یہ کون سا کراچی ہے جہاں پر آخری حصہ

ڈیفنس ،کلفٹن، طارق روڈ، نیپا چورنگی، حسن اسکوائر سمیت کئی علاقوں میں گٹر ابلتے ہوئے نظر آئے

یہاں پرگھومتے پھرتے مجھے ایک اور بات ذہن میں آئی جب مجھے پیشاب کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں نے ایمپریس مارکیٹ سے ملحق پبلک ٹائلٹ کی طرف گیا، جہاں کی صورت حال دیکھ کر مجھے قے آنے لگی۔ وہاں سے اٹھتی ہوئی بدبو اور اندر گھومتے ہوئے کیڑے اور باہر جمع گندے پانی نے میرا سانس ہی روک دیا۔ جب معلوم ہوا کہ یہاں پر عورتوں کے لیے جو ایک پبلک ٹائلٹ تھا اسے ختم کر کے وہاں پرگودام بنایاگیا ہے جسے کسی مکان والے نے رینٹ پر لیا ہے۔

اب آپ بتائیں کہ حاجت محسوس ہونے پر عورتیں کہاں جائیں؟ یہ میں ملک کے سب سے بڑے تجارتی اور کاروباری شہر کراچی کی بات کررہا ہوں،چلو میں تو ایک ہوٹل میں چلا گیا کئی لوگوں نے بتایاکہ ویسے تو وہ کبھی بھی مسجد میں نماز کے لیے نہیں جاتے مگر انھیں پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی ہے تو وہاں جاتے ہیں جہاں پر وہاں پر بیٹھے ہوئے Sweepers ان سے کچھ روپے وصول کرتے ہیں۔

ڈیفنس ،کلفٹن، طارق روڈ، نیپا چورنگی، حسن اسکوائر سمیت کئی علاقوں میں گٹر ابلتے ہوئے نظر آئے، سڑکوں پر گندا پانی جمع ہونے سے ٹریفک ہر وقت جام رہتا ہے ۔ لوگوں کے کپڑے خراب ہورہے تھے، دن کے اوقات میں اسٹریٹ لائٹس جلتی نظر آتی ہیں، جنھیں بندکرنے کے لیے نہ توکراچی الیکٹرک، نہ کے ایم سی کے لوگ آگے آتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہماری ذمے داری نہیں ہے۔

ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالنے سے بجلی ضایع ہورہی ہے اورلوڈ شیڈنگ کا باعث بن رہی ہے،کراچی میں ایک اور وباء بھی پھیل گئی ہے جسے '' بچت بازار'' کہا جاتا ہے، مین شاہراہوں پر یہ بازار مختلف دنوں کے نام سے لگائے جاتے ہیں، ان بازاروں کے چاروں اطراف رکشے، ریڑھیاں، گاڑیاں، سامان اٹھانے والی پک اپ بے ترتیب کھڑی رہتی ہیں جس کی وجہ سے کئی گھنٹے لوگوں کے ضایع ہوجاتے ہیں، یہ کیا ہے؟ اس شہر میں کوئی انتظام ہے کہ نہیں۔ ٹریفک والے صرف ان بازاروں میں آتے ہیں جہاں پر بیوروکریٹس کی بیگمات خریداری کرنے آتی ہیں۔

اس سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ شہر میں کسی نہ کسی روز ہڑتال، جلسے جلوس، دھرنے، احتجاج جاری رہتا تھا ، جو رینجرز کے آپریشن کے بعد ذرا کم ہوگیا ہے۔ احتجاج کے باعث امتحانات میں شریک ہونے والے امیدواروں اور اسکول،کالج یونی ورسٹی کے طلبا و اساتذہ ، مریضوں کو اسپتال پہنچانے میں، دفاتر اور فیکٹری جانے والے لاکھوں افراد کے لیے اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے۔

سیاست دان یہ نہیں سوچتے کہ جو لوگ انھیں ووٹ دے کر اقتدارکے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں، اپنے ہی ووٹروں کو گھر پہنچنے کے راستے میں وہ دیوار بن جاتے ہیں۔ بسوں اورگاڑیوں پر پتھراؤکیا جاتا ہے، دکانیں بند کروائی جاتی ہیں، املاک کو جلایا جاتا ہے ، توڑ پھوڑکی جاتی ہے۔ ہڑتال سے کتنے لوگ راستے میں پھنسے رہتے ہیں اور کتنی اذیت سے گزرتے ہیں اور جب تک گھر نہ پہنچ جائیں گھر والے خدا سے دعائیں مانگتے ہیں کہ ان کے کمانے والے یا اسکول اور کالج جانے والے بچے خیریت سے گھر آجائیں۔ اس عالم میں کئی لوگوں کو دل کا دورہ پڑ جاتا ہے، بچے دودھ پینے سے محروم ہوجاتے ہیں۔

روزانہ کمانے والوں کے افراد بھوکے رہ جاتے ہیں۔ ہوٹل، بیکری یا پھر اور اشیا بیچنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔شکر ہے آجکل ہولناک ہڑتالوں کا سلسلہ کم ہوگیا ہے۔ تاہم حال ہی میں جب ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن سیاسی پارٹیوں نے دھرنا دیا تو ٹریفک کو وہاں سے دوسری طرف موڑ دیا گیا جس سے دوسرے راستے پر ٹریفک پر بوجھ بڑھ گیا اور لوگ کئی گھنٹے پھنسے رہے۔فلائی اورر پر بھی ٹریفک جام رہتا ہے، آئی سی آئی پل عذاب جان بن گیا ہے جہاں ہیوی وہیکلز نے عام گاڑیوں کا چلنا مشکل بنادیا ہے، اس کے علاوہ جب سی این جی بند اور پبلک ٹرانسپورٹ کم ہوجاتی ہے یا پھر زیادہ کرایہ لینا شروع کردیتے ہیں۔


شاہراہ فیصل سے میٹرو پول اور پریس کلب آنے والی بڑی گاڑیوں کو گورا قبرستان سے موڑ کاٹتے ہوئے اوپر پل سے گزار کر صدر سے گھمایا گیا ہے۔ وہاں سے اسکولز کی وجہ سے ٹریفک بے حد جام ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ایک تو ذہنی کوفت ہوتی ہے اور دوسرا وقت بہت زیادہ ضایع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ یہاں سے نہ گزریں یہاں LAW Enforcing Agency والوں کا دفتر ہے، یہاں سے عدالتیں ہیں، یہاں پر بڑے بیوروکریٹس کے دفاتر ہیں ، جب وی آئی پی آتے ہیں تو آپ کو بڑے وقت تک روکا جاتا ہے جب تک وہ وہاں سے گزر نہ جائیں۔ یہ وی آئی پی کلچر کب ختم ہوگا، کئی تو ایسے بھی ایریاز ہیں جہاں پر اہم مذہبی جگہیں ہیں ، بیریئر لگے ہیں ، وہاں سے بھی گزرنا منع ہے، اب کراچی میں یہاں سے نہ جاؤ وہاں نہ کھڑے ہوں، اسے نہ دیکھو، پیچھے ہٹو، افراتفری اور شہریوں کی مسلسل توہین کا یہ عالم کب تک چلے گا؟

اس کے علاوہ شہر کے اہم علاقوں میں جیسے طارق روڈ کے پچھلے روڈ پر میڈیکل چورنگی سے اﷲ والی چورنگی جاتے ہوئے اور مزار قائد، سے جیل چورنگی چلتے ہوئے اہم شاہراہوں پر گاڑیوں کے شورومز بنے ہوئے ہیں جہاں سے آپ کوگزرتے ہوئے بڑا وقت لگ جاتا ہے۔ مین چورنگی پر آپ کو فقیروں کی لمبی قطاریں ملیں گی جو پوری کراچی کے علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں اور آپ کی زندگی کو عذاب بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھاتے۔ اکثر ان فقیروں کی لڑائی Transgenders مانگنے والوں سے ہوتی رہتی ہے۔

میرے خیال سے اس شہر میں فقیروں کی تعداد کی ریسرچ کی جائے تو یہ بھی بڑی پاپولیشن ہے۔ کراچی میں پہلے پوری رات آپ گھومتے رہیں آپ کو کوئی خوف نہیں تھا اور اب لوٹنے والوں، Kidnap کرنے والوں، مارنے والوں، دھماکے میں مرنے کا خوف آپ کو کھا جاتا ہے، خدا کا شکر ہے کہ ان چیزوں کے خلاف ہونے والے آپریشن سے کچھ فرق ہوا ہے۔

اس شہر میں بڑی بڑی عمارتیں، شاپنگ مارکیٹس اور پل بن گئے ہیں جن سے شہر کی رونق اور اکانومی تو بڑھ گئی ہے مگر صفائی کچھ نہیں ہے۔ میں نے نئے بنے ہوئے فلائی اوورز سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے کہ اس کے نیچے گندگی کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ سیڑھیوں پر گرد اور مٹی جمی ہوئی ہے۔ دیواریں میلی ہیں ۔لائٹس ندارد۔ اس کے علاوہ شہرکی دیواروں اور فلائی اوور پر سیاسی نعرے، حکیموں کے اشتہارات اور دوسری ناشائستہ تحریریں لکھی ہوتی ہیں جس سے ان کا حسن اور خوبصورتی ختم ہوگئی ہے۔

اس شہر کو جو غریب پرور اور پر رونق تھا اسے ہم سب نے خراب کردیا ہے۔ صفائی نہیں ہوتی میں جب صبح کئی علاقوں سے گزرتا ہوں تو مجھے صرف مسائل اورگندگی نظر آتی ہے جہاں پر بڑے بڑے درخت اور سایہ ہوتا تھا وہاں پر دھوپ اورگرمی ہے۔ سڑکوں میں بڑے گڑھے اور کھڈے پڑے ہوئے ہیں جوگٹر کے پانی سے بھرے ہوتے ہیں، کینٹ اسٹیشن کی سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ہمارے سیاست دان اور بیوروکریٹس تو اپنے چہرے کے سامنے انگریزی اخبار رکھ کر گزر جاتے ہیں تاکہ وہ یہ مسائل دیکھ نہ سکیں۔

کراچی یونی ورسٹی جہاں پر کسی زمانے میں درخت ہی درخت ہوتے تھے اور پارکس اور باقی حصہ بھی ہرا بھرا نظر آتا تھا اب وہاں پر پانی نہ ہونے سے درخت ختم ہورہے ہیں، پارکس سوائے کچھ کے، سوکھ چکے ہیں اور گرمیوں میں جب ہوا چلتی ہے تو بڑی گرم ہوتی ہے، سایہ کم ہونے سے گرمی میں اضافہ ہوا ہے ۔اس کے علاوہ حال ہی میں کچھ لوگوں نے کراچی کی سڑکوں پر موجود کئی درخت کاٹ ڈالے ہیں۔ جس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ ساحل سمندر پر بھی اب کافی ماحولیاتی گندگی نظر آرہی ہے۔

سمندر کے پانی میں شہر کا گندا پانی Polythene بیگس اور دوسرا کچرا پھینکا جارہاہے جس کو روکنے کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں، لوگوں میں ایک تو شعور نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ کراچی کی آبادی اتنی تیزی سے ہر سال بڑھ رہی ہے کہ ایک دن ڈر ہے کہ یہ ختم نہ ہوجائے کیوں کہ ماحولیاتی تباہی بھی ان میں ایک ہے کیوں کہ یہاں پر انڈسٹریز کا فضلہ سمندر میں بہایا جارہاہے۔ سمندری آلودگی سے ساحلوں کا حسن تباہی سے دوچار ہے۔ مجھے تو کہیں بھی نہ تو حکومت کی رٹ اور نہ ہی یہاں کے بسنے والوں میں کراچی کو بچانے کے لیے کوئی دلچسپی، جذبہ اور محبت نظر نہیں آتی ہر فرد بس کمانے کے چکر میں ہے چاہے یہ شہر تباہ ہوجائے۔(ختم شد)
Load Next Story