ذرا ادھر بھی توجہ دے لیں
کبھی یہ اعزاز کراچی کو حاصل تھا، جو ایک اہم تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔
جب وطن عزیز سے باہر نکلتے ہیں اور وہاں زندگی کا بھرپور انداز دیکھتے ہیں تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کاش ہم بھی ایسی سہولیات سے بہرہ مند ہو سکتے۔ مگر اپنی حکمران اشرافیہ سے ایسے اقدامات کی توقع عبث ہے، جنھیں اپنے مفادات کے آگے کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ تذکرہ مغرب کی پہلی دنیا کے شہروں کا نہیں، بلکہ تیسری دنیا کے ان ممالک کا ہے، جہاں قومی وسائل عوام کی فلاح اور انھیں بہتر زندگی مہیا کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مشرق بعید کے ابھرتے ہوئے شہر ہوں یا مشرق وسطیٰ کے تجارتی مراکز، ہر آنے والے دن ان میں جدید سہولیات کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس اپنے ملک کے شہروں اور قصبوں پر نظر ڈالیں تو ابتری اور پسماندگی کے گہرے بادل چھائے نظر آئیں گے۔
یہ اظہاریہ دبئی سے لکھ رہا ہوں، جہاں چند روز کے لیے آیا ہوا ہوں۔ فلک بوس عمارتیں، صاف ستھرے راستے اور جدید سہولیات سے آراستہ نفیس رہائش گاہیں۔ چوڑی چوڑی سڑکوں پر تیزی سے رواں ٹریفک، جو انتظامیہ اور عوام کے ڈسپلن کا غماز ہے۔ دبئی ہو یا ابوظہبی یا شارجہ، آج صحیح معنوں میں روشنیوں کے شہر لگتے ہیں۔ ان شہروں نے جو ترقی کی ہے، وہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں، محض چند دہائیوں کی کہانی ہے، جو وہاں کے حکمرانوں کے وژن اور مستقبل بینی کی ایک واضح مثال ہے۔ دبئی جہاں تیل کی دولت نہ ہونے کے برابر ہے، مگر اس کے حکمرانوں نے اسے فری پورٹ بنا کر اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کی ہے۔ ان کاوشوں کے نتیجے میں آج دبئی اس خطے کا اہم تجارتی مرکز بن چکا ہے، جہاں دنیا بھر کے کاروباری حلقے اور سیاح منڈلاتے رہتے ہیں۔
کبھی یہ اعزاز کراچی کو حاصل تھا، جو ایک اہم تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔ پرانے ٹرمینل پر گنجائش سے زیادہ جہاز اترتے اور اڑتے تھے۔ مسافروں کی ریل پیل دیدنی ہوا کرتی تھی، جہاں سرشام سڑکیں روشنیوں سے جگمگا اٹھتی تھیں، اسی لیے اسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ اس کی سڑکوں پر آسٹریا سے درآمد کردہ بسیں چلا کرتی تھیں۔ لوکل اور سرکلر ٹرینیں منہ اندھیرے شروع ہو کر رات گئے تک مسافروں کو اپنی منزلوں تک پہنچاتی تھیں۔ تجارتی سرگرمیوں کے سبب مڈل کلاس کلچر تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا تھا۔ ہر درجہ کے ریستورانوں اور بازاروں میں رات گئے تک رونقیں ہوا کرتی تھیں۔ مگر یہ سب خواب و خیال ہوا۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جب صنعتوں کو قومیائے جانے کے نام پر بیوروکریٹائز کیا گیا، تو اس شہر کا مڈل کلاس کلچر گہنانے لگا۔ صنعتوں کے بند ہونے سے وہ صنعتی علاقے، جہاں کبھی کھوے سے کھوا چھلتا تھا، الو بولنے لگے۔ اسی طرح وہ شہر جہاں 1970ء تک سنگین جرائم کی شرح ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ افغانستان اور ملک کے دوسرے صوبوں سے آنے والوں کی وجہ سے ان جرائم میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔
جب کہ شہر کے اطراف بننے والی کچی بستیاں جرائم کا گڑھ بن گئیں۔ مختلف غیر جانبدار جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شہر میں اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیوں، کار اور موٹر سائیکلیں چھیننے اور عقیدے کے نام پر ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین جرائم میں ملوث افراد میں 85 فیصد کا تعلق دوسرے صوبوں سے آنے والوں سے ہوتا ہے۔ مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر اصل مجرموں کے خلاف ٹھوس کارروائی کے بجائے پر امن شہریوں کا حلقہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا تعلق بھی چونکہ دوسرے صوبوں سے ہے، اس لیے وہ بھی اس شہر کے اصل مسائل نہیں سمجھتے ۔ جس کی وجہ سے شہر میں دیرپا امن کی خواہش محض ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔
جس طرح ایوب خان نے اس شہر کے ساتھ پہلی زیادتی ملک کا دارالحکومت اپنے گاؤں کے پہلو میں منتقل کر کے کی تھی۔ اسی طرح تھانوں میں دوسرے صوبوں سے درآمد کردہ تھانیدار اور مساجد میں پیش اماموں کی تقرری کا مشورہ 1953ء میں اس وقت کے وزیر داخلہ مشتاق گورمانی نے دیا تھا۔ اس مشورے پر اسی وقت سے عمل شروع کر دیا گیا تھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ شہر کے کسی ایک تھانے میں مقامی تھانیدار تعینات نہیں ہے۔ اسی طرح کسی ایک مسجد (تمام مسالک) کا پیش امام مقامی نہیں ہے، یعنی کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسے جس سلوک کی ابتدا ایوب خان نے کی تھی، وہ آنے والے ہر حکمران کا وتیرہ بن گیا اور آج تک جاری ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ چند روز قبل لندن میں میئر کا انتخاب ہوتا ہے۔ گزشتہ روز کامیاب میئر اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر ذمے داریاں سنبھال لیتے ہیں۔ مگر یہ پاکستان ہے، جہاں دو صوبوں سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ہوئے چھ ماہ گزر گئے، مگر منتخب کونسلوں کو اختیار دینے سے ابھی تک گریز کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں ہی اقتدار و اختیار کی مرکزیت کی حامی ہیں۔ اسی لیے بلدیاتی نظام میں ان دونوں جماعتوں کو کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات عدالت عظمیٰ کے دباؤ پر بادل نخواستہ کرائے گئے۔ اس لیے لولے لنگڑے اختیارات منتقل کرنے میں بھی پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے۔ جب کہ کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر کے میئر کو جس قدر ممکن ہو سکا ہے، بے دست و پا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
آج کراچی کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ چہار سو ابلتے گٹروں کی وجہ سے سڑکیں اور گلیاں گندے نالے بن چکی ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اسٹریٹ لائٹس ناکارہ ہونے کی وجہ سے عام راستے تو اپنی جگہ شاہراہیں تک اندھیروں میں ڈوبی ہوتی ہیں۔ ب
جلی کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے، اس طرح روشنیوں کا شہر اندھیروں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ اتنے بڑے شہر کو کسی قصبے کی طرح نہیں چلایا جا سکتا۔ بلکہ ایک بااختیار میٹروپولیٹن نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے انتظامی ڈھانچے میں کلیدی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ نہ جانے کہاں کی جمہوریت اور کہاں کا انصاف ہے کہ دو کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کے منتخب نمایندوں کا شہر کے انتظام و انصرام میں کوئی عمل دخل یا کردار نہیں ہے۔ بلکہ اس شہر کو دیہی معاشرت سے تعلق رکھنے والی بیوروکریسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کئی بار لکھا، بار بار لکھیں گے کہ پرویز مشرف نے جو مقامی حکومتوں کا نظام دیا تھا، وہ اس ملک میں تجربہ کیے گئے تمام نظاموں سے بدرجہا بہتر ہے۔ مگر متذکرہ بالا دونوں جماعتیں اقتدار و اختیار کی نچلی سطح پر منتقلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس روش و رویے کی دو وجوہات ہیں۔ اول، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کا مائنڈسیٹ فیوڈل ہے، جو انھیں اقتدار و اختیار کی مرکزیت پر قائم رکھنے پر اکساتا ہے۔
دوئم، وہ تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، جن کے منہ کو ترقیاتی فنڈز لگ چکے ہیں، اختیارات نچلی سطح پر منتقلی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کی ذمے داری قانون سازی ہے نا کہ ترقیاتی کام۔ مگر یہ پاکستان ہے، جہاں گنگا ہمیشہ الٹی بہتی ہے۔ طاقت کے بل بوتے پر کھیلے جانے والے اس کھیل کے کیا نتائج نکلیں گے، اقتدار کے نشے میں بدمست حکمران اس سے بے نیاز ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آ رہی کہ اس قسم کے سازشی کھیل عوام کے درمیان فاصلے کم کرنے کے بجائے انھیں مزید بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔
پھر عرض ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں رینجرز کے ذریعے شہر میں آپریشن کا شوق ضرور پورا کریں۔ مگر یہ اقدام پائیدار امن کا ضامن نہیں ہے۔ کیونکہ جب تک اس ملک کو 65 فیصد ریونیو دینے والے شہریوں کو نظر انداز کیا جاتا رہے گا، امن کی فاختہ کبھی اس شہر کا رخ نہیں کرے گی۔
اس لیے بنیادی ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی حکومتی نظام کے تحت منتخب نمایندوں کو اختیارات دیے جائیں، تا کہ وہ شہر کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ یہ بات بھی طے ہے کہ شہر کے متوشش شہریوں نے موجودہ بلدیاتی نظام کو بحالت مجبوری قبول کیا ہے، کیونکہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے۔ لیکن وہ ایک ایسے بااختیار اور مکمل خودمختار مقامی حکومتی نظام کے نفاذ کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں، جو ریاستی انتظام کا تیسرا درجہ یا Third Tier ہو۔ لہٰذا حکمرانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مقامی حکومتی نظام کے قیام میں پس و پیش یا انکار مزید سیاسی اور انتظامی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔