ہفتہ رفتہ میں عالمی سطح پر روئی کی قیمتوں میں اضافے سے مقامی نرخ گر گئے
گزشتہ کاروباری ہفتے کے آخری دو روز نیویارک کاٹن ایکسچینج میں دوبارہ تیزی کا رجحان غالب رہا
چین کے ذخائر سے وہاں کی ٹیکسٹائل ملوں کی وسیع پیمانے پرخریداری سرگرمیوں کے باوجود گزشتہ ہفتے بین الاقوامی کاٹن مارکیٹس میں روئی کی قیمت میں تیزی کا رجحان غالب رہا جبکہ پاکستان میں معیاری روئی کے ذخائرانتہائی کم ہونے اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدرمیں اضافے کے رجحان کے باوجود روئی کی قیمتوں میں گزشتہ ہفتے کے دوران معمولی مندی کا رجحان سامنے آیا تاہم توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ رواں ہفتے کے دوران بین الاقوامی منڈیوں میں تیزی کے رجحان کے باعث پاکستان میں بھی روئی کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان سامنے آ سکتا ہے۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ 2 مئی سے چین کی جانب سے اپنے ریزورز سے روئی کی فروخت شروع کرنے کے اعلان کے باعث تقریباً 3 ہفتے قبل غیر متوقع طور پر روئی کی بین الاقوامی منڈیوں میں روئی کی قیمتوں میں غیر معمولی تیزی کا رجحان سامنے آیا تھا اور نیویارک کاٹن ایکسچینج میں حاضر ڈلیوری روئی کے سودے 72 سینٹ فی پاؤنڈ تک جبکہ پاکستان میں روئی کی قیمتیں 6 ہزار روپے فی من تک پہنچ گئی تھیں لیکن حیران کن طور پر چین کی جانب سے فروخت ہونے والی روئی کی قیمتیں بین الاقوامی منڈیوں کے مقابلے میں 10سینٹ فی پاؤنڈ زیادہ ہونے کے باوجود چینی ٹیکسٹائل ملز مالکان نے مذکورہ روئی کی خریداری میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث دوبارہ بین الاقوامی منڈیوں اور پاکستان میں روئی کی قیمتوں میں دوبارہ مندی کا رجحان سامنے آیا۔
تاہم گزشتہ کاروباری ہفتے کے آخری دو روز نیویارک کاٹن ایکسچینج میں دوبارہ تیزی کا رجحان غالب رہا اور توقع طاہر کی جا رہی ہے کہ تیزی کا یہ رجحان رواں ہفتے بھی جاری رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران نیویارک کاٹن ایکسچینج میں حاضر ڈلیوری روئی کے سودے 0.55 سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے ساتھ 70.20 سینٹ فی پاؤنڈ جبکہ جولائی ڈلیوری روئی کے سودے 1.05 سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے ساتھ 61.67 سینٹ فی پاؤنڈ تک پہنچ گئے جبکہ بھارت میں روئی کی قیمتیں 200 روپے فی کینڈی اضافے کے ساتھ 35ہزار 200 روپے فی کینڈی جبکہ چین میں 565 یو آن فی ٹن اضافے کے ساتھ 12 ہزار 645 یو آن فی ٹن تک پہنچ گئی جبکہ پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں روئی کی قیمتیں تقریباً 100 روپے فی من مندی کے بعد 5 ہزار 900 روپے فی من تک گر گئیں اور کراچی کاٹن ایسوسی ایشن میں روئی کے اسپاٹ ریٹ 50 روپے فی من مندی کے بعد 5 ہزار 550 روپے فی من تک گر گئے۔
احسان الحق نے بتایا کہ وزارت تجارت پاکستان کی جانب سے پیدا کیے گئے ایک نئے بحران کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری آج کل ایک نئے بحران سے دو چار ہے۔ وزارت تجارات کی جانب سے واہگہ بارڈر پر پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان کی جانب سے بھارت سے درآمد کی گئی تقریباً 50 ہزار روئی کی بیلز کی پاکستان میں آنے کی کلیئرنس نہیں دی جا رہی جس کے باعث واہگہ بارڈر پر پڑی ہوئی اس روئی کا معیار خراب ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل ملز مالکان کو لاکھوں روپے روزانہ ڈیمریج بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے جبکہ وزارت تجارت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی قانون کے مطابق بھارت سے زمینی راستے سے زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ بیلز درآمد کی جا سکتی ہیں اور ان کی درآمد اب مکمل ہو چکی ہے جس کے باعث اب بھارت سے مزید روئی درآمد نہیں کی جا سکتی جبکہ عملی طور پر بھارت سے روئی کی تقریباً 15 لاکھ بیلز اب تک درآمد کی جا چکی ہیں۔
ٹیکسٹائل ملز مالکان کا کہنا ہے کہ وزارت تجارات کو اس قانون کا 15 لاکھ بیلز درآمد ہونے کے بعد یاد آیا جبکہ قانونی طور پر بھارت سے روئی کی 5 لاکھ بیلز کی درآمد مکمل ہونے کے بعد وزارت تجارت اور اسٹیٹ بینک کو بھارت سے روئی درآمد کرنے بارے این او سی ہی جاری نہیں کرنا چاہیے تھا اور یا کم از کم درآمد ہونے والی روئی کو پاکستانی حدود میں داخل نہیں ہونے دینا چاہیے تھا لیکن حیران کن طور پر وزارت تجارت نے بھارت سے روئی کی 15 لاکھ بیلز کی درآمد کی اجازت بھی دے دی اور حال ہی میں واہگہ بارڈر پر روکے جانے والی 50ہزار بیلز کو بھارتی حدود میں روکنے کے بجائے پاکستانی حدود میں داخل ہونے دیا گیا اور واہگہ بارڈر پر اس قانون کا نفاذ کر دیا گیا ۔
جس سے پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان کو ذہنی کوفت کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ اس سے پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس بھی کم ہو سکتی ہیں۔ تاہم غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق واہگہ بارڈر پر وزارت تجارت کی جانب سے روئی روکے جانے کے پیچھے دراصل چند ایسے بڑے ٹیکسٹائل گروپس ملوث ہیں جن کی اپنی روئی خریداری اور درآمد مکمل ہو چکی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے مد مقابل ٹیکسٹائل گروپس کو روئی کی بروقت فراہمی نہ ہونے سے ان کی ٹیکسٹائل درآمدات متاثر ہو سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ اطلاعات کے مطابق پنجاب میں کپاس کی کاشت پچھلے سال کے مقابلے میں 15 سے 20 فیصد تک کم ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں جبکہ کپاس کی فصل پر رواں سال ایک بار پھر گلابی سنڈی کے شدید حملے کے بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں اس لیے کاشتکاروں کو چاہیے کہ وہ گلابی سنڈی کے خاتمے کے لیے تمام تر ہنگامی اقدامات کریں تاکہ روئی کا معیار خراب نہ ہونے سے پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات بھی متاثر نہ ہو سکیں۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ 2 مئی سے چین کی جانب سے اپنے ریزورز سے روئی کی فروخت شروع کرنے کے اعلان کے باعث تقریباً 3 ہفتے قبل غیر متوقع طور پر روئی کی بین الاقوامی منڈیوں میں روئی کی قیمتوں میں غیر معمولی تیزی کا رجحان سامنے آیا تھا اور نیویارک کاٹن ایکسچینج میں حاضر ڈلیوری روئی کے سودے 72 سینٹ فی پاؤنڈ تک جبکہ پاکستان میں روئی کی قیمتیں 6 ہزار روپے فی من تک پہنچ گئی تھیں لیکن حیران کن طور پر چین کی جانب سے فروخت ہونے والی روئی کی قیمتیں بین الاقوامی منڈیوں کے مقابلے میں 10سینٹ فی پاؤنڈ زیادہ ہونے کے باوجود چینی ٹیکسٹائل ملز مالکان نے مذکورہ روئی کی خریداری میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث دوبارہ بین الاقوامی منڈیوں اور پاکستان میں روئی کی قیمتوں میں دوبارہ مندی کا رجحان سامنے آیا۔
تاہم گزشتہ کاروباری ہفتے کے آخری دو روز نیویارک کاٹن ایکسچینج میں دوبارہ تیزی کا رجحان غالب رہا اور توقع طاہر کی جا رہی ہے کہ تیزی کا یہ رجحان رواں ہفتے بھی جاری رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران نیویارک کاٹن ایکسچینج میں حاضر ڈلیوری روئی کے سودے 0.55 سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے ساتھ 70.20 سینٹ فی پاؤنڈ جبکہ جولائی ڈلیوری روئی کے سودے 1.05 سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے ساتھ 61.67 سینٹ فی پاؤنڈ تک پہنچ گئے جبکہ بھارت میں روئی کی قیمتیں 200 روپے فی کینڈی اضافے کے ساتھ 35ہزار 200 روپے فی کینڈی جبکہ چین میں 565 یو آن فی ٹن اضافے کے ساتھ 12 ہزار 645 یو آن فی ٹن تک پہنچ گئی جبکہ پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں روئی کی قیمتیں تقریباً 100 روپے فی من مندی کے بعد 5 ہزار 900 روپے فی من تک گر گئیں اور کراچی کاٹن ایسوسی ایشن میں روئی کے اسپاٹ ریٹ 50 روپے فی من مندی کے بعد 5 ہزار 550 روپے فی من تک گر گئے۔
احسان الحق نے بتایا کہ وزارت تجارت پاکستان کی جانب سے پیدا کیے گئے ایک نئے بحران کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری آج کل ایک نئے بحران سے دو چار ہے۔ وزارت تجارات کی جانب سے واہگہ بارڈر پر پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان کی جانب سے بھارت سے درآمد کی گئی تقریباً 50 ہزار روئی کی بیلز کی پاکستان میں آنے کی کلیئرنس نہیں دی جا رہی جس کے باعث واہگہ بارڈر پر پڑی ہوئی اس روئی کا معیار خراب ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل ملز مالکان کو لاکھوں روپے روزانہ ڈیمریج بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے جبکہ وزارت تجارت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی قانون کے مطابق بھارت سے زمینی راستے سے زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ بیلز درآمد کی جا سکتی ہیں اور ان کی درآمد اب مکمل ہو چکی ہے جس کے باعث اب بھارت سے مزید روئی درآمد نہیں کی جا سکتی جبکہ عملی طور پر بھارت سے روئی کی تقریباً 15 لاکھ بیلز اب تک درآمد کی جا چکی ہیں۔
ٹیکسٹائل ملز مالکان کا کہنا ہے کہ وزارت تجارات کو اس قانون کا 15 لاکھ بیلز درآمد ہونے کے بعد یاد آیا جبکہ قانونی طور پر بھارت سے روئی کی 5 لاکھ بیلز کی درآمد مکمل ہونے کے بعد وزارت تجارت اور اسٹیٹ بینک کو بھارت سے روئی درآمد کرنے بارے این او سی ہی جاری نہیں کرنا چاہیے تھا اور یا کم از کم درآمد ہونے والی روئی کو پاکستانی حدود میں داخل نہیں ہونے دینا چاہیے تھا لیکن حیران کن طور پر وزارت تجارت نے بھارت سے روئی کی 15 لاکھ بیلز کی درآمد کی اجازت بھی دے دی اور حال ہی میں واہگہ بارڈر پر روکے جانے والی 50ہزار بیلز کو بھارتی حدود میں روکنے کے بجائے پاکستانی حدود میں داخل ہونے دیا گیا اور واہگہ بارڈر پر اس قانون کا نفاذ کر دیا گیا ۔
جس سے پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان کو ذہنی کوفت کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ اس سے پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس بھی کم ہو سکتی ہیں۔ تاہم غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق واہگہ بارڈر پر وزارت تجارت کی جانب سے روئی روکے جانے کے پیچھے دراصل چند ایسے بڑے ٹیکسٹائل گروپس ملوث ہیں جن کی اپنی روئی خریداری اور درآمد مکمل ہو چکی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے مد مقابل ٹیکسٹائل گروپس کو روئی کی بروقت فراہمی نہ ہونے سے ان کی ٹیکسٹائل درآمدات متاثر ہو سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ اطلاعات کے مطابق پنجاب میں کپاس کی کاشت پچھلے سال کے مقابلے میں 15 سے 20 فیصد تک کم ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں جبکہ کپاس کی فصل پر رواں سال ایک بار پھر گلابی سنڈی کے شدید حملے کے بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں اس لیے کاشتکاروں کو چاہیے کہ وہ گلابی سنڈی کے خاتمے کے لیے تمام تر ہنگامی اقدامات کریں تاکہ روئی کا معیار خراب نہ ہونے سے پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات بھی متاثر نہ ہو سکیں۔