اگر فرصت میسر ہو تو کچھ تعمیر وطن بھی کرلو
سامنے پھیلتی تباہی اگر کسی کو دکھائی نہیں دے رہی تو وہ طبقہ اہل اقتدار ہے ’’ورنہ باغ تو سارا جانے ہے‘‘۔
غفلت، سستی اور کاہلی جیسی سبھی بیمار خصلتیں ملکی معاملات کی انجام دہی میں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ جبکہ ذاتی کاروبار، ذاتی مرعات اور شخصی مرا تب کی آبیاری میں ایمانداری، چستی اور تندرستگی ہر گام ''تیز گام'' لگتی ہیں۔ ایک ہی ''چہرے'' کے دو رخ، یہ تضاد اپنے ثمرات دیکھا رہا ہے۔ سامنے پھیلتی تباہی اگر کسی کو دکھائی نہیں دے رہی تو وہ طبقہ اہل اقتدار ہے ''ورنہ باغ تو سارا جانے ہے''۔
ملکی سالمیت کو جن خطرات کا سامنا ہے ان کی طرف سے اتنی لاپرواہی آخر کیوں؟ معاصر اخبارات کے لکھاریوں نے لکھا ''میاں برادران نے اپنے غیر ملکی ہمدردوں سے مدد مانگ لی ہے''۔ چھپے لفظوں میں اس اندرونی کہانی کا اگر معروضی حالات کے ساتھ تقابل کیا جائے تو عجیب بے یقینی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔
چند ہفتوں کے دوران کم وبیش پانچ غیر ملکی ایجنٹوں کو پکڑا جاچکا ہے جن میں بھارت کی دہشت گرد خفیہ ایجنسی 'را' کا اہلکار بھی شامل ہے۔ لیکن اصل مدعہ یہ نہیں ہے۔ بات کچھ اور ہے جس پر پڑا پردہ شاید کبھی وقت ہی سرکا دے۔ لیکن ٹھہریے تجزیے کی ٹکنیک سے الجھی ڈور کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ افغانستان امن مذاکرات میں بھارت اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے پہلے دن سے ہی سرگرم عمل ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان کی سرزمین پر کم و بیش 22 سفارت خانے نما دہشت گردی کے مراکز پہلے ہی متحرک ہیں۔ مری مذاکرات کے پہلے کامیاب راؤنڈ پر بھارت بہت تلملایا تھا، یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے دوسرے دور کو ناکام بنانے کے لیے افغان طالبان ملا محمد عمر کی وفات کو بھارت نے افشاں کیا تھا۔ یوں مذاکرات میں تعطل آگیا۔
گزشتہ دنوں نئے طالبان رہنما ملا منصور اختر کی پاکستانی سرحدی گاوں میں ڈرون حملے میں مارے جانے کی متضاد آراء بھی دراصل افغان امن مذاکرات کو سبوثاز کرنے کی ہی عملی کوشش ہے۔ سنیئر تجزیہ نگار یوسف زائی صاحب کے بقول ''ملامنصور دھیمے مزاج کے مالک اور مذاکرات کے حامی'' تھے۔ لیکن آپ کمال دیکھیے کہ امریکی صدر اس ضمن میں کتنا متضاد بیان دے رہے ہیں کہ ''افغان امن میں رکاوٹ بننے والے کو مار دیا گیا ہے'' اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے کہ جو بھی امریکی مفادات کی مخالفت میں اقدام کرے گا مٹا دیا جائے گا۔
بہت خوب باراک اوبامہ صاحب۔ آج چین کی ابھرتی طاقت سے خائف ہو کر آپ بھارت کی سرپرستی میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ پاکستانی قوم کی لازوال قربانیوں کو بھول کر صرف اپنے اور بھارت کے مفادات کی بات کرنے لگے ہیں، آخر کیوں؟ پاکستان چین کے ساتھ گوادر بندرگاہ کی تعمیر مکمل کرچکا ہے اور اب اقتصادی راہداری کی تعمیر کے 46 ملین ڈالرز کے پروجیکٹس پر کام تیزی سے جاری ہے لیکن بھارت پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے ایران میں کم و بیش 40 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ و منصوبہ بنا چکا ہے۔جس کی عملی شکل بھارت ایران افغانستان معاہدہ ہے۔
بظاہر یہ سوال دل کو بہت لبھاتا ہے کہ اگر ایران اپنی چاہ بہار بندرگاہ تعمیر کرنا چاہتا ہے تو اس میں پاکستان کو کس بات کی تکلیف ہے؟ 100 کلو میٹر کی رینج میں آنے والی بندرگاہ ہے جس کے قدرتی طور پر کئی منفی اثرات گوادر پورٹ کو متاثر کریں گے، جن میں ٹیکینکل اور پولیٹیکل دونوں پہلو شامل ہیں۔
عالمی تناظر میں جہاں بھارت امریکہ گٹھ جوڑ صاف دکھائی دے رہا ہے وہیں امریکہ کی ''گریٹر مڈل ایسٹ'' کی منصوبہ بندی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس منصوبہ بندی کے مطابق سینٹرل ایشیاء، ایران وغیرہ کے علاقے بھی گریٹر مڈل ایسٹ میں شامل ہوں گے جبکہ آئل پولیٹکس کی بھی جھلک اس سارے منظر نامے میں سرائیت کرتی محسوس ہو رہی ہے۔ جس کے مطابق وسطی ایشیائی ریاستوں سے تیل کی سپلائی بذریعہ افغانستان، ایران اور مشرق وسطی کے راستے کی جائے گی۔
چین کے ساحل پر واقع مصنوعی جزیروں پر امریکہ چین سے عداوت جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ جزیرے چین نے اپنی سمندری حدود کو بڑھانے اور پانی کے راستوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے مصنوعی طور پر تعمیر کیے ہیں۔ یہ بات خود امریکہ پر بھی ساد آتی ہے جس نے ساری دنیا میں اپنی جاگیرداری قائم رکھنے اور اپنے اسلحے کی فروخت کو سدا بہار بنانے کے لیے ''دہشت گردی کے خلاف'' جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
کیا باراک اوبامہ کا حالیہ بیان اس بات کا ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ ''دہشت گردی کے نام پر ہونے والی جنگیں اور حملے دراصل خود امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کیے جارہے ہیں''؟
ایسے میں پاکستان کے سیاستدان ''بارہ مار'' کے جس کھیل میں سرگرمی دیکھا رہے ہیں اس کا نا ہی کوئی سر ہے اور نا پیر۔ کیوں؟ اس لیے کہ جب گھوڑا بنا سوار کے دوڑتا ہے تو اس کی منزل کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے ہی بارہ افراد کی بناء سربراہ یا قائد کے کسی بات پر متفق ہونا 'منڈکوں' کو تھال میں جمع رکھنے کے مترادف ہے۔
خدا کے لیے ملک کی حالت پر رحم کرو اور اس کی تعمیر پر اپنا بلکہ قوم کا پیسہ اور وقت صرف کرو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ملکی سالمیت کو جن خطرات کا سامنا ہے ان کی طرف سے اتنی لاپرواہی آخر کیوں؟ معاصر اخبارات کے لکھاریوں نے لکھا ''میاں برادران نے اپنے غیر ملکی ہمدردوں سے مدد مانگ لی ہے''۔ چھپے لفظوں میں اس اندرونی کہانی کا اگر معروضی حالات کے ساتھ تقابل کیا جائے تو عجیب بے یقینی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔
چند ہفتوں کے دوران کم وبیش پانچ غیر ملکی ایجنٹوں کو پکڑا جاچکا ہے جن میں بھارت کی دہشت گرد خفیہ ایجنسی 'را' کا اہلکار بھی شامل ہے۔ لیکن اصل مدعہ یہ نہیں ہے۔ بات کچھ اور ہے جس پر پڑا پردہ شاید کبھی وقت ہی سرکا دے۔ لیکن ٹھہریے تجزیے کی ٹکنیک سے الجھی ڈور کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ افغانستان امن مذاکرات میں بھارت اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے پہلے دن سے ہی سرگرم عمل ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان کی سرزمین پر کم و بیش 22 سفارت خانے نما دہشت گردی کے مراکز پہلے ہی متحرک ہیں۔ مری مذاکرات کے پہلے کامیاب راؤنڈ پر بھارت بہت تلملایا تھا، یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے دوسرے دور کو ناکام بنانے کے لیے افغان طالبان ملا محمد عمر کی وفات کو بھارت نے افشاں کیا تھا۔ یوں مذاکرات میں تعطل آگیا۔
گزشتہ دنوں نئے طالبان رہنما ملا منصور اختر کی پاکستانی سرحدی گاوں میں ڈرون حملے میں مارے جانے کی متضاد آراء بھی دراصل افغان امن مذاکرات کو سبوثاز کرنے کی ہی عملی کوشش ہے۔ سنیئر تجزیہ نگار یوسف زائی صاحب کے بقول ''ملامنصور دھیمے مزاج کے مالک اور مذاکرات کے حامی'' تھے۔ لیکن آپ کمال دیکھیے کہ امریکی صدر اس ضمن میں کتنا متضاد بیان دے رہے ہیں کہ ''افغان امن میں رکاوٹ بننے والے کو مار دیا گیا ہے'' اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے کہ جو بھی امریکی مفادات کی مخالفت میں اقدام کرے گا مٹا دیا جائے گا۔
بہت خوب باراک اوبامہ صاحب۔ آج چین کی ابھرتی طاقت سے خائف ہو کر آپ بھارت کی سرپرستی میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ پاکستانی قوم کی لازوال قربانیوں کو بھول کر صرف اپنے اور بھارت کے مفادات کی بات کرنے لگے ہیں، آخر کیوں؟ پاکستان چین کے ساتھ گوادر بندرگاہ کی تعمیر مکمل کرچکا ہے اور اب اقتصادی راہداری کی تعمیر کے 46 ملین ڈالرز کے پروجیکٹس پر کام تیزی سے جاری ہے لیکن بھارت پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے ایران میں کم و بیش 40 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ و منصوبہ بنا چکا ہے۔جس کی عملی شکل بھارت ایران افغانستان معاہدہ ہے۔
بظاہر یہ سوال دل کو بہت لبھاتا ہے کہ اگر ایران اپنی چاہ بہار بندرگاہ تعمیر کرنا چاہتا ہے تو اس میں پاکستان کو کس بات کی تکلیف ہے؟ 100 کلو میٹر کی رینج میں آنے والی بندرگاہ ہے جس کے قدرتی طور پر کئی منفی اثرات گوادر پورٹ کو متاثر کریں گے، جن میں ٹیکینکل اور پولیٹیکل دونوں پہلو شامل ہیں۔
عالمی تناظر میں جہاں بھارت امریکہ گٹھ جوڑ صاف دکھائی دے رہا ہے وہیں امریکہ کی ''گریٹر مڈل ایسٹ'' کی منصوبہ بندی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس منصوبہ بندی کے مطابق سینٹرل ایشیاء، ایران وغیرہ کے علاقے بھی گریٹر مڈل ایسٹ میں شامل ہوں گے جبکہ آئل پولیٹکس کی بھی جھلک اس سارے منظر نامے میں سرائیت کرتی محسوس ہو رہی ہے۔ جس کے مطابق وسطی ایشیائی ریاستوں سے تیل کی سپلائی بذریعہ افغانستان، ایران اور مشرق وسطی کے راستے کی جائے گی۔
چین کے ساحل پر واقع مصنوعی جزیروں پر امریکہ چین سے عداوت جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ جزیرے چین نے اپنی سمندری حدود کو بڑھانے اور پانی کے راستوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے مصنوعی طور پر تعمیر کیے ہیں۔ یہ بات خود امریکہ پر بھی ساد آتی ہے جس نے ساری دنیا میں اپنی جاگیرداری قائم رکھنے اور اپنے اسلحے کی فروخت کو سدا بہار بنانے کے لیے ''دہشت گردی کے خلاف'' جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
کیا باراک اوبامہ کا حالیہ بیان اس بات کا ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ ''دہشت گردی کے نام پر ہونے والی جنگیں اور حملے دراصل خود امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کیے جارہے ہیں''؟
ایسے میں پاکستان کے سیاستدان ''بارہ مار'' کے جس کھیل میں سرگرمی دیکھا رہے ہیں اس کا نا ہی کوئی سر ہے اور نا پیر۔ کیوں؟ اس لیے کہ جب گھوڑا بنا سوار کے دوڑتا ہے تو اس کی منزل کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے ہی بارہ افراد کی بناء سربراہ یا قائد کے کسی بات پر متفق ہونا 'منڈکوں' کو تھال میں جمع رکھنے کے مترادف ہے۔
خدا کے لیے ملک کی حالت پر رحم کرو اور اس کی تعمیر پر اپنا بلکہ قوم کا پیسہ اور وقت صرف کرو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارفکےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔