غریب جائیں بھاڑ میں
ہرچندکہ اس زما نے میں ڈاکٹروں کی قلت تھی لیکن جو بھی ڈاکٹر تھے وہ اپنے پیشے میں ماہرومخلص ہوا کرتے تھے
کسی زمانے میں خیراتی اسپتال بھی ہوا کرتے تھے ( جو مخیر حضرات چلاتے تھے ) ساتھ ہی کم تعداد میں نجی کلینک بھی تھے،کراچی سول اسپتال کل کی طرح آج بھی کراچی کا اکلوتا بڑا اسپتال ہے جو نہ صرف کراچی بلکہ سندھ اور بلوچستان کے مریضوں کا مسیحا ہے۔
ہرچندکہ اس زما نے میں ڈاکٹروں کی قلت تھی لیکن جو بھی ڈاکٹر تھے وہ اپنے پیشے میں ماہرومخلص ہوا کرتے تھے، مریض کا نبض اور چہرہ دیکھ کر بتا دیا کرتے تھے کہ مریض کس قسم کی بیماری میں مبتلا ہے ، اب تومریض کا چہرہ حلیہ دیکھ کر اندازا لگا لیا جاتا ہے کہ مرغا، مرغی کس قدر تکڑا ، تکڑی ہے،خیراتی اسپتالوں میں مریضوں کا علاج مفت ہواکرتا تھا اور دوائیں بھی مفت دی جاتی تھی وہ بھی اصلی نہ کہ آٓج کی طرح جعلی دوائیں دے کر انسانی جان سے کھیلاجاتا تھا ، ڈاکٹروں کی فیس بھی معمولی تھے اور دوائیں بھی سستی تھی،انگریز حکومت کے تعمیرکردہ اسپتالوں کی حالت بھی بہتر تھی، یہی وہ دور تھا کہ غریبوں کو اپنی بیماری بھی بیماری نہیں لگتی تھی ۔
قیام پاکستان کے بعد بھی غریبوں کو علاج ومعالجے کے حوالے سے کوئی فکر لاحق نہ تھی،اس وقت کے حکمرانوں کے ذاتی معالج ضرور تھے لیکن علاج اپنے ہی ملک میں کیا کرتے تھے، پھر بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ ان اسپتالوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی، ڈاکٹر بھی بڑھتے گئے، یہاں تک کہ اسپتال کم پڑگئے اور مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا، چناچہ کلینک کا رواج شروع ہوا جو تیزی کے ساتھ محلے کی گلی کوچوں میں پھیل گئے،کراچی میں بے ہنگم کچی آبادیاں قائم ہونا شروع ہوئیں ، تواسی حساب سے کلینک کھلتے گئے،کافی عرصے تک لوگوں کو معلوم نہ چل سکا کہ ان کلینکوں کے بیشتر ڈاکٹرز جعلی ہیں جوکسی نہ کسی کلینک کے سند یافتہ ہیں۔
ڈاکٹرکی جعلی سند کے حامل ہیں یعنی وہ کمپوڈر رہ چکے ہیں ، جب لوگوں میں شعور بیدار ہوا تو انھوں نے ان کلینکوں کا رخ کرنا کم کیا اور یہ سوچ کر سرکاری اسپتالوں کا پھر سے رخ کیا کہ وہاںاگر پریشانیاں ہیں مگر ڈاکٹرز مستند ہیں، لیکن اس وقت تک بہت دیرہوچکی تھی،کلینک مافیا جڑپکڑ چکے تھے، جعلی اورلالچی ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں میں بھرتی ہوچکے تھے، جس کا اندازہ غریب مریضوں کو مدتوں بعد ہوا، ہوا یہ کہ جو مریض ان کے پا س علاج کے لیے آتے وہ انھیں سرکاری اسپتال میں سہولیات کی کمی کا کہہ دیتے اور مفت مشورہ دیتے کہ فلاں مقام پر ان کا اپنا نجی اسپتال یا کلینک ہے وہ شام کو وہا ںبیٹھتے ہیں جہاں تمام سہولیات میسر ہیں ، بیچارہ مریض اور اس کے وارث اس لالچی ڈاکٹرکے شکار ہوتے رہے اور آٓج بھی ان کے شکار ہیں کیوںکہ اب مسئلہ یہ درپیش ٹھہرا کہ علاج کرے بھی مرے اور نہ بھی کرے تب بھی مرنے والی بات ہے ۔
جہاں یہ مسیحا ڈاکٹرکم اور قصائی زیادہ بنتے ہیں، (اب بھی یہی صورت حال ہے ) کوئی پوچھنے والا نہیں، مریض سسک سسک کر جان ومال سے محروم ہورہے ہیں اور جمہوریت کا ثمر عوام سے کوسوں دور ہے ۔ اب ان کے مقابلے میں جواصلی ڈاکٹر تھے اور ہیں ان کے بقاء کا مسئلہ پیدا ہوا، انھوں نے اپنی جداگانہ پہچان کے لیے اپنی فیس بھاری کرنا شروع کردی تاکہ لوگو ں کو اندازہ ہوسکے کہ وہ اصلی ڈاکٹرز ہیں اور واقعی لوگوں نے اسی ڈاکٹر پر اعتماد کرنا شروع کیا جن کی فیس مہنگی ہے،کیونکہ جعلی ڈاکٹرزکم ازکم فیس لیتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ مریض ان کے پاس آسکیں، چالاک اورعیار نام نہاد ڈاکٹروں نے بھی مقا بلے میں اپنی فیس بڑھادی تا کہ لوگوں کو ان پر بھی اعتماد بحال ہو ، نتیجہ سامنے یہ ہے کہ کل کے ڈاکٹرز جو مسیحا کے باعزت مبارک نام سے جانے جاتے تھے اب وہ لوگوں کی کھال اتارنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں جہنیں لوگ اب ڈاکٹر کم اور قصائی زیادہ کہنے لگے ہیں ۔
اب مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ ادویات بھی مارکیٹ میں جعلی آنا شروع ہوچکی ہیں ، ڈاکٹر جعلی ، ادویات جعلی ۔ ایسے میں شرح اموات میں اضافہ ہونا معمول کی بات ہوچکی ہے اور ساتھ ہی مختلف اقسام کی بیماریاں بھی سر اٹھارہی ہیں،ان بیماریوں کا علاج بھی نایاب ہے ، اب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف انسانیت کے سچے مسیحا سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف مسیحا کے روپ میں کالی بھیڑیاں جعلی ڈاکٹرز بھی اپنی پوزیشن مضبوط کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ، ایسے میں جو حضرات مالی استحقاق رکھتے ہیں وہ مستند بڑے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، حکمران خاندانوں کی بات ہی نرالی ہے انھیں ذرہ چھینک آجائے تو دوڑے دوڑے بیرون ممالک میں جاکر اپنا چیک اپ اور علاج کروالیتے ہیں ( اور یہی طبقہ ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھاتے ہیں اور اس کے چیلے ہمیں جمہوریت کا ثمر بیان کرتے ہیں ) اور جو ٹھہرے ہم جیسے عوام الناس غریب ، بے کس بے یار و مدگار، مسکین لوگ مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہے ہیں ، ایسے میں حکمرانوں کا کیا جاتا ہے ؟ان کی طرف سے غریب جائیں بھاڑ میں۔
اس وقت پاکستان کی آبادی 18کروڑ ہے، ان میں سے 10کروڑ افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہیں ، گزشتہ 5 سال سے یہ ملک بغیر قومی صحت پالیسی کے چل رہا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے جہاں انتظامی امور مفلوج ہیں، بازاروں میں جان بچانے والی اصلی دوائیں ناپید ہیں، غیر معیاری ادویات سرعام فروخت کی جارہی ہیں، ملک میں مختلف بیماریاں بڑھ رہی ہیں ، متعدی امراض بے قابو ہورہے ہیں ۔
نجی اسپتال صنعت کی حیثیت اختیارکرگئے ہیں ، جہاں 70فیصد مریض علاج کے چکر میں لٹ رہے ہیں، مر رہے ہیں ،6 لاکھ سے زائد اتائی ڈاکٹرزغریبوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں ، پاکستان میں 80 ہزار افراد ایڈزکا شکار ہیں، آبادی کا 2فیصدحصہ نابینا ہے ، 11فیصدیعنی 80 لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہے، ہزاروں خواتین بیماریوں میں مبتلا ہیں، پاکستان کی نصف آبادی کسی نہ کسی حد تک بلند فشارخون کے مرض میں مبتلا ہے ۔ 20 لاکھ افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں،3کروڑ افراد دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، 20لا کھ ا فراد دمے کے مرض میں مبتلا ہیں۔
پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں شرح اموات 95.2 فی ہزار ہے ، ہر سال30ہزار خواتین حمل سے متعلق پچیدگیوں سے موت کا شکار ہورہی ہیں ، ٹی بی سے سالانہ ہلاکتوں میں شرح اموات 177فی لاکھ ہے، ہر سال چالیس ہزار سے زائد خواتین چھاتی کے سرطان کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، ہر سال ڈیڑھ لاکھ بچے موت کا شکارہوجاتے ہیں، کم عمری کی شادی اور اس سے منسلک ماؤں کی اموات بھی ایک لمحہ فکریہ ہے، ملک میں ایک بڑی تعداد غذا میں بے احتیاطی کی وجہ سے موت سے ہمکنار ہوتی ہے ۔
الغرض کہ ملک میں ہر طرح کی بیماریاں پائی جاتی ہیں جوکہ اموات کا سبب بھی بن رہی ہیں،ان بیماریوں اور ان کی وجہ سے اموات پر قابو پانا مشکل دکھائی دیتا ہے کیوں کہ ملک بھر میں چھ لاکھ چالیس ہزار نقلی ڈاکٹرزکلینکوں اور میٹرنٹی ہومز میں کھلے عام انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ، اسی طرح حکیم حضرات عوام کی مختلف بیماریوں کا علاج غلط طریقے سے کررہے ہیں، جعلی دواؤں کی بھرمار ہے ، اینٹی بائیوٹک دوائیوں کے بغیر نسخوں کی فروخت جاری ہے ، سرکاری طبی مراکز نجی اداروں میں تبدیل ہورہے ہیں ، غریب مریضوں کے لیے مفت اورسستا علاج ناپید ہے ، پوری غریب عوام ایک بیمار قوم کی صورت اختیار کرچکی ہے ، اب وہ علاج کے لیے جائیں توکہاں جائیں ؟
ہرچندکہ اس زما نے میں ڈاکٹروں کی قلت تھی لیکن جو بھی ڈاکٹر تھے وہ اپنے پیشے میں ماہرومخلص ہوا کرتے تھے، مریض کا نبض اور چہرہ دیکھ کر بتا دیا کرتے تھے کہ مریض کس قسم کی بیماری میں مبتلا ہے ، اب تومریض کا چہرہ حلیہ دیکھ کر اندازا لگا لیا جاتا ہے کہ مرغا، مرغی کس قدر تکڑا ، تکڑی ہے،خیراتی اسپتالوں میں مریضوں کا علاج مفت ہواکرتا تھا اور دوائیں بھی مفت دی جاتی تھی وہ بھی اصلی نہ کہ آٓج کی طرح جعلی دوائیں دے کر انسانی جان سے کھیلاجاتا تھا ، ڈاکٹروں کی فیس بھی معمولی تھے اور دوائیں بھی سستی تھی،انگریز حکومت کے تعمیرکردہ اسپتالوں کی حالت بھی بہتر تھی، یہی وہ دور تھا کہ غریبوں کو اپنی بیماری بھی بیماری نہیں لگتی تھی ۔
قیام پاکستان کے بعد بھی غریبوں کو علاج ومعالجے کے حوالے سے کوئی فکر لاحق نہ تھی،اس وقت کے حکمرانوں کے ذاتی معالج ضرور تھے لیکن علاج اپنے ہی ملک میں کیا کرتے تھے، پھر بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ ان اسپتالوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی، ڈاکٹر بھی بڑھتے گئے، یہاں تک کہ اسپتال کم پڑگئے اور مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا، چناچہ کلینک کا رواج شروع ہوا جو تیزی کے ساتھ محلے کی گلی کوچوں میں پھیل گئے،کراچی میں بے ہنگم کچی آبادیاں قائم ہونا شروع ہوئیں ، تواسی حساب سے کلینک کھلتے گئے،کافی عرصے تک لوگوں کو معلوم نہ چل سکا کہ ان کلینکوں کے بیشتر ڈاکٹرز جعلی ہیں جوکسی نہ کسی کلینک کے سند یافتہ ہیں۔
ڈاکٹرکی جعلی سند کے حامل ہیں یعنی وہ کمپوڈر رہ چکے ہیں ، جب لوگوں میں شعور بیدار ہوا تو انھوں نے ان کلینکوں کا رخ کرنا کم کیا اور یہ سوچ کر سرکاری اسپتالوں کا پھر سے رخ کیا کہ وہاںاگر پریشانیاں ہیں مگر ڈاکٹرز مستند ہیں، لیکن اس وقت تک بہت دیرہوچکی تھی،کلینک مافیا جڑپکڑ چکے تھے، جعلی اورلالچی ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں میں بھرتی ہوچکے تھے، جس کا اندازہ غریب مریضوں کو مدتوں بعد ہوا، ہوا یہ کہ جو مریض ان کے پا س علاج کے لیے آتے وہ انھیں سرکاری اسپتال میں سہولیات کی کمی کا کہہ دیتے اور مفت مشورہ دیتے کہ فلاں مقام پر ان کا اپنا نجی اسپتال یا کلینک ہے وہ شام کو وہا ںبیٹھتے ہیں جہاں تمام سہولیات میسر ہیں ، بیچارہ مریض اور اس کے وارث اس لالچی ڈاکٹرکے شکار ہوتے رہے اور آٓج بھی ان کے شکار ہیں کیوںکہ اب مسئلہ یہ درپیش ٹھہرا کہ علاج کرے بھی مرے اور نہ بھی کرے تب بھی مرنے والی بات ہے ۔
جہاں یہ مسیحا ڈاکٹرکم اور قصائی زیادہ بنتے ہیں، (اب بھی یہی صورت حال ہے ) کوئی پوچھنے والا نہیں، مریض سسک سسک کر جان ومال سے محروم ہورہے ہیں اور جمہوریت کا ثمر عوام سے کوسوں دور ہے ۔ اب ان کے مقابلے میں جواصلی ڈاکٹر تھے اور ہیں ان کے بقاء کا مسئلہ پیدا ہوا، انھوں نے اپنی جداگانہ پہچان کے لیے اپنی فیس بھاری کرنا شروع کردی تاکہ لوگو ں کو اندازہ ہوسکے کہ وہ اصلی ڈاکٹرز ہیں اور واقعی لوگوں نے اسی ڈاکٹر پر اعتماد کرنا شروع کیا جن کی فیس مہنگی ہے،کیونکہ جعلی ڈاکٹرزکم ازکم فیس لیتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ مریض ان کے پاس آسکیں، چالاک اورعیار نام نہاد ڈاکٹروں نے بھی مقا بلے میں اپنی فیس بڑھادی تا کہ لوگوں کو ان پر بھی اعتماد بحال ہو ، نتیجہ سامنے یہ ہے کہ کل کے ڈاکٹرز جو مسیحا کے باعزت مبارک نام سے جانے جاتے تھے اب وہ لوگوں کی کھال اتارنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں جہنیں لوگ اب ڈاکٹر کم اور قصائی زیادہ کہنے لگے ہیں ۔
اب مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ ادویات بھی مارکیٹ میں جعلی آنا شروع ہوچکی ہیں ، ڈاکٹر جعلی ، ادویات جعلی ۔ ایسے میں شرح اموات میں اضافہ ہونا معمول کی بات ہوچکی ہے اور ساتھ ہی مختلف اقسام کی بیماریاں بھی سر اٹھارہی ہیں،ان بیماریوں کا علاج بھی نایاب ہے ، اب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف انسانیت کے سچے مسیحا سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف مسیحا کے روپ میں کالی بھیڑیاں جعلی ڈاکٹرز بھی اپنی پوزیشن مضبوط کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ، ایسے میں جو حضرات مالی استحقاق رکھتے ہیں وہ مستند بڑے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، حکمران خاندانوں کی بات ہی نرالی ہے انھیں ذرہ چھینک آجائے تو دوڑے دوڑے بیرون ممالک میں جاکر اپنا چیک اپ اور علاج کروالیتے ہیں ( اور یہی طبقہ ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھاتے ہیں اور اس کے چیلے ہمیں جمہوریت کا ثمر بیان کرتے ہیں ) اور جو ٹھہرے ہم جیسے عوام الناس غریب ، بے کس بے یار و مدگار، مسکین لوگ مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہے ہیں ، ایسے میں حکمرانوں کا کیا جاتا ہے ؟ان کی طرف سے غریب جائیں بھاڑ میں۔
اس وقت پاکستان کی آبادی 18کروڑ ہے، ان میں سے 10کروڑ افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہیں ، گزشتہ 5 سال سے یہ ملک بغیر قومی صحت پالیسی کے چل رہا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے جہاں انتظامی امور مفلوج ہیں، بازاروں میں جان بچانے والی اصلی دوائیں ناپید ہیں، غیر معیاری ادویات سرعام فروخت کی جارہی ہیں، ملک میں مختلف بیماریاں بڑھ رہی ہیں ، متعدی امراض بے قابو ہورہے ہیں ۔
نجی اسپتال صنعت کی حیثیت اختیارکرگئے ہیں ، جہاں 70فیصد مریض علاج کے چکر میں لٹ رہے ہیں، مر رہے ہیں ،6 لاکھ سے زائد اتائی ڈاکٹرزغریبوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں ، پاکستان میں 80 ہزار افراد ایڈزکا شکار ہیں، آبادی کا 2فیصدحصہ نابینا ہے ، 11فیصدیعنی 80 لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہے، ہزاروں خواتین بیماریوں میں مبتلا ہیں، پاکستان کی نصف آبادی کسی نہ کسی حد تک بلند فشارخون کے مرض میں مبتلا ہے ۔ 20 لاکھ افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں،3کروڑ افراد دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، 20لا کھ ا فراد دمے کے مرض میں مبتلا ہیں۔
پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں شرح اموات 95.2 فی ہزار ہے ، ہر سال30ہزار خواتین حمل سے متعلق پچیدگیوں سے موت کا شکار ہورہی ہیں ، ٹی بی سے سالانہ ہلاکتوں میں شرح اموات 177فی لاکھ ہے، ہر سال چالیس ہزار سے زائد خواتین چھاتی کے سرطان کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، ہر سال ڈیڑھ لاکھ بچے موت کا شکارہوجاتے ہیں، کم عمری کی شادی اور اس سے منسلک ماؤں کی اموات بھی ایک لمحہ فکریہ ہے، ملک میں ایک بڑی تعداد غذا میں بے احتیاطی کی وجہ سے موت سے ہمکنار ہوتی ہے ۔
الغرض کہ ملک میں ہر طرح کی بیماریاں پائی جاتی ہیں جوکہ اموات کا سبب بھی بن رہی ہیں،ان بیماریوں اور ان کی وجہ سے اموات پر قابو پانا مشکل دکھائی دیتا ہے کیوں کہ ملک بھر میں چھ لاکھ چالیس ہزار نقلی ڈاکٹرزکلینکوں اور میٹرنٹی ہومز میں کھلے عام انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ، اسی طرح حکیم حضرات عوام کی مختلف بیماریوں کا علاج غلط طریقے سے کررہے ہیں، جعلی دواؤں کی بھرمار ہے ، اینٹی بائیوٹک دوائیوں کے بغیر نسخوں کی فروخت جاری ہے ، سرکاری طبی مراکز نجی اداروں میں تبدیل ہورہے ہیں ، غریب مریضوں کے لیے مفت اورسستا علاج ناپید ہے ، پوری غریب عوام ایک بیمار قوم کی صورت اختیار کرچکی ہے ، اب وہ علاج کے لیے جائیں توکہاں جائیں ؟