کڑے احتساب کے لیے کوئی سنجیدہ نہیں
پانامہ پیپرز کے منظرِ عام پر آنا کیا ہوا کہ ایک حکمران ہی کیا ہر کوئی بے پردہ اور بے لباس ہو گیا۔
پانامہ پیپرز کے منظرِ عام پر آنا کیا ہوا کہ ایک حکمران ہی کیا ہر کوئی بے پردہ اور بے لباس ہو گیا۔ ملک کے اندر جتنی بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اِس وقت الزامات کی سیاسی جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں، سبھی کے دامن پر غیر قانونی ذرایع سے مال بنانے کے الزامات لگے ہوئے ہیں۔ اِن سب میں سے کوئی بھی جماعت بلاتفریق، کڑے اور بے رحم احتساب کا متحمل نہیں ہو سکتی۔
شومئی قسمت سے اگر ایسا ممکن ہو گیا تو یہ سب کی سب چیختی چلاتی دکھائی دیں گی۔ یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ سے یہ سنجیدہ اور یکسو ہو کر اُس جانب پیشرفت کرنے کی بجائے اُس سے بچنے کے لیے حیلے بہانے تلاش کرتی پھر رہی ہیں۔ پانامہ لیکس پر تحقیقات کرنے کے لیے بات ایف آئی اے سے شروع ہوئی اور پھر سپریم کورٹ سے ہوتی ہوئی نیب اور وزیرِاعظم کے پارلیمنٹ میں آنے پر موقوف ہو کر رہ گئی۔
پھر بات پھر سات سے ستر سوالوں تک پہنچ گئی۔ لگتا ہے معاملہ تحقیقات کا نہیں معاملہ صر ف اپنے آپ کو بچانے کا ہے۔ سیاست کے اِس حمام میں سارے ہی ننگ دھڑنگ اور یک رنگ ہیں۔ کسی نے ٹیکس بچا کر جائیدادیں بنائیں تو کسی نے بینکوں سے بے تحاشہ قرضے لے کر کارخانے اور ملیں لگائیں۔ کسی نے کک بیکس اور کمیشن کے ذریعے سمندر پار محلات اور پر تعیش فلیٹس خریدے تو کسی نے منی لانڈرنگ کر کے آف شور کمپنیاں بنائیں۔ بیرونِ ملک بڑی بڑی جائیدادیں رجسٹرڈ کرانے کا الزام ہمارے دیگر بظاہر نیک اور پارسا سیاست دانوں پر بھی لگا ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات اِسی پر لگے۔ اِس جماعت کا سابقہ دور تو سارا کا سارا ایسے ہی الزاموں سے بھر ا پڑا ہے۔ اِس کے علاوہ اِس دور سے پہلے والے دو بے نظیر ادوار بھی کرپشن اور کک بیکس کے الزامات سے لبریز رہ چکے ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی اِس جماعت کا طرہ امیتاز بن چکا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ2013ء کے انتخابات میں عوام نے انھیں وفاق میں حکمرانی سے محروم کر دیا اور پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔
لیکن یہاں بھی اُس نے اپنا وہی طرز عمل جاری رکھا۔ سندھ اِس وقت ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں کوئی بھی عوامی بھلائی کا میگا پروجیکٹ یا ترقیاتی کام نہیں ہو رہا۔ فنڈز مخصوص تو کیے جاتے ہیں لیکن سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے کسی کو پتہ نہیں۔ اِس صوبے کے لوگوں کی حالت انتہائی ناگفتہ با ہے۔ اُن کی مشکل یہ ہے کہ جب اُن کی کرپشن کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا جائے تو یہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ دلیر اور بہادر اتنے ہیں کہ ایک اشتعال انگیز اور جذباتی تقریر کر کے وطنِ عزیز سے ایسے فرار ہوتے ہیں کہ سال ہو گیا اب تک واپس آنے کا نام نہیں لیتے۔ اب بھلا وہ کس منہ سے کڑے اور بے رحم احتساب کے لیے خود کو پیش کرنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
یہی حال کچھ دیگر سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے کرتا دھرتاؤں پر بڑے بڑے قرضے لے کر معاف کروانے کے ناقابلِ تردید الزامات ہیں۔ مونس الٰہی کی ایک آف شور کمپنی بھی نکل آئی ہے۔ ملک میں پہلے نائب وزیرِاعظم کا عہدہ بھی اُنہی کی جماعت کے لیے ترتیب دیا گیا۔
اب آئیے تحریکِ انصاف کی جانب جس کا چیئرمین اپنی پاکدامنی کا ڈھنڈورا تو ہر روز پیٹتا رہتا ہے، لیکن یہ کیسا متقی پرہیزگار رہنما ہے کہ جو خود تو کرپشن اور بدعنوانی سے شاید اِس لیے مبرا رہا لیکن پارٹی کے مالی معاملات کو چلانے اور بنی گالہ کے شاہانہ اخراجات کے لیے اُسے ہر وہ شخص پیارا اور اچھا لگتا ہے جو اُس پر کروڑوں روپے نچھاور کرتا رہے۔
اُس کے دھرنوں اور جلسوں کا خرچ اُٹھاتا رہے۔ ایسے افراد کو احتساب سے بچانے کے لیے وہ سب کچھ کرنے تو تیار ہے۔ کوئی مستقل ذریعہ آمدنی بھی نہیں ہے لیکن شاہانہ اخراجات کا اگر اُس سے حساب مانگا جائے تو وہ کہتا پھرے کہ یہ کا م تو حکومت کا ہے کہ وہ پتہ لگائے کہ میرے اخراجات کون پورے کر رہا ہے۔ اگر میں مجرم ہوں تو حکومت مجھے گرفتار کیوں نہیں کرتی۔
پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے حوالے سے ہمارے سیاسی رہنماء درست اور صحیح سمت میں بڑھنے کی بجائے آپس کی چپقلش اور الزام تراشیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اُن کی پوری کوشش یہی ہے کہ یہ معاملہ اِسی طرح وقت اور تاریخ کے دھندلکوں میں کہیں گم ہو جائے اور کسی کے خلاف بھی کوئی تحقیقات منطقی انجام تک نہ پہنچ پائے۔ وہ مل بیٹھ کر ٹی آر اوز بنانے کی بجائے حریفانہ مہم جوئی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ڈیڑھ ما ہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود معاملہ ابھی تک وہیں کا وہیں رکا ہوا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اگر اپوزیشن کھلے دل سے کرپشن اور مالی بدعنوانی کا خاتمہ چاہتی ہے تو کرپشن کی ہر قسم اور نوع کا سدِباب کرنا ہو گا خواہ اُس کی زد میں کک بیکس، کمیشن اور قرضے لے کر ہڑپ کرنے والے ہی کیوں نہ آئیں۔
مگر اپوزیشن تحقیقات کو صرف اور صرف پانامہ لیکس تک ہی محدود رکھنا چاہتی ہے۔ حکومت کا یہ موقف اِس لحاظ سے درست اور صحیح معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم واقعی اِس ملک سے بدعنوانی کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں تو پھر ہر طرح کی کرپشن کا سدِباب کرنا ضروری ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آف شور کمپنی رکھنے والا تو کڑے اور بے رحم احتساب کے شکنجے میں جکڑا جائے اور کک بیکس، کمیشن اور قرضے لے کر خود کو دیوالیہ ظاہر کرنے والے دندناتے پھریں۔ اگر احتساب ہو تو سب کا بے لاگ اور بلاامتیاز و تفریق ہو۔ کوئی بھی شخص محترم اور مقدس نہ قرار پائے۔ کسی کو بھی کوئی آئینی یا دستوری استثناء حاصل نہ ہو۔ اِس کے لیے حکمرانوں اور اپوزیشن رہنماؤں کو مل بیٹھ کر اِس سلسلے میں سارے اُمور طے کرنے ہونگے۔
یوں بس پارلیمنٹ میں یا پارلیمنٹ سے باہر تقاریر کرنے یا بیان بازی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ ہمیں اپنے اِن تباہ کن رویوں کے نتائج کا شعور و ادراک کرنا ہو گا۔ باہم دست و گریباں ہو کر ہم یونہی شکست و ناتوانی کا شکار تو ہو سکتے ہیں لیکن عوام کی نظروں میں سربلند اور سرخرو نہیں ہو سکتے بلکہ خوامخواہ اپنی ناکامیوں اور رسوائیوں کا سامان پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے اِس طرز عمل پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں اور سوچیں کہ عافیت اور سلامتی کا راستہ کون سا ہے۔ پارلیمنٹ کی عزت و توقیر میں اضافے کی بجائے اُسے طنز و استہزاء کا نشانہ نہ بننے دیں۔
کسی تیسری قوت کی جانب سے آج اگر پارلیمنٹ کا دھڑن تختہ کر دیا جاتا ہے تو صرف میاں نواز شریف ہی مشکل میں نہیں پھنسیں گے بلکہ تمام افراد ہی کڑے اور سخت احتساب کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے۔
پھر یہ احتساب نجانے کتنے سالوں پر محیط ہو کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ میاں صاحب تو تین بار وزیرِاعظم کا منصب سنبھال کر اپنی حسرتیں پوری کر چکے ہیں، لیکن جو اِس عہدے کی طلب اور خواہش میں آج کل انتہائی مضطرب اور بے چین دکھائی دیتے ہیں انھیں شاید پھر اپنی حسرتیں پوری کرنے کا موقعہ نہ مل پائے۔ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ نئے غیر جمہوری حکمراں انھیں اقتدار تھالی میں رکھ کر مرہمت فرما دیں گے تو وہ شاید بہت ہی بڑی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ نو دس سال بعد نجانے پھر کون کہاں کھڑا ہوتا ہے کسے معلوم ''کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔''
شومئی قسمت سے اگر ایسا ممکن ہو گیا تو یہ سب کی سب چیختی چلاتی دکھائی دیں گی۔ یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ سے یہ سنجیدہ اور یکسو ہو کر اُس جانب پیشرفت کرنے کی بجائے اُس سے بچنے کے لیے حیلے بہانے تلاش کرتی پھر رہی ہیں۔ پانامہ لیکس پر تحقیقات کرنے کے لیے بات ایف آئی اے سے شروع ہوئی اور پھر سپریم کورٹ سے ہوتی ہوئی نیب اور وزیرِاعظم کے پارلیمنٹ میں آنے پر موقوف ہو کر رہ گئی۔
پھر بات پھر سات سے ستر سوالوں تک پہنچ گئی۔ لگتا ہے معاملہ تحقیقات کا نہیں معاملہ صر ف اپنے آپ کو بچانے کا ہے۔ سیاست کے اِس حمام میں سارے ہی ننگ دھڑنگ اور یک رنگ ہیں۔ کسی نے ٹیکس بچا کر جائیدادیں بنائیں تو کسی نے بینکوں سے بے تحاشہ قرضے لے کر کارخانے اور ملیں لگائیں۔ کسی نے کک بیکس اور کمیشن کے ذریعے سمندر پار محلات اور پر تعیش فلیٹس خریدے تو کسی نے منی لانڈرنگ کر کے آف شور کمپنیاں بنائیں۔ بیرونِ ملک بڑی بڑی جائیدادیں رجسٹرڈ کرانے کا الزام ہمارے دیگر بظاہر نیک اور پارسا سیاست دانوں پر بھی لگا ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات اِسی پر لگے۔ اِس جماعت کا سابقہ دور تو سارا کا سارا ایسے ہی الزاموں سے بھر ا پڑا ہے۔ اِس کے علاوہ اِس دور سے پہلے والے دو بے نظیر ادوار بھی کرپشن اور کک بیکس کے الزامات سے لبریز رہ چکے ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی اِس جماعت کا طرہ امیتاز بن چکا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ2013ء کے انتخابات میں عوام نے انھیں وفاق میں حکمرانی سے محروم کر دیا اور پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔
لیکن یہاں بھی اُس نے اپنا وہی طرز عمل جاری رکھا۔ سندھ اِس وقت ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں کوئی بھی عوامی بھلائی کا میگا پروجیکٹ یا ترقیاتی کام نہیں ہو رہا۔ فنڈز مخصوص تو کیے جاتے ہیں لیکن سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے کسی کو پتہ نہیں۔ اِس صوبے کے لوگوں کی حالت انتہائی ناگفتہ با ہے۔ اُن کی مشکل یہ ہے کہ جب اُن کی کرپشن کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا جائے تو یہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ دلیر اور بہادر اتنے ہیں کہ ایک اشتعال انگیز اور جذباتی تقریر کر کے وطنِ عزیز سے ایسے فرار ہوتے ہیں کہ سال ہو گیا اب تک واپس آنے کا نام نہیں لیتے۔ اب بھلا وہ کس منہ سے کڑے اور بے رحم احتساب کے لیے خود کو پیش کرنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
یہی حال کچھ دیگر سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے کرتا دھرتاؤں پر بڑے بڑے قرضے لے کر معاف کروانے کے ناقابلِ تردید الزامات ہیں۔ مونس الٰہی کی ایک آف شور کمپنی بھی نکل آئی ہے۔ ملک میں پہلے نائب وزیرِاعظم کا عہدہ بھی اُنہی کی جماعت کے لیے ترتیب دیا گیا۔
اب آئیے تحریکِ انصاف کی جانب جس کا چیئرمین اپنی پاکدامنی کا ڈھنڈورا تو ہر روز پیٹتا رہتا ہے، لیکن یہ کیسا متقی پرہیزگار رہنما ہے کہ جو خود تو کرپشن اور بدعنوانی سے شاید اِس لیے مبرا رہا لیکن پارٹی کے مالی معاملات کو چلانے اور بنی گالہ کے شاہانہ اخراجات کے لیے اُسے ہر وہ شخص پیارا اور اچھا لگتا ہے جو اُس پر کروڑوں روپے نچھاور کرتا رہے۔
اُس کے دھرنوں اور جلسوں کا خرچ اُٹھاتا رہے۔ ایسے افراد کو احتساب سے بچانے کے لیے وہ سب کچھ کرنے تو تیار ہے۔ کوئی مستقل ذریعہ آمدنی بھی نہیں ہے لیکن شاہانہ اخراجات کا اگر اُس سے حساب مانگا جائے تو وہ کہتا پھرے کہ یہ کا م تو حکومت کا ہے کہ وہ پتہ لگائے کہ میرے اخراجات کون پورے کر رہا ہے۔ اگر میں مجرم ہوں تو حکومت مجھے گرفتار کیوں نہیں کرتی۔
پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے حوالے سے ہمارے سیاسی رہنماء درست اور صحیح سمت میں بڑھنے کی بجائے آپس کی چپقلش اور الزام تراشیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اُن کی پوری کوشش یہی ہے کہ یہ معاملہ اِسی طرح وقت اور تاریخ کے دھندلکوں میں کہیں گم ہو جائے اور کسی کے خلاف بھی کوئی تحقیقات منطقی انجام تک نہ پہنچ پائے۔ وہ مل بیٹھ کر ٹی آر اوز بنانے کی بجائے حریفانہ مہم جوئی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ڈیڑھ ما ہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود معاملہ ابھی تک وہیں کا وہیں رکا ہوا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اگر اپوزیشن کھلے دل سے کرپشن اور مالی بدعنوانی کا خاتمہ چاہتی ہے تو کرپشن کی ہر قسم اور نوع کا سدِباب کرنا ہو گا خواہ اُس کی زد میں کک بیکس، کمیشن اور قرضے لے کر ہڑپ کرنے والے ہی کیوں نہ آئیں۔
مگر اپوزیشن تحقیقات کو صرف اور صرف پانامہ لیکس تک ہی محدود رکھنا چاہتی ہے۔ حکومت کا یہ موقف اِس لحاظ سے درست اور صحیح معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم واقعی اِس ملک سے بدعنوانی کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں تو پھر ہر طرح کی کرپشن کا سدِباب کرنا ضروری ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آف شور کمپنی رکھنے والا تو کڑے اور بے رحم احتساب کے شکنجے میں جکڑا جائے اور کک بیکس، کمیشن اور قرضے لے کر خود کو دیوالیہ ظاہر کرنے والے دندناتے پھریں۔ اگر احتساب ہو تو سب کا بے لاگ اور بلاامتیاز و تفریق ہو۔ کوئی بھی شخص محترم اور مقدس نہ قرار پائے۔ کسی کو بھی کوئی آئینی یا دستوری استثناء حاصل نہ ہو۔ اِس کے لیے حکمرانوں اور اپوزیشن رہنماؤں کو مل بیٹھ کر اِس سلسلے میں سارے اُمور طے کرنے ہونگے۔
یوں بس پارلیمنٹ میں یا پارلیمنٹ سے باہر تقاریر کرنے یا بیان بازی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ ہمیں اپنے اِن تباہ کن رویوں کے نتائج کا شعور و ادراک کرنا ہو گا۔ باہم دست و گریباں ہو کر ہم یونہی شکست و ناتوانی کا شکار تو ہو سکتے ہیں لیکن عوام کی نظروں میں سربلند اور سرخرو نہیں ہو سکتے بلکہ خوامخواہ اپنی ناکامیوں اور رسوائیوں کا سامان پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے اِس طرز عمل پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں اور سوچیں کہ عافیت اور سلامتی کا راستہ کون سا ہے۔ پارلیمنٹ کی عزت و توقیر میں اضافے کی بجائے اُسے طنز و استہزاء کا نشانہ نہ بننے دیں۔
کسی تیسری قوت کی جانب سے آج اگر پارلیمنٹ کا دھڑن تختہ کر دیا جاتا ہے تو صرف میاں نواز شریف ہی مشکل میں نہیں پھنسیں گے بلکہ تمام افراد ہی کڑے اور سخت احتساب کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے۔
پھر یہ احتساب نجانے کتنے سالوں پر محیط ہو کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ میاں صاحب تو تین بار وزیرِاعظم کا منصب سنبھال کر اپنی حسرتیں پوری کر چکے ہیں، لیکن جو اِس عہدے کی طلب اور خواہش میں آج کل انتہائی مضطرب اور بے چین دکھائی دیتے ہیں انھیں شاید پھر اپنی حسرتیں پوری کرنے کا موقعہ نہ مل پائے۔ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ نئے غیر جمہوری حکمراں انھیں اقتدار تھالی میں رکھ کر مرہمت فرما دیں گے تو وہ شاید بہت ہی بڑی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ نو دس سال بعد نجانے پھر کون کہاں کھڑا ہوتا ہے کسے معلوم ''کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔''