طبقاتی نمایندگی
اپوزیشن وزیراعظم اور ان کے خاندان پر کرپشن کے الزامات لگا رہی ہے
اب 69 سال کے جمہوری تجربے کے بعد اس ملک کے 20 کروڑ عوام اس حقیقت کو اچھی طرح جان گئے ہیں کہ موجودہ جمہوری نظام ایک فراڈ ہے اور کوئی فراڈ عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔ جمہوری نظام میں عوامی مسائل کے حل کا سب سے بڑا اور محترم فورم پارلیمنٹ ہوتا ہے ہماری پارلیمنٹ کیا ہے۔ اس کے بارے میں عوامی رائے کے قطع نظر خود اراکین پارلیمنٹ کیا کہتے ہیں، اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
سندھ حکومت کے ترجمان اور مشیر اطلاعات مولابخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ''پارلیمنٹ میں ایک دو کے علاوہ باقی سب مسخرے اور اداکار'' ہیں چانڈیو صاحب نے یہ بات پیپلزپارٹی کی کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہی، چانڈیو کا شمار حکومت کے سنجیدہ ترجمانوں میں ہوتا ہے۔
چانڈیو صاحب کی نظر میں پارلیمنٹ کے اراکین مسخرے اور اداکار ہیں لیکن بات صرف مسخروں اور اداکاروں کی نہیں کہ مسخرے اور اداکار عموماً بے ضرر ہوتے ہیں لیکن اس ملک کے 20 کروڑ عوام کی نظر میں پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت ڈاکوؤں اور لٹیروں پر مشتمل ہے۔ بلاشبہ عوام کے منتخب نمایندے قابل احترام ہوتے ہیں لیکن وہ اس وقت قابل احترام ہوتے ہیں جب وہ عوام سے مخلص ہوں اور ان کی پہلی ترجیح عوام کے مسائل ہوں اور وہ عوام کے مسائل خلوص، سنجیدگی اور ایمانداری سے حل کرنا چاہتے ہوں لیکن بد قسمتی سے ہماری جمہوری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ عوام کے منتخب نمایندوں کی پہلی ترجیح لوٹ مار ہی رہی ہے جس کا تازہ ثبوت پانامہ لیکس اسکینڈل ہے۔
اپوزیشن وزیراعظم اور ان کے خاندان پر کرپشن کے الزامات لگا رہی ہے اور حکمران طبقات اپوزیشن پر لوٹ مار کے الزامات لگا رہے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ اس قدر الزامات کی زد میں کیوں ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی زمینی اور صنعتی اشرافیہ نے جو جمہوری نظام رائج کیا ہے اس میں جمہور کا داخلہ کسی صورت میں ممکن نہیں۔ جب اس جمہوریت اس سیاست اس اقتدار کی باگ ڈور لٹیری اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہو تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ قانون ساز اداروں میں عوامی مفادات کے فیصلے ہوں۔
ہم نے بارہا ان ہی کالموں میں اس تلخ حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ عوام کے حقیقی نمایندوں کو قانون ساز اداروں سے دور رکھنے کے لیے کئی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں ان میں سب سے بڑی تدبیر ہمارا انتخابی نظام ہے۔ اس شاہانہ انتخابی نظام میں وہی بندہ حصہ لے سکتا ہے جس کی جیب میں کروڑوں روپے ہوں اور اس ملک کی نوے فی صد سے زیادہ آبادی کو دو وقت کی روٹی سے محتاج بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور اس محتاجی کو بغاوت میں بدلنے سے روکنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، کبھی اس محتاجی کو قسمت سے جوڑ کر عوام کو صابر و شاکر رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور ہمارے سادہ لوح عوام قسمت پر اس لیے صابر و شاکر رہتے ہیں کہ یہ باتیں محراب و منبر سے کی جاتی ہیں جنھیں عوام تقدس کی علامت سمجھتے ہیں۔
یہ وہ تلخ حقائق ہیں جنھیں اشرافیہ نے بڑی ہوشیاری اور عیاری سے جمہوریت کے پردے میں چھپا رکھا ہے، اشرافیہ کی جان جمہوریت کے طوطے میں بند ہے، جب بھی جمہوریت کو کسی طرف سے خطرہ نظر آتا ہے تو جمہوریت کے تمام طوطے 'جمہوریت خطرے میں ہے، ہم کسی قیمت پر جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے کی ٹائیں ٹائیں سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، کوئی ذی عقل اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتا ہے جس جمہوریت کے مندر میں عوام کی حیثیت دلت جیسی ہو اور عوام کا اس مندر میں داخلہ ممنوع ہو وہ کس طرح جمہوریت کہلا سکتی ہے؟ان حقائق بلکہ تلخ اور شرمناک حقائق کی روشنی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جعلی جمہوریت سے عوام کس طرح چھٹکارا پا سکتے ہیں؟
ایک تاریخی طریقہ یہ ہے کہ ایک منظم منصوبہ بند اور مخلص عوامی قیادت کے تحت 1968ء اور 1977ء جیسی توانا تحریک اٹھائی جائے لیکن ایسی مقبول اور محب عوام قیادت ملک میں نظر نہیں آتی جو قیادت ہے وہ 1968ء اور 1977ء کی روحانی باقیات ہے اگر کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس کا سارا فائدہ حزب اختلاف کا چولا اوڑھی ہوئی اس قیادت کو ہی حاصل ہو گا۔ عوام کے ہاتھ سوائے مایوسی کے کچھ نہیں آئے گا۔
ایسے پیچیدہ اور نازک حالات میں جمہوریت کو بامعنی بنانے کا ایک ہی طریقہ نظر آتا ہے کہ پارلیمنٹ میں طبقاتی بنیادوں پر نمایندگی کا اہتمام کیا جائے، مثلاً ہمارے ملک میں مزدور طبقے کی تعداد چار کروڑ سے زیادہ ہے اور کسان اور ہاری آبادی کا 60 فی صد حصہ ہیں اور مختلف غریب طبقات کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ انھیں ان کی تعداد کے تناسب سے پارلیمنٹ میں جانے کی راہ ہموار کی جائے تو غریب طبقات پر مشتمل یہ پارلیمنٹ جمہوری بھی ہو گی اور اس میں عوام کے حقیقی نمایندے قانون سازی کر سکیں گے۔ فی الوقت یہی ایک طریقہ عوامی جمہوریت کی تشکیل کا نظر آتا ہے۔