بنیاد قیاس آرائیوں کی دھند
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ’’حقوق نسواں بل‘‘ ڈیڈ لائن میں لگا ہوا ہے
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس وقت ملکی منظرنامے پر بالعموم اور سیاسی منظرنامے پر بالخصوص ایک ایسی دھند چھائی صاف دکھائی دے رہی ہے، جس کے پار نظر آنیوالے دھندلے خاکوں کی اپنے اپنے انداز سے تعبیروتشریح کی جارہی ہے اور حالات کے تیوروں پر قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ایک سیاسی جماعت کے سربراہ اور اس سے وابستہ لوگوں کے احتساب اور تحفظ دونوں پر سوالیہ نشان گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ ''لیاری گینگ وار'' کے حوالے سے اس کے کرتا دھرتا کے بیانات پر کسی قسم کا کوئی ایکشن نہ لینا اور اس تنظیم کے بانی یا کرتا دھرتاؤں کو کسی دائرے میں نہ لانے کا سوال محض سوال ہی بنا ہوا ہے۔ کراچی جیسے بڑے اہم اور حساس شہر میں بلدیاتی اختیارات کو مسلسل ہائی جیک ہوئے عرصہ دراز ہوچلا، لیکن بااختیار لوگ بے اختیار پڑے نظر آتے ہیں اور تحفظ حقوق نسواں بھی باسی کڑھی سے بھی زیادہ باسی ہوچلا ہے اور اس قاعدے قانون کا بھی کوئی ہلَا بھلا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس وقت لگتا ہے ''پانامہ لیکس'' حصہ اول اور حصہ دوم ہی وطن عزیز کا سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور مسئلہ کشمیر سے زیادہ اہم اور حساس ہے۔ لیکن جو مسئلہ کشمیر کا حال ہے وہی پانامہ لیکس کے مسئلے کا بھی حال ہے۔
یہ بجا تسلیم کہ ''پانامہ پیپرز'' سامنے آنے کے بعد جو انکشافات ہوئے ان سے دنیا کے بہت سے ملکوں میں ''سیاسی زلزلے'' کی کیفیت محسوس کی گئی۔ وطن عزیز بھی بڑی حد تک اس ہلچل کی زد میں آیا مگر اس کیفیت میں سب سے نمایاں اور روشن پہلو اس امید کا ہے کہ جب دھند چھٹے گی تو کرپشن کے خاتمے کے لیے بیدار ہونیوالے طاقتور جذبے دہشت گردی و انتہاپسندی سے نجات کے لیے دی گئی بے بہا قربانیوں اور احتساب جیسے جمہوریت کے کلیدی پہلوؤں کے بروئے کار آنے کے نتیجے میں مملکت خداداد مستحکم تر ہوکر ابھرے گی۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ''حقوق نسواں بل'' ڈیڈ لائن میں لگا ہوا ہے اور ملکی امور پر گہری نگاہ اور دلچسپی رکھنے اور لینے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ لاہور میں 25 دینی جماعتوں، دینی مدارس کی تنظیموں اور علمائے کرام کے اجلاس میں حکومت کو حقوق نسواں قانون 27 مارچ تک واپس لینے کے لیے ڈیڈ لائن دی گئی تھی اور حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ اس سے لاتعلقی کا اعلان کرلے اور اسلامی نظریاتی کونسل اور علما کی مشاورت سے قرآن و سنت کی روشنی میں نیا بل لائے اور اگر یہ مطالبات منظور نہ ہوئے تو حکومت کے خلاف 2 اپریل کو 1977 سے بھی بڑی تحریک چلائی جائے گی۔ لیکن ''پانامہ لیکس'' کے ظہور پذیر ہونیوالے عمل نے حکومت کے دیگر سارے مسئلے مسائل کو گہنا کر رکھ دیا۔
کسے نہیں معلوم، کون نہیں جانتا کہ دینی جماعتوں اور علمائے کرام نے روز اول سے پنجاب اسمبلی کے بل پر تحفظات کا اظہار شروع کردیا تھا۔ اس سلسلے میں حکومت نے دینی جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دی تھی لیکن وہ جماعتیں اس سے مطمئن نہیں ہوئیں۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی سمیت کئی سنگین مسائل سے دوچار ہے، ایسے میں ملک دینی حلقوں یا ملکی شعبوں سے وابستہ حساس لوگوں کی ناراضی یا کسی بھی طرح کی داخلی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دفاع اسلام علما کنونشن نے حقوق نسواں بل کو جب مسترد کردیا اور اسے غیر اسلامی قرار دے دیا تبھی اس مسئلے کا کوئی شافی حل تلاش کرلیا جانا چاہیے تھا، کیونکہ ملک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور انھیں بااختیار بنانے کا مطالبہ بہت پرانا ہے۔
اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کہ خواتین کو اسلام اور ہمارے آئین نے جو حقوق دیے ہیں وہ انھیں ضرور ملنے چاہئیں کیونکہ ملک کی 51 فیصد آبادی کو ان سے محروم کیا جاسکتا ہے اور نہ معاشرے میں انھیں عضو معطل بنا کر رکھا جاسکتا ہے۔ پنجاب اسمبلی نے جو قانون منظور کیا اس پر وفاق کی سطح پر گو کام ہو رہا ہے لیکن علما کرام کی جانب سے اس پر مذہبی نقطہ نگاہ سے شدید اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ حکومت پنجاب اسمبلی میں بل پیش کرنے سے قبل ان سے مشاورت کرلیتی۔ اب جب کہ دینی جماعتوں کا موقف سامنے آگیا ہے تو ضروری ہے کہ ان کے تحفظات دور کیے جائیں اور جو بھی شقیں اسلامی ضابطوں کے منافی ہوں انھیں نکال دیا جائے۔
اس امر سے انکار کسی طور ممکن نہیں کہ ''ویمن پروٹیکشن ایکٹ 2016'' کا اصل مقصد عورت کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ یہ بل یا قانون مظلوم خواتین کی حقیقی دادرسی کا باعث اس وقت بن سکتا ہے جب یہ بل تمام نقائص سے پاک ہو۔ موجودہ حالات میں یہ معاشرے کو سوائے انتشار، اختلاف، خلفشار اور خاندانی نظام کی تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔ کس قدر بدقسمتی ہے کہ آج ہم عورتوں کے حقوق کے لیے مغرب کی طرف نگاہ امید اٹھائے ہوئے ہیں جب کہ اسلام عورت کو سب سے زیادہ اور سب سے بہتر حقوق فراہم کرتا ہے۔ انھیں معاشرے میں عزت و وقار کا حامل مقام عطا کرتا ہے۔
کاش وہ مغرب زدہ مسلم مفکرین جو صبح و شام حقوق نسواں کے نام پر بے حیائی کے راستے کھولنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ مشرقی اور مغربی تہذیب کو دوبارہ سے حقائق کی آنکھیں استعمال کریں تو پتہ چلے گا کہ اسلام نے عورت کو گھر کا ماحول فراہم کرکے اس کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کا مقدس رشتہ فراہم کیا جب کہ مغرب زدہ لوگوں نے گھر سے باہر نکال کر عورت کو تباہ کیا اور اپنا خاندانی نظام بھی برباد کر ڈالا۔ آج مغرب پریشان ہے اور پھر عورت کو گھر تک محدود کرنے پر سوچ رہا ہے کیونکہ عورت کو ''باہر'' نکالنے میں جتنے نقصانات ہو رہے ہیں ان کی تلافی ممکن نہیں۔
افسوس ہم عورت کو ''باہر'' نکالنے کے لیے طرح طرح کے ایسے بل منظور کروانے پر تلے ہوئے ہیں جن کی شقیں اور بنیادی مقصد ہی شریعت سے متصادم ہے۔ وقت ثابت کرے گا کہ حقوق نسواں سے متعلق قوانین بنتے رہیں گے لیکن حوا کی بیٹی کا تحفظ نہیں ہوپائے گا کیونکہ یہ لوگ سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں، جن چیزوں کو وہ آزادی کہتے ہیں وہ عورت پر ظلم ہے اور جن کو وہ ظلم کہتے ہیں وہی بنت حوا کی صحیح اور اصل آزادی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بے بنیاد قیاس آرائیوں کی دھند پھیلانے سے اجتناب برتا جائے۔
حکومت اور علما و مشائخ کو یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیے اور اسے کسی بڑے تنازعے کی شکل اختیار کرنے سے روکنا چاہیے، پاکستان میں کوئی بھی شخص قرآن و سنت کے خلاف کسی قانون کی حمایت نہیں کرسکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے کو اسلامی نظریاتی کونسل، دینی جماعتوں، علما اور آئینی و قانونی ماہرین کی مشاورت سے بات چیت کے ذریعے حل کرے تاکہ قوم میں انتشار و افتراق کو ہوا نہ ملے اور ملک امن و استحکام اور تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔
ایک سیاسی جماعت کے سربراہ اور اس سے وابستہ لوگوں کے احتساب اور تحفظ دونوں پر سوالیہ نشان گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ ''لیاری گینگ وار'' کے حوالے سے اس کے کرتا دھرتا کے بیانات پر کسی قسم کا کوئی ایکشن نہ لینا اور اس تنظیم کے بانی یا کرتا دھرتاؤں کو کسی دائرے میں نہ لانے کا سوال محض سوال ہی بنا ہوا ہے۔ کراچی جیسے بڑے اہم اور حساس شہر میں بلدیاتی اختیارات کو مسلسل ہائی جیک ہوئے عرصہ دراز ہوچلا، لیکن بااختیار لوگ بے اختیار پڑے نظر آتے ہیں اور تحفظ حقوق نسواں بھی باسی کڑھی سے بھی زیادہ باسی ہوچلا ہے اور اس قاعدے قانون کا بھی کوئی ہلَا بھلا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس وقت لگتا ہے ''پانامہ لیکس'' حصہ اول اور حصہ دوم ہی وطن عزیز کا سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور مسئلہ کشمیر سے زیادہ اہم اور حساس ہے۔ لیکن جو مسئلہ کشمیر کا حال ہے وہی پانامہ لیکس کے مسئلے کا بھی حال ہے۔
یہ بجا تسلیم کہ ''پانامہ پیپرز'' سامنے آنے کے بعد جو انکشافات ہوئے ان سے دنیا کے بہت سے ملکوں میں ''سیاسی زلزلے'' کی کیفیت محسوس کی گئی۔ وطن عزیز بھی بڑی حد تک اس ہلچل کی زد میں آیا مگر اس کیفیت میں سب سے نمایاں اور روشن پہلو اس امید کا ہے کہ جب دھند چھٹے گی تو کرپشن کے خاتمے کے لیے بیدار ہونیوالے طاقتور جذبے دہشت گردی و انتہاپسندی سے نجات کے لیے دی گئی بے بہا قربانیوں اور احتساب جیسے جمہوریت کے کلیدی پہلوؤں کے بروئے کار آنے کے نتیجے میں مملکت خداداد مستحکم تر ہوکر ابھرے گی۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ''حقوق نسواں بل'' ڈیڈ لائن میں لگا ہوا ہے اور ملکی امور پر گہری نگاہ اور دلچسپی رکھنے اور لینے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ لاہور میں 25 دینی جماعتوں، دینی مدارس کی تنظیموں اور علمائے کرام کے اجلاس میں حکومت کو حقوق نسواں قانون 27 مارچ تک واپس لینے کے لیے ڈیڈ لائن دی گئی تھی اور حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ اس سے لاتعلقی کا اعلان کرلے اور اسلامی نظریاتی کونسل اور علما کی مشاورت سے قرآن و سنت کی روشنی میں نیا بل لائے اور اگر یہ مطالبات منظور نہ ہوئے تو حکومت کے خلاف 2 اپریل کو 1977 سے بھی بڑی تحریک چلائی جائے گی۔ لیکن ''پانامہ لیکس'' کے ظہور پذیر ہونیوالے عمل نے حکومت کے دیگر سارے مسئلے مسائل کو گہنا کر رکھ دیا۔
کسے نہیں معلوم، کون نہیں جانتا کہ دینی جماعتوں اور علمائے کرام نے روز اول سے پنجاب اسمبلی کے بل پر تحفظات کا اظہار شروع کردیا تھا۔ اس سلسلے میں حکومت نے دینی جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دی تھی لیکن وہ جماعتیں اس سے مطمئن نہیں ہوئیں۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی سمیت کئی سنگین مسائل سے دوچار ہے، ایسے میں ملک دینی حلقوں یا ملکی شعبوں سے وابستہ حساس لوگوں کی ناراضی یا کسی بھی طرح کی داخلی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دفاع اسلام علما کنونشن نے حقوق نسواں بل کو جب مسترد کردیا اور اسے غیر اسلامی قرار دے دیا تبھی اس مسئلے کا کوئی شافی حل تلاش کرلیا جانا چاہیے تھا، کیونکہ ملک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور انھیں بااختیار بنانے کا مطالبہ بہت پرانا ہے۔
اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کہ خواتین کو اسلام اور ہمارے آئین نے جو حقوق دیے ہیں وہ انھیں ضرور ملنے چاہئیں کیونکہ ملک کی 51 فیصد آبادی کو ان سے محروم کیا جاسکتا ہے اور نہ معاشرے میں انھیں عضو معطل بنا کر رکھا جاسکتا ہے۔ پنجاب اسمبلی نے جو قانون منظور کیا اس پر وفاق کی سطح پر گو کام ہو رہا ہے لیکن علما کرام کی جانب سے اس پر مذہبی نقطہ نگاہ سے شدید اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ حکومت پنجاب اسمبلی میں بل پیش کرنے سے قبل ان سے مشاورت کرلیتی۔ اب جب کہ دینی جماعتوں کا موقف سامنے آگیا ہے تو ضروری ہے کہ ان کے تحفظات دور کیے جائیں اور جو بھی شقیں اسلامی ضابطوں کے منافی ہوں انھیں نکال دیا جائے۔
اس امر سے انکار کسی طور ممکن نہیں کہ ''ویمن پروٹیکشن ایکٹ 2016'' کا اصل مقصد عورت کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ یہ بل یا قانون مظلوم خواتین کی حقیقی دادرسی کا باعث اس وقت بن سکتا ہے جب یہ بل تمام نقائص سے پاک ہو۔ موجودہ حالات میں یہ معاشرے کو سوائے انتشار، اختلاف، خلفشار اور خاندانی نظام کی تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔ کس قدر بدقسمتی ہے کہ آج ہم عورتوں کے حقوق کے لیے مغرب کی طرف نگاہ امید اٹھائے ہوئے ہیں جب کہ اسلام عورت کو سب سے زیادہ اور سب سے بہتر حقوق فراہم کرتا ہے۔ انھیں معاشرے میں عزت و وقار کا حامل مقام عطا کرتا ہے۔
کاش وہ مغرب زدہ مسلم مفکرین جو صبح و شام حقوق نسواں کے نام پر بے حیائی کے راستے کھولنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ مشرقی اور مغربی تہذیب کو دوبارہ سے حقائق کی آنکھیں استعمال کریں تو پتہ چلے گا کہ اسلام نے عورت کو گھر کا ماحول فراہم کرکے اس کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کا مقدس رشتہ فراہم کیا جب کہ مغرب زدہ لوگوں نے گھر سے باہر نکال کر عورت کو تباہ کیا اور اپنا خاندانی نظام بھی برباد کر ڈالا۔ آج مغرب پریشان ہے اور پھر عورت کو گھر تک محدود کرنے پر سوچ رہا ہے کیونکہ عورت کو ''باہر'' نکالنے میں جتنے نقصانات ہو رہے ہیں ان کی تلافی ممکن نہیں۔
افسوس ہم عورت کو ''باہر'' نکالنے کے لیے طرح طرح کے ایسے بل منظور کروانے پر تلے ہوئے ہیں جن کی شقیں اور بنیادی مقصد ہی شریعت سے متصادم ہے۔ وقت ثابت کرے گا کہ حقوق نسواں سے متعلق قوانین بنتے رہیں گے لیکن حوا کی بیٹی کا تحفظ نہیں ہوپائے گا کیونکہ یہ لوگ سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں، جن چیزوں کو وہ آزادی کہتے ہیں وہ عورت پر ظلم ہے اور جن کو وہ ظلم کہتے ہیں وہی بنت حوا کی صحیح اور اصل آزادی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بے بنیاد قیاس آرائیوں کی دھند پھیلانے سے اجتناب برتا جائے۔
حکومت اور علما و مشائخ کو یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیے اور اسے کسی بڑے تنازعے کی شکل اختیار کرنے سے روکنا چاہیے، پاکستان میں کوئی بھی شخص قرآن و سنت کے خلاف کسی قانون کی حمایت نہیں کرسکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے کو اسلامی نظریاتی کونسل، دینی جماعتوں، علما اور آئینی و قانونی ماہرین کی مشاورت سے بات چیت کے ذریعے حل کرے تاکہ قوم میں انتشار و افتراق کو ہوا نہ ملے اور ملک امن و استحکام اور تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔