گھریلو زندگی
گھر ایک اہم ادارہ ہے۔ گھر کی بہترین تنظیم سے منظم معاشرے تشکیل پاتے ہیں
گھر ایک اہم ادارہ ہے۔ گھر کی بہترین تنظیم سے منظم معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔ گھر، مرد اور عورت مل کر چلاتے ہیں۔ ان کی ذمے داریاں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ دونوں، جسمانی ساخت، مزاج، رویوں اور اظہار میں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔
مرد حاکمیت پسند ہوتا ہے جب کہ عورت حساسیت کا نازک آئینہ ہے۔ کہیں معاملہ الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ بہرکیف رویوں میں توازن ہونا چاہیے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کو اپنے سوچ کے سانچے میں نہیں ڈھال سکتے۔ ایسا کرنے کی صورت میں دونوں کو سنگین نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں گھرکا یونٹ منتشر ہو رہا ہے۔ مشترکہ کنبے کا نظام غیر محسوس طور پر، انفرادی سوچ اور اکیلے گھروں میں تبدیل ہو رہا ہے۔
ایشیا کا مزاج اجتماعی سوچ اور شعور سے جڑا ہوا ہے۔ کچھ ملک آج بھی پرانے خطوط پر چل رہے ہیں اور کامیاب ہیں۔ ان کے خاندانی رابطے بہت مضبوط ہیں۔ ان ملکوں میں سری لنکا، تھائی لینڈ، چین، جاپان وغیرہ شامل ہیں۔ مشترکہ کنبے میں پلنے والے بچے، مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں، مسائل حل کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں، قدیم اصول فراموش کر دیے گئے ہیں۔سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ جب بھی سماج ثقافتی تبدیلی کے زیر اثر آتا ہے تو کچھ لوگ اس تبدیلی کو قبول کر لیتے ہیں، جب کہ کچھ احتجاج کرتے ہیں۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران کبھی نئے راستے نکل آتے ہیں۔ کچھ سنہری اصول اور روایتیں قوموں کی پہچان بن جاتے ہیں۔ جن سے پہلو تہی معاشرے کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ سمجھدار معاشرے اچھی روایتوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
سماجی تبدیلی ایک عالمگیر رویہ ہے۔ اسے کسی طور روکا نہیں جا سکتا۔ ان سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کے مختلف محرکات ہیں۔ جس میں آب و ہوا کی تبدیلی، صنعتی ترقی، گاؤں سے شہر میں منتقلی، ثقافتی نفاذ اور جدت وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا رویے بھی ان بڑی تبدیلیوں کے تحت بدلنے لگتے ہیں۔ مزاج پر آب و ہوا اور صنعتی ترقی کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔ مثال آج سے بیس پچیس سال پہلے لوگوں کے سماجی رابطے بحال تھے۔ فرصت کے وقت کو تعمیری انداز سے گزارا جاتا۔ جیسے باغ میں جانا، ساتھ مل بیٹھنا، پیدل چلنا وغیرہ۔ لیکن جیسے سہولتیں بڑھیں تو لوگ بھی اشیاء کی محبت میں گرفتار ہونے لگے۔
رشتوں میں دراڑیں پڑنے لگیں، جس کا محرک پیسہ تھا۔ وہ نسل، جس کے ہاتھ میں موبائل نہیں تھا۔ آج کی نسل سے رویوں و رابطوں میں زیادہ فعال تھی۔ کمپیوٹر، ٹیلی وژن یا تفریح کے ذرایع، کام اور روزمرہ کی ذمے داریوں میں مداخلت کرنے لگے۔ جس کی وجہ سے گھریلو زندگی براہ راست متاثر ہوئی۔ ایک نسل سمجھدار، وضع دار اور لحاظ کو فوقیت دیتی ہے۔ وقت اور حالات سے سمجھوتہ کر لیتی ہے، جب کہ نئی نسل صاف گو، بے باک اور باغی رویوں کو اپنا لیتی ہے۔ لہٰذا جنریشن گیپ بڑھ جاتا ہے۔ غیر لچکدار رویے اگر نئی نسل کو ذہنی و جسمانی نقصان پہنچانے لگیں، تو ان رویوں میں تبدیلی وقت کی اہم ضرورت بن جاتی ہے۔
ہر سال پندرہ مئی کو خاندان کا دن منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد گھریلو زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ ان چند سنہری اصولوں کی تجدید کرنا ہے، جسے ہم بھول چکے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ رشتوں و رابطوں کو فعال کرنے میں، گفتگو کا اہم عمل دخل ہوتا ہے۔ گفتگو میں سمجھ، برداشت اور تحمل، تعلق کو جوڑ کے رکھتا ہے۔ بے جا نکتہ چینی، غیر منطقی سوچ اور غیر حقیقت پسندانہ رویے، بات کی اہمیت کو غیر موثر کر دیتے ہیں۔ اچھی اور مثبت گفتگو بہترین زندگی کا عکس کہلاتی ہے۔ زندگی کا بہتر معیار بھی لفظوں کے بہترین چناؤ کے اردگرد گھومتا ہے۔ اظہار کی آزادی رشتوں کی خود اعتمادی بحال کر دیتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اس جدید دور میں وقت کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس کی وجہ وقت کی تنظیم کا فقدان ہے۔
وقت کی مناسب تقسیم، بہتر منصوبہ بندی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ گھر زیادہ توجہ کا مرکز ہونا چاہیے گھریلو اور ملازمت میں توازن برقرار نہ رکھنے کی صورت میں، گھریلو زندگی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ اکثر لوگ آفس کے مسائل کو گھروں میں لے کر آتے ہیں اور گھروں کی الجھنوں کو آفس میں۔ رشتے محبت، قبولیت، ربط باہمی اور احترام کے احساس تلے پھلتے پھولتے ہیں۔ سماجی ماہرین کیمطابق، ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے سے سمجھوتے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تفریحی مقامات پر جانا زندگی کی یکسانیت کو توڑ دیتا ہے۔
ایسے تعمیری لمحے، خاندان کو ذہنی طور پر ایک دوسرے کے قریب لے کر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ، ماں سے زیادہ بچوں کی تربیت میں، والد کا حصہ ہوتا ہے، جب کہ اس معاشرے میں والد کا زیادہ تر وقت باہر کی دنیا میں گزرتا ہے۔ والد کی ترجیحات میں پیسہ کمانا ہو تو، بچوں کی شخصیت میں احساس محرومی اور خلا بڑھ جاتا ہے۔ آج کل بچے اور نوجوان منفی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ والد کی ان سے دوری ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بارہ سال کے بعد لڑکا ہو یا لڑکی، والد کو دونوں کو مساوی طور پر دیکھنا ہے۔
بچے والد سے خود اعتمادی، ماحولیاتی سمجھ اور عملی سوچ سیکھتے ہیں، جو ماں نہیں دے سکتی۔ ماں محبت و شفقت تو دے سکتی ہے، مگر باپ کا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ جدید تحقیق کے مطابق ماؤں تک محدود بچے زود رنج، حساس، غیرعملی اور جذباتی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔اگر بچے برا کریں تو ماں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ فقط وہ ماں بچے کی اچھی تربیت کر سکتی ہے، جو خاندان کے مثبت رویوں کے زیر اثر ہوتی ہے۔ جس کی سوچ مختلف ذمے داریوں میں بٹی ہوئی نہ ہو۔ اگر مائیں کام کرنے کی مشینیں بنا دی جائیں تو ان کے لیے کسی طور ممکن نہیں کہ وہ بچوں کی بہتر ذہنی تربیت کر سکیں۔ ماں اگر گھٹن اور حبس کا شکار ہے تو وہ کیفیت موروثی طور پر بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔
محض ڈگری یافتہ معاشروں میں، عورت کی جذباتی کمزوریوں پر لطیفے بنائے جاتے ہیں۔ ان کی خامیوں پر ہنسا جاتا ہے۔ جس گھر میں بھی ماں کا استحصال ہوتا ہے، اس گھر سے خوشی اور خوشحالی روٹھ جاتی ہے۔ وہ گھر بہت کامیاب رہتے ہیں، جن میں مسائل کا عقلی اور حقیقت پسندانہ انداز سے جائزہ لے کر انھیں حل کیا جاتا ہے۔ایشیا کے بہت سے ملکوں میں سرشام کاروبار بند ہو جاتا ہے، تاکہ گھر میں خاندان کے ساتھ مل کر ایک اچھا وقت گزارا جا سکے۔ بچوں کو قیمتی اشیا سے زیادہ، والدین کا جذباتی سہارا درکار ہوتا ہے۔
آج کئی شاندار گھر تنہا کھڑے ہیں، جن میں بسنے والے بچے حالات کی سختیوں اور بے توجہی کی وجہ سے راستہ بھٹک کر وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے ہیں۔
مرد حاکمیت پسند ہوتا ہے جب کہ عورت حساسیت کا نازک آئینہ ہے۔ کہیں معاملہ الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ بہرکیف رویوں میں توازن ہونا چاہیے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کو اپنے سوچ کے سانچے میں نہیں ڈھال سکتے۔ ایسا کرنے کی صورت میں دونوں کو سنگین نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں گھرکا یونٹ منتشر ہو رہا ہے۔ مشترکہ کنبے کا نظام غیر محسوس طور پر، انفرادی سوچ اور اکیلے گھروں میں تبدیل ہو رہا ہے۔
ایشیا کا مزاج اجتماعی سوچ اور شعور سے جڑا ہوا ہے۔ کچھ ملک آج بھی پرانے خطوط پر چل رہے ہیں اور کامیاب ہیں۔ ان کے خاندانی رابطے بہت مضبوط ہیں۔ ان ملکوں میں سری لنکا، تھائی لینڈ، چین، جاپان وغیرہ شامل ہیں۔ مشترکہ کنبے میں پلنے والے بچے، مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں، مسائل حل کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں، قدیم اصول فراموش کر دیے گئے ہیں۔سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ جب بھی سماج ثقافتی تبدیلی کے زیر اثر آتا ہے تو کچھ لوگ اس تبدیلی کو قبول کر لیتے ہیں، جب کہ کچھ احتجاج کرتے ہیں۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران کبھی نئے راستے نکل آتے ہیں۔ کچھ سنہری اصول اور روایتیں قوموں کی پہچان بن جاتے ہیں۔ جن سے پہلو تہی معاشرے کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ سمجھدار معاشرے اچھی روایتوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
سماجی تبدیلی ایک عالمگیر رویہ ہے۔ اسے کسی طور روکا نہیں جا سکتا۔ ان سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کے مختلف محرکات ہیں۔ جس میں آب و ہوا کی تبدیلی، صنعتی ترقی، گاؤں سے شہر میں منتقلی، ثقافتی نفاذ اور جدت وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا رویے بھی ان بڑی تبدیلیوں کے تحت بدلنے لگتے ہیں۔ مزاج پر آب و ہوا اور صنعتی ترقی کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔ مثال آج سے بیس پچیس سال پہلے لوگوں کے سماجی رابطے بحال تھے۔ فرصت کے وقت کو تعمیری انداز سے گزارا جاتا۔ جیسے باغ میں جانا، ساتھ مل بیٹھنا، پیدل چلنا وغیرہ۔ لیکن جیسے سہولتیں بڑھیں تو لوگ بھی اشیاء کی محبت میں گرفتار ہونے لگے۔
رشتوں میں دراڑیں پڑنے لگیں، جس کا محرک پیسہ تھا۔ وہ نسل، جس کے ہاتھ میں موبائل نہیں تھا۔ آج کی نسل سے رویوں و رابطوں میں زیادہ فعال تھی۔ کمپیوٹر، ٹیلی وژن یا تفریح کے ذرایع، کام اور روزمرہ کی ذمے داریوں میں مداخلت کرنے لگے۔ جس کی وجہ سے گھریلو زندگی براہ راست متاثر ہوئی۔ ایک نسل سمجھدار، وضع دار اور لحاظ کو فوقیت دیتی ہے۔ وقت اور حالات سے سمجھوتہ کر لیتی ہے، جب کہ نئی نسل صاف گو، بے باک اور باغی رویوں کو اپنا لیتی ہے۔ لہٰذا جنریشن گیپ بڑھ جاتا ہے۔ غیر لچکدار رویے اگر نئی نسل کو ذہنی و جسمانی نقصان پہنچانے لگیں، تو ان رویوں میں تبدیلی وقت کی اہم ضرورت بن جاتی ہے۔
ہر سال پندرہ مئی کو خاندان کا دن منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد گھریلو زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ ان چند سنہری اصولوں کی تجدید کرنا ہے، جسے ہم بھول چکے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ رشتوں و رابطوں کو فعال کرنے میں، گفتگو کا اہم عمل دخل ہوتا ہے۔ گفتگو میں سمجھ، برداشت اور تحمل، تعلق کو جوڑ کے رکھتا ہے۔ بے جا نکتہ چینی، غیر منطقی سوچ اور غیر حقیقت پسندانہ رویے، بات کی اہمیت کو غیر موثر کر دیتے ہیں۔ اچھی اور مثبت گفتگو بہترین زندگی کا عکس کہلاتی ہے۔ زندگی کا بہتر معیار بھی لفظوں کے بہترین چناؤ کے اردگرد گھومتا ہے۔ اظہار کی آزادی رشتوں کی خود اعتمادی بحال کر دیتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اس جدید دور میں وقت کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس کی وجہ وقت کی تنظیم کا فقدان ہے۔
وقت کی مناسب تقسیم، بہتر منصوبہ بندی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ گھر زیادہ توجہ کا مرکز ہونا چاہیے گھریلو اور ملازمت میں توازن برقرار نہ رکھنے کی صورت میں، گھریلو زندگی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ اکثر لوگ آفس کے مسائل کو گھروں میں لے کر آتے ہیں اور گھروں کی الجھنوں کو آفس میں۔ رشتے محبت، قبولیت، ربط باہمی اور احترام کے احساس تلے پھلتے پھولتے ہیں۔ سماجی ماہرین کیمطابق، ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے سے سمجھوتے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تفریحی مقامات پر جانا زندگی کی یکسانیت کو توڑ دیتا ہے۔
ایسے تعمیری لمحے، خاندان کو ذہنی طور پر ایک دوسرے کے قریب لے کر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ، ماں سے زیادہ بچوں کی تربیت میں، والد کا حصہ ہوتا ہے، جب کہ اس معاشرے میں والد کا زیادہ تر وقت باہر کی دنیا میں گزرتا ہے۔ والد کی ترجیحات میں پیسہ کمانا ہو تو، بچوں کی شخصیت میں احساس محرومی اور خلا بڑھ جاتا ہے۔ آج کل بچے اور نوجوان منفی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ والد کی ان سے دوری ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بارہ سال کے بعد لڑکا ہو یا لڑکی، والد کو دونوں کو مساوی طور پر دیکھنا ہے۔
بچے والد سے خود اعتمادی، ماحولیاتی سمجھ اور عملی سوچ سیکھتے ہیں، جو ماں نہیں دے سکتی۔ ماں محبت و شفقت تو دے سکتی ہے، مگر باپ کا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ جدید تحقیق کے مطابق ماؤں تک محدود بچے زود رنج، حساس، غیرعملی اور جذباتی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔اگر بچے برا کریں تو ماں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ فقط وہ ماں بچے کی اچھی تربیت کر سکتی ہے، جو خاندان کے مثبت رویوں کے زیر اثر ہوتی ہے۔ جس کی سوچ مختلف ذمے داریوں میں بٹی ہوئی نہ ہو۔ اگر مائیں کام کرنے کی مشینیں بنا دی جائیں تو ان کے لیے کسی طور ممکن نہیں کہ وہ بچوں کی بہتر ذہنی تربیت کر سکیں۔ ماں اگر گھٹن اور حبس کا شکار ہے تو وہ کیفیت موروثی طور پر بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔
محض ڈگری یافتہ معاشروں میں، عورت کی جذباتی کمزوریوں پر لطیفے بنائے جاتے ہیں۔ ان کی خامیوں پر ہنسا جاتا ہے۔ جس گھر میں بھی ماں کا استحصال ہوتا ہے، اس گھر سے خوشی اور خوشحالی روٹھ جاتی ہے۔ وہ گھر بہت کامیاب رہتے ہیں، جن میں مسائل کا عقلی اور حقیقت پسندانہ انداز سے جائزہ لے کر انھیں حل کیا جاتا ہے۔ایشیا کے بہت سے ملکوں میں سرشام کاروبار بند ہو جاتا ہے، تاکہ گھر میں خاندان کے ساتھ مل کر ایک اچھا وقت گزارا جا سکے۔ بچوں کو قیمتی اشیا سے زیادہ، والدین کا جذباتی سہارا درکار ہوتا ہے۔
آج کئی شاندار گھر تنہا کھڑے ہیں، جن میں بسنے والے بچے حالات کی سختیوں اور بے توجہی کی وجہ سے راستہ بھٹک کر وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے ہیں۔