پاکستان کے مزدورو مظلومو ایک ہوجاؤ
مئی کا مہینہ آتا ہے تو دنیا بھر میں مزدوروں کا دن منایا جاتا ہے۔ یکم مئی سرخ سویرے کا دن ہوتا ہے
مئی کا مہینہ آتا ہے تو دنیا بھر میں مزدوروں کا دن منایا جاتا ہے۔ یکم مئی سرخ سویرے کا دن ہوتا ہے۔ سرخ رنگ مزدوروں کا رنگ ہے۔ اس دن دنیا بھر کے مزدور سرخ رنگ کے پرچم اٹھائے بڑی بڑی سڑکوں اور کھلے میدانوں میں جمع ہوتے ہیں۔ پورا ماحول سرخ ہوجاتا ہے اور یوں مزدور شکاگو کے شہید مزدور رہنماؤں کی یاد مناتے ہیں۔
ہمارے ملک میں بھی یکم مئی منایا جاتا ہے۔ مگر کہیں مزدور کسی بڑی سڑک یا کھلے میدان میں سرخ پرچم اٹھائے جمع نہیں ہوتے۔ کئی سال پہلے ایسا ہوتا تھا، مگر اب عرصہ ہوا ایسا نہیں ہوتا۔ کراچی شہر ڈھائی کروڑ انسانوں کا شہر ہے، مگر یہاں مزدوروں کا دن چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ کر منایا جاتا ہے، یکم مئی کو تقسیم در تقسیم، تقسیم در تقسیم کے مظاہرے دیکھ کر گردنیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔
مزدور لیڈروں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے، کوئی کسی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمارے پاکستان میں خیر سے بڑی بڑی این جی اوز بنی ہوئی ہیں، کروڑوں کے فنڈ ہیں، اپنی ذاتی عمارتیں ہیں جن میں دفاتر قائم ہیں، بڑا عملہ ہے، جدید سہولتیں ہیں، سازو سامان ہے، مگر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا، جو دکھائی دیتا ہے وہ یوں ہے کہ سال میں ایک دو اجتماعات کسی پنج ستارہ ہوٹل یا کسی اور اچھے سے ایئرکنڈیشنڈ ہال میں، پسینے میں شرابور، بیماریوں میں گھرے، تعلیم، دوا، مکان سے محروم، کوڑے کھاتے، جاگیرداروں کی ذاتی جیلوں میں قید، مزدوروں، ہاریوں، مظلوموں کے دکھ درد بیان کیے جاتے ہیں۔ گویا اس طرح مظلوموں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
مزدور تنظیمیں شرمناک حد تک تقسیم ہوچکی ہیں۔ ریلوے یونین جس کے بانی مرزا ابراہیم وی وی گری تھے۔ آج حال یہ ہے کہ بابائے مزدوراں مرزا ابراہیم کے عظیم ورثے کو تقسیم در تقسیم کرکے برباد کردیا گیا ہے۔ یکم مئی کے چھوٹے چھوٹے اجتماعات سٹی اسٹیشن اور کینٹ اسٹیشن پر ہوتے ہیں۔ میں کیا عرض کروں، پورا شہر کراچی جانتا ہے کہ سو سو، دو دو سو کی جلسیاں کرکے مزدوروں کا دن منایا جاتا ہے۔ اور یوں ظالموں کو خوش کیا جاتا ہے اور پیغام دیا جاتا ہے کہ تم ظلم کے پہاڑ یونہی توڑتے رہو، مزدوروں ہاریوں کو بھوکوں ترساتے رہو، اور مزدور کے خون پسینے پر عیش کرتے رہو، ہم مزدور لیڈروں نے تم ظالموں کے عیش و آرام کی خاطر مزدوروں کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔
میں یہی دکھ درد دل میں لیے پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور پہنچا، مئی کی چار تاریخ تھی، میں کہ ہر بار ''تنزلی پسندوں'' ہی میں گھرا رہتا تھا، میں نے اپنے ایک ادیب دوست سے پوچھا کہ ''میرے ترقی پسند کہاں ملیں گے'' اس نے بتایا کہ 7 مئی کے دن قائداعظم لائبریری باغ جناح میں ترقی پسندوں کا اجتماع ہے۔ میں بہت خوش تھا اور اپنی عادت کے مطابق وقت مقررہ دو بجے دوپہر اجتماع گاہ پہنچ گیا۔ اجتماع کے تین حوالے تھے۔
یوم مئی کارل مارکس اور کامریڈ سوبھوگیان چندانی اور پروگرام بھی تین حصوں پر مشتمل تھا۔ تقاریر، مشاعرہ اور ڈرامہ ''ہلہ بول''۔ دوران اجتماع ہی مجھے بتایا گیا کہ لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنفین دو ہیں۔ میں تو کراچی سے یہ زخم بھی لے کر چلا تھا کہ لاہور میں بھی تیر ستم سے گھائل ہوا۔ تقریری حصہ ختم ہوا، مشاعرہ شروع ہوا۔ میں نے شعر پڑھنے سے پہلے عرض کیا ''حبیب جالب لاہور کو مستقل ٹھکانہ بنانا چاہتے تھے، آخر وہ 1958 میں کامیاب ہوگئے اور لاہور میں ایک کمرے کا مکان ماہانہ کرایہ 20 روپے پر رہنے لگے۔
موچی گیٹ میں سیاسی جلسے بھی ہوتے تھے، جالب بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ جلسوں میں شریک ہوتے تھے اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ موچی گیٹ پر اکیلے جالب ہی نعرے لگاتے رہ گئے، ان کے تمام سنگی ساتھی ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ میں جا آباد ہوئے۔ جالب نے اسی مال روڈ پر پولیس کی لاٹھیاں کھائیں، زخمی ہوئے۔ یہ بھی ہوا کہ احمد ندیم قاسمی صاحب جنرل ضیا کی طرف سے چوبرجی کے قریب تعمیر شدہ فلیٹوں میں دو فلیٹوں کی چابیاں لے کر جالب کے پاس گئے۔ جالب نے چابیاں پھینک دیں اور قاسمی صاحب سے اظہار ناراضگی بھی کیا۔'' میں نے مزید کہا ''انجمن ترقی پسند مصنفین کے عہدیداروں سے میں دست بستہ اپیل کروں گا کہ متحد ہوجاؤ کیونکہ ہم نے ظالموں سے لڑنا ہے۔
ظالم متحد ہیں اور ہم ''مظلوم'' تقسیم ہیں۔ ہمیں تو آپس کے اختلافات بھلا کر ایک ہوجانا چاہیے تاکہ ہم اقبال کے ''جو نقش کہن ہیں'' انھیں مٹا سکیں، فیض کا خواب پورا کرسکیں ''جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے، ہم دیکھیں گے'' اور جالب وعدہ کرکے گیا ہے ''میں ضرور آؤں گا اک عہد حسیں کی صورت'' جالب کا عہد حسیں دیکھنے کے لیے پاکستان بھر کے مزدورو، مظلومو! ایک ہوجاؤ۔ ترقی پسندو! ایک ہوجاؤ۔'' میں نے اسی اجتماع میں جالب کے دو شعر بھی پڑھے:
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
جیو ہماری طرح سے، مرو ہماری طرح
نظامِ زر تو اسی سادگی سے جائے گا
میں نے کہا کہ اب ہم خود ہی غور کرلیں کہ وقت کے فرعونوں کے خلاف جس عصا کو ہم نے اٹھانا ہے، ریلوے مزدور یونین نے اس کے آٹھ دس ٹکڑے کردیے ہیں، دیگر مزدور تنظیمیں بھی موسیٰ کے عصا کو ٹکڑے ٹکڑے کیے بیٹھی ہیں۔ تو ایسے کیسے کام چلے گا بھائی!مزدور لیڈروں کی زندگیوں میں بھی سادگی نہیں رہی، وہ بھی قیمتی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں، قیمتی گھروں میں رہتے ہیں، تو پھر ''نظام زر'' سے چھٹکارا کیوں کر ملے گا؟پاکستان بھر میں لاکھوں مزدور، ہاری، مظلوم، مزدور رہنماؤں کی تقسیم در تقسیم سے بد دل ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں، وہ یکم مئی کی کسی ''جلسی'' میں شریک نہیں ہوئے۔
واقعہ یہ ہے کہ مزدور، ہاری،کسان اور غریب کم تنخواہ پانے والے سرکاری غیر سرکاری ملازمین کو ''مزدور دشمنیوں'' مذہب، عقیدے، زبان، نسل کی بنیادوں پر بہت بری طرح تقسیم کردیا ہے اور مسائل زدہ غریبوں نے اس تقسیم کو قبول بھی کیا ہوا ہے مگر کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کے مظلوم مذہب، عقیدے، زبان و نسل کی زنجیریں توڑ کر خود کو آزاد کرلیں اور مظلومیت کے نام پر ایک ہوجائیں۔ مسجد، گرجے، مندر، امام بارگاہیں حتیٰ کہ بزرگان دین کے مزارات بھی محفوظ نہیں رہے۔ یونیورسٹیاں، کالج، اسکول بھی محفوظ نہیں رہے۔
تو پھر اس ''تقسیم'' کا کیا نتیجہ نکلا؟ اس سوال کا جواب مظلوم طبقات کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے۔ کیا زبردست کام ہوجائے اگر ہر سال کراچی کے ایم اے جناح روڈ پر گرومندر سے پرانی نمائش تک سرخ پرچم اٹھائے مزدور یوم مئی کا جلوس نکالیں اور پھر نشتر پارک میں جلسہ ہو۔ تمام مزدور تنظیمیں اس ایک دن کو متحد ہوکر منائیں، اسی طرح لاہور میں مال روڈ پر یوم مئی کا جلوس ہو، اور جلسہ ناصر باغ (گول باغ) میں ہو۔ یہی صورتحال اسلام آباد، راولپنڈی (لیاقت باغ) ، ملتان شریف (قاسم باغ)، حیدر آباد (حیدر بخش جتوئی کے ہاری دفتر) ودیگر شہروں قصبوں میں ہو۔
ایسا ہونے لگے تو اقبال، فیض اور جالب کے خواب حقیقت میں بدل جائیں گے ''نقش کہن مٹ جائیں گے'' تخت و تاج گر جائیں گے اور ایک عہد حسیں آجائے گا۔ پھر کہیں کوئی زمیندار ہاری کے ہاتھ نہیں کاٹے گا، پھر کہیں کوئی جاگیردار اپنے خونخوار شکاری کتے ہاریوں پر نہیں چھوڑے گا، پھر کہیں کسی جاگیردار کا خونخوار بیٹا معصوم بھیڑ بکریوں کو دریا میں نہیں پھینکے گا۔ پھر کہیں بقول جالب:
نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی
ملے گی سب کو دولت زندگی کی
نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں
بنے گی رشک جنت یہ زمینیں
کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا
کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا
بس! پاکستان بھر کے مزدورو، مظلومو! ایک ہوجاؤ۔
ہمارے ملک میں بھی یکم مئی منایا جاتا ہے۔ مگر کہیں مزدور کسی بڑی سڑک یا کھلے میدان میں سرخ پرچم اٹھائے جمع نہیں ہوتے۔ کئی سال پہلے ایسا ہوتا تھا، مگر اب عرصہ ہوا ایسا نہیں ہوتا۔ کراچی شہر ڈھائی کروڑ انسانوں کا شہر ہے، مگر یہاں مزدوروں کا دن چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ کر منایا جاتا ہے، یکم مئی کو تقسیم در تقسیم، تقسیم در تقسیم کے مظاہرے دیکھ کر گردنیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔
مزدور لیڈروں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے، کوئی کسی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمارے پاکستان میں خیر سے بڑی بڑی این جی اوز بنی ہوئی ہیں، کروڑوں کے فنڈ ہیں، اپنی ذاتی عمارتیں ہیں جن میں دفاتر قائم ہیں، بڑا عملہ ہے، جدید سہولتیں ہیں، سازو سامان ہے، مگر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا، جو دکھائی دیتا ہے وہ یوں ہے کہ سال میں ایک دو اجتماعات کسی پنج ستارہ ہوٹل یا کسی اور اچھے سے ایئرکنڈیشنڈ ہال میں، پسینے میں شرابور، بیماریوں میں گھرے، تعلیم، دوا، مکان سے محروم، کوڑے کھاتے، جاگیرداروں کی ذاتی جیلوں میں قید، مزدوروں، ہاریوں، مظلوموں کے دکھ درد بیان کیے جاتے ہیں۔ گویا اس طرح مظلوموں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
مزدور تنظیمیں شرمناک حد تک تقسیم ہوچکی ہیں۔ ریلوے یونین جس کے بانی مرزا ابراہیم وی وی گری تھے۔ آج حال یہ ہے کہ بابائے مزدوراں مرزا ابراہیم کے عظیم ورثے کو تقسیم در تقسیم کرکے برباد کردیا گیا ہے۔ یکم مئی کے چھوٹے چھوٹے اجتماعات سٹی اسٹیشن اور کینٹ اسٹیشن پر ہوتے ہیں۔ میں کیا عرض کروں، پورا شہر کراچی جانتا ہے کہ سو سو، دو دو سو کی جلسیاں کرکے مزدوروں کا دن منایا جاتا ہے۔ اور یوں ظالموں کو خوش کیا جاتا ہے اور پیغام دیا جاتا ہے کہ تم ظلم کے پہاڑ یونہی توڑتے رہو، مزدوروں ہاریوں کو بھوکوں ترساتے رہو، اور مزدور کے خون پسینے پر عیش کرتے رہو، ہم مزدور لیڈروں نے تم ظالموں کے عیش و آرام کی خاطر مزدوروں کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔
میں یہی دکھ درد دل میں لیے پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور پہنچا، مئی کی چار تاریخ تھی، میں کہ ہر بار ''تنزلی پسندوں'' ہی میں گھرا رہتا تھا، میں نے اپنے ایک ادیب دوست سے پوچھا کہ ''میرے ترقی پسند کہاں ملیں گے'' اس نے بتایا کہ 7 مئی کے دن قائداعظم لائبریری باغ جناح میں ترقی پسندوں کا اجتماع ہے۔ میں بہت خوش تھا اور اپنی عادت کے مطابق وقت مقررہ دو بجے دوپہر اجتماع گاہ پہنچ گیا۔ اجتماع کے تین حوالے تھے۔
یوم مئی کارل مارکس اور کامریڈ سوبھوگیان چندانی اور پروگرام بھی تین حصوں پر مشتمل تھا۔ تقاریر، مشاعرہ اور ڈرامہ ''ہلہ بول''۔ دوران اجتماع ہی مجھے بتایا گیا کہ لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنفین دو ہیں۔ میں تو کراچی سے یہ زخم بھی لے کر چلا تھا کہ لاہور میں بھی تیر ستم سے گھائل ہوا۔ تقریری حصہ ختم ہوا، مشاعرہ شروع ہوا۔ میں نے شعر پڑھنے سے پہلے عرض کیا ''حبیب جالب لاہور کو مستقل ٹھکانہ بنانا چاہتے تھے، آخر وہ 1958 میں کامیاب ہوگئے اور لاہور میں ایک کمرے کا مکان ماہانہ کرایہ 20 روپے پر رہنے لگے۔
موچی گیٹ میں سیاسی جلسے بھی ہوتے تھے، جالب بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ جلسوں میں شریک ہوتے تھے اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ موچی گیٹ پر اکیلے جالب ہی نعرے لگاتے رہ گئے، ان کے تمام سنگی ساتھی ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ میں جا آباد ہوئے۔ جالب نے اسی مال روڈ پر پولیس کی لاٹھیاں کھائیں، زخمی ہوئے۔ یہ بھی ہوا کہ احمد ندیم قاسمی صاحب جنرل ضیا کی طرف سے چوبرجی کے قریب تعمیر شدہ فلیٹوں میں دو فلیٹوں کی چابیاں لے کر جالب کے پاس گئے۔ جالب نے چابیاں پھینک دیں اور قاسمی صاحب سے اظہار ناراضگی بھی کیا۔'' میں نے مزید کہا ''انجمن ترقی پسند مصنفین کے عہدیداروں سے میں دست بستہ اپیل کروں گا کہ متحد ہوجاؤ کیونکہ ہم نے ظالموں سے لڑنا ہے۔
ظالم متحد ہیں اور ہم ''مظلوم'' تقسیم ہیں۔ ہمیں تو آپس کے اختلافات بھلا کر ایک ہوجانا چاہیے تاکہ ہم اقبال کے ''جو نقش کہن ہیں'' انھیں مٹا سکیں، فیض کا خواب پورا کرسکیں ''جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے، ہم دیکھیں گے'' اور جالب وعدہ کرکے گیا ہے ''میں ضرور آؤں گا اک عہد حسیں کی صورت'' جالب کا عہد حسیں دیکھنے کے لیے پاکستان بھر کے مزدورو، مظلومو! ایک ہوجاؤ۔ ترقی پسندو! ایک ہوجاؤ۔'' میں نے اسی اجتماع میں جالب کے دو شعر بھی پڑھے:
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
جیو ہماری طرح سے، مرو ہماری طرح
نظامِ زر تو اسی سادگی سے جائے گا
میں نے کہا کہ اب ہم خود ہی غور کرلیں کہ وقت کے فرعونوں کے خلاف جس عصا کو ہم نے اٹھانا ہے، ریلوے مزدور یونین نے اس کے آٹھ دس ٹکڑے کردیے ہیں، دیگر مزدور تنظیمیں بھی موسیٰ کے عصا کو ٹکڑے ٹکڑے کیے بیٹھی ہیں۔ تو ایسے کیسے کام چلے گا بھائی!مزدور لیڈروں کی زندگیوں میں بھی سادگی نہیں رہی، وہ بھی قیمتی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں، قیمتی گھروں میں رہتے ہیں، تو پھر ''نظام زر'' سے چھٹکارا کیوں کر ملے گا؟پاکستان بھر میں لاکھوں مزدور، ہاری، مظلوم، مزدور رہنماؤں کی تقسیم در تقسیم سے بد دل ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں، وہ یکم مئی کی کسی ''جلسی'' میں شریک نہیں ہوئے۔
واقعہ یہ ہے کہ مزدور، ہاری،کسان اور غریب کم تنخواہ پانے والے سرکاری غیر سرکاری ملازمین کو ''مزدور دشمنیوں'' مذہب، عقیدے، زبان، نسل کی بنیادوں پر بہت بری طرح تقسیم کردیا ہے اور مسائل زدہ غریبوں نے اس تقسیم کو قبول بھی کیا ہوا ہے مگر کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کے مظلوم مذہب، عقیدے، زبان و نسل کی زنجیریں توڑ کر خود کو آزاد کرلیں اور مظلومیت کے نام پر ایک ہوجائیں۔ مسجد، گرجے، مندر، امام بارگاہیں حتیٰ کہ بزرگان دین کے مزارات بھی محفوظ نہیں رہے۔ یونیورسٹیاں، کالج، اسکول بھی محفوظ نہیں رہے۔
تو پھر اس ''تقسیم'' کا کیا نتیجہ نکلا؟ اس سوال کا جواب مظلوم طبقات کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے۔ کیا زبردست کام ہوجائے اگر ہر سال کراچی کے ایم اے جناح روڈ پر گرومندر سے پرانی نمائش تک سرخ پرچم اٹھائے مزدور یوم مئی کا جلوس نکالیں اور پھر نشتر پارک میں جلسہ ہو۔ تمام مزدور تنظیمیں اس ایک دن کو متحد ہوکر منائیں، اسی طرح لاہور میں مال روڈ پر یوم مئی کا جلوس ہو، اور جلسہ ناصر باغ (گول باغ) میں ہو۔ یہی صورتحال اسلام آباد، راولپنڈی (لیاقت باغ) ، ملتان شریف (قاسم باغ)، حیدر آباد (حیدر بخش جتوئی کے ہاری دفتر) ودیگر شہروں قصبوں میں ہو۔
ایسا ہونے لگے تو اقبال، فیض اور جالب کے خواب حقیقت میں بدل جائیں گے ''نقش کہن مٹ جائیں گے'' تخت و تاج گر جائیں گے اور ایک عہد حسیں آجائے گا۔ پھر کہیں کوئی زمیندار ہاری کے ہاتھ نہیں کاٹے گا، پھر کہیں کوئی جاگیردار اپنے خونخوار شکاری کتے ہاریوں پر نہیں چھوڑے گا، پھر کہیں کسی جاگیردار کا خونخوار بیٹا معصوم بھیڑ بکریوں کو دریا میں نہیں پھینکے گا۔ پھر کہیں بقول جالب:
نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی
ملے گی سب کو دولت زندگی کی
نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں
بنے گی رشک جنت یہ زمینیں
کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا
کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا
بس! پاکستان بھر کے مزدورو، مظلومو! ایک ہوجاؤ۔