صنعتی بجلی مہنگی 130ارب کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز
بجٹ کا حجم 4500، ٹیکس وصولی ہدف 3620 ارب، دفاعی بجٹ 860 ارب روپے ہو گا
وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2016-17 کے وفاقی بجٹ کاحجم 4500 ارب روپے لگ بھگ رکھے جانے کا امکان ہے ۔اس ضمن میں وزارت خزانہ ذرائع کے مطابق بجٹ کے مسودے اور 3 سالہ میڈیئم ٹرم بجٹری فریم ورک کے مسودے کو حتمی شکل دیدی گئی ہے۔
بجٹ اہداف و بجٹ آوٹ کلے سمیت دیگراہداف کی حتمی منظوری کیلیے 28 مئی کو اعلی سطح کااجلاس ہوگاجبکہ رواںہفتے سالانہ منصوبے کی رابطہ کمیٹی(اے پی سی سی) کااجلاس ہوگااور اسکے بعد وزیراعظم کی زیرصدارت قومی اقتصادی کونسل (ایکنک)کااجلاس ہوگاجس میںاگلے مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی جائیگی، یکم جون کو اقتصادی سروے جاری کیے جانے کاامکان ہے ۔
علاوہ ازیں2 جون کو پارلیمنٹ کامشترکہ ہوگااور 3 جون کو بجٹ اجلاس ہوگاجبکہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میںسرکاری ملازمین کی تنخواہوںاور پنشن میںاضافہ سمیت الائونسز میںاضافہ کی منظوری دی جائے گی۔ ''ایکسپریس'' کو دستیاب بجٹ کے ابتدائی مسودے میںدیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے دفاعی بجٹ860 ارب روپے، پی ایس ڈی پی کاحجم855 ارب روپے ، ٹیکس وصولیوںکاہدف 3620ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔قرضوںپر سود کی ادائیگی کیلئے1420 ارب روپے،پنشن کی ادائیگی کیلئے 245ارب روپے، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری کے اخراجات کیلئے 348ارب روپے،سبسڈیز کیلئے169 ارب روپے، صوبوں کو گرانٹس کی ادائیگی کیلئے 40ارب روپے، دیگر گرانٹس کی مد میں542ارب روپے مختص کرنے کی تجویز زیر غور ہے بجٹ میںٹیکسوںچھوٹ و رعایات کے ایس آر اوز کی واپسی کے ذریعئے 130 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز بھی ہے اس کے علاوہ انتظامی اقدامات و اصلاحات اور براڈننگ آف ٹیکس بیس کے ذریعے بھی 100 ارب روپے سے زائد کااضافی ریونیو اکٹھاکرنے کاہدف مقرر کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔
دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کیلیے مالیاتی خسارے کاہدف 3.8فیصد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال کیلیے جی ڈی پی گروتھ کاہدف 6.2فیصد،انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح کاہدف 18.7فیصد، مہنگائی کی شرح کاہدف6 فیصد،ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کاہدف12.7 فیصد،جی ڈی پی کے لحاظ سے قرضوں کی شرح کاہدف 59.4فیصد، ذرمبادلہ کے ذخائر کاہدف23.6 ارب ڈالر مقرر کرنے کی تجویز زیر غور ہے ۔علاوہ ازیںبجٹ خسارے کاہدف 3.8فیصد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ دفاعی بجٹ 860ارب روپے، قرضوںپر سود کی ادائیگی کیلیے 1420 ارب روپے،پنشن کی ادائیگی کیلیے 245ارب روپے، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری کے اخراجات کیلیے 348ارب روپے،سبسڈیز کیلیے169 ارب روپے، صوبوںکو گرانٹس کی ادائیگی کیلیے 40ارب روپے، دیگر گرانٹس کی مد میں542ارب روپے مختص کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2016-17کے وفاقی بجٹ میںذائقہ دار دودھ اور غذائیت بھرے ڈبہ پیک دودھ سمیت دیگراقسام کے پیک شُدہ دودھ اور ڈیری مصنوعات پر17فیصدسیلز ٹیکس کی شرح میںاضافہ کیے جانیکاامکان ہے البتہ کھُلے دودھ اور عام دودھ پرسیلز ٹیکس کی چھوٹ برقرار رکھی جائے گی۔دستاویز کے مطابق اسٹیل میلٹرزو اسٹیل ری رُولرز اورشپ بریکنگ انڈسٹری کیلئے بجلی کے استعمال پر عائد سیلز ٹیکس کی شرح 9روپے سے بڑھاکر12 روپے فی یونٹ کیے جانیکاامکان ہے۔
ذرائع کے مطابق کئی وزارتوںاور ڈویژنوںکے ترقیاتی بجٹ کو کٹ لگ گیاہے ۔145ارب روپے ٹی ڈی پیزاور وزیر اعظم یوتھ پروگرام ،فاٹا،جی بی اور آزاد کشمیر کیلئے مختص کرنے کی تجویز ہے،وفاقی پی ایس ڈی پی کابراحصہ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور پر خرچ کیاجائے گا،جوکہ 455ارب روپے سی پیک اور 200ارب روپے توانائی منصوبوںکیلئے مختص کئے جانے کاامکان ہے،حکومت نے این ای سی کااجلاس 30 مئی کو طلب کر لیاہے،تاکہ اگلے مالی سال کے مائیکرو اکنامک فریم ورک اور ترقیاتی پلان کی منظوری دی جاسکے۔
بجٹ اہداف و بجٹ آوٹ کلے سمیت دیگراہداف کی حتمی منظوری کیلیے 28 مئی کو اعلی سطح کااجلاس ہوگاجبکہ رواںہفتے سالانہ منصوبے کی رابطہ کمیٹی(اے پی سی سی) کااجلاس ہوگااور اسکے بعد وزیراعظم کی زیرصدارت قومی اقتصادی کونسل (ایکنک)کااجلاس ہوگاجس میںاگلے مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی جائیگی، یکم جون کو اقتصادی سروے جاری کیے جانے کاامکان ہے ۔
علاوہ ازیں2 جون کو پارلیمنٹ کامشترکہ ہوگااور 3 جون کو بجٹ اجلاس ہوگاجبکہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میںسرکاری ملازمین کی تنخواہوںاور پنشن میںاضافہ سمیت الائونسز میںاضافہ کی منظوری دی جائے گی۔ ''ایکسپریس'' کو دستیاب بجٹ کے ابتدائی مسودے میںدیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے دفاعی بجٹ860 ارب روپے، پی ایس ڈی پی کاحجم855 ارب روپے ، ٹیکس وصولیوںکاہدف 3620ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔قرضوںپر سود کی ادائیگی کیلئے1420 ارب روپے،پنشن کی ادائیگی کیلئے 245ارب روپے، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری کے اخراجات کیلئے 348ارب روپے،سبسڈیز کیلئے169 ارب روپے، صوبوں کو گرانٹس کی ادائیگی کیلئے 40ارب روپے، دیگر گرانٹس کی مد میں542ارب روپے مختص کرنے کی تجویز زیر غور ہے بجٹ میںٹیکسوںچھوٹ و رعایات کے ایس آر اوز کی واپسی کے ذریعئے 130 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز بھی ہے اس کے علاوہ انتظامی اقدامات و اصلاحات اور براڈننگ آف ٹیکس بیس کے ذریعے بھی 100 ارب روپے سے زائد کااضافی ریونیو اکٹھاکرنے کاہدف مقرر کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔
دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کیلیے مالیاتی خسارے کاہدف 3.8فیصد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال کیلیے جی ڈی پی گروتھ کاہدف 6.2فیصد،انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح کاہدف 18.7فیصد، مہنگائی کی شرح کاہدف6 فیصد،ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کاہدف12.7 فیصد،جی ڈی پی کے لحاظ سے قرضوں کی شرح کاہدف 59.4فیصد، ذرمبادلہ کے ذخائر کاہدف23.6 ارب ڈالر مقرر کرنے کی تجویز زیر غور ہے ۔علاوہ ازیںبجٹ خسارے کاہدف 3.8فیصد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ دفاعی بجٹ 860ارب روپے، قرضوںپر سود کی ادائیگی کیلیے 1420 ارب روپے،پنشن کی ادائیگی کیلیے 245ارب روپے، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری کے اخراجات کیلیے 348ارب روپے،سبسڈیز کیلیے169 ارب روپے، صوبوںکو گرانٹس کی ادائیگی کیلیے 40ارب روپے، دیگر گرانٹس کی مد میں542ارب روپے مختص کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2016-17کے وفاقی بجٹ میںذائقہ دار دودھ اور غذائیت بھرے ڈبہ پیک دودھ سمیت دیگراقسام کے پیک شُدہ دودھ اور ڈیری مصنوعات پر17فیصدسیلز ٹیکس کی شرح میںاضافہ کیے جانیکاامکان ہے البتہ کھُلے دودھ اور عام دودھ پرسیلز ٹیکس کی چھوٹ برقرار رکھی جائے گی۔دستاویز کے مطابق اسٹیل میلٹرزو اسٹیل ری رُولرز اورشپ بریکنگ انڈسٹری کیلئے بجلی کے استعمال پر عائد سیلز ٹیکس کی شرح 9روپے سے بڑھاکر12 روپے فی یونٹ کیے جانیکاامکان ہے۔
ذرائع کے مطابق کئی وزارتوںاور ڈویژنوںکے ترقیاتی بجٹ کو کٹ لگ گیاہے ۔145ارب روپے ٹی ڈی پیزاور وزیر اعظم یوتھ پروگرام ،فاٹا،جی بی اور آزاد کشمیر کیلئے مختص کرنے کی تجویز ہے،وفاقی پی ایس ڈی پی کابراحصہ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور پر خرچ کیاجائے گا،جوکہ 455ارب روپے سی پیک اور 200ارب روپے توانائی منصوبوںکیلئے مختص کئے جانے کاامکان ہے،حکومت نے این ای سی کااجلاس 30 مئی کو طلب کر لیاہے،تاکہ اگلے مالی سال کے مائیکرو اکنامک فریم ورک اور ترقیاتی پلان کی منظوری دی جاسکے۔