طبی عملے کی غفلت اوربے پروائی
امریکا میں ہر سال ڈھائی لاکھ مریضوں کو موت کے منھ میں دھکیل دیتی ہے
رواں برس کے آغاز پر ڈیبرا کے شوہر کا بڑا آپریشن ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں اسے کئی ہفتے اسپتال میں گزارنے پڑے تھے۔
اس عرصے کے دوران وہ درجنوں ڈاکٹروں، ان کے نائبین، نرسوں اور دوسرے تربیت یافتہ عملے کی نگرانی میں رہا تھا۔ ڈیبرا بھی ہر لمحے اپنے شوہر کے ساتھ تھی۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ جارج کی بحالی صحت کے حوالے سے ڈاکٹروں کی رائے بدلتی رہتی تھی۔ صبح اگر ایک ڈاکٹر طبیعت میں بہتری کی نوید سناتا تو دوپہر اور شام میں آنے والا ڈاکٹر اس رائے کی نفی کردیتا۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو یہ ہدایت تھی کہ جارج پر خصوصی توجہ دی جائے۔ مگر بیشتر ڈاکٹر اور طبی عملہ اس کی دواؤں اور صحت سے متعلق چارٹ پر سرسری نظر ڈالنے کو کافی سمجھتا تھا۔
کمرے میں جب بھی طبی عملے کا کوئی نیا رکن جارج کو دیکھنے آتا تو ڈیبرا کی زبان رواں ہوجاتی۔ وہ اسے ان دواؤں اور اشیاء سے آگاہ کرتی جن سے جارج کو الرجی ہوجاتی تھی، تازہ خوراک میں شامل ادویہ کے نام گنواتی اور اگر کسی ڈاکٹر نے کوئی ہدایت کی ہوتی تو اس سے بھی نووارد کو آگاہ کرتی۔ ہسپتال میں کئی دن گزارنے کے بعد وہ ان چیزوں کی عادی ہوگئی تھی۔
دافع درد ادویہ اور انستھیسیا کے مابعد اثرات کی وجہ سے جارج پر اکثر نیم بے ہوشی کی سی کیفیت طاری رہتی تھی۔ چناں چہ وہ خود اپنے محسوسات یا جسم میں ہونے والی تکلیف سے طبی عملے کو آگاہ کرنے سے قاصر تھا۔ جب وہ مکمل طور پر ہوش میں آتا تو ڈیبرا کو اپنی طبیعت کے بارے میں آگاہ کرتا۔ ڈیبرا نوٹ بُک میں ضروری باتیں تحریر کرلیتی، اور پھر ڈاکٹر اور طبی عملے کو ان سے آگاہ کرتی۔ ڈیبرا نے دیکھ لیا تھا کہ طبی عملہ جارج کے سلسلے میں اکثر بے پروائی کا مظاہرہ کررہا تھا، باوجود یہ کہ انھیں جارج کی دیکھ بھال کے سلسلے میں خصوصی ہدایات دی گئی تھیں۔
جارج کو میڈیکل ٹیپ سے الرجی ہوجاتی تھی۔ ڈیبرا نے بارہا نرسوں کو منع کیا تھا کہ ڈرپ کی سوئی نس میں گھسیڑنے کے بعد وہ اس پر میڈیکل ٹیپ چپکانے کے بجائے کوئی اور طریقہ استعمال کریں، کیوں کہ اس سے جارج کی جلد پر شدید الرجی ہوجاتی تھی۔ جارج کے میڈیکل چارٹ یہاں تک کہ اس کی کلائی پر بھی اس بارے میں ہدایت درج تھی۔ اس کے باوجود نرس میڈیکل ٹیپ چپکانے کی کوشش کرتی تھیں۔
جارج کو ایک ہفتے میں اسپتال سے ڈسچارج ہوجانا تھا، مگر دوران آپریشن ہوجانے والی پیچیدگیوں کے باعث اسپتال میں قیام کا عرصہ کئی ہفتوں تک دراز ہوگیا تھا۔ ڈیبرا کو یقین ہے کہ آپریشن میں پیچیدگیاں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی غفلت اور بے پروائی کے سبب پیدا ہوئیں۔ ڈیبرا کا کہنا ہے اگر وہ خود ہر لمحے اپنے شوہر کے ساتھ نہ ہوتی اور اسے کُلی طور پر طبی عملے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی تو شائد وہ آج دنیا میں نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیبرا نے طبی عملے کی جانب سے جارج کی دیکھ بھال میں غفلت اور بے پروائی کا خود مشاہدہ اور تجربہ کیا تھا ۔ اسے یقین ہے کہ طبی عملے کی غفلت کی وجہ سے کتنے ہی مریض صحت مند ہونے کے بجائے مزید بیمار ہوکر بالآخر موت کے منھ میں چلے جاتے ہوں گے۔
ڈیبرا کا یہ سوچنا کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ امریکا میں انسانی اموات کے اسباب سے متعلق حال ہی میں ایک تحقیق سامنے آئی ہے۔ اس جامع تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آپریشن اور علاج کے دوران طبی عملے سے ہونے والی غلطیاں امریکا میں انسانی اموات کا تیسرا بڑا سبب ہیں! برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق طبی غلطیوں کے باعث ہر سال 251000 سے زائد شہری موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں !
امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہونے کا دعوے دار ہے، وہاں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زائد انسان ڈاکٹروں اور طبی عملے کی بے حسی، غفلت اور بے پروائی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
اس تحقیق رپورٹ کی روشنی میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے سیاست دانوں اور دولت مندوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ بیرون ملک خصوصاً امریکا میں بہ غرض علاج جانے سے گریز کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو آپ بھی کسی ڈاکٹر یا نرس کی غلطی کے باعث زندہ وطن واپس آنے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیں۔
اس عرصے کے دوران وہ درجنوں ڈاکٹروں، ان کے نائبین، نرسوں اور دوسرے تربیت یافتہ عملے کی نگرانی میں رہا تھا۔ ڈیبرا بھی ہر لمحے اپنے شوہر کے ساتھ تھی۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ جارج کی بحالی صحت کے حوالے سے ڈاکٹروں کی رائے بدلتی رہتی تھی۔ صبح اگر ایک ڈاکٹر طبیعت میں بہتری کی نوید سناتا تو دوپہر اور شام میں آنے والا ڈاکٹر اس رائے کی نفی کردیتا۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو یہ ہدایت تھی کہ جارج پر خصوصی توجہ دی جائے۔ مگر بیشتر ڈاکٹر اور طبی عملہ اس کی دواؤں اور صحت سے متعلق چارٹ پر سرسری نظر ڈالنے کو کافی سمجھتا تھا۔
کمرے میں جب بھی طبی عملے کا کوئی نیا رکن جارج کو دیکھنے آتا تو ڈیبرا کی زبان رواں ہوجاتی۔ وہ اسے ان دواؤں اور اشیاء سے آگاہ کرتی جن سے جارج کو الرجی ہوجاتی تھی، تازہ خوراک میں شامل ادویہ کے نام گنواتی اور اگر کسی ڈاکٹر نے کوئی ہدایت کی ہوتی تو اس سے بھی نووارد کو آگاہ کرتی۔ ہسپتال میں کئی دن گزارنے کے بعد وہ ان چیزوں کی عادی ہوگئی تھی۔
دافع درد ادویہ اور انستھیسیا کے مابعد اثرات کی وجہ سے جارج پر اکثر نیم بے ہوشی کی سی کیفیت طاری رہتی تھی۔ چناں چہ وہ خود اپنے محسوسات یا جسم میں ہونے والی تکلیف سے طبی عملے کو آگاہ کرنے سے قاصر تھا۔ جب وہ مکمل طور پر ہوش میں آتا تو ڈیبرا کو اپنی طبیعت کے بارے میں آگاہ کرتا۔ ڈیبرا نوٹ بُک میں ضروری باتیں تحریر کرلیتی، اور پھر ڈاکٹر اور طبی عملے کو ان سے آگاہ کرتی۔ ڈیبرا نے دیکھ لیا تھا کہ طبی عملہ جارج کے سلسلے میں اکثر بے پروائی کا مظاہرہ کررہا تھا، باوجود یہ کہ انھیں جارج کی دیکھ بھال کے سلسلے میں خصوصی ہدایات دی گئی تھیں۔
جارج کو میڈیکل ٹیپ سے الرجی ہوجاتی تھی۔ ڈیبرا نے بارہا نرسوں کو منع کیا تھا کہ ڈرپ کی سوئی نس میں گھسیڑنے کے بعد وہ اس پر میڈیکل ٹیپ چپکانے کے بجائے کوئی اور طریقہ استعمال کریں، کیوں کہ اس سے جارج کی جلد پر شدید الرجی ہوجاتی تھی۔ جارج کے میڈیکل چارٹ یہاں تک کہ اس کی کلائی پر بھی اس بارے میں ہدایت درج تھی۔ اس کے باوجود نرس میڈیکل ٹیپ چپکانے کی کوشش کرتی تھیں۔
جارج کو ایک ہفتے میں اسپتال سے ڈسچارج ہوجانا تھا، مگر دوران آپریشن ہوجانے والی پیچیدگیوں کے باعث اسپتال میں قیام کا عرصہ کئی ہفتوں تک دراز ہوگیا تھا۔ ڈیبرا کو یقین ہے کہ آپریشن میں پیچیدگیاں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی غفلت اور بے پروائی کے سبب پیدا ہوئیں۔ ڈیبرا کا کہنا ہے اگر وہ خود ہر لمحے اپنے شوہر کے ساتھ نہ ہوتی اور اسے کُلی طور پر طبی عملے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی تو شائد وہ آج دنیا میں نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیبرا نے طبی عملے کی جانب سے جارج کی دیکھ بھال میں غفلت اور بے پروائی کا خود مشاہدہ اور تجربہ کیا تھا ۔ اسے یقین ہے کہ طبی عملے کی غفلت کی وجہ سے کتنے ہی مریض صحت مند ہونے کے بجائے مزید بیمار ہوکر بالآخر موت کے منھ میں چلے جاتے ہوں گے۔
ڈیبرا کا یہ سوچنا کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ امریکا میں انسانی اموات کے اسباب سے متعلق حال ہی میں ایک تحقیق سامنے آئی ہے۔ اس جامع تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آپریشن اور علاج کے دوران طبی عملے سے ہونے والی غلطیاں امریکا میں انسانی اموات کا تیسرا بڑا سبب ہیں! برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق طبی غلطیوں کے باعث ہر سال 251000 سے زائد شہری موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں !
امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہونے کا دعوے دار ہے، وہاں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زائد انسان ڈاکٹروں اور طبی عملے کی بے حسی، غفلت اور بے پروائی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
اس تحقیق رپورٹ کی روشنی میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے سیاست دانوں اور دولت مندوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ بیرون ملک خصوصاً امریکا میں بہ غرض علاج جانے سے گریز کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو آپ بھی کسی ڈاکٹر یا نرس کی غلطی کے باعث زندہ وطن واپس آنے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیں۔