لی کو آن کا سنگاپور دوسری قسط
کرہ ارض پر جس ملک نے بھی ترقی کی منازل طے کی ہیں اس نے سب سے پہلے اپنے ہاں قانون کی حکمرانی قائم کی۔
کرہ ارض پر جس ملک نے بھی ترقی کی منازل طے کی ہیں اس نے سب سے پہلے اپنے ہاں قانون کی حکمرانی قائم کی۔ ملک اور خطہ کوئی بھی ہو معاشی ترقی کی پرشکوہ عمارت رول آف لاء کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ لی کوآن نے بھی سنگاپور میںسب سے پہلے قانون کی حکمرانی قائم کی اور اس کے ساتھ ہی کلیپٹو کریسی کا خاتمہ کرکے سرکاری اداروں میں ایمانداری کے کلچر کو پروان چڑھایا۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ جب دلدل میں اترا تو خالی ہاتھ تھا، آج اس کے ملک کی برآمدات 513ارب ڈالرسالانہ تک پہنچ چکی ہیں۔ ان کی فی کس آمدنی ستّر ہزار ڈالرسالانہ ہے صرف موازنے کے لیے ذہن میں رکھیں کہ ہم 20کروڑ آبادی اور قدرت کے دیے ہوئے وسائل سے مالا مال ہیں مگرہماری نااہلیوں کے باعث ہمارے ملک کی برآمد13 5ارب ڈالر کے مقابلے میں صرف 23ارب ڈالر کی ہیں۔
جب کوئی مُلک بے پناہ جدوجہد کے بعد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجاتا ہے تو احساسِ تفاخر کے ساتھ اپنی کامیابیوں کو دنیا میں متعارف کرانا چاہتا ہے تاکہ اس سے کم ترقی یافتہ قومیں اس کے مقام اور مرتبے کو تسلیم کریں۔ اسی جذبے کے تحت پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو امداد دی جاتی ہے، وہاں مختلف قسم کے سوشل اور کلچرل پروگرام شروع کیے جا تے ہیں اور انھیں اپنے تجربات سے مستفیض کرنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک اکثر اپنے ہاں بھی تربیتّی پروگراموں ، کانفرنسوں اور سیمینارز کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔
سنگاپور کے انسٹیٹیو ٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن (سینٹرل) میں منعقد ہونے والا یہ تربیّتی پروگرام ہمارے لیے بے حد مفید ثابت ہوا کہ ہم کئی مہینوں سے ہر فورم پر پاکستان میں عالمی معیار کا ٹیکنیکل اور ووکیشنل انسٹیٹیوٹ قائم کرنے کی بات کررہے تھے مگر اس ادارے کے خدوخال کیسے ہوں اس کا ہمارے ذہن میں صرف موہوم سا تصّور تھا۔ ITEسنگاپور دیکھکر الجھن دور ہوگئی اور ایک State of the Artادارے کا واضح نقشہ سامنے آگیا۔
پورے تربیّتی پروگرام کا مرکزی تھیم "اکیسویں صدی میں فنّی تعلیم و تربیت کے ایک کامیاب نظام کی منصوبہ بندی" تھا اور اسمیں ITEکو ایک ماڈل کے طو پر پیش کیا گیا تھا۔ سنگاپور میں ITE ایسٹ ،ویسٹ اور سینٹرل کے نام سے تین ادارے قائم ہیں، پانچ پولی ٹیکنیکل ادارے اس کے علاوہ ہیں۔ہماری کانفرنس ITE سینٹرل میں منعقد ہوئی اس کے تینوں اداروں میں زیرِ تربیّت نوجوانوں کی تعداد اٹھائیس ہزار اور ٹیچرز اورانسٹرکٹرز اٹھائیس سو کے قریب ہیں۔ ادارے کے کون سے امتیازی اوصاف ہیں جو اسے دوسرے اداروں سے ممتاز کرتے ہیں۔
اس کا اندازہ ہمیں چار روز میںان کی ترجیحات سن کر بخوبی ہوگیا۔ وہ یہاں صرف ٹیکنیشن پیدا نہیں کرتے، وہ نوجوانوںکی پوری شخصیت کی نشوونما کرتے ہیں، ان کی چھپی ہوئی صلاحیتیں اجاگر کرکے اسے well roundedبناتے ہیں۔ انھوں نے صحیح کہا کہ ' وہ یہاں صرف ھنرمند ورکر نہیں لیڈر پیدا کرتے ہیں' اس کے لیے Motivational Lecturesکا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔
ادارے میں جگہ جگہ جدوجہد پر ابھارنے والے اور دل میں اتر جانے والے فقرے رقم کیے گئے ہیں۔ زور تھیوری پر نہیں عملی ٹریننگ پر ہے اور اس کے معیار کا یہ عالم ہے کہ ایئروناٹیکل ٹیکنیشنز کی عملی تربیّت کے لیے اصل ہوائی جہاز خرید کر صحن میں کھڑا کردیا گیا ہے۔کُکنگ کی ٹریننگ کے لیے جن کچنز میں تربیّت دی جاتی ہے، وہاں سہولیات کسی پانچ ستارہ ہوٹل سے کم نہیں۔ ٹریننگ کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے بہترین 'میس'اور کیفے ٹیریا موجود ہیں۔ اسپورٹس اور انٹرٹینمنٹ کی سرگرمیاں ساتھ ساتھ جاری رہتی ہیں۔
ٹیچر اور انسٹرکٹر کے لیے مطلوبہ اوصاف پوچھے تو بتایا گیا He or She should be Competent and passionate یعنی اسے اپنے مضمون پر دسترس بھی ہو اوروہ علم کی منتقلی کا کام جوش اور جذبے کے ساتھ کرے۔ کردار (Integrity)لگن اور جذبہ ادارے کی Core value (بنیادی اقدار) ہیں اور جنھیں اساتذہ اور طلباء طالبات کے دل و دماغ میں اتارا جاتا ہے۔
ادارے کا ماٹو پوچھا تو بتایا گیا۔Teach mind, Touch Heart, Transform Life۔ یعنی"نوجوانوں کے دل و دماغ کو علم و ھُنر سے منوّر کرکے ان کی زندگی تبدیل کردینا " اگر اس ادارے کو انفراسٹرکچر، گورننس، ڈسپلن، ٹیچرز کے معیار، جذبے، نصاب، پڑھانے کے جدید طریقے ، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ، انڈسٹری سے روابط ، وسائل اور زیرِ تربیّت طلباء وطالبات کی امداد کے پیمانے پر پرکھا جائے تو ہر لحاظ سے اسے انتہائی اعلیٰ نمونے کاادارہ (Center of excellence) قراردیا جاسکتا ہے۔
چار وں دن ایک سے بڑھکر ایک اپنے اپنے فیلڈ کے ماہر مقرّر ین نے لیکچردیے مگر سب نے اپنے اپنے انداز میں یہ بات ضرور کی کہ "We had only three things-Sun, Sea and Air" آغاز میںہمارے پاس ہوا، پانی اور سورج کے سوا کچھ نہیں تھا ہم نے فنّی تربیّت کو ترجیحِ اوّل بنایا۔" فنّی تربیّت ہمارے تعلیمی نطام میں ھیرے کی حیثیت رکھتی ہے Skill Developmentہمارے لیے سیڑھی بن گئی اور اس نے ہمیں ترقی کے اوجِ کمال تک پہنچادیا"۔
تمام مقررین نے ITEکو اپنی معاشی ترقی کی بنیاد قرار دیا اور بتایا کی بڑے بڑے سرمایہ کاروں کو سنگاپور میں سرمایہ کاری کے لیے قائل کرنے کے لیے ہم انھیں اپنے فنّی تربیّت کے ادارے دکھاتے ہیں جن کا معیار دیکھکر وہ متاثر ہوتے ہیں اور یہ جان کر کہ یہاں انھیں اعلیٰ معیار کی Skilled work force میّسر ہوگی وہ بخوشی سرمایہ کاری کرتے ہیں، اس لیے جو ملک چاہتا ہے کہ وہاں غیرملکی سرمایہ کار۔۔ آکر پیسہ Investکریں اسے اپنے ہاں اعلیٰ معیار کے ٹیکنیکل ادارے قائم کرنا ہوں گے۔
عام لوگوں میں یہ غلط تصوّرہے کہ بیرون ممالک جانے والے صرف سیر سپاٹے کرکے آجاتے ہیں۔ہمیں کورس کے منظمین نے مکمل طالبِ علم بنادیا، صبح بستہ پکڑ کر لیکچر ہال میں جاتے تھے اور پانچ بجنے کے بعد وہاں سے چھٹی ملتی تھی۔ عالمی کانفرنسوں میں مختلف ممالک سے آئے ہوئے مندوبین سے دوستیاں بھی ہوجاتی ہیں اور ان کے ذریعے بہت سے نئے ممالک کے بارے میں مفید معلومات ملتی ہیں۔ قارئین کے لیے یہ بات حیران کُن ہوگی کہ دنیا کے کئی ممالک کی آبادی ہمارے درمیانے سے شہر سے بھی کم ہے۔ فجی ایک جزیرہ ہے جو آٹھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، نیوگِنی کی آبادی سات لاکھ ہے۔ منگولیا ستائیس لاکھ کی آبادی کا ملک ہے۔ ملائشیا اور ماریشس کی نمائیندگی کرنے والی خواتین حجاب پہننے کے باعث بڑی باوقار لگتی رہیں۔
انڈیا اور منگولیا کی خواتین کو ان کی زندہ دلی کی وجہ سے آخری روز مس انڈیا اور مس منگولیاکے خطاب دے دیے گئے۔ مس منگولیاکو جواپنے نین نقش سے تاتارن ہی لگتی تھی جب بتایا گیا کہ وسطی ایشیا سے منگول اور ترک نسل کے حملہ آور ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے اور کئی یہاں کے حکمران بن گئے اور ہم ان کی رعایا ہوگئے ۔ اس لحاظ سے تم ہمارے حکمرانوںکی بیٹی ہو۔ تو بڑی خوش ہوئی اور پاکستان کے بارے میں خاصی معلومات لیتی رہی۔
سیر کے لیے سنگاپور جانے والے خواتین و حضرا ت چھ اہم مقامات پر ضرور جاتے ہیں۔ سنتو سہ آئی لینڈلٹل انڈیا)وہ علاقہ جہاں انڈینز کے گھر اور دکانیںہیں)، مصطفٰے شاپنگ سینٹر، آرچرڈ روڈ، چائنا سینٹر اور مرینہ بے۔ سستی شاپنگ کے لیے مصطفٰے شاپنگ سینٹر (جو ایک مسلمان کی ملکیت ہے جوآغاز میں ریڑھی پر مال بیچتا تھا مگر بااصول اور دیانتدار تھا جس کی وجہ سے اس کا کاروبار خوب چمکا۔ اب وہ کئی سڑکوں پر قائم ملک کے سب سے بڑے اسٹور کا مالک ہے جو چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے) پر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ آرچرڈ روڈ پر دنیا کے مشہور ترین برینڈز کے اسٹور موجود ہیںجہاں خوشحال لوگ خریداری کے لیے جاتے ہیں۔ ہم نے بھی میزبانوں کے دیے گئے ڈالروں میں سے دونوں جگہوں پر ہلکی پھلکی شاپنگ کی۔
سنگاپور میں پاکستان کے ہائی کمشنر نصراﷲخان صاحب (جو میرے بیچ میٹ ہیں) کو ہماری آمد کی اطلاع ملی تو انھوں نے ایک شام سیر کے لیے اپنے پروٹوکول آفیسر کو بھجوایا جنہوں نے ایک منجھے ہوئے گائیڈ کیطرح مجھے اور زبیر کو اہم مقامات کی سیر کرائی۔ لیکن آخری شام کانفرنس کے تمام شرکاء کو گائیڈڈ ٹور کرایا گیا جس میں خاتون گائیڈ نے لٹل انڈیا، چائنا ٹاؤن، مسجد حسین کا تاریخی پس منظر بھی بتایا اور آخر میں Marina bayپر سمندر کی سیر کرائی گئی۔ Marina bayانسانی عزم اور محنت کا تاریخی اور یادگار ثمر ہے۔
میلوں تک پھیلی ہوئی یہ جھیل چند سال پہلے تک سمندر تھا جسے انسانی دماغ اور ہاتھوں نے ملکر سمندر سے الگ (reclaim)کیا اور سیاحوں کی سیر کے لیے ایک خوبصورت جھیل میں بدل دیا جسکے کناروں پرفلک بوس ہوٹل ، شاپنگ سینٹر اور کسینو تعمیر کیے گئے ہیں۔ شستہ انگریزی بولنے والی گائیڈ بتارہی تھی کہ "انجینئر ز نے کہا یہ کام ناممکن ہے مگر ہمارے عظیم لیڈر لی کوآن کی ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہیں تھا" بلاشبہ لی کوآن نے ثابت کردیا کہ انسانی عزم سمندروں اور پہاڑوں کو مسخّر کرسکتا ہے۔
سنگاپور میں تین مختلف اقوام کے لوگ رہتے ہیں چینی، ملائیشین اور انڈین۔۔ ستّر فیصد چینی ہیں۔ لی کیو آن کاایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے تینوں قوموں کے درمیان ہم آہنگی اور یگانگت پیدا کرکے ایک قوم بنادیا، یہ کارنامہ لی کوآن جیسا انصاف پسند لیڈر ہی کرسکتا تھا، قومی یکجہتی پیدا کرنے کے علاوہ لی کو آن نے ملک میں قانون کا ڈراور احترام پیدا کیا۔ پبلک سروس میں ایمانداری کے کلچر کو فروغ دیااور بددیانتی اور کرپشن کا قلع قمع کرکے رکھ دیا۔ چند سال پہلے اس کے نیشنل ڈویلپمنٹ کے وزیر پر کمیشن لینے کا الزام لگا، وہ لی کو آن کے بہت قریب تھا۔ عظیم لیڈر اور معلّم کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا مگر اس خیال سے وزیر کو بلوا بھیجا کہ اس کا موقف بھی سنا جائے۔
وزیر، پرائم منسٹر کے پاس نہ گیا۔ دوبارہ بلوایا گیا وہ پھر بھی نہ پہنچا، سرکاری اہلکار وزیر کی رہائش گاہ پر پہنچے تو دیکھا کہ کمرے میں اس کی لاش چھت سے لٹک رہی تھی اور بیڈ پر ایک تحریر لکھی تھی "مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، میں اس کیس میں کلین نہیں ہوں، عدالت کو تو شائد کوئی ثبوت نہ مل سکتا مگر میرے ضمیر کی عدالت نے فیصلہ سنادیا ہے کہ میں بددیانتی کا مرتکب ہوا ہوں مجھے اب زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے"۔
(جاری ہے)