ہم کون ہیں

ان کے اختیارات کا کوئی کنارا ہے کہ نہیں؟ ان پرکسی قانون،آئین کا اطلاق ہوتا ہے یا وہ ہر شے سے ماورا ہیں

saifuzzaman1966@gmail.com

میں بڑی ہوشیاری اورایمانداری سے کچھ چیزوں کی پیمائش میں مصروف ہوں۔ جیسے ہی کوئی نتیجہ برآمد ہوا آپ کو اطلاع دوں گا، اگر آپ ان اشیا کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو میں بتا دیتا ہوں کہ وہ ''ریاستی ستون'' ہیں۔ جن میں ایک بڑا ہے۔ ایک بہت بڑا۔ باقی ناپ لیتے ہیں۔ بظاہر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، لیکن ان میں سے کم ازکم دوکے بارے میں معلوم ضرور ہونا چاہیے کہ آخر ان کی حد کہاں تک ہے۔

ان کے اختیارات کا کوئی کنارا ہے کہ نہیں؟ ان پرکسی قانون،آئین کا اطلاق ہوتا ہے یا وہ ہر شے سے ماورا ہیں۔ جب چاہیں، جہاں چاہیں جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ کوئی ان سے سوال تک نہیں کرسکتا۔ محاسبہ تو دورکی بات ہے۔ ہم بہرحال ایک ملک میں رہتے ہیں، اپنے گردوپیش ایک انسانی معاشرہ رکھنے کے دعویدار ہیں۔ دوسرے کچھ بھی کہیں ہم تو خود کو انسان ہی مانتے اور کہلواتے ہیں۔ لہٰذا یہ جاننا ہوگا کہ ہم نے 1972-73 میں ملک کا ایک دستور مرتب کیا تھا۔ جملہ سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے،اہل دانش کی تائید سے اسمبلی سے اسے منظورکروایا تھا۔

پھر وقت اور ضرورت کے تحت اس میں ایسی تبدیلیاں بھی کرنی پڑیں جو تقاضا تھیں، لیکن وہ آئین اب کہاں ہے؟ اسے کوئی تسلیم کیوں نہیں کرتا۔اسے تشکیل پانے کے بعد ردی کا ایک ٹکڑا کیوں سمجھ لیا گیا۔ حالانکہ آئین موجود ہے۔ عدالتیں کام کر رہی ہیں، پھرکوئی کیسے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردیتا ہے۔ مارشل لا لے آتا ہے یا وزیر اعظم امیرالمومنین بننے چل پڑتے ہیں۔ ایسے اختیارات کا حصول چاہتے ہیں جوآئین وقانون سے ماورا ہوں۔ بعید ازعقل ہے کہ ایک ادارے سے ریٹائرڈ ہونے والے چندآفیسرز ملک کا نظام تلپٹ کروا دیتے ہیں۔ ایک سیاسی ہلچل پیدا کرتے ہیں۔

جس میں دھرنے، جلسے، ریلیاں، PTV کی عمارت کا گھیراؤ، پارلیمنٹ پر قبضہ سمیت سب کچھ شامل۔ 18 کروڑ نفوس پر مشتمل ملک جہاں زندگی واقعتاً سسک رہی ہے۔ روزانہ خودکشی کی، اسپتالوں میں ادویات کی عدم فراہمی کے باعث مریضوں کے دم توڑ جانے کی خبروں سے اخبارات و میڈیا بھرے ہیں۔ جہاں بنیادی ضرورتوں کی بنیاد تک مٹتی جارہی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، بوری بند لاشیں، بدترین تعصب، اقربا پروری،کرپشن عروج پر۔ لیکن کوئی حد نہیں ہے تو ''دو بڑوں کی''۔ وہ جب چاہیں جو چاہیں بلکہ جہاں چاہیں کرتے ہیں۔ کبھی ایک کا پلڑا بھاری کبھی دوسرے کا۔ کوئی 13 سال برسر اقتدارکوئی 5 سے 10 سال یعنی Two Term لیکن برسر اقتدار نہ آئی تو ملک کی عوام۔ حکومت نہ ملی تو ملک کو۔ البتہ دو بڑے مورد الزام ٹھہراتے رہے ایک دوسرے کو۔ ملکی بدحالی کا، مہنگائی کا، انرجی بحران کا، اور آتے جاتے رہے۔ بقول شاعر:

آپ کا گھر ہے آیا جایا کرو


یہی کوئی 70 برسوں سے یہ تماشا بلا روک ٹوک جاری و ساری ہے۔ ہنوز اس کی تیاری ہے۔ لگتا کسی کو پھر ہوشیاری ہے، لیکن جان سبھی کو پیاری ہے۔ حکومت پھر بھی باری باری ہے۔ دستور پاکستان کاکیا ہوگا۔ پاکستانیو!کا کیا ہوگا؟ یہ سوال اب تک ہوجانا چاہیے تھا۔ حیرت ہے نہ ہوا۔ کسی نے ہم ہی میں سے کہا۔ اس ملک کو خمینی انقلاب چاہیے۔ ڈنڈا درکار ہے۔ یہ لوگ ایسے نہیں مانیں گے۔ لاکھ آدمی مرے، زمین ٹھنڈی ہوجائے گی۔ بابا خون مانگتا ہے۔ ملک خون، یہ کیا جمہوریت کی چک چک۔ آپ، جی جناب، لو جی آگیا ڈنڈا۔ انھوں نے عوام کی آواز کو ترنت سنا۔ تسمے کسے تیاری کی PTV آن۔ میرے عزیز لگتو سگتو! یتیمو، مسیکنو، بے سہارو، حاضرو، قیدیو، ملک میں آج سے ڈنڈا نافذ ہوگیا۔

آپ کی دلی تمنا پوری ہوئی۔آپ کی آواز ہم تک پہنچ گئی۔ اللہ کا شکر ہے۔ اب ملک میں 10 سے 15 سال تک ہم ہی ہم ہیں۔ہم نے کوڑا بردار تیار کردیے ہیں۔ آپ حکم کریں۔ لیکن خاموش رہیں تو بہتر ہے۔ ہم سب ٹھیک کرلیں گے۔ 10 سال گزر گئے تو انھیں انھی کے لوگوں نے بتایا کہ سر ملک میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ سر نے پوچھا کیا یتیموں میں اتنی جرأت آگئی۔ مسکین اکٹھے ہوگئے۔ جواب ملا جی سر! معاملات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ آپ کو جانا ہوگا۔ الیکشن کروادیں۔ فی الحالCivilian چلیں گے۔ کچھ عرصہ۔ پھر انشا اللہ حالات بہتر ہوجائیں گے۔ خود عوام آپ کو دعوت خطاب دیں گے۔ سر چلے گئے۔ Civilian آگئے۔ جمہوریت آگئی Public پھر خوش۔

ابے یار! ڈنڈے نے کچھ نہ کیا۔ ہر وقت ڈانٹ، پھٹکار نہ نوکری نہ ترقی، کیا دیا ملک کو۔ مونچھوں پے تاؤ دیتا رہا 10 سال۔ چلو اب اپنے لوگ ہیں۔ پہلے بھی قرضے دیے تھے،گاڑیاں دی تھیں، اب پھر دیں گے۔ ارے نہیں بابا! اب تو وہ خود قرضے لے رہے ہیں۔ اپن کوکیا دیں گے؟ تُو دیکھ تو 3 سال گزر گئے۔ 5 گزر گئے۔ زمانہ شہدا آگیا۔ شہیدوں کی راجدھانی شروع ہوئی۔ ایک شہید گیا ایک آیا۔ دبئی، جدہ، UK، سوئٹزرلینڈ، جائیدادوں پے جائیدادیں بنتی چلی گئیں۔ ڈنڈے والوں نے پیٹھ پرکوڑے دیے۔ انھوں نے دکھتے ہوئے پھوڑے ۔کسی نے وہ کیا کہتے ہیں ایک عامیانہ سا لفظ ہے۔ ''گھٹ'' نہیں کی۔ 18 کروڑ لوگوں کا ملک آخر Titanic کی طرح ڈولنے لگا۔ بے یقینی وابہام کی چٹان سے ٹکرا گیا۔ شکوک کی موجیں اسے توڑنے لگیں۔

مہنگائی کے دریا میں غوطے کھاتے ہوئے ڈوبتے ہوئے، بے سہارا لوگ۔ عزیز یتیم و مسکین اب سوچ رہے ہیں کسے آواز دیں،کسے پکاریں،کبھی کبھی کوئی سرگوشی کرتا ہے۔ ارے اس ملک پے امریکا قبضہ کرلے تو بہتر ہوجائے۔کم ازکم انصاف تو ملے گا۔ جب انگریز تھے تو ترقی تھی۔ یہ ریلوے لائن کس کی ڈالی ہوئی ہے۔ انھی کی۔لیکن سوال پھر بھی رہ گیا۔ لفظوں کی مارا ماری میں ختم نہیں ہوا۔ کہ ان دو بڑوں کا درمیان کہاں ہے؟

کیا ہم Football ہیں۔ شٹل کاک ہیں؟ ازلی و نسلی غلام ہیں۔ بے وطن ہیں۔ ہم کون ہیں؟ جن کے یہ بڑے ہیں۔ جن سے یہ کھیلتے ہیں۔ جن پر یہ قصر و محل تعمیر کرتے ہیں۔ جن کے خون سے دبئی، جدہ، UK، پانامہ لیکس کی داستانیں لکھی جاتی ہیں۔ جن کے بیٹے انھیں ووٹ دیتے دیتے بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ بے روزگار رہ کر جس کی بیٹیاں گھروں کی دہلیز پار نہیں کرپاتیں، بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کے خواب تعبیر نہیں ہو پاتے۔
Load Next Story