منزل چاہیے تو سب سے پہلے نیت کو ’خالص‘ کیجیے
بھلا ہو لوڈشیڈنگ کا جسکی وجہ سے کروڑوں لوگوں تک ٹی وی پروگرام پہنچ نہیں پاتے، ورنہ انقلاب تو کیا قیامت تک رونما ہوجائے
یہ نااہلی ہے، ہٹ دھرمی ہے یا پھر دانستہ نہ سمجھنے کی روش، ہمارے ہاں حقیقت بہت ہی مظلوم جنس ہے۔ ہر کوئی مرضی کا لباس پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ محض کوشش ہی ہوتی تو شاید ردعمل نہ دیا جاتا مگر یہاں تو باقاعدہ اصرار کیا جاتا ہے کہ آپ میری بیان کی گئی حقیقت کو ہی قبول کریں اور جو میں نے بیان کردیا ہے یہ مکمل طور پر ناقابل تردید ہے۔ حالانکہ اگر ایسی پیشگوئیاں کرتے ان نجومیوں سے یہ سوال کر بھی لیا جائے کہ آپ کی گزشتہ پیشگوئیاں بُری طرح پٹ گئی ہیں اور یہ کہ آپ مزید قابل اعتبار نہیں رہے ہیں۔ بس اگر یہ بقراط سوشل میڈیا پر ہوں تو فوری 'بلاک' کا ہتھیار آزماتے ہیں اور محلے وغیرہ میں ہوں تو کسی نہ کسی واقعے میں ملوث ثابت کرکے بے توقیر کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اس تمہید کے بعد میں آپ کو ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کو بھی میری بات سے اتفاق کرنا ہی کرنا ہے اور میرے ہی سچ کو مکمل سچ تسلیم کرنا ہے، بلکہ میری یہ تمام معلومات اندازے اور قیاس پر مشتمل ہیں۔ آپ کو کہیں پر لگے کہ میں کچھ ٹھونسنے کی کوشش کر رہا ہوں تو آپ نشاندہی کر کے شکریہ کا موقع دے سکتے ہیں۔
تاریخ یوں تو ماضی کے رویوں کا قبرستان ہوتی ہے اور اس سے کچھ بھی برآمد نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی اس پر بہت زیادہ تفاخر مناسب اور نہ ہی اس کے مظالم پر آنسوں بہانے سے کچھ حاصل ہوتا ہے۔ تاریخ کا اصل مصرف یہی ہے کہ ہم اس سے سبق سیکھیں اور مختلف رحجانات کی سمت کا جائزہ لیں۔ ہمارا ریاستی نظریہ مختلف نوعیت کا ہے اور ہم نے تقسیم ہندوستان سے قبل کی تمام تاریخ سے خود کو کنارے کرلیا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ثقافتی حوالے سے ایک قدیم تشخص رکھتے ہیں لیکن تاریخی حوالے سے ہم نومولود نہ سہی تو کوئی عمر رسیدہ بھی نہیں ہیں۔ یہاں انقلاب کی خواہش ایک زمانے سے موجود ہے اور اکثر اوقات باسی کڑی میں ابال آتے رہتے ہیں۔ بے شمار تحریکیں یہاں ظہور پذیر اور اپنے نشان چھوڑ کر گئی ہیں۔ زیادہ تفصیل سے اجتناب برتوں گا، بس تین مشہور تحاریک کا مختصر جائزہ اور پھر موجودہ انقلاب کی بابت چند گزارشات پیش کروں گا۔
تحریک پاکستان ہماری پہلی کامیاب تحریک تھی جس نے نہ صرف ایک آزاد مملکت بخشی بلکہ یہ سبق بھی دیا ہے کہ عوام پر اعتماد کیا جائے تو یہ منزل کے حصول تک نہ صرف ہمہ وقت ساتھ چلنے کے لیے تیار رہتی ہے بلکہ قربانیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ معذرت چاہتا ہوں کہ قوم کی جگہ عوام کا لفظ استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسا کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ فخریہ پاکستانی نہیں ہیں بلکہ ہم کچھ اقرار کچھ انکار کے بعد پاکستانی ہیں۔ تحریک پاکستان کیوں کامیاب ہوئی؟ عام طور پر اِس کی اہم اور واحد فرق قیادت کا بتایا جاتا ہے، جو ٹھیک بھی ہے، لیکن میرے نزدیک فرق رویے کا ہے۔ عوام کو محنت کے لیے آمادہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ ایسا کرنے سے علیحدہ مملکت کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ قیادت سے لے کر عام آدمی تک سب اس پر راسخ یقین رکھتے تھے کہ تحریک علیحدہ وطن کے لئے ہے یعنی تحریک کا ظاہر اور باطن بہت حد تک یکساں تھا۔
دوسری تحریک جو کامیاب ٹھہری وہ تحریک ختم نبوت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وہاں بھی ایجنڈا اور محنت یکساں تھی تو نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ کہہ سکتے ہیں کہ شاید تقدس اس تحریک کی کامیابی کی وجہ بنا لیکن آنے والی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ تقدس سے زیادہ خلوص اور منافقت سے پاک ہونا کامیابی کی شرائط ہیں۔
اس کے بعد ایک اور تحریک شروع کی گئی جسے لوگ تحریک نظام مصطفی کے نام سے جانتے ہیں۔ تقدس کے اعتبار سے یہ پاکستان کی مقدس ترین تحریک کہی جا سکتی ہے۔ لیکن یہاں مقاصد اور عمل متصادم تھے۔ نظام مصطفی کا نفاذ خواہشات کے اندر ضرور موجود ہوا ہوگا لیکن عملی طور پر حکومت وقت سے چھٹکارا اور ان دیکھے مقاصد کی تکمیل بنیادی نظریہ تھا۔ اِس تحریک کی وجہ سے حکومت تو چلے گئی لیکن نظام مصطفی نافذ نہ ہوسکا بلکہ مستقبل قریب میں جو کچھ امیدیں باقی تھیں وہ بھی دم توڑ گئی ہیں۔
اب پاکستان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ فی زمانہ انقلاب کا کنبہ اس قدر زرخیز ہوگیا ہے کہ ہر صبح شام کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر رونمائی کے بلکل نزدیک پہنچ جاتا ہے۔ بھلا ہو حکومت کا، جس کی جانب سے فراہم کی جانے والی لوڈشیڈنگ کی نعمت کی بدولت وہ پروگرامز کروڑوں لوگوں تک پہنچنے میں ناکام رہ جاتے ہیں، ورنہ انقلاب تو کیا قیامت تک رونما ہوجائے۔ پرویز مشرف کے زمانے میں ایک مخصوص طبقے کو پاکستان کا چہرہ درست کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ ٹی وی چینلز پر خصوصی افراد کا یہ گروہ قابض ہوتا چلا گیا۔ چہرہ تو کیا درست ہونا تھا ہمارے چینلز کی رپورٹنگ دیکھ کر کئی غیر ملکی دوست پوچھتے ہیں کہ کیا پاکستان میں ایمرجنسی نافذ ہے۔ ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ شاید پاکستان میں زندہ رہنا صرف دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ چہرہ تو کیا درست ہونا تھا یوں سمجھیے کہ اس گھر کو آگ لگی ہے گھر کے چراغ سے والا معاملہ ہے۔
زبردستی انقلاب کی ساری کوششیں ان دنوں ناکامی سے ہم کنار ہو رہی ہیں۔ معماران انقلاب کو رسی ہاتھ نہیں آ رہی کہ جسے کھینچ کر انقلاب کی نقاب کشائی کردیں۔ پاناما لیکس کا ایک ہنگامہ خدا خدا کرکے ہاتھ آیا ہے اور اس پر پھر سے توقع کی جا رہی ہے کہ شاید امید بر آئے۔ میں پورے دعوے اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر نیت کرپشن کے نام پر حکومت گرانے کی ہوئی تو اس سے بھی عوام کے لئے کوئی خیر برآمد نہیں ہوگی۔ کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ حکومت چلے جانے سے ہمارے مسائل پیچیدہ تو ہوسکتے ہیں حل نہیں۔ مسائل کا ایک ہی علاج ہے کہ قانون سازی پر توجہ اور تمام اداروں کی جانب سے قانون کی حکمرانی کے لیے عملی کوشش کی جائے۔ اداروں اور سیاسی جماعتوں نے اپنی سی کوشش کرکے دیکھ لی ہے۔ سیدھی انگلی سے تو حکومت جاتی نہیں دکھائی دے رہی اور اگر ٹیڑھی کی گئی تو اس کی کوکھ سے کیا نتائج نکلیں گے اِس پر اندازے بھی نہیں لگائے جاسکتے۔ اس قضیے کا سردست حاصل یہ ہے کہ بہت سے اصولوں کے دعویدار بے نقاب ہو رہے ہیں۔ بہت سی سیاسی جماعتیں جو اپنے تئیں تقدس کی روئی میں لپٹی رہنے کی وجہ سے یہ قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہو رہی تھی کہ ان تعلق فرشتوں کی جماعت سے نہیں ہے۔ پاناما وہ ملک ہے جس کے بارے میں پاکستان کی اشرافیہ تو جانتی ہوگی لیکن عام لوگوں کو اس کی کوئی خبر نہیں تھی لیکن پانامہ لیکس کے بعد ان کی معلومات میں قیمتی اضافہ ہوا ہے۔ عام لوگوں کے لیے اس قسط میں اتنا ہی حصہ دکھائی دے رہا ہے باقی خواص کا تنازعہ ہے اور ہر کوئی عام کے لباس میں رونمائی چاہتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تاریخ یوں تو ماضی کے رویوں کا قبرستان ہوتی ہے اور اس سے کچھ بھی برآمد نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی اس پر بہت زیادہ تفاخر مناسب اور نہ ہی اس کے مظالم پر آنسوں بہانے سے کچھ حاصل ہوتا ہے۔ تاریخ کا اصل مصرف یہی ہے کہ ہم اس سے سبق سیکھیں اور مختلف رحجانات کی سمت کا جائزہ لیں۔ ہمارا ریاستی نظریہ مختلف نوعیت کا ہے اور ہم نے تقسیم ہندوستان سے قبل کی تمام تاریخ سے خود کو کنارے کرلیا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ثقافتی حوالے سے ایک قدیم تشخص رکھتے ہیں لیکن تاریخی حوالے سے ہم نومولود نہ سہی تو کوئی عمر رسیدہ بھی نہیں ہیں۔ یہاں انقلاب کی خواہش ایک زمانے سے موجود ہے اور اکثر اوقات باسی کڑی میں ابال آتے رہتے ہیں۔ بے شمار تحریکیں یہاں ظہور پذیر اور اپنے نشان چھوڑ کر گئی ہیں۔ زیادہ تفصیل سے اجتناب برتوں گا، بس تین مشہور تحاریک کا مختصر جائزہ اور پھر موجودہ انقلاب کی بابت چند گزارشات پیش کروں گا۔
تحریک پاکستان
تحریک پاکستان ہماری پہلی کامیاب تحریک تھی جس نے نہ صرف ایک آزاد مملکت بخشی بلکہ یہ سبق بھی دیا ہے کہ عوام پر اعتماد کیا جائے تو یہ منزل کے حصول تک نہ صرف ہمہ وقت ساتھ چلنے کے لیے تیار رہتی ہے بلکہ قربانیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ معذرت چاہتا ہوں کہ قوم کی جگہ عوام کا لفظ استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسا کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ فخریہ پاکستانی نہیں ہیں بلکہ ہم کچھ اقرار کچھ انکار کے بعد پاکستانی ہیں۔ تحریک پاکستان کیوں کامیاب ہوئی؟ عام طور پر اِس کی اہم اور واحد فرق قیادت کا بتایا جاتا ہے، جو ٹھیک بھی ہے، لیکن میرے نزدیک فرق رویے کا ہے۔ عوام کو محنت کے لیے آمادہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ ایسا کرنے سے علیحدہ مملکت کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ قیادت سے لے کر عام آدمی تک سب اس پر راسخ یقین رکھتے تھے کہ تحریک علیحدہ وطن کے لئے ہے یعنی تحریک کا ظاہر اور باطن بہت حد تک یکساں تھا۔
تحریک ختم نبوت
دوسری تحریک جو کامیاب ٹھہری وہ تحریک ختم نبوت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وہاں بھی ایجنڈا اور محنت یکساں تھی تو نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ کہہ سکتے ہیں کہ شاید تقدس اس تحریک کی کامیابی کی وجہ بنا لیکن آنے والی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ تقدس سے زیادہ خلوص اور منافقت سے پاک ہونا کامیابی کی شرائط ہیں۔
تحریک نظام مصطفی
اس کے بعد ایک اور تحریک شروع کی گئی جسے لوگ تحریک نظام مصطفی کے نام سے جانتے ہیں۔ تقدس کے اعتبار سے یہ پاکستان کی مقدس ترین تحریک کہی جا سکتی ہے۔ لیکن یہاں مقاصد اور عمل متصادم تھے۔ نظام مصطفی کا نفاذ خواہشات کے اندر ضرور موجود ہوا ہوگا لیکن عملی طور پر حکومت وقت سے چھٹکارا اور ان دیکھے مقاصد کی تکمیل بنیادی نظریہ تھا۔ اِس تحریک کی وجہ سے حکومت تو چلے گئی لیکن نظام مصطفی نافذ نہ ہوسکا بلکہ مستقبل قریب میں جو کچھ امیدیں باقی تھیں وہ بھی دم توڑ گئی ہیں۔
اب پاکستان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ فی زمانہ انقلاب کا کنبہ اس قدر زرخیز ہوگیا ہے کہ ہر صبح شام کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر رونمائی کے بلکل نزدیک پہنچ جاتا ہے۔ بھلا ہو حکومت کا، جس کی جانب سے فراہم کی جانے والی لوڈشیڈنگ کی نعمت کی بدولت وہ پروگرامز کروڑوں لوگوں تک پہنچنے میں ناکام رہ جاتے ہیں، ورنہ انقلاب تو کیا قیامت تک رونما ہوجائے۔ پرویز مشرف کے زمانے میں ایک مخصوص طبقے کو پاکستان کا چہرہ درست کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ ٹی وی چینلز پر خصوصی افراد کا یہ گروہ قابض ہوتا چلا گیا۔ چہرہ تو کیا درست ہونا تھا ہمارے چینلز کی رپورٹنگ دیکھ کر کئی غیر ملکی دوست پوچھتے ہیں کہ کیا پاکستان میں ایمرجنسی نافذ ہے۔ ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ شاید پاکستان میں زندہ رہنا صرف دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ چہرہ تو کیا درست ہونا تھا یوں سمجھیے کہ اس گھر کو آگ لگی ہے گھر کے چراغ سے والا معاملہ ہے۔
زبردستی انقلاب کی ساری کوششیں ان دنوں ناکامی سے ہم کنار ہو رہی ہیں۔ معماران انقلاب کو رسی ہاتھ نہیں آ رہی کہ جسے کھینچ کر انقلاب کی نقاب کشائی کردیں۔ پاناما لیکس کا ایک ہنگامہ خدا خدا کرکے ہاتھ آیا ہے اور اس پر پھر سے توقع کی جا رہی ہے کہ شاید امید بر آئے۔ میں پورے دعوے اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر نیت کرپشن کے نام پر حکومت گرانے کی ہوئی تو اس سے بھی عوام کے لئے کوئی خیر برآمد نہیں ہوگی۔ کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ حکومت چلے جانے سے ہمارے مسائل پیچیدہ تو ہوسکتے ہیں حل نہیں۔ مسائل کا ایک ہی علاج ہے کہ قانون سازی پر توجہ اور تمام اداروں کی جانب سے قانون کی حکمرانی کے لیے عملی کوشش کی جائے۔ اداروں اور سیاسی جماعتوں نے اپنی سی کوشش کرکے دیکھ لی ہے۔ سیدھی انگلی سے تو حکومت جاتی نہیں دکھائی دے رہی اور اگر ٹیڑھی کی گئی تو اس کی کوکھ سے کیا نتائج نکلیں گے اِس پر اندازے بھی نہیں لگائے جاسکتے۔ اس قضیے کا سردست حاصل یہ ہے کہ بہت سے اصولوں کے دعویدار بے نقاب ہو رہے ہیں۔ بہت سی سیاسی جماعتیں جو اپنے تئیں تقدس کی روئی میں لپٹی رہنے کی وجہ سے یہ قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہو رہی تھی کہ ان تعلق فرشتوں کی جماعت سے نہیں ہے۔ پاناما وہ ملک ہے جس کے بارے میں پاکستان کی اشرافیہ تو جانتی ہوگی لیکن عام لوگوں کو اس کی کوئی خبر نہیں تھی لیکن پانامہ لیکس کے بعد ان کی معلومات میں قیمتی اضافہ ہوا ہے۔ عام لوگوں کے لیے اس قسط میں اتنا ہی حصہ دکھائی دے رہا ہے باقی خواص کا تنازعہ ہے اور ہر کوئی عام کے لباس میں رونمائی چاہتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔