کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی یاد میں
سات اکتوبر 1901 کو بکھو ڈیرہ (تحصیل ڈوکری، ضلع لاڑکانہ) بلوچوں کے محلہ جتوئی میں جنم لیا
لاہور:
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا حکومت کے اعلیٰ ایوانوں تک رسائی کے حصول میں کامیاب ہوجانا یعنی کسی صوبے کا ڈپٹی کلکٹر بن جانا وہ بھی برٹش دور حکومت میں حقیقت تو یہ تھی کہ برٹش دور حکومت میں ڈپٹی کلکٹرکا عہدہ آج کے دورکے صوبائی وزیراعلیٰ کے مساوی تسلیم کیا جاتا تھا، مگر وہ مرد قلندر ڈپٹی کلکٹرکا اعلیٰ ترین عہدہ و اس عہدے کے ساتھ حاصل شدہ تمام مراعات سے دست بردار ہوجاتا ہے اور اپنے صوبے کے غریب ہاریوں کے حقوق کے لیے فقط اپنی آواز بلند نہیں کرتا بلکہ عملی جدوجہد کا آغاز بھی کردیتا ہے، یہ مرد قلندر تھا حیدر بخش جتوئی۔
سات اکتوبر 1901 کو بکھو ڈیرہ (تحصیل ڈوکری، ضلع لاڑکانہ) بلوچوں کے محلہ جتوئی میں جنم لیا، حیدر بخش جتوئی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں جب کہ ثانوی تعلیم مدرسۃ الاسلام ہائی اسکول لاڑکانہ سے حاصل کی، جب کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کراچی تشریف لے آئے، یہ ذکر ہے 1923 کا کراچی میں حیدر بخش جتوئی نے ڈی جے سندھ کالج میں داخلہ لیا اور B.A کا امتحان دے کرگریجویشن تک امتیازی حیثیت میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ یہ ذکر ہے 1927 کا۔ اب اگلا مرحلہ تھا حصول روزگارکا چنانچہ اس سلسلے میں حیدر بخش جتوئی نے محکمہ ریونیو میں ملازمت اختیار کرلی مگر یہ ملازمت ان کی منزل نہ تھی بلکہ آغاز تھا۔
چنانچہ قلیل عرصے میں اپنی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کی بدولت کار مختیار کے عہدے پر پہنچ گئے جب کہ کارمختیار کے بعد ڈپٹی کلکٹر کا اعلیٰ ترین عہدہ ان کا منتظر تھا، اس وقت حیدر بخش جتوئی کو سندھ کے غریب ہاریوں کے حقیقی مسائل کا ادراک ہوتا چلا گیا ۔ یہی وجہ تھی کہ حیدربخش جتوئی سندھ ہاری کمیٹی کے ایک رہنما عبدالقادرکھوکھرکی خاموشی سے مالی معاونت کیا کرتے تھے جوکہ سندھ ہاری کمیٹی کے روح رواں تھے جب کہ عبدالقادرکھوکھر کے ساتھ جو دیگر حضرات تھے وہ تھے پروفیسر جیٹھ مل، جمشید نسرانجی و پرسرام یہ چاروں حضرات تھے جنھوں نے 1930 میں سندھ ہاری کانگریس کی بنیاد رکھی اور بعدازاں اسے سندھ ہاری کمیٹی کا نام دیا تھا۔
اس وقت سندھ بمبئی صوبے کا ہی حصہ تھا چنانچہ دیگر اسباب کے ساتھ سندھ کے غریب ہاریوں کی محرومیوں کا ایک سبب یہ بھی تھا یعنی سندھ کا بمبئی صوبے سے الحاق ہونا۔ چنانچہ انھی حالات میں حیدربخش جتوئی نے ڈپٹی کلکٹر کے اعلیٰ ترین عہدے کو خیرباد کہا اورسندھ کے ہاریوں کے حصول حقوق کے لیے عملی جدوجہد کا آغازکیا اور سندھ ہاری کمیٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی جب کہ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رکن بھی بن گئے۔ البتہ قیام پاکستان کے بعد سید سجاد ظہیر کی قیادت میں قائم ہونے والی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے وہ کبھی رکن نہیں رہے، نظریاتی طور پر حیدر بخش جتوئی چارلس رابرٹ ڈارون جرمن فلاسفر ہیگل وکارل مارکس سے بے حد متاثر تھے، وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شریک نہ ہوئے البتہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ افراد سے ان کے گہرے مراسم رہے۔
ان رہنماؤں میں شاہ محمد درانی، سوبھوگیان چندانی،کامریڈ جمال دین بخاری، برکت علی آزاد، مولوی نذیر حسین، غلام محمد لغاری، قادر بخش نظامانی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ 1950 میں کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے ضلع دادو کی اس نشست پر جہاں سے پیر الٰہی بخش کو نااہل قرار دیا گیا تھا سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا اور تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے تھے دیگر یہ کہ اسی نشست سے پیر الٰہی بخش کے صاحبزادے شاہنوازخان کو انتخاب میں کم عمری کے باعث حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، البتہ اس نشست پر خان بہادر ایوب کھوڑو کے برادر نسبتی عبداللطیف پنہور کو بلا مقابلہ کامیاب کروانے کے لیے عین وقت پر کامریڈ حیدر بخش جتوئی کو انتظامیہ کی معاونت سے اغوا کرلیا گیا اور رادھن کے مقام پر لے جا کر چھوڑ دیا گیا جب کہ ان کے وکیل علی احمد قریشی ان کے کاغذات نامزدگی لے کر وقت پر پہنچ گئے تھے مگر اس کے باوجود عبداللطیف پنہور کو بلامقابلہ کامیاب قرار دے دیا گیا۔
جب کہ دوسری مرتبہ کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے قمبر ضلع لاڑکانہ کی اس نشست پر جوکہ میر محمد خان چانڈیو کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی پر سلطان چانڈیو کے خلاف انتخاب لڑا یہ نشست تو سلطان چانڈیو نے جیت لی مگر بعدازاں قانونی جنگ میں کامریڈ حیدر بخش جتوئی کو فتح نصیب ہوئی جب 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی توڑ دی تو اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے اس فیصلے کو چیلنج کردیا اور جب اس کیس کا فیصلہ 1955 میں جسٹس محمد منیر نے لکھا اور گورنر جنرل کے فیصلے کو جائز قرار دیا حالانکہ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں گورنر جنرل کے اقدام کو غلط قرار دیا تھا اس موقعے پر کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے جسٹس محمد منیر کے فیصلے کے خلاف ایک پمفلٹ لکھا اور تقسیم کروایا۔
1958 میں سندھ لگان کی وصولی کے خلاف آواز اٹھانے پر ان کی مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان آف کالا باغ سے ٹھن گئی جس کے باعث حیدر بخش جتوئی کو گرفتار کرلیا گیا اور کوئٹہ جیل منتقل کردیا گیا۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انھوں نے ایک باغیانہ قسم کا پمفلٹ لکھا و تقسیم کروایا ہے اس مقدمے میں ان کی پیروی قاضی عیسیٰ نے کی تھی جب کہ مجموعی طور پر حیدر بخش جتوئی 1951 سے 1970 تک یعنی 19 برس میں 8 بار گرفتار ہوئے جب کہ ان پر مختلف الزامات حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگ لگاتے رہے جن میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ متحدہ بھارت کے حق میں ہیں جب کہ ایوبی آمریت کے دور میں ایک انگریزی زبان میں پمفلٹ لکھا اور تقسیم کروایا۔
اس پمفلٹ کا عنوان تھا ''آمریت مردہ باد'' اس پمفلٹ کی تقسیم پر انھیں 19 دسمبر 1967 کوگرفتار کرکے نظربندکردیا گیا۔ بعدازاں ان کی قیدکا زمانہ طویل ہوتے ہوتے 2 برس پر محیط ہوگیا۔ دوران قید حیدر بخش جتوئی کو ملک کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا ان میں پنجاب کی جیلوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی بدنام زمانہ مچھ جیل بھی شامل ہے جہاں بلوچ سردار اکبر بگٹی بھی ان کے ساتھ قید رہے اور ان سے سوشلزم سیکھتے رہے۔
سندھی قوم کا شعور اجاگرکرنے کے لیے انھوں نے ایک سندھی اخبار ہفت روزہ ہاری حقدار بھی جاری کیا البتہ 21 مئی 1970 کو حیدر بخش جتوئی کا انتقال ہوگیا اور وہ حیدر آباد کے نواح میں آسودہ خاک ہوئے انھوں نے 25 برس تک جو جدوجہد کی اس کا حاصل یہ ہے کہ حقوق حاصل ہوتے ہیں جدوجہد سے ناکہ فقط مطالبات پیش کرنے سے۔ آج سندھ و ملک کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کو اگر اپنے حقوق حاصل کرنا ہیں تو وہ حقوق حاصل ہوں گے عملی جدوجہد سے ناکہ اپنے مقدر کا شکوہ کرنے سے۔