لوگوں کو سوچنے دو
اتنا تو اب کوئی ڈرون اٹیک اور ایٹم بم سے بھی نہیں ڈرتا، جتنا کہ لوگ سوچ سے ڈرنے لگے ہیں،
NEW YORK:
اتنا تو اب کوئی ڈرون اٹیک اور ایٹم بم سے بھی نہیں ڈرتا، جتنا کہ لوگ سوچ سے ڈرنے لگے ہیں، ہاں! اب تو یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ جو زمانے کو بدلنے کی بات کرے، نئی سوچ کی بات کرے، اس کی مخالفت ہر طرف سے کی جاتی ہے۔کوئی ایسی بات جو لوگوں کو سوچنے پرمجبورکردے اور وہ اپنے موجودہ حالات اور ناانصافی کو سمجھ کراس کے خلاف نفرت محسوس کریں تو ایسی سوچ کے راستے بند کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں اور ایسی سوچ پیدا کرنے والا انسان نامعلوم گولی کا شکار ہوجاتا ہے۔ لگے بندھے اصول لگی بندھی باتوں کے عادی لوگ روشن خیالی کو برداشت نہیں کرپاتے۔
کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر کسی نجی ٹی وی چینل کے ڈرامے پر بحث جاری تھی۔ ہوا یوں کہ اس ڈرامہ سیریل میں عام مرد کی مکروہ شبیہ عام لوگوں کو دکھائی گئی۔ اب ایسے مرد ہر تیسرے گھر میں موجود ہوتے ہیں جو کہ ہراسمنٹ میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس ڈرامے میں سوتیلے باپ کا کردار دکھایا گیا ہے جوکہ اپنی سوتیلی بیٹی پر بری نظر رکھتا ہے۔لڑکی کی عمر 10 یا گیارہ سال سے زیادہ نہیں دکھائی گئی۔اس سوتیلے باپ کی ایک دوسری لڑکی کے لیے بھی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ جب ڈرامے کا کردار اس قسم کی حرکتیں کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے تو دیکھنے والے اس مکروہ قسم کے لوگوں سے واقف ہوتے ہیں۔ گھر کی خواتین بھی محسوس کرتی ہیں کہ ایسے کردار مختلف خاندانوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس ڈرامے کا کردار اپنے محلے میں اپنی بیوی کی جاننے والی پڑوسن کی بچی سے زیادتی کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بھاگ کر اپنی ماں کو بلا لاتی ہے۔ لیکن وہ بندہ صاف مکر جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو اس طرح کے واقعات جو خاندان اورگھر کے اندر ہوتے ہیں ان میں سے 100 فیصد تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
ہراسمنٹ تو عام رویہ ہے جوکہ اگر خاندان کے اندر رشتے داروں کے درمیان ہو تو نظراندازکردیا جاتا ہے کیونکہ تعلق اور رشتے داریاں ٹوٹنے کا خدشہ موجود ہوتا ہے۔ یہی حقیقی تصویر جب میڈیا پہ دکھائی جاتی ہے تو ادارے حرکت میں آجاتے ہیں اور چینل کو نوٹس جاری کردیا جاتا ہے کہ یہ ڈرامہ لوگوں میں غلط جذبات ابھار رہا ہے اور اخلاق سے گری باتیں دکھا رہا ہے ، حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے حقیقت کی نفی کی جارہی ہے۔
سیکڑوں خواتین ماری جاتی ہیں، زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، تب قاتلوں کوکوئی بھی برا بھلا نہیں کہتا۔ لیکن ایک مردکا منفی کردار اداروں کو حرکت میں لے آتا ہے۔ پدر شاہی نظام ہمارے لیے ایسا عفریت بن چکا ہے جس کی سو منہ ہیں، پدر شاہی سوچ اب ہر ادارے میں موجود ہے اور اسی کی بنیاد پر سب چیزوں کو پرکھا جاتا ہے۔
معاشرے میں ایسے سیکڑوں واقعات ہوتے ہیں کہ جب کوئی عورت دوسری شادی کرتی ہے تو بچوں کا مسئلہ اس کے آگے آتا ہے۔ عورتیں بچوں کی وجہ سے دوسری شادی نہیں کرتیں، طلاق یافتہ ہو یا بیوہ ہو، وہ بچوں کے لیے زندگی وقف کردیتی ہے جو 5 فیصد دوسری شادی کر لیتی ہیں، ان کے بچوں کو کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش آجاتا ہے۔ حقیقت کو چھپانے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی سچ اپنی جگہ موجود ہوتا ہے اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں ۔
معاشرے سے مرد کا منفی کردار برداشت نہیں ہوتا۔ حقیقت کو تسلیم کرنے سے، حقیقت کا انکار کرنا زیادہ آسان بنتا جا رہا ہے کہ ایک معاشرتی حقیقت کو اسکرین پہ دکھایا جانا ہمارے اداروں سے برداشت نہیں ہو سکا۔ اور اس کو معاشرے میں بگاڑ کا ذمے دار قرار دیا تھا۔ ایسی ہی کچھ تلخ حقیقتیں شاید ''مالک'' فلم میں بھی تھیں ۔ اس لیے اس کو بھی عوام کے لیے ممنوع قرار دیا گیا۔ شاید وہ لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ انسان کی فطرت میں ''ممنوعہ اشیا'' کی طرف جانا ہے۔ ممنوع اشیا کی کھوج انسان کی فطرت میں شامل ہے۔یہ سوچ انسان کو تنگ کرتی ہے کہ آخر اس کو اس چیز کے لیے منع کیوں کیا گیا ہے؟ دیکھا گیا ہے کہ جن ڈراموں اور فلموں پر پابندی لگتی ہے وہی شہرت کے ریکارڈ توڑتی ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا آج کل لوگوں تک پہنچنے کا کارگر ذریعہ ہے یہ سیاست کا مرکز بھی ہے اور کاروبار بھی ہے۔ لوگوں کی سوچ میڈیا کے ذریعے کنٹرول ہوتی ہے اورمیڈیا کو سرمایہ دار کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ بات سرمایہ دار طے کرتا ہے کہ لوگوں تک کیا پہنچنا ہے اورکیا چیز نہیں پہنچنی۔ میڈیا پر جتنے بھی اشتہارات آتے ہیں ان کے پس پردہ صرف پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جو گروپ اپنا پیسہ انوسٹ کرتا ہے مارکیٹ پر وہ اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہے گا۔ اب ان اشتہاری فلموں سے لوگوں کو کیا پیغام مل رہا ہے ، ہر عمر کے گروپ کے لوگوں پر مختلف اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس بات پر غور کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتے ۔
جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے اخلاقیات کے دائرے ہر طبقے کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔ اپر کلاس پر وہ قانون اور قاعدے لاگو نہیں ہوتے جو کہ مڈل کلاس پر ہوتے ہیں پچھلے دنوں ایک جادوئی اشتہاری فلم میڈیا پر بڑی پاپولر ہورہی تھی، یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کو بھی اخلاقیات اور معاشرتی اقدارکو خراب کرنے کا نوٹس ملا یا نہیں۔
عوام پر کس بات کا کیا اثر ہوتا ہے کس طرح کے اخلاق کن چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں اس بات سے کسی کو سروکار نہیں۔
اصل بات اصل کہانیاں اصل فلسفے کچھ اور ہوتے ہیں جوکہ عوام کے وسیع تر مفاد میں ان سے چھپائے جاتے ہیں۔ عقل شعور اور سوچنے کی صلاحیت عوام کی دشمن ہے جو سوچ اور شعور کے راستے پر نکلا سمجھو اس نے اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارلی۔
جب لوگ سوچنے لگیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں تو پھر یقیناً وہ اس کا سبب بھی جان جائیں گے۔ بس یہی وہ نقطہ ہے جس سے سب ادارے، حکومتیں،بااثر طبقے ڈرتے ہیں۔ سوچنے دو سوچنے دو، لوگوں کو سوچنے دو۔ وہ اپنے آپ اپنی کشتیوں کو منجدھار سے نکال ہی لیں گے۔
اتنا تو اب کوئی ڈرون اٹیک اور ایٹم بم سے بھی نہیں ڈرتا، جتنا کہ لوگ سوچ سے ڈرنے لگے ہیں، ہاں! اب تو یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ جو زمانے کو بدلنے کی بات کرے، نئی سوچ کی بات کرے، اس کی مخالفت ہر طرف سے کی جاتی ہے۔کوئی ایسی بات جو لوگوں کو سوچنے پرمجبورکردے اور وہ اپنے موجودہ حالات اور ناانصافی کو سمجھ کراس کے خلاف نفرت محسوس کریں تو ایسی سوچ کے راستے بند کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں اور ایسی سوچ پیدا کرنے والا انسان نامعلوم گولی کا شکار ہوجاتا ہے۔ لگے بندھے اصول لگی بندھی باتوں کے عادی لوگ روشن خیالی کو برداشت نہیں کرپاتے۔
کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر کسی نجی ٹی وی چینل کے ڈرامے پر بحث جاری تھی۔ ہوا یوں کہ اس ڈرامہ سیریل میں عام مرد کی مکروہ شبیہ عام لوگوں کو دکھائی گئی۔ اب ایسے مرد ہر تیسرے گھر میں موجود ہوتے ہیں جو کہ ہراسمنٹ میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس ڈرامے میں سوتیلے باپ کا کردار دکھایا گیا ہے جوکہ اپنی سوتیلی بیٹی پر بری نظر رکھتا ہے۔لڑکی کی عمر 10 یا گیارہ سال سے زیادہ نہیں دکھائی گئی۔اس سوتیلے باپ کی ایک دوسری لڑکی کے لیے بھی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ جب ڈرامے کا کردار اس قسم کی حرکتیں کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے تو دیکھنے والے اس مکروہ قسم کے لوگوں سے واقف ہوتے ہیں۔ گھر کی خواتین بھی محسوس کرتی ہیں کہ ایسے کردار مختلف خاندانوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس ڈرامے کا کردار اپنے محلے میں اپنی بیوی کی جاننے والی پڑوسن کی بچی سے زیادتی کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بھاگ کر اپنی ماں کو بلا لاتی ہے۔ لیکن وہ بندہ صاف مکر جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو اس طرح کے واقعات جو خاندان اورگھر کے اندر ہوتے ہیں ان میں سے 100 فیصد تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
ہراسمنٹ تو عام رویہ ہے جوکہ اگر خاندان کے اندر رشتے داروں کے درمیان ہو تو نظراندازکردیا جاتا ہے کیونکہ تعلق اور رشتے داریاں ٹوٹنے کا خدشہ موجود ہوتا ہے۔ یہی حقیقی تصویر جب میڈیا پہ دکھائی جاتی ہے تو ادارے حرکت میں آجاتے ہیں اور چینل کو نوٹس جاری کردیا جاتا ہے کہ یہ ڈرامہ لوگوں میں غلط جذبات ابھار رہا ہے اور اخلاق سے گری باتیں دکھا رہا ہے ، حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے حقیقت کی نفی کی جارہی ہے۔
سیکڑوں خواتین ماری جاتی ہیں، زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، تب قاتلوں کوکوئی بھی برا بھلا نہیں کہتا۔ لیکن ایک مردکا منفی کردار اداروں کو حرکت میں لے آتا ہے۔ پدر شاہی نظام ہمارے لیے ایسا عفریت بن چکا ہے جس کی سو منہ ہیں، پدر شاہی سوچ اب ہر ادارے میں موجود ہے اور اسی کی بنیاد پر سب چیزوں کو پرکھا جاتا ہے۔
معاشرے میں ایسے سیکڑوں واقعات ہوتے ہیں کہ جب کوئی عورت دوسری شادی کرتی ہے تو بچوں کا مسئلہ اس کے آگے آتا ہے۔ عورتیں بچوں کی وجہ سے دوسری شادی نہیں کرتیں، طلاق یافتہ ہو یا بیوہ ہو، وہ بچوں کے لیے زندگی وقف کردیتی ہے جو 5 فیصد دوسری شادی کر لیتی ہیں، ان کے بچوں کو کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش آجاتا ہے۔ حقیقت کو چھپانے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی سچ اپنی جگہ موجود ہوتا ہے اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں ۔
معاشرے سے مرد کا منفی کردار برداشت نہیں ہوتا۔ حقیقت کو تسلیم کرنے سے، حقیقت کا انکار کرنا زیادہ آسان بنتا جا رہا ہے کہ ایک معاشرتی حقیقت کو اسکرین پہ دکھایا جانا ہمارے اداروں سے برداشت نہیں ہو سکا۔ اور اس کو معاشرے میں بگاڑ کا ذمے دار قرار دیا تھا۔ ایسی ہی کچھ تلخ حقیقتیں شاید ''مالک'' فلم میں بھی تھیں ۔ اس لیے اس کو بھی عوام کے لیے ممنوع قرار دیا گیا۔ شاید وہ لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ انسان کی فطرت میں ''ممنوعہ اشیا'' کی طرف جانا ہے۔ ممنوع اشیا کی کھوج انسان کی فطرت میں شامل ہے۔یہ سوچ انسان کو تنگ کرتی ہے کہ آخر اس کو اس چیز کے لیے منع کیوں کیا گیا ہے؟ دیکھا گیا ہے کہ جن ڈراموں اور فلموں پر پابندی لگتی ہے وہی شہرت کے ریکارڈ توڑتی ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا آج کل لوگوں تک پہنچنے کا کارگر ذریعہ ہے یہ سیاست کا مرکز بھی ہے اور کاروبار بھی ہے۔ لوگوں کی سوچ میڈیا کے ذریعے کنٹرول ہوتی ہے اورمیڈیا کو سرمایہ دار کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ بات سرمایہ دار طے کرتا ہے کہ لوگوں تک کیا پہنچنا ہے اورکیا چیز نہیں پہنچنی۔ میڈیا پر جتنے بھی اشتہارات آتے ہیں ان کے پس پردہ صرف پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جو گروپ اپنا پیسہ انوسٹ کرتا ہے مارکیٹ پر وہ اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہے گا۔ اب ان اشتہاری فلموں سے لوگوں کو کیا پیغام مل رہا ہے ، ہر عمر کے گروپ کے لوگوں پر مختلف اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس بات پر غور کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتے ۔
جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے اخلاقیات کے دائرے ہر طبقے کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔ اپر کلاس پر وہ قانون اور قاعدے لاگو نہیں ہوتے جو کہ مڈل کلاس پر ہوتے ہیں پچھلے دنوں ایک جادوئی اشتہاری فلم میڈیا پر بڑی پاپولر ہورہی تھی، یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کو بھی اخلاقیات اور معاشرتی اقدارکو خراب کرنے کا نوٹس ملا یا نہیں۔
عوام پر کس بات کا کیا اثر ہوتا ہے کس طرح کے اخلاق کن چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں اس بات سے کسی کو سروکار نہیں۔
اصل بات اصل کہانیاں اصل فلسفے کچھ اور ہوتے ہیں جوکہ عوام کے وسیع تر مفاد میں ان سے چھپائے جاتے ہیں۔ عقل شعور اور سوچنے کی صلاحیت عوام کی دشمن ہے جو سوچ اور شعور کے راستے پر نکلا سمجھو اس نے اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارلی۔
جب لوگ سوچنے لگیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں تو پھر یقیناً وہ اس کا سبب بھی جان جائیں گے۔ بس یہی وہ نقطہ ہے جس سے سب ادارے، حکومتیں،بااثر طبقے ڈرتے ہیں۔ سوچنے دو سوچنے دو، لوگوں کو سوچنے دو۔ وہ اپنے آپ اپنی کشتیوں کو منجدھار سے نکال ہی لیں گے۔