عمران خان شہرِ آشوب اور ایک ہجوم کا نوحہ

کوئی دو رائے نہیں کہ آمریت بدترین طرز حکومت ہے لیکن یہ پاکستانی جمہوریت کا طوق تو اس آمریت سے بھی بدترین ہے۔


جانے کیوں دل اس جمہوریت سے اکتا گیا ہے۔ کاہے کی جمہوریت؟ دو خاندانوں کی حکمرانی؟ رگیں چڑھ گئیں جمہوریت سنتے پڑھاتے اور اس کے حق میں دلیلیں دیتے لیکن اب دل نہیں مانتا۔ فوٹو: فائل

اللہ خیر ہی کرے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایران کے دورے پر ہیں۔

عمران خان صاحب کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر اپنی فصاحت و بلاغت سے زیادہ اس ملک کے سماجی و عمرانی نوحے کی عکاس تھی۔ یہ اس شکست و ریخت کا اعلان تھا جو کہ اس معاشرے پہ بیت چکی ہے۔ ابھی اختر رضا سلیمی کے ناول ''جاگے ہیں خواب میں'' کے سحر سے ہی نہیں نکلا تھا کہ ''Ryszard Kapuściński'' کی رپورتاژ ''Shah of Shahs'' پڑھ بیٹھا ہوں۔ دُکھ کا آسیب میرے اندر گھر کرگیا ہے۔ ان دیکھی کا ڈر اور ان کہی کا دکھ میرے اند کنڈلی مار کے بیٹھ گیا ہے۔ میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر ذہنی خلفشار اور اضطراب اپنی انتہا کو ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اِس سیاسی انتشار جو کہ درحقیقت ثقافتی انتشار ہے اور جس کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں کے اوپر کتنا لکھا جائے۔ یقین مانیے ہم ایک انتہائی سطحی ذہنیت کی قوم ہیں جس کا تمدنی شعور اشتعال انگیزی کی جانب مائل ہے۔ ہم تاریخی شعور سے عاری اور وقت کے مزاج سے نا آشنا ہجوم ہیں۔ کتابیں نہ پڑھنے والا ہجوم۔ باخدا اس معاشرے کے سیاسی اور اجتماعی شعور نے اسی دن خودکشی کرلی تھی جب جوگندر ناتھ منڈل، بڑے غلام علی خان اور قرۃ العین حیدر واپس بھارت لوٹ گئے تھے، جس دن فاطمہ جناح کو انتخابات میں ایوب خان کے ہاتھوں شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا اور جس دن حبیب جالب پر ڈنڈے برسائے گئے تھے۔ جانے درد کی کس رو میں بہہ کر ناصر کاظمی نے لکھا تھا
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے

انقلاب ایران کے پس منظر میں ایرانی اشرافیہ کے طرز زندگی اور معاشرت کے اوپر لکھی گئی رپورتاژ جسے ''mythobiography'' بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ آج پاکستان کے حوالے سے کتنی برمحل ہے کہ آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ کیسے خاندانوں کے خاندان اپنی دولت سمیٹ کر باہر بھاگنے کی تگ و دو میں صرفِ جاں کیے ہوئے ہیں اور کیسے شاہانہ انداز زندگی کو بچانے کی سعی جاری ہے اور کس طرح سرمائے اور پیسوں کی بوریاں گھروں سے برآمد رہی ہیں۔ رکیے یہ پاکستان کی نہیں ایرن کی بات ہو رہی ہے۔

ہم فکری اور نظریاتی خلجان کا شکار ہیں۔ پرویز رشید کو ہی دیکھ لیجیے اور دہرِ عبرت میں سبق لیجیے۔ ایک شوریدہ سر انقلابی جو سرخ کفن سر پر باندھ کر سر اُٹھا کر جینے کی ضد میں سر بکف تھا۔ اشتراکیت اور مارکسی اخلاقیات کا پیروکار۔ راجہ انور، افتخار احمد، طارق عزیز، معراج محمد خان، مختار رانا اور پرویز رشید۔ قافلوں کے قافلے ریت کی دیوار ہوگئے اور سرخ سویرا کہیں گمنام افق کی نظر ہوگیا۔ پرویز رشید کو اگر نواز شریف کی مدحت سرائی سے فرصت ملے تو پوچھیے کہ ایشیاء سرخ ہے یا سبز؟ خدارا مستنصر حسین تاڑر کا ناول ''اے غزالِ شب'' پڑھیے اور دھاڑیں مار مار کر روئیے کہ کیسے سرخ سویرے کی آس نے نسلوں کی نسلیں دامِ فریب کی نظر کردیں۔ مابعد نوآبادیت ایجنڈے کی علمبردار میاں محمد نواز شریف کی حکومت جب عالمی مالیاتی ادروں سے اُن کے طے کردہ شرح سود اور شرائط پر قرضے لے کر بغلیں بجاتی ہے اور جواب میں انہیں اداروں کے متیعن کردہ معیار پر موڈیز، آئی ایف سیز اور بلومبرگ پاکستان کے معاشی استحکام کی سند جاری کرتے ہیں اور جواب میں پرویز رشید لہرا لہرا کر جب قوم کو یہ خوشخبری سناتے ہیں تو یقین مانیے اینگلز اور مارکس کی روحیں تڑپ اٹھتی ہیں۔ کسی گمنام شاعر کا شعر یاد آیا
میرے تحریر شدہ سارے دلائل ہیں غلط
اس کی جانب سے جو اک سادہ ورق ہے، حق ہے

میری عمران خان سے 6 ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں سے آخری اِس سال کے اوائل پہ بیرسٹر شہزاد اکبر کی ڈرون رپورٹ کے لانچ کے موقع پر تھی۔ مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہر ملاقات میں عمران خان کو غیر متاثر کن پایا ہے اور کافی حد تک اپنی ذات کا اسیر۔ عمران کی تمام دلچسپی کا محور اُن کا بلیک بیری فون ہے مگر آپ عمران پر کسی مالی بددیانتی کا شک بھی نہیں کرسکتے۔ کیا آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم ہے؟ ہرگز نہیں۔ خدارا قوم کو گمراہ مت کیجئے۔ ''Tax Relaxation'' اور ''Tax Evasion'' میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ میر شکیل عمران سے ذاتی عناد میں کتنا آگے جائیں گے؟ عمران پر کیچڑ اچھال کر بھی شریف خاندان کی پاکبازی نہیں ثابت کی جاسکتی۔ سوالات کا سلسلہ تو چل نکلا ہے۔ کِس کِس کی زبانیں بند کریں گے؟ Joseph Conard کا ناول The Heart of Darkness بھی کیا شاندار تصنیف تھی جس نے نام نہاد شرفاء اور اشرافیہ کے چہروں سے نقاب نوچ ڈالے تھے۔ نقاب تو اب یہاں بھی سرک گئے ہیں۔ Elite Democracy اور استحصالی جمہوریت کتنا عرصہ اور عوام کو نوچے گی؟ وہ جمہوریت جس کے محافظ دانیال عزیز، طلال چوہدری اورعابد شیر علی ہوں اس پر تف ہی کیا جا سکتا ہے۔ فیض صاحب کا شعر برملا یاد آیا
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

مجھے کسی سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کا موجودہ سیاسی کلچر جو کہ کرپشن اور بدعنوانی سے آلودہ ہے کا سنگِ بنیاد شریف خاندان نے رکھا ہے۔ چھانگا مانگا سیاست سے گھر پیسوں کے بریف کیس بھیجنے کی جو روایت بڑے میاں صاحب نے شروع کی تھی وہ آج بھی اُتنی ہی شد ومد سے جاری ہے۔ بی بی صاحبہ نے بھی مجبور ہوکر آصف علی زرداری کو کھلی چھوٹ دی کہ شریفوں کی پیسوں کی سیاست کا مقابلہ پیسوں سے ہی کیا جاسکتا ہے اور یوں کرپشن کی اُن ہوشربا داستانوں نے جنم لیا جن کے سامنے 'سہارتو' اور 'پیرون' بھی شرما گئے۔ باقی سب چھوڑیے صرف نوازے گئے وفاداروں کی فہرست پر نظر ڈالیے۔ شجاعت عظیم، عرفان صدیقی، نجم سیٹھی، عطاالحق قاسمی، ابصار عالم، روف طاہر۔ فہرست طویل ہے اور گفتگو بھی نا مہربان۔ House of Sharifs کی وفاداری کا عہد لیجیے اور قومی اداروں کے حاکم بن جائیے۔ ہائے میرے عہد کا منفرد شاعر احمد فراز
نوحہ گر چُپ ہیں کہ روئیں بھی تو کِس کو روئیں
کوئی اِس فصلِ ہلاکت میں سلامت بھی تو ہو

جانے کیوں دل اس جمہوریت سے اکتا گیا ہے۔ کاہے کی جمہوریت؟ دو خاندانوں کی حکمرانی؟ زبانیں خشک کرلیں، رگیں چڑھ گئیں جمہوریت سنتے پڑھاتے اور اس کے حق میں دلیلیں دیتے لیکن اب دل نہیں مانتا۔ کوئی دو رائے نہیں کہ آمریت بدترین طرز حکومت ہے لیکن یہ پاکستانی جمہوریت کا طوق تو اس آمریت سے بھی بد ترین ہے۔ ہم بھی عجب ملک کے عجب باسی ہیں انسانوں سے توقعات لگاتے ہیں۔
کس قدر تکلیف دہ تھا آرزوؤں کا سفر
مسئلہ در مسئلہ، سانحہ در سانحہ

سیاست، ریاست اور جمہوریت کو ازسرِنو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ Political Theory کا بحران ہے اور یہ حلق پھاڑ کر سسٹم کی حمایت اور جمہوری تسلسل کے نعرے لگانے سے حل نہیں ہوگا۔ ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے جو کہ Individualism Accountability اور Deliverance پر قائم ہو۔ جمہوریت عمل کا نہیں بلکہ ایک کلچر کا نام ہے اور معاشرے جمہوریت کے لئے مناسب یا غیر مناسب نہیں ہوتے بلکہ جمہوریت کے ذریعے مناسب بنائے جاتے ہیں۔ اِس بات پر سوچیے اور امجد اسلام امجد کو پڑھئیے
یہ جو اب موڑ آیا ہے
یہاں رک کر کئی باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے
کہ یہ اس راستے کا ایک حصہ ہی نہیں، سارے

سفر کا جانچنے کا، دیکھنے کا، تولنے کا
ایک پیمانہ بھی ہے، یعنی

یہ ایسا آئینہ ہے
جس میں عکسِ حال و ماضی اور مستقبل
بہ یک لمحہ نمایاں ہے
یہ اس کا استعارہ ہے

جو اپنی منزلِ جاں ہے
سنا ہے ریگِ صحرا کے سفر میں
راستے سے دو قدم بھٹکیں
تو منزل تک پہنچنے میں کئی فرسنگ کی دوری نکلتی ہے
سو اب جو موڑ آیا ہے
یہاں رک کر کئی باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں