امریکاکی دوستی دوسرا اور آخری حصہ
پاک امریکا تعلقات کی خوشگوار فضا میں ابتدا میں آنے والے تمام حکمرانوں نے اس تعلق کو مضبوط بنانے کے لیے جدوجہد کی
پاک امریکا تعلقات کی خوشگوار فضا میں ابتدا میں آنے والے تمام حکمرانوں نے اس تعلق کو مضبوط بنانے کے لیے جدوجہد کی۔ برطانوی نو آبادیات سے ابھرنے والی بیورو کریسی نے بھی اپنا رشتہ ہمیشہ واشنگٹن سے جوڑا۔ ایوب خان نے جب مارشل لاء لگایا اور سیاسی حکومت کو چلتا کیا تو بھی پاک امریکا تعلقات میں کوئی تبدیلی نہ آئی جس سے ان شبہات کو تقویت ملی کہ یہ پیش رفت بھی امریکا کے ایماء پر ہوئی ہے۔
ایوب خان نے سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین کے مقابلے میں امریکا کا ساتھ دینے کے لیے سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں شرکت کر لی تو پاکستان کے لیے مختلف قسم کی امداد کے دروازے کھل گئے اور ہر جگہ تھینک یو امریکا کی صدائیں آنے لگیں مگر یہ سیاسی ہنی مون بھی زیادہ دیر نہ چل سکا۔ ایوب خان جب امریکا کے پہلے دورے پر گئے۔
ان کا استقبال تو شاندار ہوا مگر یہ پہلا دورہ ہی ناکامی سے دوچار ہوا۔ بھارت کے مقابلے میں 65ء کی جنگ میں امریکا نے کوئی خاص مدد نہ کی۔ امریکا نے پاک فضائیہ میں استعمال ہونے والے طیاروں کے اسپیئر پارٹس اور دیگر جنگی سامان کی ترسیل بند کر دی تاکہ یہ اسلحہ کسی طرح بھارت کے خلاف جنگ میں استعمال نہ ہو جس سے تنگ آکر ایوب خان نے امریکا کے بارے میں کہا کہ پاکستان کو آقا کی نہیں دوست کی ضرورت ہے اور اس پس منظر میں انھوں نے اسی نام سے ایک کتاب بھی تحریر کی۔ امریکا کی سرد مہری دیکھتے ہوئے ایوب خان نے صدارتی انتخاب کرانے کا اعلان کیا۔ ایوب خان کے سرد رویے کی وجہ سے تبدیلی ناگزیر ہو گئی اور مبینہ طور پر ایک ایسی تحریک چلی جس کے بارے میں ایوب کے ساتھیوں کا خیال تھا یہ ایک سازش ہے۔
یحییٰ خان کے دور میں بھی ایوان اقتدار میں امریکا کی مہمان نوازی کا رجحان غالب رہا۔ مشرقی پاکستان کی کہانی یحییٰ خان کے دور میں ہی لکھی گئی۔آٹھواں بحری بیڑا مدد کو نہ آیا اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان نے امریکا کے لیے بہت سی خدمات سرانجام دیں جن میں ہنری کسنجر کا خفیہ دورۂ چین بھی شامل تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں تعلقات نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے خراب ہوئے۔ بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی جو دھمکی دی گئی تھی وہ مکمل بھی ہوئی۔ جن دنوں بھٹو کے خلاف ملک میں تحریک چل رہی تھی، بھٹو کو اندازہ تھاکہ ان کی مخالف جماعتیں ان کو ہٹانے کے لیے ڈالرز استعمال کر رہی ہیں۔
بھٹو کو جانا پڑا لیکن پاک امریکا تعلقات کا اگلا دور 1979ء میں اس وقت شروع ہوا جب افغانستان میں سوویت یونین کی یلغار اتنی شدید ہو گئی کہ واشنگٹن کو اپنے تعلقات ایک بار پھراسلام آباد کے ساتھ مضبوط کرنا پڑے۔ روس افغانستان سے شکست کھانے کے بعد نکل گیا ،پھر کچھ عرصے کے بعد طالبان کابل پر حکمرانی کرنے لگے۔ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر او آئی سی کا جو خصوصی اجلاس ہوا اس میں طالبان کے نمایندے بھی شامل تھے۔ 12اکتوبر کو پرویز مشرف اقتدار میں آئے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ امریکی نائب وزیر خارجہ آرمٹیج نے پرویز مشرف کو دھمکی دی تھی آپ فیصلہ کریں کہ کس کے ساتھ ہیں۔ مشرف نے امریکا کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ۔
پرویز مشرف نے اسی موقع پر سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا۔ 19ستمبر 2001ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اپنی چار ترجیحات کا اعلان کیا جس میں ملکی حفاظت اور سالمیت، نیوکلیئر اور میزائل اسٹرٹیجک اثاثے اور کشمیر کاز کو سب سے پہلے شامل کیا۔ مشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا پہلے پاکستان کی سلامتی پھر کچھ اور۔ مشرف نے جتنی خدمات امریکا کے لیے سرانجام دیں، اس کے باوجود انھیں ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ مشرف دور میں پاکستان دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہا۔ مشرف پر دو باراور وزیراعظم شوکت عزیز پر ایک خودکش حملہ ہوا۔ مشرف امریکا کا سب سے بڑا دوست، اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ وہ اسے یوں تنہا چھوڑ دے گا۔ سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو چکا تھا اور مشرف کو استعفیٰ دینا پڑا جس میں امریکا آشیرباد حاصل تھی۔
مشرف کی جگہ پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو پاک امریکا تعلقات اوپن سے زیادہ پوشیدہ نظر آئے۔ بلیک واٹر جیسی تنظیموں کا پاکستان میں متحرک ہونا بھی سوالیہ نشان تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کے ایشو سے لے کر کتنے ہی معاملات تھے جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سب اچھا والے نہیں تھے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں پاک امریکا تعلقات کا سب سے بڑا یوٹرن 2 مئی 2011ء کا تھا جب اسامہ بن لادن ایک خفیہ آپریشن کے نتیجے میں ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ میں مارے گئے۔ جس کے بعد ایبٹ آباد آپریشن کے مرکزی کردار شکیل آفریدی کی گرفتاری سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ شکیل آفریدی نے پولیو ورکر کی حیثیت سے اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا جسے امریکا اپنا ہیرو سمجھتا ہے۔
اس کی رہائی اور پاکستان کے ایٹمی اثاثے اور حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ پاک امریکا تعلقات میں ایک بار پھر رخنہ کا باعث بن گیا ہے۔ ملا منصور کو جس طریقے سے مارا گیا ہے اس پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہا ہے۔ امریکا پاکستان کو دورکر رہا ہے مگر امریکا کو سمجھ لینا چاہیے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے تو پاکستان اس میں اپنا کردار ادا کرے گا اور کرتا رہا ہے۔ لیکن حکومت کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی خودمختاری کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی قیادت کو بہت زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے ۔