کاغذی ڈالر کا شکنجہ اور قیدی ممالکآٹھواں حصہ
کرنسیوں کی قیمتوں میں کاغذی ڈالر کے مقابلے میں کمی کا نتیجہ آپ دیکھیں
KHAIRPUR:
کرنسیوں کی قیمتوں میں کاغذی ڈالر کے مقابلے میں کمی کا نتیجہ آپ دیکھیں۔ کتاب Ten Years of Pakistan in Statistics 1972-82 کے صفحہ 472 پر Cotton AC-134-RC کراچی 1970-71 میں 40 کلوگرام 118.95 روپے اور 1971-72 اسی کاٹن کی قیمت 133.84 روپے ہو گئی تھی۔ مشینری جیسے Diesel Eng Stat Mod A/H 10-HP لاہور کی قیمت 1970-71 میں 9559.25 روپے تھی، 1971-72 میں بڑھ کر 10454.00 روپے ہو گئی۔ اسی طرح 1970-71 میں Lathe Machine Be, Size II-Lahore کی قیمت 22507.50 روپے تھی۔ 1974-75 تک یہی مشین 29650.00 روپے کی ہو گئی تھی۔ اور Bed Ford Truck Chasis MJ6LZ5 کراچی میں 1970-71 میں 62260.50 روپے کا تھا۔ اس کے بعد 90625.00 روپے کا ہوگیا۔
جس ملک کی کرنسی کی قیمت کاغذی ڈالر کے مقابلے کم کی جاتی ہے۔ اسی نسبت فی صد سے وہ کرنسی اپنی قدر کھو دیتی ہے، اگر کسی ملک کی کرنسی کی قیمت ایک ڈالر کے مقابلے 100 فیصد ہو جاتی ہے، کرنسی سے جڑی تمام اشیا 100 فیصد کی نسبت سے مہنگی ہو جاتی ہیں۔
1970ء میں آٹا 0.42 پیسے فی کلو، دودھ 0.70 پیسے فی لیٹر، بڑا گوشت 1.50 فی کلو گرام۔ 1971-72ء میں آٹا 1.50 روپے فی کلوگرام، دودھ فی لیٹر 3.00 روپے، بڑا گوشت 3.00 روپے فی کلوگرام مہنگا ہو گیا تھا۔ دوسری طرف امریکا آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے پسماندہ خام وسائل سے بھرپور ملکوں کے خام مال کو اپنے اور سامراجیوں کے کنٹرول میں کرنے کے لیے CDMED لگاتا گیا۔ جس سے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے معاشی غلام ملکوں میں جگہ بنانی شروع کر دی۔ کتاب Pakistan Economic Survey 2014-15ء کے صفحہ 101 پر تجارتی اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2013-14ء کو 20 کھرب 47 ارب 5 کروڑ 80 لاکھ روپے تجارتی خسارہ ہوا۔ (جس کی ڈالر میں قیمت 19 ارب 96 کروڑ30 لاکھ ڈالر تھی) یعنی 102.542 روپے کا ایک ڈالر تھا۔
پاکستانی معیشت کو جولائی 1955ء کو CDMED کا جھٹکا دے کر IMF نے بجٹ اور تجارت کو خسارے میں بدلا تھا اور لگاتار ہر حکومت کے دور میں روپے کی قیمت میں کمی کی جاتی رہی ہے۔ جس سے بجٹ اور تجارت مستقلاً خسارے کا شکار ہوتے گئے۔ خساروں میں دھکیل کر امریکا نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضے لینے پر اکسایا۔ متذکرہ کتاب کے صفحے 1520 پر قرضوں کی تفصیل دی گئی ہے۔
2014 میں غیر ملکی قرضہ 50 کھرب 76 ارب روپے تھا۔ متذکرہ کتاب کے صفحے 60 پر عوام سے حکومت نے بجٹ میں غیر ملکی قرضے کی وصولی 3 کھرب 87 ارب 9 کروڑ 20 لاکھ روپے کی تھی۔ حکومت عوام سے روپے کی شکل میں قرضے کی ادائیگی وصول کرتی ہے اور ان روپوں کو ڈالر میں تبدیل کر کے بیرونی ادائیگی کرتی ہے۔ جوں جوں کسی ملک کی معیشت میں CDMED لگتا ہے توں توں اس ملک کی معیشت کا بہاؤ سامراجی ملکوں کی طرف ہوتا رہتا ہے۔ آج پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں الگ عوامی سرمایہ اپنے اپنے ملکوں کو بھیج رہی ہیں۔
باہر سے زیادہ آنے والی امپورٹڈ اشیا عوام کا سرمایہ نفع کی شکل میں باہر لے جا رہی ہیں۔ دوسری طرف سامراجی قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ عوام کی قوت خرید پر ڈالا جاتا ہے۔ کتاب International Debt Statistics 2016 by World Bankء کے صفحہ 108 پر 2014ء میں پاکستان پر قرضہ 62184.0 ملین ڈالر تھا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنے ملکوں کو 3118.0 ملین ڈالر 2014ء میں اپنے ملکوں کو بھیجے تھے اور مالی سال 2013-14ء کو امپورٹ پر 19963.0 ملین ڈالر کا بوجھ عوام نے ادا کیا تھا۔ اس طرح معاشی غلام ملکوں کے عوام کی قوت خرید پر سامراجی قرضوں کی ادائیگی اور امپورٹ پر ادائیگی کا بوجھ محض روپے کی قیمت میں کمی کی وجہ سے بڑا ہوا ہے۔
جون 1955ء کو 3.340 روپے کا ڈالر تھا۔ 2013-14ء دسمبر میں 106.8910 روپے کا ڈالر کر دیا گیا۔ روپے کی قیمت میں کمی 3100 فیصد کر دی گئی۔ یعنی پاکستانیوں کی معاشی ترقی کو سامراجی ایجنٹوں نے سامراجی اشارے پر 3100 فیصد پیچھے دھکیل دیا۔ وہ ممالک جو امریکا سے کرنسی وار لڑ رہے تھے امریکا نے ان ملکوں کو پوری دنیا کے ملکوں کو معاشی غلام بنانے میں اپنے ساتھ شامل کرلیا اور یہ ممالک آئی ایم ایف و دیگر عالمی پلیٹ فارمز سے معاشی غلام ملکوں کو کاغذی ڈالروں کے قرضے بھی دے رہے ہیں۔
جنکا ٹوٹل 43 کھرب 72 ارب 70 کروڑ ڈالر (4372700.0 ملین ڈالر) بنتا ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ 21 پر آئی ایم ایف نے 2013 کو 5506400.0 ملین ڈالر کی قرض ادائیگی کا بوجھ معاشی غلام ملکوں پر دکھایا گیا ہے۔ جی سیون گروپ نے زیادہ دیا اور امریکا معاشی غلام ملکوں کی کرنسیوں کو CDMED سے شکار کرتا ہے۔ زخمی کرنسیاں گرتی ہیں۔
جی سیون گروپ کی ملٹی نیشنل کمپنیاں CDMED کے ذریعے کم ہونے والی کرنسیوں کی قیمتوں کا فائدہ چند کروڑ ڈالر لگا کر مقامی کرنسی اربوں، کھربوں کی پراپرٹی، خام مال اور سستی لیبر حاصل کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے مقامی صنعتی کلچر کو ختم کر رہی ہیں۔ اسی سال سامراجی ملکوں نے معاشی غلام ملکوں میں 626900.0 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ یعنی 29 فیصد نفع ان کمپنیوں نے حاصل کیا تھا۔ معاشی غلام ملکوں کے عوام کے ساتھ یہ المیہ ہے کہ مالیاتی حقائق کو اشرافیہ جب اشرافیائی جمہوریت کے عوام کو ''جمہوری غلام'' بنا لیتی ہیں تو سامراج کی ہم نوائی میں حقائق کو چھپاتی ہے۔ سامراجی پلان ہے کہ زیادہ سے زیادہ کاغذی ڈالروں کا جو سامراجیوں نے معاشی غلام ملکوں میں پھیلائے گئے ہیں ان کی نکاسی ہوتی رہے۔
جنوری 1934ء کو امریکا نے 20.67 ڈالر سے 35.00 ڈالر فی اونس سونا کر کے کاغذی ڈالر کا بوجھ امریکی حکومت پر پڑنے سے روک لیا تھا۔ 15 اگست 1971ء کو کاغذی ڈالروں کے عوض سونے کی ادائیگی پر پابندی لگا دی تھی۔ امریکا اور یورپی ملکوں خاص طور پر سیون گروپ جس میں میں امریکا بھی شامل ہے انھوں نے مل کر پوری دنیا کی معیشت کو کاغذی ڈالروں کا قیدی بنا لیا۔ معاشی غلام ملکوں کے حکمران فوجی جنرل ہوں یا سیاسی اشرافیہ ہو۔ (جاری ہے)