غیرجانبدار متوازن رہیں
میرا دوست کہہ رہا تھا ’’یار تم کسی ایک ہی سائیڈ پر مت رہو، دونوں طرف کے لوگوں کی بات کرو،
میرا دوست کہہ رہا تھا ''یار تم کسی ایک ہی سائیڈ پر مت رہو، دونوں طرف کے لوگوں کی بات کرو، توازن رکھو۔ ورنہ لوگ کہیں گے کہ یہ مصنف تو کسی ایک خاص نکتہ نظر کا حامی ہے، ایک ہی طرف کی بات کرتا ہے، اختلاف ِ رائے رکھنے والے بڑی تعداد میں قارئین تو فہرست دیکھ کر ہی تمہاری کتاب چھوڑ دیں گے، تمھیں جانبدار تصور کریں گے۔ لہٰذا، غیر جانبدار رہو، لفٹ رائٹ دونوں طرف کا خیال رکھو، دونوں کی بات کرو، دونوں کی تھوڑی تھوڑی حمایت کرو، تا کہ تمھاری کتاب زیادہ بکے، تب ہی تم ایک کامیاب لکھاری بن پاؤ گے، ترقی کر سکو گے۔''
وہ میری کتاب پر مجھ سے اظہار خیال کر رہا تھا، میں سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ''غیر جانبدار رہوں... ؟'' بالآخر میں نے پوچھا، ''کس کے درمیان؟ سچ اور جھوٹ کے؟ صحیح اور غلط کے؟ سچ کے ساتھ کہیں کہیں جھوٹ کی بھی حمایت کروں؟ جھوٹ کے ساتھ تھوڑا بہت کیچڑ سچ پر بھی اچھالوں، مظلوم کے ساتھ کچھ طرفداری ظالم کی بھی کروں؟ تا کہ حق و باطل دونوں گڈمڈ ہو جائیں، دونوں میں سے کسی کی شناخت نہ ہو پائے، دونوں ہی ایک جیسے نظر آئیں؟ اور اس خدمت کے صلے میں مجھے بڑی تعداد میں باطل کی سرپرستی و حمایت حاصل ہو جائے اور میں بھی ایک غیرجانبدار، متوازن مصنف کہلاؤں، زیادہ چھپنے اور پڑھا جانے والا، میری بھی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں؟
میں بھی معروف لوگوں کی طرح بھاری تنخواہوں کے مزے اڑا سکوں ، دنیا بھرکی سیاحت اور ڈیزائنرز سوٹ پہن سکوں؟ میں بھی اپنے قلم پر برائے فروخت کی تختی لگا کر بیٹھ جاؤں، اپنے مفاد کی خاطر حب الوطنی کا سودا کر دوں، ملک کے بجائے اپنے مفاد میں 'متوازن، غیرجانبدار تحریریں' لکھوں؟ گدھے گھوڑے سب کو ایک ہی تھالی کا بینگن ثابت کر کے خلقِ خدا کو دھوکا دوں، ان کی رہنمائی کرنے کے بجائے انھیں کنفیوز اور مایوس کر دوں کہ سب ایک جیسے ہیں، کسی لیڈر سے امید باندھنے کی غلطی نہ کریں، بُرے لیڈر کے بجائے بہتر رہنما کی جانب عوام کی توجہ مبذول نہ کراؤں؟ ہر صورت، ہر قیمت پر اپنی غیر جانبداری قائم رکھوں، چاہے ملک خدانخواستہ ٹوٹ ہی کیوں نہ جائے؟ اصلیت جانتے ہوئے بھی یہ کہوں کہ یہاں فرشتہ کون ہے؟ سب اس حمام میں ننگے ہیں؟''
میرا دوست خاموش ہو گیا۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ''میں اس طرح کا غیر جانبدار بنوں کہ سچ کو اس کے مقام سے نیچے گرا کر جھوٹ تک لے آؤں اور جھوٹ کو اس کی پستی سے اٹھا کر سچ کے برابر لے جا کر غیرجانبداری و توازن کا تمغہ اپنے سینے پر سجا لوں؟ کیا میں سچ جھوٹ، حق و باطل کے درمیان غیرجانبداری کا مظاہرہ کروں؟ مقتول کے ساتھ تھوڑی حمایت قاتل کی بھی کروں تا کہ متوازن ہو جاؤں؟
اگر غیرجانبداری ہی اللہ کا پیغام ہے تو پھر خدا نے موسیٰ ؑ اور فرعون کے درمیان غیر جانبداری کا مظاہرہ کیوں نہ کیا، موسیٰ ؑ کی کھلی حمایت کیوں کی۔ کیوں ہمیشہ کفر کے مقابلے میں ایمان کی سائیڈ لی؟ کیوں قرآن میں مومنوں کو ظالم کے مقابلے میں مظلوموں، حقداروں کا جانبداری سے ساتھ دینے کی نصیحت کی؟ پھر ابراہیم ؑ کو بتوں کو توڑنے، ان کے پجاریوں سے لڑنے اور خود کو آگ میں ڈلوانے کی کیا ضرورت تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ کو بھی چاہیے تھا کہ غیرجانبداری سے کام لیتے ہوئے تھوڑی اپنے اور تھوڑی ان کے خداؤں کی حمایت کر دیتے۔
سب سے بڑھ کر پھر اللہ نے حضرت آدم ؑ اور ابلیس کے درمیان غیر جانبداری کا مظاہرہ کیوں نہ کیا۔ آدم ؑ میں لاکھ خوبیاں سہی پر ابلیس بھی تو آخر ہزاروں سال کا عبادت گزار تھا۔ اللہ کو بھی وہاں غیرجانبداری اور متوازن رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ حضرت آدم ؑ کی اہمیت و خصوصیات اپنی جگہ صحیح پر ابلیس کا بھی تو کچھ contribution تھا، مگر اللہ نے ابلیس کی بے شمار عبادتوں کو خاطر میں لا ئے بغیر اسے اعلانیہ شیطان قرار دے دیا، یہی نہیں قرآن سمیت تمام آسمانی کتابوں میں اس کا تعارف شیطان کے نام سے ہی کرا کے قیامت تک کے لیے اسے بے نقاب کر دیا۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ، ''اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ''، پوری کُلیت اور جانبداری کے ساتھ۔ کچھ حق کی حمایت، کچھ مفاد کے لیے باطل کا ساتھ، آدھا تیتر، آدھا بٹیر والی غیرجانبداری کا اسلام میں کوئی تصور ہے نہ ہی گنجائش۔ انسان یا تو حق کی طرف ہوتا ہے یا پھر باطل کیطرف۔ تیسری کوئی صورت نہیں، اگر ہے تو فقط منافقت کی، جو کہ خود باطل میں شامل ہے۔ گیند کو اگر ہوا میں اچھالا جائے تو صرف دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو اس کا رخ اوپر کی جانب ہو گا یا پھر نیچے کی۔ وہ دونوں جانب توازن و غیرجانبداری کبھی قائم نہیں رکھ سکتا۔ ایسا ممکن نہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں اوپر بھی جا رہا ہو اور نیچے بھی۔ اسے ہر حال میں دونوں میں سے کسی ایک سمت کا انتخاب کرنا ہی پڑتا ہے، بلندی کا یا پستی کا، یہی حال انسان کا بھی ہے۔
'جانبداری' ہی قانونِ قدرت ہے۔ بیک وقت دن اور رات، سردی و گرمی نہیں ہو سکتی۔ انسان ایک ہی وقت میں نیکی اور گناہ دونوں انجام نہیں دے سکتا۔ ایک ہی وقت میں دو مخالف نظریات کو درست تسلیم نہیں کر سکتا، دونوں کی حمایت نہیں کر سکتا، اس وقت تک جب تک کہ اپنے ضمیر کا سودا کر کے مفاد کی عینک لگا کر منافقت سے کا م نہ لے۔ انسان بیک وقت دو مخالف سوچ اور عمل کا مظاہرہ کرنے والے حریفوں کے بیچ بھی اپنی روح کو داغدار کیے بغیر 'توازن' اور 'غیرجانبداری' قائم نہیں کر سکتا۔ وہ لازماً اور فطرتاً جانبداری سے حق کا ساتھ دینے کے لیے اپنی روح میں طلب و خواہش محسوس کرتا ہے۔ جھوٹ اور سچ میں توازن کیسا؟ ظالم و مظلوم کے درمیان کیسی غیر جانبداری؟ یہ تو جھوٹ، ظلم کا ہاتھ مضبوط کرنا ا ور مظلوم کا حق پامال کرنے والا قابل گرفت عمل ہے۔
حق و باطل کے درمیان ''غیرجانبدارانہ و متوازن'' طرز عمل اللہ والوں کا راستہ نہیں۔ ان کا نکتہ نظر، طرز حیات تو دن کے شفاف اجالوں کی مانند واضح اور کسی بھی شک و شبہ پیدا کرنے والی بات سے بالاتر ہوتا ہے، ان کی زندگی و شخصیت شفاف آئینے کی مثال ہوتی ہے، جس میں ہر چیز کی اصلیت صاف دکھائی دیتی ہے۔ جس میں پھول پھول اور کانٹا کانٹا ہی نظر آتا ہے، شہد شہد اور زہر ہر کسی کو زہر ہی دکھائی دیتا ہے، بغیر کسی غیر جانبداری کی آڑ میں دھندلائے۔
وہ میری کتاب پر مجھ سے اظہار خیال کر رہا تھا، میں سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ''غیر جانبدار رہوں... ؟'' بالآخر میں نے پوچھا، ''کس کے درمیان؟ سچ اور جھوٹ کے؟ صحیح اور غلط کے؟ سچ کے ساتھ کہیں کہیں جھوٹ کی بھی حمایت کروں؟ جھوٹ کے ساتھ تھوڑا بہت کیچڑ سچ پر بھی اچھالوں، مظلوم کے ساتھ کچھ طرفداری ظالم کی بھی کروں؟ تا کہ حق و باطل دونوں گڈمڈ ہو جائیں، دونوں میں سے کسی کی شناخت نہ ہو پائے، دونوں ہی ایک جیسے نظر آئیں؟ اور اس خدمت کے صلے میں مجھے بڑی تعداد میں باطل کی سرپرستی و حمایت حاصل ہو جائے اور میں بھی ایک غیرجانبدار، متوازن مصنف کہلاؤں، زیادہ چھپنے اور پڑھا جانے والا، میری بھی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں؟
میں بھی معروف لوگوں کی طرح بھاری تنخواہوں کے مزے اڑا سکوں ، دنیا بھرکی سیاحت اور ڈیزائنرز سوٹ پہن سکوں؟ میں بھی اپنے قلم پر برائے فروخت کی تختی لگا کر بیٹھ جاؤں، اپنے مفاد کی خاطر حب الوطنی کا سودا کر دوں، ملک کے بجائے اپنے مفاد میں 'متوازن، غیرجانبدار تحریریں' لکھوں؟ گدھے گھوڑے سب کو ایک ہی تھالی کا بینگن ثابت کر کے خلقِ خدا کو دھوکا دوں، ان کی رہنمائی کرنے کے بجائے انھیں کنفیوز اور مایوس کر دوں کہ سب ایک جیسے ہیں، کسی لیڈر سے امید باندھنے کی غلطی نہ کریں، بُرے لیڈر کے بجائے بہتر رہنما کی جانب عوام کی توجہ مبذول نہ کراؤں؟ ہر صورت، ہر قیمت پر اپنی غیر جانبداری قائم رکھوں، چاہے ملک خدانخواستہ ٹوٹ ہی کیوں نہ جائے؟ اصلیت جانتے ہوئے بھی یہ کہوں کہ یہاں فرشتہ کون ہے؟ سب اس حمام میں ننگے ہیں؟''
میرا دوست خاموش ہو گیا۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ''میں اس طرح کا غیر جانبدار بنوں کہ سچ کو اس کے مقام سے نیچے گرا کر جھوٹ تک لے آؤں اور جھوٹ کو اس کی پستی سے اٹھا کر سچ کے برابر لے جا کر غیرجانبداری و توازن کا تمغہ اپنے سینے پر سجا لوں؟ کیا میں سچ جھوٹ، حق و باطل کے درمیان غیرجانبداری کا مظاہرہ کروں؟ مقتول کے ساتھ تھوڑی حمایت قاتل کی بھی کروں تا کہ متوازن ہو جاؤں؟
اگر غیرجانبداری ہی اللہ کا پیغام ہے تو پھر خدا نے موسیٰ ؑ اور فرعون کے درمیان غیر جانبداری کا مظاہرہ کیوں نہ کیا، موسیٰ ؑ کی کھلی حمایت کیوں کی۔ کیوں ہمیشہ کفر کے مقابلے میں ایمان کی سائیڈ لی؟ کیوں قرآن میں مومنوں کو ظالم کے مقابلے میں مظلوموں، حقداروں کا جانبداری سے ساتھ دینے کی نصیحت کی؟ پھر ابراہیم ؑ کو بتوں کو توڑنے، ان کے پجاریوں سے لڑنے اور خود کو آگ میں ڈلوانے کی کیا ضرورت تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ کو بھی چاہیے تھا کہ غیرجانبداری سے کام لیتے ہوئے تھوڑی اپنے اور تھوڑی ان کے خداؤں کی حمایت کر دیتے۔
سب سے بڑھ کر پھر اللہ نے حضرت آدم ؑ اور ابلیس کے درمیان غیر جانبداری کا مظاہرہ کیوں نہ کیا۔ آدم ؑ میں لاکھ خوبیاں سہی پر ابلیس بھی تو آخر ہزاروں سال کا عبادت گزار تھا۔ اللہ کو بھی وہاں غیرجانبداری اور متوازن رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ حضرت آدم ؑ کی اہمیت و خصوصیات اپنی جگہ صحیح پر ابلیس کا بھی تو کچھ contribution تھا، مگر اللہ نے ابلیس کی بے شمار عبادتوں کو خاطر میں لا ئے بغیر اسے اعلانیہ شیطان قرار دے دیا، یہی نہیں قرآن سمیت تمام آسمانی کتابوں میں اس کا تعارف شیطان کے نام سے ہی کرا کے قیامت تک کے لیے اسے بے نقاب کر دیا۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ، ''اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ''، پوری کُلیت اور جانبداری کے ساتھ۔ کچھ حق کی حمایت، کچھ مفاد کے لیے باطل کا ساتھ، آدھا تیتر، آدھا بٹیر والی غیرجانبداری کا اسلام میں کوئی تصور ہے نہ ہی گنجائش۔ انسان یا تو حق کی طرف ہوتا ہے یا پھر باطل کیطرف۔ تیسری کوئی صورت نہیں، اگر ہے تو فقط منافقت کی، جو کہ خود باطل میں شامل ہے۔ گیند کو اگر ہوا میں اچھالا جائے تو صرف دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو اس کا رخ اوپر کی جانب ہو گا یا پھر نیچے کی۔ وہ دونوں جانب توازن و غیرجانبداری کبھی قائم نہیں رکھ سکتا۔ ایسا ممکن نہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں اوپر بھی جا رہا ہو اور نیچے بھی۔ اسے ہر حال میں دونوں میں سے کسی ایک سمت کا انتخاب کرنا ہی پڑتا ہے، بلندی کا یا پستی کا، یہی حال انسان کا بھی ہے۔
'جانبداری' ہی قانونِ قدرت ہے۔ بیک وقت دن اور رات، سردی و گرمی نہیں ہو سکتی۔ انسان ایک ہی وقت میں نیکی اور گناہ دونوں انجام نہیں دے سکتا۔ ایک ہی وقت میں دو مخالف نظریات کو درست تسلیم نہیں کر سکتا، دونوں کی حمایت نہیں کر سکتا، اس وقت تک جب تک کہ اپنے ضمیر کا سودا کر کے مفاد کی عینک لگا کر منافقت سے کا م نہ لے۔ انسان بیک وقت دو مخالف سوچ اور عمل کا مظاہرہ کرنے والے حریفوں کے بیچ بھی اپنی روح کو داغدار کیے بغیر 'توازن' اور 'غیرجانبداری' قائم نہیں کر سکتا۔ وہ لازماً اور فطرتاً جانبداری سے حق کا ساتھ دینے کے لیے اپنی روح میں طلب و خواہش محسوس کرتا ہے۔ جھوٹ اور سچ میں توازن کیسا؟ ظالم و مظلوم کے درمیان کیسی غیر جانبداری؟ یہ تو جھوٹ، ظلم کا ہاتھ مضبوط کرنا ا ور مظلوم کا حق پامال کرنے والا قابل گرفت عمل ہے۔
حق و باطل کے درمیان ''غیرجانبدارانہ و متوازن'' طرز عمل اللہ والوں کا راستہ نہیں۔ ان کا نکتہ نظر، طرز حیات تو دن کے شفاف اجالوں کی مانند واضح اور کسی بھی شک و شبہ پیدا کرنے والی بات سے بالاتر ہوتا ہے، ان کی زندگی و شخصیت شفاف آئینے کی مثال ہوتی ہے، جس میں ہر چیز کی اصلیت صاف دکھائی دیتی ہے۔ جس میں پھول پھول اور کانٹا کانٹا ہی نظر آتا ہے، شہد شہد اور زہر ہر کسی کو زہر ہی دکھائی دیتا ہے، بغیر کسی غیر جانبداری کی آڑ میں دھندلائے۔