سب سے پہلے صحت

پرانے زمانے میں بزرگ کہا کرتے تھے کہ صحت کی بادشاہت ہو۔


www.facebook.com/syedzishanhyder

پرانے زمانے میں بزرگ کہا کرتے تھے کہ صحت کی بادشاہت ہو۔ یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی لیکن اگر غور کیا جائے تو اس بات میں بڑی حکمت پنہاں ہے ۔دنیا کے امیر ترین شخص کے پاس اگر صحت نہیں تو دنیا کی تمام نعمتیں اس کے لیے بے معنی ہیں۔

انسان کے پاس جتنا بھی مال و دولت ہو اگر وہ تندرست نہیں تو کچھ فائدہ نہیں۔انسان اپنی خواہشوں اور ان گنت ضروریات کی تکمیل کے لیے دن رات محنت کرتا ہے لیکن اس دوڑ میں اپنی صحت کی دیکھ بھال کو نظر انداز کردیتا ہے۔جس سے وہ صحت جیسی انمول نعمت سے محروم ہوتا جاتا ہے ۔پھر سب مال و دولت حاصل کرنے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ سب چیزیں اس کے لیے بے سود ہیں۔امیر ترین لوگ مزے مزے کے چٹ پٹے کھانے نہیں کھا سکتے۔اگرامیر شخص کو شوگر ہے تو وہ میٹھا نہیں کھا سکتا۔ اس کے پیچھے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی مال و دولت سمیٹنے میں لگا دیتا ہے۔ صحت کو نظر انداز کردیتا ہے ۔

دوسری طرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں صحت کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ۔ہمارے ملک میں کل جی ڈی پی کا 2فیصد سے بھی کم صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔انفرادی طور پر دیکھا جائے تو انسان مادی دنیا میں اتنا محو ہوچکا ہے کہ وہ صحت پر توجہ نہیں دیتا،صحت کا خیال اس کو نہیں آتا ہے ۔جب وہ بستر کو لگ جاتا ہے یا پھراسپتال میں داخل ہوجاتا ہے تب کیا فائدہ جب چڑیا چگ جائیں کھیت۔صحت کے بارے لاپرواہی کی بہت ساری مثالیں ہیں ۔میرے ایک دوست کے والد جو بہت بڑے بزنس مین ہیں۔ ان کو دل کا عارضہ لاحق ہوا۔انھیں اسپتال لے جایا گیا۔

موصوف سگریٹ نوشی اور مے نوشی کے دلدادہ تھے۔ وہ کاروباری حلقوں میں انتھک محنت کرنے والی شخصیت جانے جاتے ہیں۔موصوف اپنے روزمرہ کے معمول میں صبح جلدی اٹھتے اور کام میں مگن ہوجاتے ۔خوراک بھی نامناسب کھاتے تھے۔ورزش نہ کرنے کے باعث ان کا وزن بڑھتا گیا ۔شوگر میں مبتلا ہوگئے ۔گردے بھی کمزور ہوگئے۔جب راقم الحروف اسپتال میں تیمارداری کے لیے پہنچا تو موصوف ہچکیاں لے کر رو رہے تھے اور صحت کا خیال نہ رکھنے پر پچھتاوے کا اظہار کر رہے تھے۔

انھوں نے اپنا وقت اور محنت مال و دولت جمع کرنے میں لگا دی ۔اپنی صحت کا خیال نہیں رکھا۔اگر وہ اپنی صحت کا خیال رکھتے تو آج ان کی زندگی کئی گنا بہتر بسر ہو رہی ہوتی۔اسی طرح میرے ایک دوست کو دل کا عارضہ لاحق ہوا۔انھیں علاج کے لیے دوسرے شہر جانا پڑتا تھا۔انھوں نے سوچا کہ میں نے فلاں شخص کی بیٹی کی شادی پر دو ماہ بعد جانا ہے تب اپنا علاج بھی کروا لوں گا۔لیکن اس عدم توجہی کے باعث ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی اوران کو ہارٹ اٹیک ہوگیا۔اگر وہ اپنی صحت کو ترجیح دیتے اور بروقت علاج کروا لیتے تو صحت زیادہ خراب نہ ہوتی۔ایسی بہت سی مثالیں آپ کے اردگرد بھی موجود ہوں گی۔صحت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے باعث انسان اپنی جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔

آج بھی اکثر پڑھے لکھے لوگ سمجھتے ہیں کہ سگریٹ نوشی نقصان دہ نہیں ہے ۔اگر آپ اپنی خوراک صحیح رکھیں ،ورزش کرتے رہیں تو اس طرح کے نشوں میں کوئی قباحت نہیں۔ وہ مے نوشی کے بارے میں بھی اسی طرح کی ملتی جلتی رائے رکھتے نظر آتے ہیں۔ناصرف ان پڑھ بلکہ پڑھے لکھے لوگ بھی اس طرح کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور تو اور ہمارے ڈاکٹر حضرات بھی اس طرح کی علتوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔طب کے حوالے سے اگر آپ دنیا کی مایہ ناز اور معروف تحقیقات پڑھیں تو واضح ہوجائے گا کہ سگریٹ نوشی اور مے نوشی صحت کے دو بڑے وجہ مسائل ہیں۔بہت سارے نوجوان اس کا شکار ہوتے اور اپنی زندگیاں تباہ کرلیتے ہیں۔یہ ہر حالت اور ہر قسم میں مضرصحت ہے۔

ہمارے نوجوان اپنا قیمتی وقت انٹرنیٹ پر برباد کرتے ہیں۔ تھوڑا سا وقت نکال کر صحت کے حوالے سے کی گئی تحقیقات کا مطالعہ کریں تو ان پر سارے معاملات واضح ہوجائیں گے۔ اس حوالے سے بہت سی کہانیاں گھڑی گئی ہیں اور غلط معلومات پھیلائی جاتی ہیں اس لیے انٹر نیٹ پر صحیح معلومات تک رسائی حاصل کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ہر انسان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھے ۔بدقسمتی سے انسان کو صحت کا خیال تب آتا ہے جب اس کے پاس صحت نہیں رہتی۔انسان کی عجیب عادتیں ہوتی ہیں سکون کے لیے اپنی صحت برباد کر لیتا ہے اور بعد میں صحت نہ ہونے کے باعث تکلیف اٹھاتا ہے ۔نوجوان بہت سارے معاملات میں الجھ جاتے ہیں ۔جیسا کہ نوجوان تن سازی کے لیے ممنوعہ ادویات کا استعمال کر لیتے ہیں۔

جس سے مردانہ صلاحیتیں ختم ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے ۔اپنے جسمانی مسلز کو غیر ضروری طور پر بڑھا لیتے ہیں ۔وہ جوڑوں کی تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔بڑھاپے کے اندر ان کے لیے جسم عذاب بن جاتا ہے ۔ہوناتویہ چاہیے کہ ہمارے اسکولوں اور کالجز کے اندر چاہیے کہ ہیلتھ ایجوکیشن لازمی قرار دی جائے۔ صحت کے اصولوں پر لیکچر دیے جائیں۔اس حوالے سے ذرایع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔انٹر نیٹ چینلز کو بھی ہیلتھ کے اوپر پروگرامز کرنے چاہیں۔اگر آپ صحت کی اہمیت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کسی بھی اسپتال کے جنرل وارڈ میں چلے جائیں وہاں بستروں پر موجود مریضوں سے بات چیت کریں۔

وہ اپنی تکلیف کے بارے میں آپ سے بات کریں گے ۔ان کی گفتگو سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کا مال و دولت ،دوست ،رشتہ دار اور دیگر چیزیں جنھیں آپ زندگی میں اہمیت دیتے ہیں وہ زیادہ اہم ہیں یا آپ کی صحت ہے ؟ اگر صحت نہیں تو آپ کو قریبی رشتے بھی دور دکھائی دیں گے۔حقائق وہی جانتا ہے جو کسی بیماری سے گزرا ہو۔صحت کو سب سے اہم اور قیمتی سمجھتے ہوئے اس کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ایک بیمار شخص ناصرف اپنے اوپر بلکہ پورے معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے ۔مزید یہ کہ '' احتیاط علاج سے بہتر ہے '' ۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی صحت کے بارے میں مطالعہ کریں ۔بیماری کی صورت میں اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔انٹرنیٹ پر صحت کی بہتری کے لیے تحریریں پڑھیں اور کالم میں چند تجاویز دی گئی ہیں اس پر غور کریں۔ نقصان دہ چیزوں سے اجتناب کریں ۔ورزش کریں ،فضول کی پریشانیوں اور ذہنی دباؤ سے گریز کریں۔ پر سکون زندگی گزاریں ۔صحت کے لیے سب سے اہم چیز ذہنی سکون ہوتا ہے ۔پریشان شخص اور پریشانیوں پرمسکرانے والے شخص نے بھی قبر میں جاناہوتاہے مگردونوں کی زندگیاں بہت مختلف ہوتی ہیں ۔اب یہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آپ نے کونسا شخص بن کر زندگی گزارنی ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں