شدید گرمی اور لوڈ شیڈنگ
بچپن میں پڑھی ہوئی نظم کے مندرجہ بالا اشعار نہ صرف برسوں بعد آج بے ساختہ یاد آرہے ہیں
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایہ
بچپن میں پڑھی ہوئی نظم کے مندرجہ بالا اشعار نہ صرف برسوں بعد آج بے ساختہ یاد آرہے ہیں بلکہ حرف بہ حرف حسب حال ہیں، روز بہ روز بلکہ لمحہ بہ لمحہ ہونے والی گرمی کی شدت میں اضافے نے برا حال کر رکھا ہے۔ ایک توگرمی کی ایسی شدت کہ چیل انڈا چھوڑے، اوپر سے بجلی کے محکمے کی غیر اعلانیہ بار بار اور غیر معینہ دورانیوں کی لوڈ شیڈنگ نے مرے کو مارے شاہ مدار والی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔
بجلی نہ ہوئی آنکھ مچولی کا کھیل ہوگیا۔ بجلی آتی کم ہے اور جاتی زیادہ۔ بجلی کے محکمے سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔ ایک جانب بجلی غائب اور دوسری جانب ماہ بہ ماہ بجلی کے اتنے گراں اور بھاری بھاری بل کہ صارف دیکھتے ہی بلبلا اٹھے۔ رہا بلوں کے بارے میں شکایت کا سوال تو محکمہ کا یہ نادر شاہی حکم کہ پہلے بل کی ادائیگی کی جائے،کوئی اور بات اس کے بعد سنی جائے گی۔ کیسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔
بجلی کے محکمے کا لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے ایک عام استدلال یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ زیادہ تر ان علاقوں میں کی جارہی ہے ،جہاں بجلی کی چوری کی شکایتیں عام ہیں اور ریکوری بہت کم ہے مگر یہ دلیل نہایت بودی اور خلاف حقیقت ہے کیونکہ وہ علاقے بھی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں جہاں بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی صورت حال انتہائی تسلی بخش ہے جس کی ایک عملی مثال یہ علاقہ بھی ہے جہاں ہم رہائش پذیر ہیں۔
بلوں کی بروقت ادائیگی کے باوجود اس علاقے میں بھی بجلی کے غیر اعلانیہ تعطل کا سنگین مسئلہ درپیش ہے اور ہر وقت سر پر ایک تلوار سی لٹکی رہتی ہے کہ معلوم نہیں بجلی کب اورکتنی دیر کے لیے غائب ہوجائے۔ بجلی کے محکمے کی اس مجرمانہ حرکت یا غفلت کا نہ کوئی قانونی جواز ہے اور نہ اخلاقی۔ اس کے علاوہ بجلی کے نظام میں آئے دن واقع ہونے والی خرابیوں کی آڑ میں بھی بے چارے صارفین کو غیر معینہ مدت تک اکثر و بیشتر تنگ کیا جاتا رہتا ہے۔ بجلی کے آنے جانے کا عالم یہ ہے کہ بقول شاعر:
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دہری دھارکا خنجر چلے
ہماری موجودہ حکومت کا سارا زور آج کل محکموں کی نجکاری پر ہے۔ اس کا بس چلے تو پورے ملک کی ہی نجکاری کرکے رکھ دے، خواہ اس کے لیے بھی اس کے کرتا دھرتاؤں کو آف شور کمپنیاں ہی کیوں نہ بنانی پڑیں۔ نجکاری کے حق میں دی جانے والی سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس سے اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ اس دلیل کی سب سے بڑی اور عملی نفی بجلی پیدا کرنے والے وہ ادارے ہیں جن کی حالت نجکاری کے بعد بد سے بد تر ہوچکی ہے اور جنھوں نے عوام کی زندگی شدید گرمی کے اس موسم میں اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔
اس کی تازہ ترین اور بد ترین مثال کراچی کے بابا اور بھٹ شاہ نامی جزیروں کی ہے جہاں کے مظلوم باسیوں کو مسلسل 6 تا 12 روز تک بجلی کی سپلائی کے تعطل کا سامنا کرنا پڑا اور جو تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق وہ صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔
کئی روز تک مسلسل جاری بجلی کے اس سنگین اور ظالمانہ تعطل کے نتیجے میں ایک 85 سالہ بوڑھی عورت کی جان چلی گئی جس پر لوگوں کا سراپا احتجاج ایک قطعی، فطری رد عمل تھا۔ اس شدید احتجاج اور مظاہرے کے نتیجے میں ٹریفک بری طرح سے جام ہوگیا اور آمد و رفت میں بڑی دشواری پیش آئی لیکن احتجاج میں شامل بھٹ کے جزیرے کے متاثرین کا کہنا تھا کہ بجلی کے محکمے کے ظالمانہ رویے کے خلاف ان کے پاس اس کے سوائے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ ان کا کہناتھا کہ بجلی کے تعطل نے ان کا جینا حرام کردیاتھا اور ان کے بچے اور بوڑھے گرمی کی شدت سے بری طرح نڈھال ہورہے تھے۔
انھوں نے یہ بھی بتایاکہ ان کے لوگوں نے بجلی کے محکمے کے دفتر جاکر یہ گزارش بھی کی تھی کہ بجلی کے موجودہ بل وصول کرلیے جائیں اور باقی کے واجبات قسطوں میں وصول کرلیے جائیں۔ جزیرہ بھٹ کے انتہائی متاثرہ مکین حاجی اسماعیل بھٹ نامی شخص کا کہنا تھاکہ کئی روز کی بجلی کی عدم فراہمی اور گرمی کی شدت نے اس کی 85 سالہ ماں کی جان لے لی۔
شہرکے کئی اور علاقے بھی شدید گرمی کے اس موسم میں بجلی کے تعطل کا شکار ہیں۔ حتیٰ کہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر بھی اس کی زد میں آنے سے نہ بچ سکا جہاں گزشتہ پیر اور منگل کو کئی کئی گھنٹوں تک بجلی کی سپلائی معطل رہی جس کی وجہ سے بے چارے مریضوں اور اسپتال کے عملے کو شدید اذیت اٹھانا پڑی۔ 1000 کلو واٹ کے ایک جنریٹر کے ہیٹ اپ ہوجانے کی وجہ سے بہت سے مریضوں کو بڑی تکلیف برداشت کرنی پڑی جن میں وینٹی لیٹر پر پڑے ہوئے مریض بھی شامل تھے۔
سندھ اور اس کے دارالخلافہ کراچی میں بجلی کے بار بار اور طویل تعطل پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہناتھا کہ وفاقی حکومت اور کے ای سندھ کے عوام پر اذیت ناک لوڈ شیڈنگ کا ستم ڈھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور بلوچستان کے عوام کے ساتھ وفاقی حکومت اور وزارت بجلی کا رویہ تفریقی ہے۔
سچی اور کھری بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ ماضی کی حکومتیں بھی بجلی کے سنگین بحران کا کوئی حتمی اور فوری حل تلاش کرنے کے بجائے ملک کے عوام کو محض وعدہ فردا پر ٹرخاتی رہیں اور ہر حکومت کو صرف اپنی مدت اقتدار پوری کرنے میں ہی دلچسپی رہی۔ پیپلزپارٹی کو بھی حکمرانی کے پورے پانچ سال ملے لیکن اس نے بھی یہ پورا عرصہ اقتدار کے مزے لوٹنے میں ضایع کردیا۔ چنانچہ موجودہ حکومت کے حوالے سے اب بلاول جو کچھ فرمارہے ہیں اس کے بارے میں اس کے سوائے بھلا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ:
کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
رہی بات پاکستان مسلم لیگ ن کی تو اس سے قبل وہ دو بار ملک کی حکمران رہ چکی ہے لیکن بجلی کے بحران کے حوالے سے اس کی کارکردگی بھی عملاً صفر ہی رہی ہے گزشتہ عام انتخابات کے موقعے پر بھی اس نے بجلی کے بحران کو ہی سب سے بڑا ایشو بنایا تھا اور اس مسئلے کو صرف چند ماہ میں ہی حل کرنے کے وعدے اور بلند و بانگ وعدے بھی عوام سے کیے تھے لیکن نصف سے زیادہ مدت تک اقتدار میں رہنے کے باوجود ابھی تک عملاً کوئی بھی پیش رفت ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب سے پانامہ لیکس کا شوشہ کھڑا ہوا ہے اس کے بعد سے نہ صرف حکومت بلکہ اپوزیشن اور میڈیا کی توجہ بھی عوامی مسائل کی جانب سے ہٹ گئی ہے۔ جس کا سب سے زیادہ فائدہ حکومت کو ہوگا۔ ایسی نام نہاد جمہوریت سے کیا فائدہ جس میں لیڈران کرام موج مستیاں کررہے ہوں اور بے چارے عوام مسائل کے بڑھتے ہوئے بوجھ تلے اودھ موئے ہوتے چلے جارہے ہوں ایسی جمہوریت کے حوالے سے تو بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا''