51 کروڑ ڈالر کی نئی قسط

سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال میں سب سے اہم کردار نجی ملکیت کا لامحدود حق ہے


Zaheer Akhter Bedari May 23, 2016
[email protected]

دبئی میں آئی ایم ایف کے حکام سے ہمارے وزیر خزانہ کے کامیاب مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف نے 51 کروڑ ڈالر کی ایک اور قسط پاکستان کو دینے کی منظوری دے دی ہے، اس سے قبل آئی ایم ایف پاکستان کو اربوں ڈالر کے قرض دے چکا ہے۔

ہمارے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ بہت جلد 11 نقصان میں چلنے والے قومی اداروں کو نجی ملکیت میں دے دیا جائے گا۔ اس سے قبل کہ ہم قرض کی وصولی اور اس کے استعمال کا جائزہ لیں نجی ملکیت میں دیے جانے والے قومی اداروں یا نجی ملکیت کے فلسفے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں اور مظالم کا احساس کرتے ہوئے دنیا کے دو اہل فکر اور ماہر معاشیات مارکس اور اینجلز نے سوشلسٹ معیشت کا فلسفہ پیش کیا اس فلسفے کا بنیادی مقصد طبقاتی استحصال کو روکنا تھا۔

سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال میں سب سے اہم کردار نجی ملکیت کا لامحدود حق ہے، اس عوام دشمن حق کو تحفظ دینے کے لیے جہاں جمہوریت کو استعمال کیا گیا وہیں جمہوری ملکوں کے آئین میں نجی ملکیت کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا۔ اس حوالے سے دلچسپ اور شرمناک حقیقت یہ ہے کہ یہ حق تو سب کو دیا گیا لیکن سسٹم ایسا بنایا گیا کہ ہر ملک کی 90 فیصد آبادی کو اس حق کو استعمال کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا گیا۔ نجی ملکیت کے حوالے سے غریب عوام کے پاس ان کے دو ہاتھ ہی تھے جن سے غریب امیروں کے لیے دولت پیدا کرتا ہے اور خود خالی پیٹ رہتا ہے۔

مارکس اور اینجلز نے استحصال اور لوٹ مار کے ہر دروازے کو بند کرنے کے لیے نجی ملکیت کے حق ہی پر پابندی لگا دی۔ یہ پابندی ایسی ہی تھی جیسے سانپ کے منہ سے دانت نکال دینا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں عوام سے لوٹ مار کا دوسرا طریقہ لامحدود منافع تھا، نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک منافع کا ایک ایسا استحصالی نظام رائج کیا گیا کہ منافع کے جائز نام پر سرمایہ دار عوام کا بے روک ٹوک استحصال کرنے لگے۔ آج دنیا میں امیر ترین لوگوں کی جو فہرست ہر سال شایع ہوتی ہے ان کا سرمایہ اربوں کھربوں ڈالر پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ سب منافع ہی کی کرامت ہوتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بے لگام منافع کو ہر ''حوالے'' سے جائز قرار دیا گیا، اسی سہولت اور قانونی تحفظ کے نام پر عوام کو لوٹنے کا ایک بے لگام سلسلہ شروع کر دیا گیا اور دولت کے انبار چند لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہونے لگے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار برائے منافع کا اصول رائج کیا گیا۔ مارکس اور اینجلز نے اس لوٹ مار بلکہ اندھی لوٹ مار کو روکنے کے لیے پیداوار برائے فروخت کا فلسفہ ایجاد کیا اور لوٹ مار کرنے والے تمام اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ فیکٹریوں، ملوں، کارخانوں سے مالکوں کو نکال کر کارخانے، ملز سب مزدوروں کی تحویل میں دے دیے گئے۔

اس نظام کی وجہ سماج میں ہر انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی ذمے داری ریاست پر عائد ہوئی، اس نظام میں نہ کوئی بھوکا رہا نہ بے روزگار، سوشلسٹ ملکوں میں جرائم کا نام و نشان مٹ گیا، ہر انسان جائز اور ناجائز میں تمیز کرنے لگا۔ اور معاشی ترقی کا عالم یہ تھا کہ 50 سال کے مختصر عرصے میں روس کا شمار سپر پاورز میں ہونے لگا۔ سوشلسٹ ملکوں کی اس ترقی اور معاشی انصاف کو دیکھ کر ساری دنیا میں سوشلسٹ معیشت مقبول ہونے لگی اور دنیا کا 1/3 حصہ سوشلسٹ معیشت کے زیر اثر آ گیا۔ سوشلزم کی اس مقبولیت نے سرمایہ داروں اور ان کے سرپرستوں کی نیندیں حرام کر دیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے نظریہ ساز سوشلزم کو ناکام بنانے کی ترکیبیں سوچنے لگے۔

سب سے پہلے انھوں نے یہ بدمعاشی کی کہ سادہ لوح اور مذہب سے عقیدت رکھنے والے عوام میں یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ سوشلزم کا مطلب لادینیت ہے۔ یہ پروپیگنڈہ خاص طور پر مسلم ممالک میں شدت سے کیا گیا اور المیہ یہ ہے کہ اس پروپیگنڈے کے لیے مذہبی قیادت کو استعمال کیا گیا۔ گاؤں گاؤں، شہر شہر امریکا کے یاروں مددگاروں کی ٹولیاں عوام میں یہ پروپیگنڈہ کرنے لگیں کہ سوشلزم کا مطلب لادینیت ہوتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ سوشلسٹ ملکوں کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے لیے سرد جنگ کا آغاز کر دیا گیا اور اس سرد جنگ کو اسٹار وار تک پہنچا دیا گیا۔

سوشلسٹ ملکوں میں استحصال کے ہر طریقے کو اور ارتکاز زر کی ہر صورت کو ختم کر دیا گیا تھا اور سوشلسٹ ملکوں کے قائدین کی پوری توجہ عوام کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بہتر اور آسودہ بنانے پر لگی ہوئی تھی، ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے سردجنگ کا سازشی سلسلہ شروع کر دیا گیا اور سوشلسٹ ملکوں کا سرمایہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے کے بجائے سرد جنگ کی نذر ہونے لگا اور پھر سازشوں کے ذریعے روس کو توڑ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ پروپیگنڈہ کیا جانے لگا کہ سوشلزم کا نظریہ ناکام ہو گیا۔ اس کے قطع نظر ہم اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتے، کیونکہ آج کی دنیا کی یہ مجبوری بن گئی ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کو دفن کر کے ایک بار پھر سوشلسٹ معیشت سے رجوع کرے۔

مسلم لیگ کے زعما انتخابی مہم کے دوران گلے پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے تھے کہ ہم اگر برسر اقتدار آئیں گے تو سب سے پہلے کشکول توڑ کر ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے آزاد کرائیں گے۔ ہمارے ان زعما کو اقتدار میں آئے اب تین سال ہو رہے ہیں اور اس عرصے میں کشکول تین گنا بڑا ہو گیا ہے، پیدا ہونے والا ہر بچہ اب ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض پیدا ہو رہا ہے، آئی ایم ایف جو قرض دے رہا ہے اس کی ہر شرط عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ ہماری آزادی کا عالم یہ ہے کہ ہمارے سالانہ بجٹ کی گائیڈ لائن آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارے فراہم کرتے ہیں۔

ہم اب پوری طرح عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان اداروں سے جو اربوں ڈالر کا قرض لیا جا رہا ہے وہ مبینہ طور پر اعلیٰ سطح کرپشن کی نذر ہو رہا ہے اور عوام کی فلاح کے نام پر لیا جانے والا یہ قرض عوام تک پہنچنے ہی نہیں پاتا، اوپر ہی اوپر لوٹ مار کا شکار ہو جاتا ہے۔ وزیر خزانہ سرمایہ دارانہ نظام کو بالواسطہ مستحکم کرنے کے لیے نجکاری کی رفتار کو جس طرح تیز کر رہے ہیں اس کا فائدہ کرپٹ عناصر کو ہی ہو گا عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں